- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
ابتدائیہ
تمام تر حمد و ثنا اس اللہ کے لیے ہے جس نے اپنے بندوں پر نمازفرض کی، اسے قائم کرنے اور اچھے طریقے سے ادا کرنے کا حکم دیا، اس کی قبولیت کو خشوع و خضوع پر موقوف فرمایا، اسے ایمان اور کفر کے درمیان امتیاز کی علامت اور بے حیائی اور برے کاموں سے روکنے کا ذریعہ بنایا۔ اللہ کی حمد وثنا کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام ہو، جنہیں اللہ تعالٰی نے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ
﴿النحل: ٤٤﴾
چنانچہ آپ اللہ کے حکم کی تعمیل میں کمر بستہ ہوگئے اور جو شریعت آپ پر نازل ہوئی، آپ نے اسے پوری وضاحت کے ساتھ لوگوں کے سامنے پیش کردیا، تاہم نماز کی اہمیت کے پیشِ نظر اسے نسبتا زیادہ واضح شکل میں پیش کیا اور اپنے قول و عمل سے اس کا عام پرچار کیا یہاں تک کہ ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر نماز کی امامت فرمائی، قیام اور رکوع منبر پر کیا، نیچے اتر کر سجدہ کیا، پھرمنبر پر چڑھ گئے اور نماز سے فارغ ہو کر فرمایا:" اور ہم نے آپ کی طرف یہ ذکر "قرآن" اتارا ہے تاکہ جو کچھ لوگوں کے لیے نازل کیا گیا ہے آپ اس کی توضیح و تشریح کردیں۔"
"إنما صنعت هذا لتأتموا ولتعلموا صلاتي"
{صحیح البخاری، الجمعۃ، باب الخطبۃ علی المنبر، حدیث: 917، و صحیح مسلم، المساجد، باب جواز الخظرۃ والخطوتین فی الصلاۃ۔۔۔، حدیث:544، ۔}"میں نے یہ کام اس لیے کیا ہے کہ تم نماز ادا کرنے میں میری اقتدا کرسکو اور میری نماز کی کیفیت معلوم کرسکو"
نیز اس سے بھی زیادہ زوردار الفاظ میں اپنی اقتدا کو واجب قرار دینے کے لیے فرمایا:
" صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي"
{صحیح البخاری، الاذان، باب الاذان للمسافرین۔۔۔، حدیث:631}"تم اس طرح نماز پڑھو جس طرح مجھے نماز ادا کرتے ہوئے دیکھتے ہو۔"
نیز فرمایا:
"خمس صلوات افترضهن الله ، من أحسن وضوءهن وصلاهن لوقتهن ، وأتم ركوعهن ، وخشوعهن كان له عند الله عهد أن يغفر له ، ومن لم يفعل فليس له عند الله عهد ، إن شاء غفر له وإن شاء عذبه"
{[صحیح] سنن ابی داود، الصلاۃ، باب فی المحافظۃ علی الصلوات، حدیث:425، و سندہ صحیح۔}اللہ نے پانچ نمازیں فرض کی ہیں جو شخص ان کے لیے اچھی طرح وضو کرے، انہیں وقت پر ادا کرے اور ان میں مکمل صحیح رکوع کرے اور خشوع کا اہتمام کرے تو اس انسان کا اللہ پر ذمہ ہے کہ اسے معاف کردے اور جو شخص ان باتوں کو ملحوظ نہ رکھے گا اس کا اللہ پرکوئی ذمہ نہیں ہے، چاہے تو اسے معاف کرے اور چاہے تو اسے عذاب دے۔"
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام کے ساتھ اہلِ بیت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر بھی درود و سلام ہو، جو نیکوکار اورپرہیزگار تھے۔ جنہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادات، نماز، اقوال اور افعال کو نقل کرکے اُمت تک پہنچایا اور صرف آپ کے اقوال، افعال اور تقریرات کو دین اور قابلِ اطاعت قرار دیا، نیز ان نیک انسانوں پر بھی درود و سلام ہو جو ان کے نقشِ قدم پر چلتے رہے اور چلتے رہیں گے۔
اما بعد، اسلام میں نماز کا اہم مرتبہ ہے اور جو شخص اسے قائم کرتا ہے اور اس کی ادائیگی میں کوتاہی نہیں کرتا وہ اجروثواب اور فضیلت و اکرام کا مستحق ہوتا ہے۔ پھر اجروثواب میں کمی بیشی کا معیار یہ ہے کہ جس قدر کسی انسان کی نماز رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے زیادہ قریب ہوگی وہ اسی قدر زیادہ اجروثواب کا حقدار ہوگا اور جس قدر اس کی نماز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سے مختلف ہوگی اسی قدر کم اجروثواب حاصل کرے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اِنَّ العَبْدَ لَینْصرِفُ وَمَا کُتِبَ لہ الا عشرصلاتہ تسعھا ثمنھا سبعھا سدسھا خمسھا ربعھا ثلثھا نصفھا"
{[حسن] سنن ابی داود، الصلاۃ، باب ماجاء فی نقصان الصلاۃ، حدیث:796، بعد الحدیث:789}"بے شک بندہ نماز ادا کرتا ہے لیکن اس کے نامہ اعمال میں اس"نماز" کا دسواں، نواں، آٹھواں، ساتواں ، چھٹا، پانچواں، چوتھا، تیسرا یا نصف حصہ لکھا جاتا ہے۔"
شیخ ناصرالدین البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
{صفۃ صلاۃ النبی، ص:36 مطبوعۃ مکتبۃ المعارف۔}"ہمارے لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مانند نماز ادا کرنا اس وقت ممکن ہے جب ہمیں تفصیل کے ساتھ آپ کی نماز کی کیفیت معلوم ہو اور ہمیں نماز کے واجبات، آداب، ہیئات اور ادعیہ و اذکار کا علم ہو، پھر اس کے مطابق نماز ادا کرنے کی کوشش بھی کریں تو ہم اُمید رکھ سکتے ہیں کہ پھر ہماری نماز بھی اسی نوعیت کی ہوگی جو بے حیائی اور منکر باتوں سے روکتی ہے اور ہمارے نامہ اعمال میں وہ اجروثواب لکھا جائے گا جس کا وعدہ کیا گیا ہے"
تنبیہ: عرض ہے کہ واجبات و آداب وغیرہ کا علم ہونا ضروری نہیں بلکہ صرف یہی کافی ہے کہ خود تحقیق کرکے یا کسی مستند اور صحیح العقیدہ عالم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا علم حاصل کیا جائے اور پھر سنت کے مطابق نماز پڑھی جائے۔
یہاں یہ ذکر کرنا بھی انتہائی ضروری ہے کہ توحید تمام اعمال کی اصل ہے۔ اگر توحید نہیں تو تمام اعمال بے کار، لغو اور بے سود ہیں۔ توحید نہیں تو ایمان نہیں۔ توحید اور شرک ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ توحید کے بغیر نجات نہیں اور شرک کی موجودگی میں نجات نا ممکن ہے۔
اللہ تعالٰی فرماتا ہے:
"انَّ اللَّـهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ ۚ وَمَن يُشْرِكْ بِاللَّـهِ فَقَدِ افْتَرَىٰ إِثْمًا عَظِيمًا ﴿٤٨﴾"
اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوْٓا اِيْمَانَہُمْ بِظُلْمٍ اُولٰۗىِٕكَ لَہُمُ الْاَمْنُ وَہُمْ مُّہْتَدُوْنَ"بے شک اللہ شرک نہیں بخشے گا اور اس کے علاوہ جس گناہ کو جس کے لیے چاہے گا بخش دے گا۔ اور جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے وہ بہت بڑے گناہ کا ارتکاب کرتا ہے"
نیز فرمایا:
ۧ [٦:٨٢]
(صحیح بخاری، التفسیر، سورۃ الانعام باب: ولم یلبسوا ایمانھم بظلم) الانعام: ۶:۸۲) حدیث ۴۶۲۹، ۲۷۷۶، والایمان، باب ظلم دون ظلم، حدیث:۳۲، و صحیح مسلم، الایمان، باب صدق الایمان و اخلاصہ، حدیث ۱۲۴)۔"جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم (شرک) سے ملوث نہیں کیا تو ایسے ہی لوگوں کے لئے امن ہے اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں‘‘۔
آیت بالا میں ظلم سے مراد شرک ہے۔
اس سے ثابت ہوا کہ بعض لوگ ایمان لانے کے بعد بھی شرک کرتے ہیں
جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا:
وَمَا يُؤْمِنُ اَكْثَرُہُمْ بِاللہِ اِلَّا وَہُمْ مُّشْرِكُوْنَ۱۰۶ [١٢:١٠٦]
(یوسف ۱۲:۱۰۶)"اور بہت سے لوگ اللہ پر ایمان لانے کے باوجود مشرک ہوتے ہیں‘‘۔
لہٰذا نماز کی قبولیت کے لئے شرط اول یہ ہے کہ اللہ تعالی کو اس کی ذات و صفات میں یکتا مانا جائے اور تسلیم کیا جائے کہ اللہ کی نہ بیوی ہے اور نہ ہی اولاد۔ کوئی اللہ کے نور کا ٹکڑا ’’نور من نور اللہ‘‘ نہیں۔ اللہ کا کسی انسان میں اتر آنے کا عقیدہ، حلول، وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود کھلا شرک ہے۔ یہ بھی مانا جائے کہ کائنات کے تمام اُمور صرف اللہ تعالی کے قبضہ و اختیار میں ہیں۔ عزت و ذلت اسی کے پاس ہے۔ ہر نیک و بد کا وہی مشکل کشا اور حاجت روا ہے۔
نفع و نقصان کا مالک بھی وہی ہے اور اللہ کے مقابلے میں کسی کو ذرا سا بھی اختیار نہیں۔ ہر چیز پر اسی کی حکومت ہے اور کوئی اللہ کے مقابلے میں کسی کو پناہ نہیں دے سکتا۔ صرف اللہ تعالی ہی ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ اس کے علاوہ ہر چیز کو فنا ہے۔ یہ بھی صرف اللہ تعالی کا حق ہے کہ وہ لوگوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی گزارنے کا طریقہ، یعنی دین نازل کرے کیونکہ حلال و حرام کا تعین کرنا اور دین سازی اسی کا حق ہے اور حقیقی اطاعت صرف الہ کے لئے ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ دین، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے ہمارے پاس بھیجا، لہٰذا آج اللہ تعالی کی اطاعت کا واحد ذریعہ وہ احکام ہیں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ان کے ذریعے سے پوری اُمت تک پہنچائے۔ اور آئمہ حدیث (رحمہم اللہ) نے کتب احادیث میں اس طریقے کو جمع کر دیا۔
کتاب و سنت کی بجائے کسی مرشد، پیر یا امام کے نام پر فرقہ بندی کی اسلام میں کوئی اجازت نہیں ہے اور کسی پارلیمنٹ کو بھی یہ حق نہیں کہ وہ مسلمانوں کی زندگی اور موت کے تمام معاملات پر مشتمل ایسے تعزیراتی، مالیاتی، سیاسی، اقتصادی، سماجی اور بین الاقوامی قوانین بنائے جو اللہ کے نازل کردہ احکام کے خلاف ہوں۔ نماز کی ادائیگی سے قبل مذکورہ تمام عقائد پر ایمان لانا ضروری ہے۔
کتاب و سنت کی بجائے کسی مرشد، پیر یا امام کے نام پر فرقہ بندی کی اسلام میں کوئی اجازت نہیں ہے اور کسی پارلیمنٹ کو بھی یہ حق نہیں کہ وہ مسلمانوں کی زندگی اور موت کے تمام معاملات پر مشتمل ایسے تعزیراتی، مالیاتی، سیاسی، اقتصادی، سماجی اور بین الاقوامی قوانین بنائے جو اللہ کے نازل کردہ احکام کے خلاف ہوں۔ نماز کی ادائیگی سے قبل مذکورہ تمام عقائد پر ایمان لانا ضروری ہے۔
کیونکہ اللہ کی بارگاہ میں کسی عمل کی قبولیت کا انحصار بالترتیب تین چیزوں پر ہے:
۱۔ عقیدے کی درستی۔
۲۔ نیت کی رستی۔
۳۔ عمل کی درستی۔
ان میں سے کسی ایک میں خلل واقع ہونے سے سارا عمل مردود ہو جاتا ہے۔ اور یاد رہے کہ کتاب اللہ، سنت ثابتہ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا مجموعی طرز عمل اور اجماع اُمت ہی وہ کسوٹی ہے جس پر کسی عقیدے یا عمل کی صحت کو پرکھا جا سکتا ہے۔
اقتباس: نماز نبوی مولف سید شفیق الرحمن