• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز کی قبولیت کے لئے شرط اول

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
ابتدائیہ

تمام تر حمد و ثنا اس اللہ کے لیے ہے جس نے اپنے بندوں پر نمازفرض کی، اسے قائم کرنے اور اچھے طریقے سے ادا کرنے کا حکم دیا، اس کی قبولیت کو خشوع و خضوع پر موقوف فرمایا، اسے ایمان اور کفر کے درمیان امتیاز کی علامت اور بے حیائی اور برے کاموں سے روکنے کا ذریعہ بنایا۔ اللہ کی حمد وثنا کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام ہو، جنہیں اللہ تعالٰی نے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ
﴿النحل: ٤٤﴾

" اور ہم نے آپ کی طرف یہ ذکر "قرآن" اتارا ہے تاکہ جو کچھ لوگوں کے لیے نازل کیا گیا ہے آپ اس کی توضیح و تشریح کردیں۔"
چنانچہ آپ اللہ کے حکم کی تعمیل میں کمر بستہ ہوگئے اور جو شریعت آپ پر نازل ہوئی، آپ نے اسے پوری وضاحت کے ساتھ لوگوں کے سامنے پیش کردیا، تاہم نماز کی اہمیت کے پیشِ نظر اسے نسبتا زیادہ واضح شکل میں پیش کیا اور اپنے قول و عمل سے اس کا عام پرچار کیا یہاں تک کہ ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر نماز کی امامت فرمائی، قیام اور رکوع منبر پر کیا، نیچے اتر کر سجدہ کیا، پھرمنبر پر چڑھ گئے اور نماز سے فارغ ہو کر فرمایا:
"إنما صنعت هذا لتأتموا ولتعلموا صلاتي"
"میں نے یہ کام اس لیے کیا ہے کہ تم نماز ادا کرنے میں میری اقتدا کرسکو اور میری نماز کی کیفیت معلوم کرسکو"
{صحیح البخاری، الجمعۃ، باب الخطبۃ علی المنبر، حدیث: 917، و صحیح مسلم، المساجد، باب جواز الخظرۃ والخطوتین فی الصلاۃ۔۔۔، حدیث:544، ۔}

نیز اس سے بھی زیادہ زوردار الفاظ میں اپنی اقتدا کو واجب قرار دینے کے لیے فرمایا:
" صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي"
"تم اس طرح نماز پڑھو جس طرح مجھے نماز ادا کرتے ہوئے دیکھتے ہو۔"
{صحیح البخاری، الاذان، باب الاذان للمسافرین۔۔۔، حدیث:631}

نیز فرمایا:
"خمس صلوات افترضهن الله ، من أحسن وضوءهن وصلاهن لوقتهن ، وأتم ركوعهن ، وخشوعهن كان له عند الله عهد أن يغفر له ، ومن لم يفعل فليس له عند الله عهد ، إن شاء غفر له وإن شاء عذبه"
اللہ نے پانچ نمازیں فرض کی ہیں جو شخص ان کے لیے اچھی طرح وضو کرے، انہیں وقت پر ادا کرے اور ان میں مکمل صحیح رکوع کرے اور خشوع کا اہتمام کرے تو اس انسان کا اللہ پر ذمہ ہے کہ اسے معاف کردے اور جو شخص ان باتوں کو ملحوظ نہ رکھے گا اس کا اللہ پرکوئی ذمہ نہیں ہے، چاہے تو اسے معاف کرے اور چاہے تو اسے عذاب دے۔"
{[صحیح] سنن ابی داود، الصلاۃ، باب فی المحافظۃ علی الصلوات، حدیث:425، و سندہ صحیح۔}

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام کے ساتھ اہلِ بیت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر بھی درود و سلام ہو، جو نیکوکار اورپرہیزگار تھے۔ جنہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادات، نماز، اقوال اور افعال کو نقل کرکے اُمت تک پہنچایا اور صرف آپ کے اقوال، افعال اور تقریرات کو دین اور قابلِ اطاعت قرار دیا، نیز ان نیک انسانوں پر بھی درود و سلام ہو جو ان کے نقشِ قدم پر چلتے رہے اور چلتے رہیں گے۔

اما بعد، اسلام میں نماز کا اہم مرتبہ ہے اور جو شخص اسے قائم کرتا ہے اور اس کی ادائیگی میں کوتاہی نہیں کرتا وہ اجروثواب اور فضیلت و اکرام کا مستحق ہوتا ہے۔ پھر اجروثواب میں کمی بیشی کا معیار یہ ہے کہ جس قدر کسی انسان کی نماز رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے زیادہ قریب ہوگی وہ اسی قدر زیادہ اجروثواب کا حقدار ہوگا اور جس قدر اس کی نماز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سے مختلف ہوگی اسی قدر کم اجروثواب حاصل کرے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اِنَّ العَبْدَ لَینْصرِفُ وَمَا کُتِبَ لہ الا عشرصلاتہ تسعھا ثمنھا سبعھا سدسھا خمسھا ربعھا ثلثھا نصفھا"
"بے شک بندہ نماز ادا کرتا ہے لیکن اس کے نامہ اعمال میں اس"نماز" کا دسواں، نواں، آٹھواں، ساتواں ، چھٹا، پانچواں، چوتھا، تیسرا یا نصف حصہ لکھا جاتا ہے۔"
{[حسن] سنن ابی داود، الصلاۃ، باب ماجاء فی نقصان الصلاۃ، حدیث:796، بعد الحدیث:789}

شیخ ناصرالدین البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"ہمارے لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مانند نماز ادا کرنا اس وقت ممکن ہے جب ہمیں تفصیل کے ساتھ آپ کی نماز کی کیفیت معلوم ہو اور ہمیں نماز کے واجبات، آداب، ہیئات اور ادعیہ و اذکار کا علم ہو، پھر اس کے مطابق نماز ادا کرنے کی کوشش بھی کریں تو ہم اُمید رکھ سکتے ہیں کہ پھر ہماری نماز بھی اسی نوعیت کی ہوگی جو بے حیائی اور منکر باتوں سے روکتی ہے اور ہمارے نامہ اعمال میں وہ اجروثواب لکھا جائے گا جس کا وعدہ کیا گیا ہے"
{صفۃ صلاۃ النبی، ص:36 مطبوعۃ مکتبۃ المعارف۔}

تنبیہ: عرض ہے کہ واجبات و آداب وغیرہ کا علم ہونا ضروری نہیں بلکہ صرف یہی کافی ہے کہ خود تحقیق کرکے یا کسی مستند اور صحیح العقیدہ عالم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا علم حاصل کیا جائے اور پھر سنت کے مطابق نماز پڑھی جائے۔
یہاں یہ ذکر کرنا بھی انتہائی ضروری ہے کہ توحید تمام اعمال کی اصل ہے۔ اگر توحید نہیں تو تمام اعمال بے کار، لغو اور بے سود ہیں۔ توحید نہیں تو ایمان نہیں۔ توحید اور شرک ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ توحید کے بغیر نجات نہیں اور شرک کی موجودگی میں نجات نا ممکن ہے۔

اللہ تعالٰی فرماتا ہے:
"انَّ اللَّـهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ ۚ وَمَن يُشْرِكْ بِاللَّـهِ فَقَدِ افْتَرَىٰ إِثْمًا عَظِيمًا ﴿٤٨﴾"
"بے شک اللہ شرک نہیں بخشے گا اور اس کے علاوہ جس گناہ کو جس کے لیے چاہے گا بخش دے گا۔ اور جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے وہ بہت بڑے گناہ کا ارتکاب کرتا ہے"
نیز فرمایا:
اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوْٓا اِيْمَانَہُمْ بِظُلْمٍ اُولٰۗىِٕكَ لَہُمُ الْاَمْنُ وَہُمْ مُّہْتَدُوْنَ
ۧ [٦:٨٢]
"جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم (شرک) سے ملوث نہیں کیا تو ایسے ہی لوگوں کے لئے امن ہے اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں‘‘۔
آیت بالا میں ظلم سے مراد شرک ہے۔
(صحیح بخاری، التفسیر، سورۃ الانعام باب: ولم یلبسوا ایمانھم بظلم) الانعام: ۶:۸۲) حدیث ۴۶۲۹، ۲۷۷۶، والایمان، باب ظلم دون ظلم، حدیث:۳۲، و صحیح مسلم، الایمان، باب صدق الایمان و اخلاصہ، حدیث ۱۲۴)۔
اس سے ثابت ہوا کہ بعض لوگ ایمان لانے کے بعد بھی شرک کرتے ہیں
جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا:
وَمَا يُؤْمِنُ اَكْثَرُہُمْ بِاللہِ اِلَّا وَہُمْ مُّشْرِكُوْنَ۱۰۶ [١٢:١٠٦]
"اور بہت سے لوگ اللہ پر ایمان لانے کے باوجود مشرک ہوتے ہیں‘‘۔
(یوسف ۱۲:۱۰۶)
لہٰذا نماز کی قبولیت کے لئے شرط اول یہ ہے کہ اللہ تعالی کو اس کی ذات و صفات میں یکتا مانا جائے اور تسلیم کیا جائے کہ اللہ کی نہ بیوی ہے اور نہ ہی اولاد۔ کوئی اللہ کے نور کا ٹکڑا ’’نور من نور اللہ‘‘ نہیں۔ اللہ کا کسی انسان میں اتر آنے کا عقیدہ، حلول، وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود کھلا شرک ہے۔ یہ بھی مانا جائے کہ کائنات کے تمام اُمور صرف اللہ تعالی کے قبضہ و اختیار میں ہیں۔ عزت و ذلت اسی کے پاس ہے۔ ہر نیک و بد کا وہی مشکل کشا اور حاجت روا ہے۔

نفع و نقصان کا مالک بھی وہی ہے اور اللہ کے مقابلے میں کسی کو ذرا سا بھی اختیار نہیں۔ ہر چیز پر اسی کی حکومت ہے اور کوئی اللہ کے مقابلے میں کسی کو پناہ نہیں دے سکتا۔ صرف اللہ تعالی ہی ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ اس کے علاوہ ہر چیز کو فنا ہے۔ یہ بھی صرف اللہ تعالی کا حق ہے کہ وہ لوگوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی گزارنے کا طریقہ، یعنی دین نازل کرے کیونکہ حلال و حرام کا تعین کرنا اور دین سازی اسی کا حق ہے اور حقیقی اطاعت صرف الہ کے لئے ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ دین، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے ہمارے پاس بھیجا، لہٰذا آج اللہ تعالی کی اطاعت کا واحد ذریعہ وہ احکام ہیں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ان کے ذریعے سے پوری اُمت تک پہنچائے۔ اور آئمہ حدیث (رحمہم اللہ) نے کتب احادیث میں اس طریقے کو جمع کر دیا۔
کتاب و سنت کی بجائے کسی مرشد، پیر یا امام کے نام پر فرقہ بندی کی اسلام میں کوئی اجازت نہیں ہے اور کسی پارلیمنٹ کو بھی یہ حق نہیں کہ وہ مسلمانوں کی زندگی اور موت کے تمام معاملات پر مشتمل ایسے تعزیراتی، مالیاتی، سیاسی، اقتصادی، سماجی اور بین الاقوامی قوانین بنائے جو اللہ کے نازل کردہ احکام کے خلاف ہوں۔ نماز کی ادائیگی سے قبل مذکورہ تمام عقائد پر ایمان لانا ضروری ہے۔

کیونکہ اللہ کی بارگاہ میں کسی عمل کی قبولیت کا انحصار بالترتیب تین چیزوں پر ہے:
۱۔ عقیدے کی درستی۔
۲۔ نیت کی رستی۔
۳۔ عمل کی درستی۔

ان میں سے کسی ایک میں خلل واقع ہونے سے سارا عمل مردود ہو جاتا ہے۔ اور یاد رہے کہ کتاب اللہ، سنت ثابتہ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا مجموعی طرز عمل اور اجماع اُمت ہی وہ کسوٹی ہے جس پر کسی عقیدے یا عمل کی صحت کو پرکھا جا سکتا ہے۔

اقتباس: نماز نبوی مولف سید شفیق الرحمن
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اللہ تعالی آپ کے علم و عمل میں برکت عطا فرمائے آمین۔

ہماری ٹوٹی پھوٹی نمازوں کو اور دیگر عبادات کو قبول و منظور فرما لے۔ جو کچھ دیدہ دانستہ کر چکے ہیں، اللہ تعالی سب کے سب صغیرہ و کبیرہ گناہ معاف فرما دے آمین
 

محمد شاہد

سینئر رکن
شمولیت
اگست 18، 2011
پیغامات
2,510
ری ایکشن اسکور
6,023
پوائنٹ
447
اللہ تعالی آپ کے علم و عمل میں برکت عطا فرمائے آمین۔

ہماری ٹوٹی پھوٹی نمازوں کو اور دیگر عبادات کو قبول و منظور فرما لے۔ جو کچھ دیدہ دانستہ کر چکے ہیں، اللہ تعالی سب کے سب صغیرہ و کبیرہ گناہ معاف فرما دے آمین
آمین
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
12644767_927348380666765_2683494765204308392_n.jpg


نماز کے تین حصے اور بقیہ اعمال


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز کےتین حصے ہیں
(1) طہارت (2) رکوع (3) سجدہ
جس نے اِن کی (ٹھیک طرح مکمل) ادائیگی کا حق ادا کیا تو اس کی نماز قبول کی جائے گی ، اور اس کے بقیہ اعمال بھی قبول کر لئے جائیں گے اگر جس کی نماز قبول نہ کی گئی اس کے بقیہ اعمال بھی قبول نہ ہوں گے


---------------------------------------------------
(الترغيب والترهيب : 1/247 ، ، صحيح الترغيب : 539 ، ،
مجمع الزوائد : 2/150 ، ، السلسلة الصحيحة : 2537)
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
کتاب و سنت کی بجائے کسی مرشد، پیر یا امام کے نام پر فرقہ بندی کی اسلام میں کوئی اجازت نہیں ہے
یعنی اگر فرقہ بندی کرنی ہی ہے تو ”قرآن و حدیث“ کے نام پر کی جانی چاہیئے جیسا کہ ہو رہی ہے۔۔۔۔۔ ابتسامہ!

کیونکہ اللہ کی بارگاہ میں کسی عمل کی قبولیت کا انحصار بالترتیب تین چیزوں پر ہے:
۱۔ عقیدے کی درستی۔
۲۔ نیت کی رستی۔
۳۔ عمل کی درستی۔
اس پوری پوسٹ کے لکھنے میں آپ کی نیت کیا ہے سچ سچ بتائیے گا؟

ان میں سے کسی ایک میں خلل واقع ہونے سے سارا عمل مردود ہو جاتا ہے۔ اور یاد رہے کہ کتاب اللہ، سنت ثابتہ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا مجموعی طرز عمل اور اجماع اُمت ہی وہ کسوٹی ہے جس پر کسی عقیدے یا عمل کی صحت کو پرکھا جا سکتا ہے۔
آپ حضرات کا دعویٰ صرف ”قرآن و حدیث“ کا ہے ۔ آپ نے پہلے لکھا کہ ”کسی عمل کی قبولیت کا انحصار“ ۔۔۔ ”نیت کی درستی پر ہے“ اور یہاں آپ نے لکھا ہے”صحابہ کرام کا مجموعی طرزِ عمل“ یعنی جو طرزِ عمل مجموعی نہیں بلکہ کسی جلیل القدر صحابی سے ثابت ہواس کو آپ تسلیم نہیں کریں گے اور اپنی سوچ کو حرفِ آخر قرار دیں گے۔ اجماع بے چارا تو اپنا سا منہ لے کر رہ جائے گا کہ یہ ممکن ہی نہیں آپ لوگوں کے نزدیک۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز کےتین حصے ہیں
(1) طہارت (2) رکوع (3) سجدہ
جس نے اِن کی (ٹھیک طرح مکمل) ادائیگی کا حق ادا کیا تو اس کی نماز قبول کی جائے گی
آپ لوگوں نے تو ”قیام“ کے اختلافات کو ہی ہوا دینے پر زور لگایا ہؤا ہے جس کا نماز کی قبولیت میں کوئی ذکر ہی نہیں۔
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
@عبدالرحمن بھٹی صاحب فروعی میں تو آپ بہت باتیں کرتیں کبھی عقائد پر بھی بات کرلیا کریں۔تھریڈ کا عنوان ہو
عقائد علماء دیوبند
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
عبدالرحمن بھٹی صاحب فروعی میں تو آپ بہت باتیں کرتیں کبھی عقائد پر بھی بات کرلیا کریں۔تھریڈ کا عنوان ہو
عقائد علماء دیوبند
محترم! عنوان ”عقائد علماء دیوبند“ کیوں بلکہ عنوان ہو ”عقائدِ اسلام“۔
محترم! مؤدبانہ التماس ہے کہ دینِ اسلام کو سمجھنے کی کوشش کریں نہ کہ مسالک کو اور جہاں تک ہو سکے اتحاد کی کوشش کریں افتراق کی نہیں۔
 
شمولیت
نومبر 27، 2014
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
63
پوائنٹ
49
محترم! عنوان ”عقائد علماء دیوبند“ کیوں بلکہ عنوان ہو ”عقائدِ اسلام“۔
محترم! مؤدبانہ التماس ہے کہ دینِ اسلام کو سمجھنے کی کوشش کریں نہ کہ مسالک کو اور جہاں تک ہو سکے اتحاد کی کوشش کریں افتراق کی نہیں۔
عقائد اسلام عنوان رکھ کر بھی اگر بات ۔مسئلہ استوا، توسل وغیرہ پر گفتگو کریں ۔ تو دونوں فریق کو معلوم ہوگا کہ کس نے کیا جواب دینا ہے ۔ لیکن پھر بھی بات آگے چلائے رکھیں تو بات پھر مثبت نہ ہوگی ۔
 
Top