نماز دین اسلام کا ایک اہم ترین رکن ہے لیکن اس کے باوجود جس قدرغفلت و کوتاہی اہل اسلام نماز کے بارہ میں برتتے ہیں ، ارکان اسلام میں سے کسی دوسرے رکن کے بارہ میں شاید نہ برتتے ہوں۔
امام احمد بن حنبل نے ایک قوم کے ساتھ نماز اداکی اور ان کو نماز کی بے قدری کرتے پایا تو انھیں ایک خط لکھا جس میں انھوں نے یہ تلخ حقیقت بیان فرمائی کہ : " لوصلیت فی مائۃ مسجد مارأیت أھل مسجد واحد یقیمون الصلاۃ علی ماجاء عن النبی ﷺ وعن أصحابہ رحمۃ اللہ علیھم ۔ فاتقوااللہ ، انظروا فی صلاتکم وصلاۃ من یصلی معکم۔" [ص۴۰]
"اگر میں سو مسجدوں میں بھی نماز ادا کروں تو ایک بھی مسجد کے سارے نمازی اس انداز میں نماز ادا نہیں کرتے جس طرح کہ نبی کریم ﷺ اورآپ کے صحابہ رحمھم اللہ سے منقول ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اپنی نمازوں اور اپنے ساتھ نماز پڑھنے والوں کی نمازوں کو دیکھو اور اصلاح کرو۔"
یہ حال امام احمد بن حنبل اپنے دور کے نمازیوں کا بیان فرمارہے ہیں اور آج کا حال تو بہت ہی خراب ہے۔
ہمارے ہاں نماز کے بارہ میں اندھی تقلید کا سلسلہ بہت زیادہ چلتا ہے اور تحقیق سے الرجی محسوس کی جاتی ہے۔ جس کے نتیجے میں غیر شعوری طور پر ہم نماز کے کچھ ارکان کو خلاف سنت ادا کربیٹھتے ہیں ۔ منجملہ ان باتوں کے ایک مسئلہ دوران تشہد بازوؤں کا بھی ہے۔ عام طور پر درمیانے تشہد میں تو دونوں بازوؤں کو رانوں سے جدا کرکے رکھا جاتا ہے، جبکہ آخری تشہد میں کچھ لوگ اپنی دائیں بازو اور کہنی کو دائیں ران پر رکھ لیتے ہیں اور اکثر تو آخری تشہد میں بھی اپنی کہنی ران سے ہٹاکر ہی رکھتے ہیں۔ حالانکہ رسول اللہ ﷺ سے بلا امتیازتشہد اولیٰ و آخرۃ میں دونوں بازوؤں کو دونوں رانوں پر رکھنا ثابت ہے، اور اس کا خلاف ثابت نہیں ہے۔