• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نوجوان لڑکیوں کے نام

مشکٰوۃ

سینئر رکن
شمولیت
ستمبر 23، 2013
پیغامات
1,466
ری ایکشن اسکور
939
پوائنٹ
237
بازاروں اور فیشن ایبل محفلوں میں مت جایا کریں
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛
"احب البلاد الی اللہ مساجدھا وابغض البلاد الی اللہ اسواقھا"(1)
"اللہ کے ہاں سب سے پسندیدہ مقام مساجد اور سب سے برے مقام بازار ہیں۔"
آج کل اکثر عورتیں بازاروں کی محبت میں مبتلا ہیں حالانکہ وہاں جانے سے بہت سی اخلاقی و روحانی خرابیاں جنم لیتی ہیں۔
رسولِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"المراۃ عورۃ فاذا خرجت استشرفھا الشیطان فھی تدبر وتقبل فی صورۃ شیطان"(2)
"عورت پردہ ہے ۔جب یہ گھر سے نکلتی ہے تو شیطان لوگوں کی توجہ اس کی طرف پھیرتا ہے ۔چنانچہ یہ شیطانی صورت میں آتی اور جاتی ہے"۔(2)
عورت جب تمیز اور پردہ کی حد کو پہنچ جائے تو ایسی ناپسندیدہ و مشکوک جگہوں سے پرہیز کرنا چاہیے۔ایسے مقامات میں سے بعض تھیٹر اور سینما کہلاتے ہیں ۔کچھ میں تو مرد کام کرتے ہیں اور اگر مرد نہ بھی ہوں پھر بھی ایسی جگہوں پر جانا مسلم عورت کے شایانِ شان نہیں ہے ۔ان کو عربی میں ملاھی کہا جاتاہے۔ یعنی اللہ کی عبادت اور ذکر سے غافل کرنے والی اشیاء ۔مومن کے لئے تو درحقیقت اتنا فارغ وقت ہے ہی نہیں کہ وہ ذکر اللہ سے غافل کرنے والی چیزوں کو تلاش کرتا پھرے۔ایسے مقامات پر عام طور پر برے اور فسادی مرد و عورت موجود ہوتے ہیں۔
بعض عورتیں اللہ انہیں ہدایت دے اتنی آزاد ہوتی ہیں کہ ہفتے میں دو یا تین مرتبہ ضرور بازار جاتی ہیں۔یہ ایسی عورتیں ہیں جن کے دل بازاروں میں آنے جانے سے خوش رہتے ہیں اور وہیں اٹکے رہتے ہیں۔(العیاذ باللہ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1)مسلم کتاب المساجد: باب فضل الجلوس فی مصلاہ بعد الصبح وفضل المساجد
(2)صحیح ترمذی ۔البانی رقم 936کتاب الرضاع باب منہ
 

مشکٰوۃ

سینئر رکن
شمولیت
ستمبر 23، 2013
پیغامات
1,466
ری ایکشن اسکور
939
پوائنٹ
237
الشیخ صالح العثیمین کا فتوٰی:
سوال: کیا بازار جا کر عورت غیر محرم کے سامنے اپنے بازو ننگے کر سکتی ہے؟
جواب:محرم اور خاوند کے علاوہ دیگر لوگوں کے سامنے بازواور کلائی ننگی رکھنا حرام ہے۔عورت پر اپنی استطاعت کے مطابق پردہ اور حیاء کرنا فرض و لازم ہے ۔اسی طرح بازو کو ڈھانپنا بھی ضروری ہے ۔ہاں اگر ایسی جگہ ہو جہاں سوائے اس کے خاوند کے اور کوئی نہیں تو پھر کوئی حرج نہیں ۔نیز بازار جاتے ہوئے بھی عورت اپنے بازو اور ہاتھ برقعہ یا چادر وغیرہ میں چھپا کر رکھے گی۔۔
(از شیخ و استاد محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ)
 

مشکٰوۃ

سینئر رکن
شمولیت
ستمبر 23، 2013
پیغامات
1,466
ری ایکشن اسکور
939
پوائنٹ
237
گھر میں اسلامی لائبریری قائم کریں
جو عقل مند مومن عورت اپنے گھر اور اولاد کو درست اور صحیح رکھنے کی حریص ہے اسے گھر میں ایسی لائبریری تشکیل دینی چاہیئے جس میں کتبِ اسلامیہ اور مختلف موضوعات پر علماء اور قراء کی کیسیٹیں ہوں کہ جن کے ذریعہ ایسے مسلمان و مومن کا سینہ کھل جاتا ہے جس کے دل میں اسلام کے متعلق کسی قسم کے شکوک و شبہات ہوں ۔۔۔اس کے ساتھ ساتھ بچوں کے لئے ٹیپ ریکارڈ بھی ہونا چاہیے ٹیلی ویژن کارٹون فلم اور گمراہ کرنے والی ایسی چیزیں جو ہمارے بچوں کے ذہنوں کو خراب کرتی ہیں ،ان کے مقابلہ میں مناسب حال ترانوں اور نظموں و توحیدی نعتوں کی آڈیو کیسیٹس ہو نی چاہیئں۔
 

مشکٰوۃ

سینئر رکن
شمولیت
ستمبر 23، 2013
پیغامات
1,466
ری ایکشن اسکور
939
پوائنٹ
237
لبا س میں سادگی کو عادت بنائیں:
رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔
"من ترک اللباس تواضعا للہ عزوجل وھو یقدر علیہ دعاہ اللہ یوم القیامۃ علٰی رووس الخلائق حتٰی یخیرہ من ای حلل الایمان شاء یلبسھا۔"(1)
"جس شخص نے طاقت ہونے کے باوجود اللہ تعالٰی کے سامنے عاجزی اور انکساری کی بناء پر (عمدہ) لباس ترک کر دیا اللہ تعالٰی قیامت کے روز اسے تمام لوگوں کے سامنے بلائے گا اور اسے اختیار دے گا کہ تو ایمان کے لباسوں میں سے جس لبا س کو چاہتا ہے پہن لے۔"
علامہ ابنِ جوزی رحمہ اللہ اپنی تصنیف (صید الخاطر) میں رقم طراز ہیں کہ جب میں نے رسول ِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مندرجہ ذیل فرمان پر غور و فکر کیا :
"بینما رجل یتبختر فی حلتہ مرجلا جمتہ خسف بہ فی الارض فھو یتجلجل فیھا الٰی یوم القیامۃ"(2)
"کسی وقت (بنی اسرائیل کا) ایک آدمی جوڑا پہن کر کبر وغرور میں سرمست ،سر کے بالوں میں کنگھی کئے ہوئے جا رہا تھا کہ اسے زمین میں دھنسا دیا گیا ،چنانچہ وہ قیامت کے دن تک اس میں دھنستا ہی جا رہا ہے۔"
تو اس نتیجہ پر پہنچا کہ کسی بھی مومن کے لئے متکبرانہ کپڑے پہننا اور مبالغے کی حد تک زینت اختیار کرنا درست نہیں،کیونکہ ایسی حرکت انسان کے دل میں لو گوں کی حقارت اور اپنی بڑائی پیدا کر دیتی ہے۔حالانکہ نفسِ انسانی کو خالق کےلئے عاجزی و انکساری اور کمزوری و ذلت کا ظہار کرنا چاہیئے ۔
میں کہتی ہوں ۔عموما ہماری عورتیں بناؤ سنگھار کر کے اپنے آپ کو دوسروں سے اعلٰی گمان کرتی ہیں ،خاص کر قیمتی کپڑا پہن کر یعنی عورتوں کی محفل میں فخر کرنا اور اپنی ہم مثلوں کو جلانا مقصود ہوتا ہے۔اور یہ بری خصلت تکبر کے زمرے میں آتی ہے۔اسی (تفاخر) تکبر نے ابلیس کو جنت سے نکلوایا۔اور یہی تکبر انسان کے جنت میں داخلے کے رستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"لا یدخل الجنۃ من کان فی قلبہ مثقال حبۃ من خردل من الکبر"
"جس کے دل و دماغ میں ذرہ بھر بھی تکبر ہوا وہ جنت میں داخل نہیں ہوسکے گا۔"
اللہ کریم سے عاجزانہ دعا ہے کہ وہ ہمیں تکبر سے اپنی پناہ میں رکھے! آمین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1) صحیح ترمذی،البانی رقم2481۔کتاب صفۃ القیامۃ :باب البناء کلہ وبال۔
(2)بخاری،کتاب اللباس :باب من جرثوبہ من الخیلاء
 

مشکٰوۃ

سینئر رکن
شمولیت
ستمبر 23، 2013
پیغامات
1,466
ری ایکشن اسکور
939
پوائنٹ
237
جنت بذریعہ خاوند کی اطاعت

میری مسلمان بہن! ہم سب اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ خاوند کا حق بہت بڑا حق ہے اور بے شمار دلائل ملتے ہیں جن میں ایک حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ملاحظہ ہو:
"ان المراۃ اذا صلت خمسھا وصامت شھرھا واحصنت فرجھا واطاعت بعلھا فلتدخل من ای باب من ابواب الجنۃ شاءت"
"مسلمان عورت اگر پنجگانہ نماز کی پابندہو ۔رمضان کے روزے رکھے اپنی عزت کو محفوظ رکھے اور خاوند کی فرمانبردار ہو تو جنت کے جس دروازے سے چاہے داخل ہو جائے۔"
اے ہماری مؤمن بہن!۔۔اگر تو قیامت کے دن جنت چاہتی ہے اور ام المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہا ،ام سلیم ،فرعون کی بیوی آسیہ رضی اللہ عنہن وغیرہ کی رفاقت مانگتی ہے تو مسلمان خاوند کی خوشنودی تلاش کر ۔کیونکہ حدیثِ مبارک میں موجود ہے:
"ان امراۃ اتت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی بعض الحاجۃ فقال لھا اذات بعل؟قالت نعم قال کیف انت لہ؟قالت ما آلوہ الا ما عجزت عنہ قال فانظری این انت منہ فانما ھو جنتک و نارک"(1)
"ایک عورت کسی کام کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: خاوند والی ہو؟ جواب دیا "ہاں"، پھر فرمایا اس کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہو ؟ جواب دیا : میں صرف اسی کام میں کمی کرتی ہوں جس سے عاجز آجاؤں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خاوند کے ساتھ خیال سے حسنِ سلوک کرنا(کیونکہ) وہ تیری جنت اور جہنم ہے۔"
یعنی اگر عورت خاوند کی خدمت کرے گی تو جنت ملے گی اور اگر اسے تنگ کرے گی تو آگ میں جلے گی ۔ایسی کئی عورتیں دیکھنے میں آئی ہیں جو اپنے خاوند سے بد سلوکی کرنے ،اس کی بے عزتی کرنے اور اس کے متعلق بے سروپا باتیں کرنے کی وجہ سے جنت سے محرومی کی راہ پر چل رہی ہیں ۔یہ بات یاد رکھیں جب بھی کوئی بیوی اپنے خاوند کو تنگ کرتی ہے تو جنت کی حور(جو خاوند کو ملنی ہے) دنیاوی بیوی کو کہتی ہے :" اللہ تجھے ہلاک کرے اسے تکلیف نہ دے ۔"چنانچہ جناب معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"لا توذی امراۃ زوجھا فی الدنیا الا قالت زوجتہ من الحوار العین لا توذیہ قاتلک اللہ فانما ھو عندک دخیل یوشک ان یفارقک الینا" (2)
"دنیا میں عورت جب اپنے(مسلمان) خاوند کو تنگ کرتی ہے تو حور العین میں سے اس کی بیوی کہتی ہے : اسے تنگ نہ کر ۔اللہ تجھے ہلاک کرے۔یہ تو تیرے پاس مہمان ہے۔عنقریب تجھ سے جدا ہو کر ہماری طرف آنے والا ہے۔"
میری بہن! سوچ ذرا کیا خاوند کی رضا تنگ کرنے اور فرمانبرداری میں کمی کرنے میں ہے؟ کیا خاوند کی خوشنودی دیگر عورتوں کے سامنے اس کی بے ادبی کرنے،احسان فراموشی اور اس کے برے تذکرے میں ہے؟ حالانکہ قرآن کہتا ہے:
(فَالصّٰلحٰت قٰنتٰت حٰفِظٰت لّلغَیبِ بِمَا حَفِظَ اللہُ: النساء (4/34)
"پس نیک عورتیں وہ ہیں جو خاوند کی فرمانبردار ہیں اور اس کی عدم موجودگی میں بہ حفاظت ِ الٰہی (خاوند کے گھر ،بچوں اور اس کی عزت و ناموس کی) نگہداشت رکھنے والیاں ہیں۔"
٭میری بہن!۔۔۔مزید غور کر کہ کیا خاوند کو ایسے خرچوں کا مکلف بنانا جن کا وہ حامل نہیں،کیا یہ اس کی دلجوئی ہے؟
٭کیا کپڑے اور زیب و زینت وغیرہ میں اسراف و فضول خرچی کرنا خاوند کی خوشی ہے؟
٭تیرا حیلہ گر اور ہوشیار چالاک ہونا کیا یہ خاوند کی فرمانبرداری ہے؟
٭کیا خاوند تجھے اور اپنی اولاد کو ناپسندیدہ حالت میں دیکھ کر خوش ہو گا؟
٭گھر میں خاوند خوشبو کے علاوہ کسی اور چیز کی بو محسوس کرے کیا اس سے وہ راضی ہو گا؟
٭ سسرال والوں کو شکایات لگانے میں کیا خاوند کی خوشنودی ہے؟
٭بار بار میکے جانے کی اجازت مانگنا اس کو خوش کرنا ہو گا؟
٭کیا ساس سے برا سلوک اور خاوند کے سامنے اس کی بد خوئیاں کرنے سے اسے سکون محسوس ہو گا؟
٭محفلوں وغیرہ میں لوگوں کو خوش کرنے اور دکھانے کے لئے بناؤ سنگھار کرے لیکن خاوند کے سامنے وہی پراگندہ حالت ہو تو کیا خاوند کو راحت کا احساس ہو گا؟
٭کیا یہ سب کام کرنے سے خاوند خوش ہو گا ؟ ہاں! ان باتوں کو بار بار پڑھیں اور ۔۔۔ذرا سوچیں۔
ہمارا مقصود ان سوالات سے محض یہی ہے کہ ہر بہن اپنا محاسبہ کر لے اور ان کے جوابات پر غور کرے ۔اگر نتیجہ اچھا ہے تو اللہ تعالٰی کا شکرو حمد کرے۔اور اگر اس کی موجودہ حالت باعثِ ندامت ہے تو اپنے گناہ کی معافی مانگ لے اور پہلی کمی کو پورا کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1) مسند احمد 4/341 نسائی سنن الکبری ،،کتاب آداب اتیان النساء باب طاعۃ المراۃ زوجھا،رقم 8962،علامہ البانیؒ نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔
(2)صحیح ترمذی،البانی رقم 1174
 

مشکٰوۃ

سینئر رکن
شمولیت
ستمبر 23، 2013
پیغامات
1,466
ری ایکشن اسکور
939
پوائنٹ
237
عورت ! گھر میں روشنی اور باہر اندھیرا

کفار کے پروپیگنڈا کے زیرِ اثر بہت سی عورتیں یہ کہتے ہوئےسنی گئ ہیں گھر کو چھوڑو گی تو نصیب جاگیں گے۔حالانکہ رب تعالٰی نے فرمایا:
"وقرن فی بیوتکن ولا تبرجن تبرج الجاہلیۃ الاولٰی"الاحزاب
"اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور پہلی جاہلیت والی زیب و زینت اختیار نہ کرو۔"
آج کل کی بہت سی عورتوں میں خاص کر بزعمِ خود اونچی سوسائٹی سے تعلق رکھنے والی عورتوں میں یہ بات دیکھنے میں آتی ہے کہ مختلف حیلوں بہانوں سے وہ سیر وسیاحت (آوارہ گردی) کی دلداداہ ہوتی جارہی ہیں۔مثلا پارکوں،باغات ،بازاروں اور تھیٹروں میں جانے کی حریص ہیں ۔خاص طور پر عید اور چھٹیوں کے موقع پر ان جگہوں پر خوب رش ہوتاہے ۔گویا عید اس کے بغیر پوری ہی نہیں ہوگی۔
یا ایسی محفلوں میں رونما ہوتی ہیں جہاں عورتیں نت نئے ملبوسات کی نمائش کرتی ہیں(یعنی مقابلہ حسن)یہاں تک کہ بعض تو ایسا لباس زیب تن کرتی ہیں جو حیاء کو کوسوں دور چھوڑ آتا ہے ۔اور دلیل یہ پیش کرتی ہیں (ہم کو ن سا مردوں کے درمیان ہیں) بلکہ ہم تو عورتوں میں ہی ہوتی ہیں۔۔اس طرح بعض عورتیں تھیٹروں میں سٹیج ڈرامے دیکھنے کے لئے بن ٹھن کر جاتی ہیں جہاں انتہائی گندے قسم کے ملکی و غیر ملکی اور کفار تک جمع ہوتے ہیں ۔۔۔صد افسوس ان عورتوں پر جو گندی سوسائٹی کے لوگوں کے سامنے پردہ نہ کرنا جائز قرار دیتی ہیں۔ایسے ہی بعض نسوانی تھیٹروں میں بھی کئی مرد عورتیں بن کر آتے ہیں ۔ناچتے جھومتے اور تماشا دیکھتے ہیں اور کسی کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہوتی۔۔۔
بعض تفریحی پارکوں میں نوجوان بوڑھی اور عمر رسیدہ عورتیں بھی ایسے ایسے فیشن دکھاتی ہیں ۔ناچتی ،کودتی ہیں اور بچوں کے سوار ہونے والے کھلونوں پر چڑھ دوڑتی ہیں ۔حتی کہ بتایاجاتاہے کہ بعض تو ایسی حرکتوں میں ہزاروں روپے خرچ کر دیتی ہیں ۔کیا یہ بے حیائی کے ساتھ ساتھ مال کا ضیانہیں ؟جس سے رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ان الفاط میں روکا:
"ان اللہ کرہ لکم قیل و قال و کثرۃ السوال واضاعۃ المال"(1)
"یقینا رب تعالٰی نے تمھارے لئے قیل و قال ،کثرتِ سوال اور مال کے ضیاع کو ناپسند کیا ہے"۔
ہم مسلمان بہنوں سے مخاطب ہیں کہ جب نبی علیہ السلام نے اپنے ساتھ نماز پڑھنے والی صحابیات کو فرما دیا تھا:
"صلاتک فی بیتک خیر لک"(2)
"گھر میں تیری نماز زیادہ بہتر ہے"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے عورتوں کا ماحول دیکھ کر فرمایا تھا:
"لو ادرک رسول اللہ ﷺ ما احدث النساء لمنعنھن کما منعت نساء بنی اسرائیل"(3)
"اگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وہ چیزیں ملاحظہ فرما لیتے جو عورتوں سے (اب) رونما ہیں تو آپ بھی انہیں بنی اسرائیل کی عورتوں کی طرح(مسجد میں آنے سے) روک دیتے۔"
وہ دور یہ تو نہیں خیر القرون کی بات ہےاور اگر پیغمبر ہمارے اس پر فیشن دور میں عریانی دیکھ لیتے کہ بازاروں ،راستوں اور ہسپتالوں وغیرہ میں عورتوں نے کیا کیا فتنے اور گل کھلائے ہیں تو پھر کیا صورت حال ہوتی ؟ ہم کیاکہہ سکتے ہیں ؟بس اللہ ہی مدد گار ہے۔
منفی رجحان کا ایک اور انداز مردو زن کے آزادانہ میل جول اور شادی بیاہ کے بے پردہ پروگراموں یا جسے ہم آوارہ گردی کا نام دے سکتےہیں کی صورت میں سامنے آتا ہے ۔
عورتیں گھروں اور بچوں کی تربیت سے ہاتھ اٹھا لیتی ہیں حتٰی کہ اپنی ذات کی تربیت سے بھی پیچھے ہٹ جاتی ہیں۔
حالانکہ شریعت میں ایک وقت "وقر ن فی بیوتکن" کے حکم سے گھروں میں محدود رہنے کی پابندی لگا دی گئی ۔بعد میں انتہائی ناگزیر ضروریات کے لئے باپردہ نکلنے کی اجازت ہم فرمائی گئی۔چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے :
"خرجت سودۃ بنت زمعۃ لیلا فراھا عمر رضی اللہ عنہ فعرفھا فقال انک واللہ یا سودۃ ما تخفین علینا فرجعت الی النبی فذکرت ذلک لہ وھو فی حجرتی یتعشٰی فانزل علیہ فرفع عنہ وھو یقول قد اذن اللہ لکن ان تخرجن لحوائجکن"(4)
"ام المومنین سیدہ سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا رات کے وقت باہر نکلیں تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھ لیا اور پہچان گئے ۔پھرکہا : اے سودہ ! اللہ کی قسم !تم ہم سے چھپ نہیں سکتیں ۔چنانچہ سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا واپس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور اس کا ذکر کیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت میرے حجرے میں شام کا کھانا کھا رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا نزول شروع ہو گیا ۔وحی ختم ہوئی تو فرمایا"تمھیں اجازت دی گئی ہے کہ تم صر ف اپنی ضروریات کے لئے باہر نکل سکتی ہو ۔"
اس حدیث سے پتہ چلا کہ عورت کسی نا گزیر ضروریات کے تحت ہی گھر سے نکل سکتی ہے ۔مثلا صلہ رحمی ،مریض کی عیادت ،شرعی علوم کے حصول یالوگوں کو تعلیم دینے یا منکرات سے خالی دعوت کے لئے ،تاہم طالبات اور معلمات کا گھر میں رہنا ہی بہتر ہے کیونکہ یہ شکایات بھی ملی ہیں کہ بعض لڑکیاں پڑھائی کا بہانہ کر کے پارک وغیر ہ چلی جاتی ہیں اور پڑھائی کا ارادہ نہیں ہوتا۔
ہم دوبارہ کہتے ہیں کہ مجبوری تو آخر مجبوری ہوئی لیکن یہ اونچی سوسائٹیوں کی بیگمات بیسیوں ملازموں کی موجودگی میں جو ان کا ہر کام خواہ گھر کا ہو یا بازار کا، ایک اشارے پر پورا کر دینے کے لئے تیار ہوتے ہیں آخر یہ معززات بن ٹھن کر ایسے تھیٹروں اور پارکوں ،بازاروں وغیرہ میں کیا لینے جاتی ہیں ؟جہاں اختلاط کی کثرت اور منکرات کی بھر مار ہوتی ہے ؟شادی کے پروگرام جو بڑے بڑے ہوٹلوں میں منعقد ہوتے ہیں اور ساری ساری رات ناچ گانے کی محفلیں برپا رہتی ہیں ،مہمانوں کی ویڈیو بنائی اور تصاویر اتاری جاتی ہیں آخر کون سا مقصد حاصل کرنے کے لئے یہاں حاضری لگوائی جاتی ہے؟
اللہ کی قسم!ایسی عورت گناہ پر گناہ کی آرزو مند ہے ۔عورت کا گھر میں رہنا اور بچوں کی اسلامی تربیت کرنا ،گھر کو خاوند کے لئے بناسنوار کر صاف ستھرا رکھنا کتنی اچھی بات ہے ،حتٰی کہ خاوند گھر آئے اور دیکھ کر یہی سمجھے کہ اپنے پیچھے اسے چھوڑ گیا تھا جو اپنے نفس،گھر اور اولاد کی امین ہے۔چنانچہ اللہ تعالٰی کا فرمان ہے :
(فَالصّٰلحٰت قٰنتٰت حٰفِظٰت لّلغَیبِ بِمَا حَفِظَ اللہُ: النساء (4/34)
"پس نیک عورتیں وہ ہیں جو خاوند کی فرمانبردار ہیں اور اس کی عدم موجودگی میں بہ حفاظت ِ الٰہی (خاوند کے گھر ،بچوں اور اس کی عزت و ناموس کی) نگہداشت رکھنے والیاں ہیں۔"
لیکن اب بہت سی بدنصیب بہنیں کفار کے اس پرو پیگنڈہ کا شکار ہورہی ہیں کہ گھر کو چھوڑو گی تو نصیب جاگیں گے ،ان کی حالت ایسی دگرگوں ہو گئی ہے کہ گھر میں ٹکنے کی طاقت کھو چکی ہیں حتٰی کہ بسا اوقات گھر ویران اورہر طرف مکڑیوں نے جالے بنے ہوئے ہوتے ہیں ۔وجہ یہ ہے کہ کام ہو یا نہ ہو عورتوں نے بس گھر سے نکلنے کی عادت بنا لی ہے ۔وہ اس آوارہ گردی کو اتنااہم کام سمجھتی ہیں کہ ہفتہ کے ہر دن ٹائم ٹیبل کے مطابق نکلتی ہیں ۔یوں اس مسکینہ نے لطف و تفریح کی خاطر اپنی جان ہلکان کی ہوئی ہے۔
اے مسلمان بہن! اپنے آپ کو گھر میں رکھنے کی کوشش کر اور بغیر ضرورت گھر سے نہ نکلا کر اور اگر کوئی ضروری کام ہو تو نکلتے وقت اجرو ثواب کی نیت کر لیا کر ۔ان شاء اللہ یہ نیت عبادت کی طرف لوٹ آئے گی۔ایسے ہی ہم تمھیں ایسی مجالس میں جانے کی نیت کرتے ہیں جن میں اللہ کی یاد دلانے والی نیک اور خیر خواہی کرنے والی عورتیں بکثرت ہوتی ہیں۔کسی بزرگ نے کہا تھا:
"جالسوا من تذکرکم باللہ رویتہ ویرغبکم فی الآخرۃ عملہ ویزید فی علمکم منطقہ"
"ایسے لوگوں کی مجلس اختیار کرو جنہیں دیکھ کر اللہ یاد آتا ہو ۔اور ان کا عمل آخرت میں رغبت دلاتا ہو اور ان کا بولنا تمھارے علم میں اضافہ کا سبب بنتا ہو"
آخری بات یہ ذہن میں رکھو کہ نفس کو آرام کے ساتھ ساتھ اللہ کی فرمانبرداری کے لئے خلوت اور لوگوں سے دوری کی بھی ضرورت ہوتی ہے ۔لہٰذا اپنا وقت خواہشات کی پیروی ،تقلید اور فضول عادات اپنانے میں ضائع نہ کرنا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1) بخاری،کتاب الزکاۃ: باب قول اللہ تعالٰی لا یسالون الناس الحافا رقم 1477
(2) ابو داؤد ،البانی رقم 567،مستدرک حاکم ص1-209،بیھقیص3-131 ان سب کتب میں الفاظ یہ نہیں ہیں مگر مفہوم یہی ہے۔۔۔۔تو ہ عورت کس زمرہ میں آئے گی جو مسجد کے علاوہ مذکورہ مقامات پر جاتی ہے۔
(3)بخاری،کتاب الاذان :باب انتظار الناس قیام الامام العالم رقم 869
(4)بخاری ،کتاب النکاح: باب خروج النساء لحوائجھن رقم 5237
 
Top