عمار ناصر صاحب کی یہ توجیہ بعید محسوس ہوتی ہے :
1۔
انبیاء پر ان کےزمانے میں ایمان لانے والوں کےبارے میں یہ خیال رکھنا کہ مومن ہونے کے باوجود وہ اس سخت درجہ کے نافرمان تھے کہ عذاب میں غرق کردیے گئے ، ایسی مثال تاریخ میں کہیں نہیں ملتی ۔ البتہ ایسی بے شمار مثالیں مل جائیں گی کہ نبی کے قریبی رشتہ دار ایمان نہ لائے اور عذاب کا شکار ہوگئے ۔
2۔
جس طرح نوح علیہ السلا نے اپنے بیٹے کے بارےمیں ہمدردی کا اظہار کیا اس کی مثال حضرت ابراہیم علیہ السلام سے بھی ملتی ہے کہ انہوں نے اپنے باپ کے لیے دعائے استغفار کی اور پھر انہیں اس بات پر تنبیہ کی گئی ، اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بھی آتا ہے آپ نے اپنے بعض قریبی رشتہ داروں کے لیے دعا کی تو یہ آیت نازل ہوئی :
ما کان للنبی والذین آمنوا أن یستغفروا للمشرکین و لوکانوا أولی قربی من بعد ما تبین لہم أنہم أصحب الجحیم ۔
گویا قرابت داری کی بنا پر کسی کے حق میں ہمدردی کا اظہار ہوجانا یہ ایک فطری امر ہے ، ہاں اللہ تعالی کی تنبیہ کے بعد ڈتے رہنا نافرمانی اور سرکشی ہے جس سے انبیاء کی ذات کوسوں دور ہے ۔
واللہ اعلم ۔