- شمولیت
- ستمبر 26، 2011
- پیغامات
- 2,767
- ری ایکشن اسکور
- 5,410
- پوائنٹ
- 562
دنیا میں مشہور و معروف لوگوں کی ”وجہ شہرت“ دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک قسم کے لوگ وہ ہوتے ہیں جنہیں دنیا میں اچھا اور نیک سمجھا جاتا ہے اور دوسرے وہ جنہیں برا اور بدکردار سمجھا جاتا ہے۔ یہ ایک الگ موضوع ہے کہ دنیا میں جنہیں نیک سمجھا جاتا ہے، آیا وہ اللہ کے نزدیک بھی نیک اور قابل معافی ہیں یا نہیں۔ اسی طرح دنیا میں جنہیں برا اور بد کردار سمجھا جاتا ہے، اللہ انہیں بوجوہ معاف کردے۔ آخرت میں اللہ کس کے بارے میں کیا فیصلہ کرے گا، ہم دنیا میں اس بات پر کمنٹ نہیں کرسکتے۔ ہم تو صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ شریعت کی رو سے فلاں فلاں افعال کفر، شرک ، گناہ کبیرہ ہیں۔ اور ایسے کام کرنے والے جہنمی ۔ اسی طرح فلاں فلاں کام شریعت کو مطلوب ہے اور ایسے کام کرنے والے جنتی ہیں ۔ ۔ ۔ دنیا میں مشہور و معروف لوگوں کا تذکرہ ہمیشہ ہوتا رہے گا کہ مرنے کے بعد بھی ان کا نام زندہ رہتا ہے۔ جب کبھی بھی اور جہاں کہیں بھی مرنے والے ایسے مشہور و معروف لوگوں کا تذکرہ ان کے افعال و کردار کی بنا پر ہوگا تو ہمارا فرض ہے کہ لوگوں کو بتلائیں کہ فلاں فلاں شخص جو مشہور و معروف ہے، اس کی ساری زندگی فلاں فلاں گناہوں میں گذری ہے اور ہمیں ایسے لوگوں کی ”سیرت“ اور ان کے ”پیروکاروں“ سے بچ کر رہنا چاہئے تاکہ ہم ایسے گناہوں سے بچ سکیں۔ اسی طرح نیکی میں مشہور و معروف لوگوں کی نیکیوں کا بھی تذکرہ کرتے رہنا چاہئے تاکہ ہمیں بھی ان نیکیوں پر عمل کرنے کی توفیق ملتی رہے ۔اللہ رب العزت کسی کی بھی بخشش کر نے پر قادر ہے۔ جب ایک فاحشہ کتے کو پانی پلانے پر بخشی جاسکتی ہے تو ہم مرنے کے بعد کسی کی کر دار کشی کیوں کریں۔ہمیں کیا پتہ اللہ نے اس کے ساتھ کیا معاملہ کیا۔
یہ جو کہا جاتا ہے کہ مرنے والوں کی ”برائی“ نہیں کرنی چاہئے۔ تو اس کا تعلق عام لوگوں سے ہے۔ جن عام لوگوں کے گناہوں کا اللہ نے پردہ رکھا ہوا ہے، ہمیں بھی ان کے گناہوں کا علم ہونے کے باوجود ان کی پردہ پوشی کرنی چاہئے۔ لیکن جو لوگ کھلے عام گناہوں کے دلدل میں زندگی گزارتے رہے ہوں، آئندہ نسلوں کو بھی اپنے ساتھ گناہوں کی راہ پر لگاتے رہے ہوں اور ”گناہ جاریہ“ کے طور پر ایسے کام کرگئے ہوں کہ مرنے کے بعد بھی انہیں گناہ ملتا رہے اور ان کے اس عملِ بد کی بدولت دوسرے لوگ مسلسل گناہ مین مبتلا ہورہے ہوں۔۔۔ایسے مرنے والوں کا تذکرہ کرتے وقت ان کے گناہوں بلکہ گناہ جاریہ کی پردہ پوشی بذات خود ایک گناہ بن جاتی ہے۔
اب اسی نور جہاں کو لے لیجئے۔ کیا اس نے زندگی میں اچھے کام نہیں کئے ہوں گے۔ اگر ہم آج کی نسل کے سامنے اس کے ایسے ہی اچھے اچھے کاموں کو چن چن کر بیان کریں، اسے اچھے لفظوں میں یاد کریں، اس کے لئے مغفرت کی دعا کریں، اس کے جنت مکانی ہونے کی تصدیق کریں تو گویا ہم اس کی اُس پوری گناہ آلود زندگی کو قبولیت کا جواز فراہم کردیتے ہیں جو اس نے طوائفانہ طرز زندگی میں گذاری۔ واضح رہے کہ موصوفہ ایک ”بدبودار شیعہ مسلک“ سے تعلق رکھتی تھیں۔ (سندھ کے ایک سابق وزیر داخلہ نے اپنے بارے میں میڈیا پر کہا تھا کہ میں وہ شیعہ ہوں، جنہیں بدبودار شیعہ کہا جاتا ہے) لاہور کی طوائف برادری میں ان کا بڑا نام تھا۔ اس نے لاہور کے بہت سے نوجوانوں کو بدکرادری کے راستہ پر ڈالا اور ملک بھر بلکہ دنیا بھر کے اردو اور پنجابی بولنے اور سمجھنے والوں کے عقیدہ کو اپنے گمراہ بدعقیدہ گانوں سے آلودہ کیا۔ آج بھی نوجوانوں کے موبائل فونز کے رنگ ٹونز ایسے بد عقیدہ گانوں سے مزین ہوتے ہیں۔