ہمارے ہاں ایسے ہی بد بختوں کی تاریخ تدریسی نصاب میں شامل کرکے بچوں کے ذہن میں فحاشی اور بگاڑ پیدا کیا جارہا ہے،نور جہاں ، فتورِ جہاں
محمدعطاء اللہ صدیقی
سعادت حسن منٹو جیسے ملحد جنس نگار ہی ہیں جنہیں اس طرح کی دروغ گوئی سے ذرّہ برابر خوفِ خدا نہیں رہتا۔ ایک لعوولعب، فسق و فجور، گانے بجانے اور جنسی آوارگی کا شکار عورت کو ’نور‘ صرف وہی ادیب لکھ سکتے ہیں جن کے قلوب اِلحاد و زندیقیت کی تاریکیوں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ یہ وہ بدبخت طائفہ اُدباء ہے جس کو قرآن و سنت کا نور توکبھی نظر نہیں آیا، البتہ غناء اور موسیقی کے فتور کو ہی ’نور‘ سمجھنے کی غلط فہمی میں مبتلا ہے۔ قرآنِ مجید میں واضح طور پر ارشادِ ربانی ہے :
اس سے کیا ثابت ہوتا ہے بھائی جان ؟ کیا سنی مسلک کے ادیب اور فنکاروں پر اللہ کا خاص کرم ہوتا ہے؟ :P۔۔ موصوفہ اور سعادت حسن منٹو مبینہ طور پر شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے تھے اور دونوں کو ”بازار حسن“ سے خصوصی ”رغبت“ تھی۔
جی نہیں یہ بات نہیں ہے۔اس سے کیا ثابت ہوتا ہے بھائی جان ؟ کیا سنی مسلک کے ادیب اور فنکاروں پر اللہ کا خاص کرم ہوتا ہے؟ :P
محترم بھائیجان، ایک بات کی وضاحت پہلے کر دوں کہ میں آپ کو صرف یہاں نہیں پڑھتا بلکہ کچھ اور فورمز پر بھی جہاں آپ مشہور ہیں وہاں بھی پڑھتا ہوں۔ اور میری انفارمیشن کے مطابق آپ خاکسار کی طرح صحافتی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں۔جی نہیں یہ بات نہیں ہے۔
اصل میں ”کاروبار بازار حسن“ میں زیادہ تر اسی مسلک کے ”فنکار“ پائے جاتے ہیں، جہاں ”احترام محرم الحرام“ میں تو دس دنوں تک یہ کاروبار بند ہوتا ہے لیکن رمضان میں ایسا کوئی ”احترام“ نہیں ہوتا۔ دوسری بات یہ کہ اس مسلک کے بعض عقائد اس کاروبار کو چلانے میں ”معاونت“ کرتے ہیں۔ اسی لئے ایسے تمام ”فنکاروں“ کے مسلک پر بھی روشنی ڈالتے رہنا چاہئے۔ تاکہپتہ چلے کہ کس عقائد کے زیادہ تر لوگ کس قسم کے غیر شرعی اور فحاشی کے کاروبار میں ملوث ہیں
سب سے پہلے تو آپ کا شکریہ کہ آپ مجھے دیگر فورمز میں بھی پڑھتے رہتے ہیں۔محترم بھائیجان، ایک بات کی وضاحت پہلے کر دوں کہ میں آپ کو صرف یہاں نہیں پڑھتا بلکہ کچھ اور فورمز پر بھی جہاں آپ مشہور ہیں وہاں بھی پڑھتا ہوں۔ اور میری انفارمیشن کے مطابق آپ خاکسار کی طرح صحافتی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں۔
آپ کا بالا مراسلہ حیرت ہی نہیں بلکہ شدید حیرت سے دوچار کرتا ہے۔ معاف فرمائیں ، اپنی پچھلی بات کے دفاع میں آپ کی دلیل نہایت بودی لگتی ہے۔ یہ صحافتی اقدار کے علاوہ مذہبی تعلیمات کے بھی منافی ہے۔ اول تو مذہب میں "مسلک" کا کوئی تصور نہیں ، دوسرے ۔۔ جو کام آپ کر رہے ہیں وہ بلامبالغہ نیٹ پر ہر فرقہ/مسلک کا آدمی دوسرے کے خلاف بلاروک ٹوک کر ہی رہا ہے!
مجھے پاکستانی صحافت کی تاریخ کا زیادہ علم نہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ آج سے 20/25 سال قبل جو باوقار انداز کی صحافت قائم تھی وہ ہند و پاک میں یکساں اقدار کی حامل تھی۔ ان دنوں جرم/جرائم کی تفصیل سے گریز کیا جاتا تھا اور ملزم/مجرم کے مذہب یا مسلک کو جہاں تک ممکن ہو پوشیدہ رکھا جاتا تھا۔ شاید آپ کو بھی یاد ہو۔ موجودہ دور کے میڈیا کی بھلا کیا بات کی جائے ، اس کا سب سے زبردست احتساب صحافی آصف محمود نے اپنے مضمون (حیرت ہے ، میڈیا کو بھی افسوس ہے!) کے ذریعے کیا ہے۔ ذرا اس مضمون کو آئینہ سمجھ کر دیکھنے کی کوشش کیجیے میرے محترم!
کیا آپ کو نہیں لگتا کہ ایک دوسرے کے خلاف اس طرح کی طعن طرازی (چاہے وہ کتنی سچ یا برحق ہو!) بین المسلکی معاشروں میں زہر کے بیج بونے کا سبب بنتی ہے اور جس کے باعث ہی آج امت مسلمہ انتشار کا شکار ہو کر غیروں کے رحم و کرم پر ہے۔ کیا آپ کو اپنے ملک کی مساجد اور دیگر عبادتگاہوں میں ہو رہے روزانہ کے بم دھماکے نظر نہیں آتے؟
افسوس ! اس کے باوجود آپ کا نقطہ نظر ہے کہ ایک دوسرے کی "کردار کشی" کرتے رہنا چاہیے!!
آج کل ایک خاصے مقبول و مشہور مولوی جنہیں ایوان سیاست تک رسائی حاصل ہے ، اور مشاہیر کے جنازے اور فاتحہ درود میں ان کی شرکتکالم نگاروں کا ایک گروہ تو بے حد اصرار کے ساتھ یہ فتویٰ صادر کرچکا ہے کہ نورجہاں مرنے کے بعد سیدھی جنت میں چلی گئی ہے۔ اس فتویٰ کی بنیاد وہ یہ بتاتے ہیں کہ چونکہ وہ ۲۷ رمضان المبارک کی رات قبر میں اُتری، لہٰذا اب اس کے لئے ’جنت‘ میں جانا یقینی ہوگیا ہے۔
ظاہر کو دیکھ کر بات کی جاتی ہے ۔اللہ رب العزت کسی کی بھی بخشش کر نے پر قادر ہے۔ جب ایک فاحشہ کتے کو پانی پلانے پر بخشی جاسکتی ہے تو ہم مرنے کے بعد کسی کی کر دار کشی کیوں کریں۔ہمیں کیا پتہ اللہ نے اس کے ساتھ کیا معاملہ کیا۔