• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نومولود کے کان میں اذان واقامت کا مسئلہ۔

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
پیدائش کے وقت بچے کے کان میں اذان واقامت کہنا
اقامت کہنا تو بالکل ثابت نہیں ہے کیونکہ جس حدیث میں اس کا ذکر ہے وہ قابل حجت نہیں ہے۔جیسا کہ حضرت حسین بن علی سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا
(من ولدله ولدفأذن في اذنه اليمني وأقام في اذنه اليسري لم تضره ام الصبيان) (موضوع:الضعیفۃ 320/1)ارواہ الغلیل 1174)شعب الایمان للبیہقی 8620)
’’جس کے ہاں کوئی بچہ پیدا ہوا اور وہ اس کے دائیں کان میں آذان اور بائیں میں اقامت کہے تو اسے ام صبیان کی بیماری نقصان نہیں پہنچائے گی۔
اس سلسلے میں حضرت عمر بن عبدالعزیز کی روایت بھی مستند نہیں ہے (تلخیص الحبیر273/4)
علاوہ ازیں آذان کہنے کے متعلق روایت بھی ضعیف ہے اس کی سندمیں عاصم بن عبیداللہ راوی کی صحت میں اختلاف ہے (تقریب التہذیب 384/1،میزان الاعتدال 353/2)
البتہ دیگر شواہد کی بناپر یہ حدیث حسن درجہ تک پہنج جاتی ہے
حضرت ابورافع سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا کہ
(أذن في أذن الحسن بن علي حين ولدته فاطمة بالصلاة)۔(حسن:صحیح ترمذی 1224)صحیح ابوداؤد 4258)اراوہ الغلیل 1173)
’’جس وقت حضرت فاطمۃ نے حضرت حسین بن علی کو جنا تو آپﷺ نے ان کے کان میں نماز کے لیے (کہی جانےوالی )آذان کی طرح آذان کہی ۔‘‘
عبدالرحمن مبارکپوری:یہ حدیث ضعیف ہے لیکن حضرت حسین بن علی نےکی اس روایت سے کہ جسے امام ابویعلی موصلیؒ اور امام ابن سنیؒ نے روایت کیا ہے مضبوط وقوی ہوجاتی ہے (تحفۃ الاحوذی91/1)
امام ترمذی :یہ حدیث حسن صحیح ہے اور اسی پر عمل ہے (ترمذی 1516) امت کا متواتر ومتوارث عمل بھی اسے قابل احتجاج بنادیتا ہے۔
ابن قیمؒ:انہوں نے اپنی کتاب زادالمعاد میں حضرت ابورافع کی حدیث نقل فرمائی ہے (زادالمعاد333/2)
 

ابن بشیر الحسینوی

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
1,118
ری ایکشن اسکور
4,480
پوائنٹ
376
چند سال پہلے فیصل آباد کے تمام علماء مرکز التربیہ میں جمع ہوئے تھے اس میں کافی بحث کے بعد جو راجح قرار دیا گیا ہو یہ تھا کہ
دائیں کان میں اذان کہنا درست ہے اور بائیں کان میں اقامت کہنا درست نہیں
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
1: بعض کہتے ہیں گرچہ اس مسئلہ کی روایت ضعیف ہے ، لیکن اسے تلقی بالقبول حاصل ہے لہذا اس پر عمل کرسکتے ہیں، یہ حضرات اپنی تائید میں تدریب الراوی سے یہ عبارت پیش کرتے ہیں؛
1۔ایک بات تو یہ کہنی ہے کہ راقم کوکوئی اگر ’حفظہ اللہ‘ لکھے تو عجیب سی بے چینی ہوتی ہے اور دل ایسے الفاظ کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا کیونکہ ان میں دعا کے ساتھ القابات کا بھی ایک عنصر شامل ہو جاتا ہے۔ اور کم ازکم میں تو اس قابل نہیں ہوں کہ کسی القاب کا مستحق ٹھہروں۔ ہاں! اپنے ساتھ حفظ قرآن کی وجہ سے ’حافظ‘ کا اضافہ کر لیتا ہوں۔’علوی‘ نام بھی اپنے نسب نامہ کی وجہ سے رکھا ہوا ہےکہ والد محترم کے بقول ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اس نسل میں سے ہیں جو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ تھی۔واللہ اعلم بالصواب
2۔ اس اصول سے مجھے اتفاق ہے اور میں اسے یوں بیان کروں گا کہ ایک ضعیف سند والی روایت بعض اوقات کچھ قرائن کی وجہ سے ’قابل احتجاج‘ ہو جاتی ہے۔یہ بات عقل ونقل سے ثابت ہے۔یہی اصول دراصل مرسل کے قابل احتجاج ہونے یا بعض ضعیف کے حسن لغیرہ ہونے کی بنیاد ہے۔میں ان شاء اللہ !اپنے حسن لغیرہ والے مضمون میں اس کے عقلی ونقلی دلائل کا تذکرہ کروں گا۔ واللہ اعلم بالصواب
3۔ بعض اوقات معاملہ اس کے برعکس بھی ہوتا ہے کہ ایک صحیح سند والی روایت کچھ قرائن کی وجہ سے ضعیف ہو جاتی ہے جیسا کہ متن میں شذوذ اور متن میں علت کی مثالیں ہیں۔واللہ اعلم بالصواب
4۔ ہمارے اصول حدیث کے استاذ حافظ حمزہ مدنی صاحب روایات کی چار قسمیں بناتے ہیں:
سندا صحیح متنا صحیح
سندا صحیح متنا ضعیف
سندا ضعیف متنا ضعیف
سندا ضعیف متنا صحیح
واللہ اعلم بالصواب
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
اس موضوع سے متعلق ایک تحریر اور ملی سوچا اسے بھی یہاں نقل کردیا جائے گرچہ ہمیں اس سے کلی اتفاق نہیں ہے۔


نو مولود کے کان میں اذان و اقامت
قارئین کرام:اسلام دین رحمت ہے، اس کی تعلیمات نہایت سادہ آسان اور واضح ہیں،جس میں نہ کسی طرح کی پیچیدگی ہے، نہ کسی طرح کا غموض ،بلکہ اسلام کے تعلق سے ہمیں کیا کر نا ہے اور نہیں کر نا ہے۔ اس کو اسلام نے صاف و شفاف لفظوں میں لوگوں کے سامنے مکمل طور سے بیان کردیا ہے اور اس میں نہ کسی کمی یا بیشی کی گنجائش ہے اور نہ کسی کو اس بات کا حق ہی حاصل ہے۔ذیل کے سطور میں امت مسلمہ کے ایک مشہور عمل ’’نومولود کے کان میں اذان و اقامت کی شرعی حیثیت‘‘نذر قرطاس کی جا رہی ہے اللہ ہم تمام مسلمانوں کو اس کو سمجھنے کی توفیق دے۔
(۱) ’’عن حسین بن علی قال:قال رسول اللہ ﷺ من ولد لہ مولود فاذن فی اذنہ الیمنی و اقام فی اذنہ الیسری لم تضرہ ام الصبیان‘‘۔
ترجمہ:جس کے یہاں کسی بچہ کی ولادت ہو ئی اور اس نے اس بچہ کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی تو اس بچہ کو ام الصبیان ،جنیہ،بھتنی،الوہوا کو ئی بھی بیماری نقصان نہیں پہونچا سکتی ہے۔ اس کی تخریج امام بیہقی و غیرہ نے یحیےٰ بن العلاء الرازی عن مروان بن سالم عن طلحہ بن عبد اللہ العقیلی عن الحسن کے طریق سے کی ہے۔
اس میں مندرجہ ذیل علتیں ہیں:
(۱) یحیےٰ بن العلاء البجلی ابو سلمہ یقال ابو عمر و الرازی رحمہ اللہ کذاب ووضاع ہیں۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے کہا ہے:’’کذاب،یضع الحدیث‘‘(تھذیب التھذیب ۱۱؍۲۲۹۔۲۳،میزان الاعتدال ۴؍۲۹۸)۔
(۲) مروان بن سالم ابو عبد اللہ الشافعی الجزری الغفاری متروک ہیں۔
امام بخاری و مسلم رحمھما اللہ نے منکر الحدیث فرمایا ہے۔(تھذیب التھذیب ۱۰؍۸۴۔۸۵،میزان الاعتدال ۴؍۹۰) امام بیہقی رحمہ اللہ (شعب الایمان ۲؍۳۸۹) نے اس کی سند کو ضعیف اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے موضوع گردانا ہے۔(الاروا ۴؍۴۰۰ سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ ۱؍۴۹۳ ضعیف الجامع ۵۸۹۳) نیز اصول اسی کے بھی متقاضی ہیں۔
(۲) ابو رافع مولیٰ رسول اللہﷺ کی حدیث جس کو ابو داؤد،ترمذی،بیہقی اور عبد الرزاق نے ’’عن سفیان الثوری حدثنی عاصم بن عبید اللہ عن عبید اللہ بن رافع عن ابیہ قال:’’رأیت رسول اللہ اذن فی اذن الحسن بن علی ولدتہ فاطمۃ بالصلوٰۃ‘‘روایت کیا ہے۔
ترجمہ: ابو رافع نے کہا میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ جب حسن بن علی کی والدہ نے ان کو جنم دیا ،تو حسن بن علی کے کان میں نبی ﷺ نے اذان دی۔
اس میں ایک راوی ہیں’’عاصم بن عبید اللہ بن عمر بن الخطاب العدوی المدنی جو متفق علیہ ضعیف ہیں۔(تھذیب التھذیب ۵؍۴۲۔۴۳،میزان الاعتدال ۲؍۳۵۳)۔
امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس کو حسن صحیح کہا ہے جو غیر مناسب ہے۔ امام ابن تیمیہ اور امام ابن القیم رحمھما اللہ نے اس پر سکوت اختیار کیا ہے،صاحب تحفہ رحمہ اللہ نے اس کو ضعیف گردانا ہے،شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ بھی اسے ضعیف ہی کہتے ہیں۔(الکلم الطیب ۱۶۲،تحفہ المودود ۱۶ اروا ء ۴؍۴۰۰)۔
(۳) حدیث ابن عباس ۔اس کو امام بیہقی رحمہ اللہ نے ’’عن محمد بن یونس نا الحسن بن عمرو بن یوسف السدوسی ثنا القاسم بن مطیب عن منصور بن صفیہ عن ابی معبد عن ابن عباس ان النبی ﷺ اذن فی اذن الحسن بن علی یوم ولد فاذن فی اذنہ الیمنی و اقام فی اذنہ الیسری‘‘روایت کیا ہے۔
ترجمہ:ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے جب حسن بن علی کی پیدائش ہو ئی، تو ان کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی۔
۱۔ محمد بن یونس بن موسیٰ بن سلیمان ابو العباس الکدیمی ’’کذاب‘‘ہیں۔ (تھذیب التھذیب ۹؍۴۷۵۔۴۷۷،میزان الاعتدال ۷۴۳۴۔۷۵)۔
۲۔ حسن بن عمرو سیف البصری السدوسی یہ بھی کذاب ہیں ،جیسا کہ امام بخاری وغیرہ نے فرمایا ہے۔(تھذیب التھذیب ۲؍۲۶۸،میزان الاعتدال ۱؍۵۱۶)
۳۔ القاسم بن مطیب العجلی البصری ،امام ابن حبان رحمہ اللہ نے کہا ہے:’’کان یخطی کثیرا فا ستحق الترک‘‘ کثرت خطا کی وجہ سے یہ متروک ٹھہرے۔(یہذیب التہذیب ۸؍۳۰۲،میزان الاعتدال ۳؍۳۸۰) یہ روایت بھی موضوع ہے، کیو نکہ شاہد بننے سے عاری ہے ،خود امام بیہقی رحمہ اللہ نے اسے ضعیف کہا ہے۔
(۴) حدیث عمربن عبد العزیز: اس کو عبد الرزاق نے ’’عن ابن ابی یحییٰ عن عبد اللہ بن ابی بکر ان عمر بن عبد العزیزکان اذا ولد لہ ولد اخذہ کما ہو فی خرقتہ فاذن فی اذنہ الیمنی و اقام فی اذنہ الیسری و سماہ مکانہ‘‘۔
عبد اللہ بن ابی بکر نے عمر بن عبد العزیز سے روایت کیا ہے کہ جب ان کے یہاں کوئی بچہ پیدا ہو تا، تو اس کے دائیں کان میں اذان دیتے اور بائیں کان میں اقامت کہتے اور اسی وقت اس کا نام رکھتے۔
اسکے نقائص یہ ہیں(۱) ابن ابی یحییٰ: اسمہ ابراہیم بن محمد بن ابی یحییٰ الاسلمی المدنی رحمہ اللہ ، یہ کذاب اور متروک ہیں۔(تہذیب التہذیب ۱؛۱۳۷؛میزان الاعتدال ۱؛۵۷ ۵۷ )
ٍ (۲) عبد اللہ بن ابی بکر بن زید بن مہاجر رحمہ اللہ :۔
علی بن المدینی رحمہ اللہ نے مجہول کہا ہے ،امام بن حبان رحمہ اللہ نے ان کو ثقات میں ذکر کیا ہے۔ ( تہذیب التہذیب ۵؛۴۳،میزان الاعتدال ۲؛۳۹۸) عمر بن عبد العزیز کا یہ عمل موضوع ہے اور اس کو گڑھ کر ان کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔
احتیاطی تدبیر:۔ ولادت کا وقت نو مولود کے لئے بہت ہی پُر خطر،تکلیف دہ اور پریشان کُن ہو تا ہے، اس لئے کہ ایک طرف ایک نئی دنیا نظر میں ہو تی ہے اور دوسری طرف شیطان رجیم کے کچوکے لگانے کا سلسلہ ہو تا ہے، جس سے بچہ عاجز آکر چیختا اور چلاتا ہے، اس پریشانی سے بچہ کو بچانے کے لئے کسی ایسے حربے کی ضرورت ہے جو شیطان رجیم کے لئے شہاب ثاقب کا کمال رکھتا ہو، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ جب شیطان اذان سنتا ہے تو ہوا خارج کر تے ہوئے راہ فرار اختیار کر تا ہے اور اس وقت تک واپس نہیں آتا ہے جب تک اذان ختم نہ ہو جائے اس لئے احتیاطاً نومولود کے کان میں اذان دی جا سکتی ہے۔
(۱) یہ بات قطعی طور سے درست نہیں ہے کیونکہ حدیث میں اس اذان سے شیطان کے بھاگنے کا ذکر ہے جو نماز کے لئے کہی جاتی ہے’’اذا نودی للصلوۃ ادبر ا شیطان ولہ ضراط لا یسمع التاذین‘‘(بخاری ۶۰۸) اور دیگر مواقع سے جو متعلق ہیں وہ ثابت نہیں ہیں۔
(۲) دوسری بات یہ ہے کہ یہ تدبیر یہاں کار گر نہیں اس لئے کہ صحیح حدیث میں ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام ان کی والدہ کے علاوہ شیطان سب کو کچوکہ لگاتا ہے۔(تفصیل کے لئے ملاحظہ کیجئے ترجمان اکتوبر ۱۔۱۵ ۲۰۰۹ ؁ء ۔ خلاصہ کلام یہ کہ نومولود کے کان میں اذان و اقامت کے جواز میں جس طرح کے بھی نصوص ملتے ہیں، وہ سب کے سب نا قابل استدلال ا ور نا قابل حجت ہیں اس لئے اس عمل کو رواج دینا کسی بھی لحاظ سے درست اور صحیح نہیں ہے ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں سنتِ رسول کے عین مطابق زندگی گزارنے کی توفیق ارزانی فرمائے۔(آمین



[LINK=[URL]http://tarjumanussunnah.blogspot.com/2010/10/jul-sep-2010_10.html]تنقیحات[/URL]
محمد نفیس محمد اسماعیل
متعلم:جامعہ سراج العلوم ،بونڈ یہار[/LINK]
 
Last edited:
Top