و علیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ،السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ قَالَ حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ عَنْ عَلْقَمَةَ قَالَ كُنْتُ مَعَ عَبْدِ اللَّهِ فَلَقِيَهُ عُثْمَانُ بِمِنًى فَقَالَ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ إِنَّ لِي إِلَيْكَ حَاجَةً فَخَلَوَا فَقَالَ عُثْمَانُ هَلْ لَكَ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ فِي أَنْ نُزَوِّجَكَ بِكْرًا تُذَكِّرُكَ مَا كُنْتَ تَعْهَدُ فَلَمَّا رَأَى عَبْدُ اللَّهِ أَنْ لَيْسَ لَهُ حَاجَةٌ إِلَى هَذَا أَشَارَ إِلَيَّ فَقَالَ يَا عَلْقَمَةُ فَانْتَهَيْتُ إِلَيْهِ وَهُوَ يَقُولُ أَمَا لَئِنْ قُلْتَ ذَلِكَ لَقَدْ قَالَ لَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ مَنْ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ.(@محمد نعیم یونس بھائی! حدیث کی ویب سائٹ پر ملون الفاظ رہ گئے ہیں!)
ہم سے عمر بن حفص نے بیان کیا ، مجھ سے ابراہیم نے بیان کیا ، ان سے اعمش نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے ابراہیم نے بیان کیا ، ان سے علقمہ بن قیس نے بیان کیا کہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا ، ان سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے منیٰ میں ملاقات کی اور کہا اے ابو عبد الرحمن ! مجھے آپ سے ایک کام ہے پھر وہ دونوں تنہائی میں چلے گئے ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا اے ابو عبد الرحمن ! کیا آپ منظور کریں گے کہ ہم آپ کا نکاح کسی کنواری لڑکی سے کردیں جو آپ کو گزرے ہوئے ایام یاد دلادے ۔ چونکہ حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتے تھے اس لئے انہوں نے مجھے اشارہ کیا اور کہا علقمہ ! میں جب ان کی خدمت میں پہنچا تو وہ کہہ رہے تھے کہ اگر آپ کایہ مشورہ ہے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا تھا اے نوجوانو ! تم میں جو بھی شادی کی طاقت رکھتا ہو اسے نکاح کر لینا چاہئےا ور جو اس کی طاقت نہ رکھتا ہو وہ روزے رکھے کیونکہ یہ خواہش نفسانی کو توڑ دے گا ۔
صحيح البخاري: كِتَابُ النِّكَاحِ (قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ: «مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمُ البَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ، لِأَنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ» وَهَلْ يَتَزَوَّجُ مَنْ لاَ أَرَبَ لَهُ فِي النِّكَاحِ)
صحیح بخاری: کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان (باب: جو جماع کی طاقت رکھتا ہو شادی کرئے)
صحیح مسلم: کتاب: نکاح کے احکام و مسائل (باب: جس شخص کا دل چاہتا ہو اور کھانا پینا میسر ہو اس کے لیے نکاح کرنا مستحب ہے اور جو شخص کھانا پینا مہیا کرنے سے قاصر ہو وہ روزوں میں مشغول رہے)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَأَبُو كُرَيْبٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: قَالَ لَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ، مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمُ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ، فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ، وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ، فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ»،
ابومعاویہ نے ہمیں اعمش سے حدیث سنائی، انہوں نے عمارہ بن عمیر سے، انہوں نے عبدالرحمٰن بن یزید سے، انہوں نے حضرت عبداللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا: " اے جوانوں کی جماعت! تم میں سے جو شادی کرنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ شادی کر لے،یہ نگاہوں کو جھکانے اور شرمنگاہ کی حفاظت کرنے میں (دوسری چیزوں کی نسبت) بڑھ کر ہے، اور جو استطاعت نہ پائے، وہ خود پر روزے کو لازم کر لے، یہ اس کے لیے اس کی خواہش کو قطع کرنے والا ہے
صحيح مسلم: كِتَابُ النِّكَاحِ (بَابُ اسْتِحْبَابِ النِّكَاحِ لِمَنْ تَاقَتْ نَفْسُهُ إِلَيْهِ، وَوَجَدَ مُؤَنَهُ، وَاشْتِغَالِ مَنْ عَجَزَ عَنِ الْمُؤَنِ بِالصَّوْمِ)
مذکورہ بالا حدیث میں انہیں لوگوں کو روزہ رکھنے کا کہا گیا ہے، کہ جو بلوغت اور اہلیت جماع کے حامل ہوں، اور خواہاں بھی، لیکن اس کی استطاعت نہ رکھتے ہوں، اب یہ کیا امور ہیں جن کی استطاعت نہ رکھنے پر روزہ رکھنے کو کہا گیا؟
بلوغت کے بعد تو یہی استطاعت مراد ہے ہو سکتی ہے کہ وہ زوجہ کی ذمہ داری اٹھانے کی استطاعت نہیں رکھتا ہو! اور اس امر میں ''مال'' کا دخل سب سے اولیٰ ہے! جیسا کہ @ابن طاھر بھائی نے کہا۔
دوم کہ اپنی استطاعت کا اندازہ لگاتے ہوئے اللہ کے غیبی مدد کا شمار نہیں کرے گا، کیونکہ غیبی اگر استطاعت کے لئے غیبی مدد کو بھی داخل اندازہ رکھا جائے تو استطاعت ہمیشہ ہی قائم رہے گی، کہ اللہ کی غیبی مدد بے مثل و بے شمار و بلا قید ہے!
جزاک اللہ خیراً ، محترم بھائی ابن داؤد،
آپ نے اپنے سوال کا جو خود ہی جواب دِیا ہے ، وہ اپنی جگہ بالکل دُرست ہے ،
آپ کی نقل کردہ دونوں احادیث شریفہ میں "الباءۃ" سے مُراد جسمانی اور معاشی دونوں ہی استطاعت ہیں ،
اِن احادیث شریفہ کی بِناء پر عُلماء کرام نے کِسی جسمانی اور مالی طاقت ، اِستطاعت رکھنے والے مُسلمان مَرد کے لیے نِکاح کرنے کے شرعی حکم کی حیثیت کے تعیین کے بارے میں گفتگو فرمائی ہے ، کہ ایسے شخص کے لیے نِکاح واجب ہے یا مستحب سُنّت ، جیسا کہ آپ کی نقل کردہ صحیح مُسلم کی روایت کے باب میں مذکور ہے ، معروف ہے کہ صحیح مُسلم کے ابواب کے عناوین امام النووی رحمہُ اللہ نے رکھے تھے ، یہاں امام صاحب رحمہُ اللہ نے جسمانی اور مالی طاقت ، اِستطاعت رکھنے والے کے لیے نِکاح کرنے کے حکم ء نبوی کو استحباب پر محمول کیا ہے ،
عُلماء کرام رحمہم اللہ نے مزید درجہ بندی کرتے ہوئے مکروہ ، اور مباح کا ذِکر بھی کیا ہے ،
اِن احادیث شریفہ میں یہ تو ہر گِز نہیں بتایا ، یا، سِکھایا گیا کہ اگر کسی کے پاس مالی طاقت ، اِستطاعت نہیں تو وہ خود کو نِکاح سے دُور رکھے ،
بلکہ یہ سِکھایا گیا ہے کہ وہ اپنی شہوت اور جنسی خواہش کو کمزور کرنے کے لیے روزے رکھے ، یہاں تک کہ وہ شادی کے بعد اپنی بیوی کی ضروریات زندگی پوری کرنے کی مالی استطاعت پا لے ، اور یہ سِکھایا گیا ہے کہ بدکاری اور جنسی خواہش کی تکمیل نہ ہونے کی نفسیاتی تکلیف سے بچنے کا پہلا اور اصل طریقہ نِکاح کرنا ہے ،
اور ایسا بھی کچھ نہیں جِس کے ذریعے مالی استطاعت کی کوئی حد متعین کی جا سکے ،
علما ءکرام رحمہم اللہ نے اِس استطاعت کو بیوی کے مہر کی ادائیگی اور اُس کی ضروریات پوری کرنے سے تعیبر کیا ہے ، یہ آپ شروح الحدیث میں دیکھ سکتے ہیں ، اور آپ کا ذِکر کردہ امام النووی رحمہُ اللہ کا دِیا ہوا عنوان میں بھی جو لفظ "مؤنۃ " ہے اُس کی شرح میں بھی عُلماء کرام رحمہم اللہ نے مالی استطاعت میں مہر اور نققہ کا ذِکر کیا ہے ،
نققہ ضروریات کی تکمیل کے لیے ہوتا ہے ، فقط ،
یہاں ہمیں یہ بھی سمجھ رکھنا چاہیے کہ ضروریات کا معنی ہے ، ضروریات ، جِن کے بغیر زندگی گذارنا نا ممکن ہو ، نہ کہ خواھشات اور بلا حاجت مال و متاع اور آرام و آسائش ، زیب و آرائش کا سامان حاصل کرنا ،
اگر اِن احادیث شریفہ کو اللہ عزّ و جلّ کے فرمان (((((وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ:::اور تم لوگ اپنے میں سے اکیلے (بغیر بیوی والے مرودوں اور بغیر شوہر والی عورتوں)اور اپنے نیک غُلاموں اور باندیوں کے نِکاح کر دیا کرواگر وہ غریب ہیں( تو اِس سے مت گھبراو) اللہ انہیں اپنے فضل سے مالدار کر دے گا اور اللہ بہت وسعت والا اور بہت علم والا ہے ))))) کی روشنی میں سمجھیے تو معاملہ بہت واضح ہو جاتا ہے ، اور اگر صِرف اِن احادیث شریفہ کے متن کے مُطابق سمجھا جائے تو معاذ اللہ احادیث شریفہ اور اِس آیت میں تضاد ہو جاتا ، کہ اللہ تعالیٰ تو نِکاح کرنے کی صُورت میں غِنا عطاء فرمانے کا وعدہ کر رہا ہے اور معاذ اللہ حدیث میں یہ کہا جا رہا ہے کہ نہیں پہلے مال اکٹھا کرو، مالدار ہو جاؤ پھر نِکاح کرو،
مزید وضاحت اُن احادیث شریفہ میں ، اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے اُن اقوال میں مذکور ہے جو میں نے اپنے مضامین میں پیش کی ہیں ،
مسئلہ ، یا ، معاملہ بہت واضح ہے میرے محترم بھائی ، آپ کی نقل کردہ دو احادیث شریفہ میں جِس مالی استطاعت کا ذِکر ہے وہ فقط عورت کے مہر کی ادئیگی اور زندگی کی بنیادی ضروریات تک محدود ہے ، جو غُربت اور مالی کمزوری کے باوجود بھی مُیسر ہوتی ہے ،
جو شخص اس قدر مُفلس ہو کہ نہ تو نِکاح کے وقت مہر ادا کر سکے ، اور نہ ہی بیوی کے کھانے پینے اور لباس کی ضروریات پوری کر سکے ، لیکن جنسی طور پر عورت کا حاجت مند ہو تو اُسے روزے رکھ کر اپنی جنسی طلب کی شدت کم کرنے کا نسخہ عطاء فرمایا گیا ،
میرے مضمون کا موضوع ، کِسی غریب ، مالی طو رپر کمزور مُسلمان کو نِکاح سے روکنا ، منع کرتے رہنا ہے ، اور اِس کمزوری کی بِناء پر یہ سوچنا ہے کہ نِکاح یا شادی کے بعد بیوی اور بچوں کی ضروریات کیسے پوری کر سکے گا ؟
اِس بات سے تو ہم میں سے کِسی کو بھی اِنکار نہیں کہ یہ مذکورہ بالا سوچ و فِکر قران کریم اور صحیح ثابت شدہ سنّت شریفہ کے منافی ہے ، میرا موضوع یہی تھا ، اور ہے ،
دوم یہ کہ ، اپنی اِستطاعت کا اندازہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی مدد کو اپنی موجودہ اِستطاعت میں شامل نہ کرنا ،
جی میرے محترم بھائی، کِسی مُسلمان کو اپنی موجود اِستطاعت کا اندازہ کرتے ہوئے ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والے متوقع مدد کو شامل نہیں کرنا چاہیے ، لیکن اللہ کے وعدے کے مُطابق اُس کے حاصل ہونے کا یقین ضرور رکھنا چاہیے،
نکاح کرنے کے لیے اُس کی مطلوبہ اِستطاعت لڑکی /عورت کو اُس کا مہر ادا کرنا ہے ، اور اُس کی بنیادی ضروریاتء زندگی کی تکمیل ہے ، اگر کوئی لڑکی /عورت اپنا مہر بعد میں لینے پر راضی ہو تو پھر اِستطاعت میں کافی تقویت مہیا ہو جاتی ہے ،
پس ، وہ اِستطاعت جو احادیث شریفہ میں ذِکر کی گئی ہے وہ کچھ اور ہے ، اور جو اِستطاعت ہمارے مُعاشرے میں ، ہمارے اذہان میں ہے وہ کچھ اور ،
آپ سب بھائیوں کا بہت شکریہ ، اللہ تبارک و تعالیٰ آپ سب کو بہترین اجر عطاء فرمائے ، کہ آپ صاحبان نے اپنی آراء اور اشکالات کا اظہار فرمایا ، جو میرے لیے اِس موضوع کو پھر سے لیکن مزید واضح طور پر پیش کرنے کی راہ سُجھا گئے ،
اگر آپ صاحبان ، یا قارئین میں کِسی بھی اور بھائی یا بہن کے ذہن میں کوئی بھی اور اشکال ہو ، کوئی سوال ہو، تو بلا جھجک و تردد اُس کا اظہار فرمایے ، لیکن ، اُس سے پہلے اب تک ہو چکی گفتگو کا اچھی طرح سے مطالعہ فرما لیجیے ، مُبادا آپ کے سوال یا اشکال کا جواب پہلے ہی موجود ہو ،
اللہ عزّ و جلّ ہم سب کو خیر پانے اور خیر پھیلانے والوں میں سے بنائے اور ہر شر سے محفوظ رکھے ۔ والسلام علیکم۔