• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

:::::: نِکاح ، شادی اور رِزق :::::::

عادل سہیل

مشہور رکن
شمولیت
اگست 26، 2011
پیغامات
367
ری ایکشن اسکور
941
پوائنٹ
120
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ قَالَ حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ عَنْ عَلْقَمَةَ قَالَ كُنْتُ مَعَ عَبْدِ اللَّهِ فَلَقِيَهُ عُثْمَانُ بِمِنًى فَقَالَ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ إِنَّ لِي إِلَيْكَ حَاجَةً فَخَلَوَا فَقَالَ عُثْمَانُ هَلْ لَكَ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ فِي أَنْ نُزَوِّجَكَ بِكْرًا تُذَكِّرُكَ مَا كُنْتَ تَعْهَدُ فَلَمَّا رَأَى عَبْدُ اللَّهِ أَنْ لَيْسَ لَهُ حَاجَةٌ إِلَى هَذَا أَشَارَ إِلَيَّ فَقَالَ يَا عَلْقَمَةُ فَانْتَهَيْتُ إِلَيْهِ وَهُوَ يَقُولُ أَمَا لَئِنْ قُلْتَ ذَلِكَ لَقَدْ قَالَ لَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ مَنْ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ.
ہم سے عمر بن حفص نے بیان کیا ، مجھ سے ابراہیم نے بیان کیا ، ان سے اعمش نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے ابراہیم نے بیان کیا ، ان سے علقمہ بن قیس نے بیان کیا کہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا ، ان سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے منیٰ میں ملاقات کی اور کہا اے ابو عبد الرحمن ! مجھے آپ سے ایک کام ہے پھر وہ دونوں تنہائی میں چلے گئے ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا اے ابو عبد الرحمن ! کیا آپ منظور کریں گے کہ ہم آپ کا نکاح کسی کنواری لڑکی سے کردیں جو آپ کو گزرے ہوئے ایام یاد دلادے ۔ چونکہ حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتے تھے اس لئے انہوں نے مجھے اشارہ کیا اور کہا علقمہ ! میں جب ان کی خدمت میں پہنچا تو وہ کہہ رہے تھے کہ اگر آپ کایہ مشورہ ہے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا تھا اے نوجوانو ! تم میں جو بھی شادی کی طاقت رکھتا ہو اسے نکاح کر لینا چاہئےا ور جو اس کی طاقت نہ رکھتا ہو وہ روزے رکھے کیونکہ یہ خواہش نفسانی کو توڑ دے گا ۔
صحيح البخاري: كِتَابُ النِّكَاحِ (قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ: «مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمُ البَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ، لِأَنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ» وَهَلْ يَتَزَوَّجُ مَنْ لاَ أَرَبَ لَهُ فِي النِّكَاحِ)
صحیح بخاری: کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان (باب: جو جماع کی طاقت رکھتا ہو شادی کرئے)
(@محمد نعیم یونس بھائی! حدیث کی ویب سائٹ پر ملون الفاظ رہ گئے ہیں!)

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَأَبُو كُرَيْبٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: قَالَ لَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ، مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمُ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ، فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ، وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ، فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ»،
ابومعاویہ نے ہمیں اعمش سے حدیث سنائی، انہوں نے عمارہ بن عمیر سے، انہوں نے عبدالرحمٰن بن یزید سے، انہوں نے حضرت عبداللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا: " اے جوانوں کی جماعت! تم میں سے جو شادی کرنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ شادی کر لے،یہ نگاہوں کو جھکانے اور شرمنگاہ کی حفاظت کرنے میں (دوسری چیزوں کی نسبت) بڑھ کر ہے، اور جو استطاعت نہ پائے، وہ خود پر روزے کو لازم کر لے، یہ اس کے لیے اس کی خواہش کو قطع کرنے والا ہے
صحيح مسلم: كِتَابُ النِّكَاحِ (بَابُ اسْتِحْبَابِ النِّكَاحِ لِمَنْ تَاقَتْ نَفْسُهُ إِلَيْهِ، وَوَجَدَ مُؤَنَهُ، وَاشْتِغَالِ مَنْ عَجَزَ عَنِ الْمُؤَنِ بِالصَّوْمِ)
صحیح مسلم: کتاب: نکاح کے احکام و مسائل (باب: جس شخص کا دل چاہتا ہو اور کھانا پینا میسر ہو اس کے لیے نکاح کرنا مستحب ہے اور جو شخص کھانا پینا مہیا کرنے سے قاصر ہو وہ روزوں میں مشغول رہے)

مذکورہ بالا حدیث میں انہیں لوگوں کو روزہ رکھنے کا کہا گیا ہے، کہ جو بلوغت اور اہلیت جماع کے حامل ہوں، اور خواہاں بھی، لیکن اس کی استطاعت نہ رکھتے ہوں، اب یہ کیا امور ہیں جن کی استطاعت نہ رکھنے پر روزہ رکھنے کو کہا گیا؟
بلوغت کے بعد تو یہی استطاعت مراد ہے ہو سکتی ہے کہ وہ زوجہ کی ذمہ داری اٹھانے کی استطاعت نہیں رکھتا ہو! اور اس امر میں ''مال'' کا دخل سب سے اولیٰ ہے! جیسا کہ @ابن طاھر بھائی نے کہا۔
دوم کہ اپنی استطاعت کا اندازہ لگاتے ہوئے اللہ کے غیبی مدد کا شمار نہیں کرے گا، کیونکہ غیبی اگر استطاعت کے لئے غیبی مدد کو بھی داخل اندازہ رکھا جائے تو استطاعت ہمیشہ ہی قائم رہے گی، کہ اللہ کی غیبی مدد بے مثل و بے شمار و بلا قید ہے!
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ،
جزاک اللہ خیراً ، محترم بھائی ابن داؤد،
آپ نے اپنے سوال کا جو خود ہی جواب دِیا ہے ، وہ اپنی جگہ بالکل دُرست ہے ،
آپ کی نقل کردہ دونوں احادیث شریفہ میں "الباءۃ" سے مُراد جسمانی اور معاشی دونوں ہی استطاعت ہیں ،
اِن احادیث شریفہ کی بِناء پر عُلماء کرام نے کِسی جسمانی اور مالی طاقت ، اِستطاعت رکھنے والے مُسلمان مَرد کے لیے نِکاح کرنے کے شرعی حکم کی حیثیت کے تعیین کے بارے میں گفتگو فرمائی ہے ، کہ ایسے شخص کے لیے نِکاح واجب ہے یا مستحب سُنّت ، جیسا کہ آپ کی نقل کردہ صحیح مُسلم کی روایت کے باب میں مذکور ہے ، معروف ہے کہ صحیح مُسلم کے ابواب کے عناوین امام النووی رحمہُ اللہ نے رکھے تھے ، یہاں امام صاحب رحمہُ اللہ نے جسمانی اور مالی طاقت ، اِستطاعت رکھنے والے کے لیے نِکاح کرنے کے حکم ء نبوی کو استحباب پر محمول کیا ہے ،
عُلماء کرام رحمہم اللہ نے مزید درجہ بندی کرتے ہوئے مکروہ ، اور مباح کا ذِکر بھی کیا ہے ،
اِن احادیث شریفہ میں یہ تو ہر گِز نہیں بتایا ، یا، سِکھایا گیا کہ اگر کسی کے پاس مالی طاقت ، اِستطاعت نہیں تو وہ خود کو نِکاح سے دُور رکھے ،
بلکہ یہ سِکھایا گیا ہے کہ وہ اپنی شہوت اور جنسی خواہش کو کمزور کرنے کے لیے روزے رکھے ، یہاں تک کہ وہ شادی کے بعد اپنی بیوی کی ضروریات زندگی پوری کرنے کی مالی استطاعت پا لے ، اور یہ سِکھایا گیا ہے کہ بدکاری اور جنسی خواہش کی تکمیل نہ ہونے کی نفسیاتی تکلیف سے بچنے کا پہلا اور اصل طریقہ نِکاح کرنا ہے ،
اور ایسا بھی کچھ نہیں جِس کے ذریعے مالی استطاعت کی کوئی حد متعین کی جا سکے ،
علما ءکرام رحمہم اللہ نے اِس استطاعت کو بیوی کے مہر کی ادائیگی اور اُس کی ضروریات پوری کرنے سے تعیبر کیا ہے ، یہ آپ شروح الحدیث میں دیکھ سکتے ہیں ، اور آپ کا ذِکر کردہ امام النووی رحمہُ اللہ کا دِیا ہوا عنوان میں بھی جو لفظ "مؤنۃ " ہے اُس کی شرح میں بھی عُلماء کرام رحمہم اللہ نے مالی استطاعت میں مہر اور نققہ کا ذِکر کیا ہے ،
نققہ ضروریات کی تکمیل کے لیے ہوتا ہے ، فقط ،
یہاں ہمیں یہ بھی سمجھ رکھنا چاہیے کہ ضروریات کا معنی ہے ، ضروریات ، جِن کے بغیر زندگی گذارنا نا ممکن ہو ، نہ کہ خواھشات اور بلا حاجت مال و متاع اور آرام و آسائش ، زیب و آرائش کا سامان حاصل کرنا ،
اگر اِن احادیث شریفہ کو اللہ عزّ و جلّ کے فرمان (((((وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ:::اور تم لوگ اپنے میں سے اکیلے (بغیر بیوی والے مرودوں اور بغیر شوہر والی عورتوں)اور اپنے نیک غُلاموں اور باندیوں کے نِکاح کر دیا کرواگر وہ غریب ہیں( تو اِس سے مت گھبراو) اللہ انہیں اپنے فضل سے مالدار کر دے گا اور اللہ بہت وسعت والا اور بہت علم والا ہے ))))) کی روشنی میں سمجھیے تو معاملہ بہت واضح ہو جاتا ہے ، اور اگر صِرف اِن احادیث شریفہ کے متن کے مُطابق سمجھا جائے تو معاذ اللہ احادیث شریفہ اور اِس آیت میں تضاد ہو جاتا ، کہ اللہ تعالیٰ تو نِکاح کرنے کی صُورت میں غِنا عطاء فرمانے کا وعدہ کر رہا ہے اور معاذ اللہ حدیث میں یہ کہا جا رہا ہے کہ نہیں پہلے مال اکٹھا کرو، مالدار ہو جاؤ پھر نِکاح کرو،
مزید وضاحت اُن احادیث شریفہ میں ، اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے اُن اقوال میں مذکور ہے جو میں نے اپنے مضامین میں پیش کی ہیں ،
مسئلہ ، یا ، معاملہ بہت واضح ہے میرے محترم بھائی ، آپ کی نقل کردہ دو احادیث شریفہ میں جِس مالی استطاعت کا ذِکر ہے وہ فقط عورت کے مہر کی ادئیگی اور زندگی کی بنیادی ضروریات تک محدود ہے ، جو غُربت اور مالی کمزوری کے باوجود بھی مُیسر ہوتی ہے ،
جو شخص اس قدر مُفلس ہو کہ نہ تو نِکاح کے وقت مہر ادا کر سکے ، اور نہ ہی بیوی کے کھانے پینے اور لباس کی ضروریات پوری کر سکے ، لیکن جنسی طور پر عورت کا حاجت مند ہو تو اُسے روزے رکھ کر اپنی جنسی طلب کی شدت کم کرنے کا نسخہ عطاء فرمایا گیا ،
میرے مضمون کا موضوع ، کِسی غریب ، مالی طو رپر کمزور مُسلمان کو نِکاح سے روکنا ، منع کرتے رہنا ہے ، اور اِس کمزوری کی بِناء پر یہ سوچنا ہے کہ نِکاح یا شادی کے بعد بیوی اور بچوں کی ضروریات کیسے پوری کر سکے گا ؟
اِس بات سے تو ہم میں سے کِسی کو بھی اِنکار نہیں کہ یہ مذکورہ بالا سوچ و فِکر قران کریم اور صحیح ثابت شدہ سنّت شریفہ کے منافی ہے ، میرا موضوع یہی تھا ، اور ہے ،
دوم یہ کہ ، اپنی اِستطاعت کا اندازہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی مدد کو اپنی موجودہ اِستطاعت میں شامل نہ کرنا ،
جی میرے محترم بھائی، کِسی مُسلمان کو اپنی موجود اِستطاعت کا اندازہ کرتے ہوئے ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والے متوقع مدد کو شامل نہیں کرنا چاہیے ، لیکن اللہ کے وعدے کے مُطابق اُس کے حاصل ہونے کا یقین ضرور رکھنا چاہیے،
نکاح کرنے کے لیے اُس کی مطلوبہ اِستطاعت لڑکی /عورت کو اُس کا مہر ادا کرنا ہے ، اور اُس کی بنیادی ضروریاتء زندگی کی تکمیل ہے ، اگر کوئی لڑکی /عورت اپنا مہر بعد میں لینے پر راضی ہو تو پھر اِستطاعت میں کافی تقویت مہیا ہو جاتی ہے ،
پس ، وہ اِستطاعت جو احادیث شریفہ میں ذِکر کی گئی ہے وہ کچھ اور ہے ، اور جو اِستطاعت ہمارے مُعاشرے میں ، ہمارے اذہان میں ہے وہ کچھ اور ،
آپ سب بھائیوں کا بہت شکریہ ، اللہ تبارک و تعالیٰ آپ سب کو بہترین اجر عطاء فرمائے ، کہ آپ صاحبان نے اپنی آراء اور اشکالات کا اظہار فرمایا ، جو میرے لیے اِس موضوع کو پھر سے لیکن مزید واضح طور پر پیش کرنے کی راہ سُجھا گئے ،
اگر آپ صاحبان ، یا قارئین میں کِسی بھی اور بھائی یا بہن کے ذہن میں کوئی بھی اور اشکال ہو ، کوئی سوال ہو، تو بلا جھجک و تردد اُس کا اظہار فرمایے ، لیکن ، اُس سے پہلے اب تک ہو چکی گفتگو کا اچھی طرح سے مطالعہ فرما لیجیے ، مُبادا آپ کے سوال یا اشکال کا جواب پہلے ہی موجود ہو ،
اللہ عزّ و جلّ ہم سب کو خیر پانے اور خیر پھیلانے والوں میں سے بنائے اور ہر شر سے محفوظ رکھے ۔ والسلام علیکم۔
 
شمولیت
جولائی 06، 2014
پیغامات
165
ری ایکشن اسکور
59
پوائنٹ
75
@عادل سہیل بھائی الله آپ کو بہترین جزا دے آپ نے بہت خوبی سے بیان کیا۔

آپ کی نقل کردہ دو احادیث شریفہ میں جِس مالی استطاعت کا ذِکر ہے وہ فقط عورت کے مہر کی ادئیگی اور زندگی کی بنیادی ضروریات تک محدود ہے ، جو غُربت اور مالی کمزوری کے باوجود بھی مُیسر ہوتی ہے ،
آپ کی اس بات کا ایک رخ جو میں دیکھتا ہوں وہ یہ کہ ایک طالبعلم کا فرض کیجئے ، جس کا کوئی ذریعہ آمدنی نہیں (اور مستقبل قریب میں امکان بھی نہیں کہ اس کی تعلیم ختم ہو اور وہ کسی بھی درجے کی ملازمت لے لے گا، یا کوئی اور سبیل ہو) اور مہر کی ادائیگی بھی اگر فرض کر لیا جائےکہ اتنی تھوڑی ہوگی جس کی ادائیگی مسلہ نہ ہو، مگر زندگی کی بنیادی ضروریات (جس میں سے رہایش بھی فرض کر لیں کہ والدین مہیا کر دیں گے وقتی طور پر) کے لئے وہ اپنے والدین اور دوسرے بھائی بہنوں کا محتاج رہے، کیا یہ ٹھیک ہے؟

دوسری بات، ذیل میں بیان کردہ حدیث میں ملون الفاظ کہ "معاويہ تو وہ تنگ دست ہے اس كے پاس مال نہيں"

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، قَالَ قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، مَوْلَى الأَسْوَدِ بْنِ سُفْيَانَ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ، أَنَّ أَبَا عَمْرِو بْنَ حَفْصٍ، طَلَّقَهَا الْبَتَّةَ وَهُوَ غَائِبٌ فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا وَكِيلُهُ بِشَعِيرٍ فَسَخِطَتْهُ فَقَالَ وَاللَّهِ مَا لَكِ عَلَيْنَا مِنْ شَىْءٍ ‏.‏ فَجَاءَتْ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لَهُ فَقَالَ ‏"‏ لَيْسَ لَكِ عَلَيْهِ نَفَقَةٌ ‏"‏ ‏.‏ فَأَمَرَهَا أَنْ تَعْتَدَّ فِي بَيْتِ أُمِّ شَرِيكٍ ثُمَّ قَالَ ‏"‏ تِلْكَ امْرَأَةٌ يَغْشَاهَا أَصْحَابِي اعْتَدِّي عِنْدَ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ فَإِنَّهُ رَجُلٌ أَعْمَى تَضَعِينَ ثِيَابَكِ فَإِذَا حَلَلْتِ فَآذِنِينِي ‏"‏ ‏.‏ قَالَتْ فَلَمَّا حَلَلْتُ ذَكَرْتُ لَهُ أَنَّ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ وَأَبَا جَهْمٍ خَطَبَانِي ‏.‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أَمَّا أَبُو جَهْمٍ فَلاَ يَضَعُ عَصَاهُ عَنْ عَاتَقِهِ وَأَمَّا مُعَاوِيَةُ فَصُعْلُوكٌ لاَ مَالَ لَهُ انْكِحِي أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ ‏"‏ ‏.‏ فَكَرِهْتُهُ ثُمَّ قَالَ ‏"‏ انْكِحِي أُسَامَةَ ‏"‏ ‏.‏ فَنَكَحْتُهُ فَجَعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا وَاغْتَبَطْتُ بِهِ ‏.‏

میرے خیال میں یہ آپ ہی کی بات کی تائید ہے کہ مال کی مقدار اتنی ہو جو مہر کی ادائیگی، روزمرہ زندگی کے معاملات اور عفت و عصمت کی حفاظت اور معاشرتی بنیادی ضروریات کو پورا کرتی ہو. میرے بیان کردہ "کیس" میں یہ سب ایک طالب علم نوجوان کے لئے ممکن نہیں. تو کیا بہتر نہیں کہ وہ حکم کے مطابق اپنے آپ کی حفاظت کے لئے روزے رکھ کر انتظار کرے اور "خود کفیل" ہونے کی کوشش کرے ۔۔۔۔ تاکہ بعد میں کسی پر بوجھ نہ بن جائے.

واللہ اعلم۔
 

عادل سہیل

مشہور رکن
شمولیت
اگست 26، 2011
پیغامات
367
ری ایکشن اسکور
941
پوائنٹ
120
@عادل سہیل بھائی الله آپ کو بہترین جزا دے آپ نے بہت خوبی سے بیان کیا۔


آپ کی اس بات کا ایک رخ جو میں دیکھتا ہوں وہ یہ کہ ایک طالبعلم کا فرض کیجئے ، جس کا کوئی ذریعہ آمدنی نہیں (اور مستقبل قریب میں امکان بھی نہیں کہ اس کی تعلیم ختم ہو اور وہ کسی بھی درجے کی ملازمت لے لے گا، یا کوئی اور سبیل ہو) اور مہر کی ادائیگی بھی اگر فرض کر لیا جائےکہ اتنی تھوڑی ہوگی جس کی ادائیگی مسلہ نہ ہو، مگر زندگی کی بنیادی ضروریات (جس میں سے رہایش بھی فرض کر لیں کہ والدین مہیا کر دیں گے وقتی طور پر) کے لئے وہ اپنے والدین اور دوسرے بھائی بہنوں کا محتاج رہے، کیا یہ ٹھیک ہے؟

دوسری بات، ذیل میں بیان کردہ حدیث میں ملون الفاظ کہ "معاويہ تو وہ تنگ دست ہے اس كے پاس مال نہيں"

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، قَالَ قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، مَوْلَى الأَسْوَدِ بْنِ سُفْيَانَ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ، أَنَّ أَبَا عَمْرِو بْنَ حَفْصٍ، طَلَّقَهَا الْبَتَّةَ وَهُوَ غَائِبٌ فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا وَكِيلُهُ بِشَعِيرٍ فَسَخِطَتْهُ فَقَالَ وَاللَّهِ مَا لَكِ عَلَيْنَا مِنْ شَىْءٍ ‏.‏ فَجَاءَتْ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لَهُ فَقَالَ ‏"‏ لَيْسَ لَكِ عَلَيْهِ نَفَقَةٌ ‏"‏ ‏.‏ فَأَمَرَهَا أَنْ تَعْتَدَّ فِي بَيْتِ أُمِّ شَرِيكٍ ثُمَّ قَالَ ‏"‏ تِلْكَ امْرَأَةٌ يَغْشَاهَا أَصْحَابِي اعْتَدِّي عِنْدَ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ فَإِنَّهُ رَجُلٌ أَعْمَى تَضَعِينَ ثِيَابَكِ فَإِذَا حَلَلْتِ فَآذِنِينِي ‏"‏ ‏.‏ قَالَتْ فَلَمَّا حَلَلْتُ ذَكَرْتُ لَهُ أَنَّ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ وَأَبَا جَهْمٍ خَطَبَانِي ‏.‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أَمَّا أَبُو جَهْمٍ فَلاَ يَضَعُ عَصَاهُ عَنْ عَاتَقِهِ وَأَمَّا مُعَاوِيَةُ فَصُعْلُوكٌ لاَ مَالَ لَهُ انْكِحِي أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ ‏"‏ ‏.‏ فَكَرِهْتُهُ ثُمَّ قَالَ ‏"‏ انْكِحِي أُسَامَةَ ‏"‏ ‏.‏ فَنَكَحْتُهُ فَجَعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا وَاغْتَبَطْتُ بِهِ ‏.‏

میرے خیال میں یہ آپ ہی کی بات کی تائید ہے کہ مال کی مقدار اتنی ہو جو مہر کی ادائیگی، روزمرہ زندگی کے معاملات اور عفت و عصمت کی حفاظت اور معاشرتی بنیادی ضروریات کو پورا کرتی ہو. میرے بیان کردہ "کیس" میں یہ سب ایک طالب علم نوجوان کے لئے ممکن نہیں. تو کیا بہتر نہیں کہ وہ حکم کے مطابق اپنے آپ کی حفاظت کے لئے روزے رکھ کر انتظار کرے اور "خود کفیل" ہونے کی کوشش کرے ۔۔۔۔ تاکہ بعد میں کسی پر بوجھ نہ بن جائے.

واللہ اعلم۔
السلامُ علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہُ،
جزاک اللہ خیراً محترم بھائی ابن داود، و ما توفیقی اِلا باللہ،
الحمد للہ ، ہماری اِس گفتگو میں یہ واضح ہے کہ ہم دونوں کی باتوں میں کوئی اختلاف نہیں ، صِرف اِس نکتے پر کچھ الجھاؤ ہے کہ غربت کی حالت میں نِکاح کرنا افضل ہے ، یا روزے رکھنا ؟
میں نے سابقہ پیغام میں ذِکر کیا تھا کہ أئمہ اور عُلماء کرام رحمہم اللہ کی طرف سے ، عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ ُ والی روایت کے سبب غُربت زدہ مُسلمان کے لیے نِکاح کرنے کو مختلف شرعی احکام دیے گئے ہیں ،
آپ کی دِی ہوئی مثال والے طالب عِلم کے لیے نِکاح کرنا مُستحب کے درجے میں آتا ہے ،
اگر کوئی شخص اِس سے بھی زیادہ مالی کمزوری کا، یا جماع کے معاملے میں جِسمانی کمزوری کا شِکار ہو تو پھر اُس کے لیے نِکاح کرنا مکروہ کہا گیا ہے ،
اور جو شخص مالی اور جسمانی طور پر مکمل اِستطاعت رکھتا ہو ، اُس کے لیے نِکاح واجب ہے ،
میرے محترم بھائی ، افضل تو بہر طور وہی عمل ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے احکامات کی زیادہ تائید پاتا ہو، لہذا میرا ، انشراح ء صدر اِسی پر ہے کہ آپ کی دِی ہوئی مِثال میں جِس مُسلمان کا ذِکر کیا گیا ہے وہ مالی طور پر نِکاح کی اِستطاعت پا رہا ہے ، مُستقبل کے لیے اللہ کے وعدے پر اِیمان رکھتے ہوئے اُس کے لیے افضل یہی ہے کہ وہ نِکاح کر ے ،
لیکن اگر اُس کے دِل میں اللہ تعالیٰ کے وعدے پر غیر متزلزل اِیمان نہیں تو وہ نِکاح سے گریز ہی کرے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ اُس کے ساتھ اُس کے اللہ کے بارے میں گُمان کے مُطابق ہی معاملہ فرمائے گا ، اِس لیے اُس کے بہتر یہی ہو گا کہ وہ غیر یقینی کی کیفیت میں ، مُسقتبل کے بارے میں اندیشوں کی موجودگی میں نِکاح نہ کرے ، مُبادا اُس پر مزید کوئی سختی آن پڑے اور وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں کِسی بُرے یا گناہ آلود گمان کا شِکار نہ ہو جائے ،
حاصل ء کلام ::: اِس مسئلے میں ہر شخص کی اِنفرادی حالت دیکھ کر اُس کے مُطابق اُسے کے لیے راہء عمل اختیار کی جائے گی ، کوئی ایک مُشترکہ فیصلہ یا فتویٰ نہیں دِیا جا سکتا جو سب ہی پر لاگو ہوتا ہو، جیسا کہ أئمہ و عُلماء متقدمین کے کلام میں واضح ہے۔ ۔ والسلام علیکم۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اور جو شخص مالی اور جسمانی طور پر مکمل اِستطاعت رکھتا ہو ، اُس کے لیے نِکاح واجب ہے ،
وجوب کس طرح؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
ہم سے عمر بن حفص نے بیان کیا ، مجھ سے ابراہیم نے بیان کیا ، ان سے اعمش نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے ابراہیم نے بیان کیا ، ان سے علقمہ بن قیس نے بیان کیا کہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا ، ان سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے منیٰ میں ملاقات کی اور کہا اے ابو عبد الرحمن ! مجھے آپ سے ایک کام ہے پھر وہ دونوں تنہائی میں چلے گئے ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا اے ابو عبد الرحمن ! کیا آپ منظور کریں گے کہ ہم آپ کا نکاح کسی کنواری لڑکی سے کردیں جو آپ کو گزرے ہوئے ایام یاد دلادے ۔ چونکہ حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتے تھے اس لئے انہوں نے مجھے اشارہ کیا اور کہا علقمہ ! میں جب ان کی خدمت میں پہنچا تو وہ کہہ رہے تھے کہ اگر آپ کایہ مشورہ ہے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا تھا اے نوجوانو ! تم میں جو بھی شادی کی طاقت رکھتا ہو اسے نکاح کر لینا چاہئےا ور جو اس کی طاقت نہ رکھتا ہو وہ روزے رکھے کیونکہ یہ خواہش نفسانی کو توڑ دے گا ۔
صحيح البخاري: كِتَابُ النِّكَاحِ (قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ: «مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمُ البَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ، لِأَنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ» وَهَلْ يَتَزَوَّجُ مَنْ لاَ أَرَبَ لَهُ فِي النِّكَاحِ)
صحیح بخاری: کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان (باب: جو جماع کی طاقت رکھتا ہو شادی کرئے)
(@محمد نعیم یونس بھائی! حدیث کی ویب سائٹ پر ملون الفاظ رہ گئے ہیں!)
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
جزاک اللہ خیرا یا اخی الکریم
محترم شیخ @قاری مصطفی راسخ صاحب
آپ کی توجہ درکار ہے۔ محدث پروجیکٹ ویب سائیٹ میں مذکورہ حدیث مبارکہ کے ترجمے میں رہ جانے والے الفاظ شامل کر دیئے جائیں۔ جزاک اللہ خیرا
مجھے ٹیگ کرنے کی اطلاع موصول نہیں ہوئی، فورم پر گشت کرتے ہوئے یہاں پر پہنچا تو محترم ابن داود بھائی کا دوران مطالعہ ٹیگ دیکھا تو حیرت کا جھٹکا لگا۔۔ ابتسامہ!
 

عادل سہیل

مشہور رکن
شمولیت
اگست 26، 2011
پیغامات
367
ری ایکشن اسکور
941
پوائنٹ
120
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

وجوب کس طرح؟
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ،
محترم بھائی ابن داؤد ،
ایک دفعہ پھر جزاک اللہ خیراً ، اور شکریہ ، کہ آپ بلا تردد و بلا تکلف اپنے سوالات کا اظہار فرما رہے ہیں،
اِس قِسم کی گفتگو اِن شاء اللہ تمام قارئین کے لیے کافی فائدہ مند ہوتی ہے ، کم از کم میرے لیے تو اللہ تعالیٰ اِس میں بہت فائدہ دیتا ہے کہ دوران ء مُطالعہ بہت کچھ نیا سیکھنے کو موقع ملتا ہے ، وللہ الحمد ،
محترم بھائی ، جو شخص مالی اور جسمانی طور پر نکاح کی اِستطاعت رکھتا ہو تو اُس پر نکاح واجب ہونے کی ایک دلیل تو اللہ تبارک و تعالٰی کا وہ فرمان ہے جو میرے مضمون میں ذِکر کیا گیا ((( وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ)))،
اور دُوسری دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا وہ فرمان جو آپ نے اپنے پہلے پیغام ذِکر کیا (((يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ مَنْ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ)))
آیت شریفہ میں """ وَأَنْكِحُوا """، اور حدیث مُبارک میں """ فَلْيَتَزَوَّجْ""" دونوں "امر " ہیں ، اور یہ قاعدہ عُلماء میں معروف و مقبول ہے کہ """الامر یقتضی الوجوب اِلا أن يصرفه صارف"""،
اور اِس آیت شریفہ اور حدیث مُبارکہ میں موجود امر کو وجوب سے ٹالنے والی کوئی نص مُیسر نہیں ، حدیث شریف میں اِس وجوب سے صِرف غیر مستطیع کو مستثنیٰ قرار دِیا گیا ، مستطیع پر حکم جُوں کا تُوں ہی برقرار رہا ،
کچھ عُلماء کرام نے اِس حدیث کے آغاز میں """ يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ""" کو قید سمجھا اور کہا کہ وجوب صِرف ایسے جوانوں کے لیے ہے جو اپنی جنسی خواہش کے جوش پر قابو نہ پا سکتے ہوں ، اور نکاح کرنے کی اِستطاعت بھی رکھتے ہوں ، والسلام علیکم۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
کچھ عُلماء کرام نے اِس حدیث کے آغاز میں """ يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ""" کو قید سمجھا اور کہا کہ وجوب صِرف ایسے جوانوں کے لیے ہے جو اپنی جنسی خواہش کے جوش پر قابو نہ پا سکتے ہوں ، اور نکاح کرنے کی اِستطاعت بھی رکھتے ہوں ، والسلام علیکم۔
یہی رائے درست معلوم ہوتی ہے کہ وجوب کا دارومدار جنسی خواہش کے سبب فسق و فجور میں مبتلا ہونے کے گمان پر ہے! اور فسق و فجور سے بچنے کے وجوب پر کسی کو اختلاف نہیں ، اگر اس کا اندیشہ نہ ہو تو وجوب زائل ہو جاتاہے!
بصورت دیگر ہر وہ شخص جو استطاعت کے باوجود نکاح نہ کرے ، خواہ کہ بلحاظ عمر اس کی جنسی خواہش بھی ماند پڑ چکی ہو اور اس کی بیوی وفات پا چکی ہو، تب بھی مستقل گناہ کا مرتکب قرار پائے گا!
 
Last edited:

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ !
نکاح کرنے سے رِزق میں اضافہ ہونے کا وعدہ اللہ پاک اور اُس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا ہے ، اِس وعدے پر یقین خیالات کی پختگی کا نہیں ، اِیمان کی پختگی کا حاجت مند ہے،
اگر یہی بات تھی تو اگلی آیت میں اللہ تعالٰی نے یہ کیوں کہا کہ
قرآن مجید کا ارشاد ہے:-
‏وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ نِكَاحًا حَتَّىٰ يُغْنِيَهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ
اور جو نکاح کا موقع نہ پائیں انہیں چاہیے کہ عفت مآبی اختیار کریں، یہاں تک کہ اللہ اپنے فضل سے اُن کو غنی کر دے ۔(النور۳۲-۳۳)
اس آیت کا مطلب تو ہوا کہ نکاح کرنا رزق ملنے کی شرط نہیں ہے۔ اگر نکاح کرنے سے رزق ملتا تو اس آیت کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ بلکہ اس آیت سے تو معلوم ہوتا ہے کہ پہلے مال ہو پھر نکاح کیا جائے۔ دوسرا یہ کہ ایک مجرد آدمی بھی اللہ تعالٰی کے فضل سے غنی ہو سکتا ہے۔ کو بھی اللہ تعالٰی بغیر نکاح کے رزق دے سکتا ہے۔ جبکہ یہ معاملہ بھی ان ایمان والوں کا ہے جو مال دارنہیں ہیں۔
اس لیے صحیح مؤقف یہی ہو سکتا ہے نکاح کے لیے جسمانی و مالی دونوں استطاعت مطلوب ہیں۔


آیت شریفہ میں """ وَأَنْكِحُوا """، اور حدیث مُبارک میں """ فَلْيَتَزَوَّجْ""" دونوں "امر " ہیں ، اور یہ قاعدہ عُلماء میں معروف و مقبول ہے کہ """الامر یقتضی الوجوب اِلا أن يصرفه صارف"""،اور اِس آیت شریفہ اور حدیث مُبارکہ میں موجود امر کو وجوب سے ٹالنے والی کوئی نص مُیسر نہیں ، حدیث شریف میں اِس وجوب سے صِرف غیر مستطیع کو مستثنیٰ قرار دِیا گیا ، مستطیع پر حکم جُوں کا تُوں ہی برقرار رہا ،
بظاہر یہاں صیغہ امر دیکھ کر علماء کے ایک گروہ نے یہ خیال کرلیا کہ ایسا کرنا واجب ہے۔ حالانکہ معاملے کی نوعیت خود بتارہی ہے کہ یہ حکم وجوب کے معنی میں نہیں ہو سکتا۔ ظاہر ہے کہ کسی شخص کا نکاح پیش نظر ہے ؟ کیا دوسرے لوگ جہاں بھی اس کا نکاح کرنا چاہیں اسے قبول کرلینا چاہیے ؟ اگر یہ اس پر فرض ہے تو گویا اس کے نکاح میں اس کی اپنی مرضی کا دخل نہیں۔ اور اگر اسے انکار کا حق ہے تو جن پر یہ کام واجب ہے وہ آخر اپنے فرض سے کس طرح سبکدوش ہوں ؟ ان ہی پہلوؤں کو ٹھیک ٹھیک سمجھ کر جمہور فقہاء نے یہ رائے قائم کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد اس کام کو واجب نہیں بلکہ مندوب قرار دیتا ہے، یعنی اس کا مطلب دراصل یہ ہے کہ مسلمانوں کو عام طور پر یہ فکر ہونی چاہیے کہ ان کے معاشرے میں لوگ بن بیا ہے نہ بیٹھے رہیں۔ خاندان والے، دوست، ہمسائے سب اس معاملے میں دلچسپی لیں، اور جس کا کوئی نہ ہو اس کو حکومت اس کام میں مدد دے۔ (تفہیم القرآن)
 
Last edited:
Top