:::::: نِکاح ، شادی اور رِزق :::::::
بِسّمِ اللہ الرّ حمٰنِ الرَّحیم
اِنَّ اَلحَمدَ لِلِّہِ نَحمَدہ، وَ نَستَعِینہ، وَ نَستَغفِرہ، وَ نَعَوذ بَاللَّہِ مِن شرورِ أنفسِنَا وَ مِن سِیَّأاتِ أعمَالِنَا ، مَن یَھدِ ہ اللَّہُ فَلا مُضِلَّ لَہ ُ وَ مَن یُضلِل ؛ فَلا ھَاديَ لَہ ُ، وَ أشھَد أن لا إِلٰہَ إِلَّا اللَّہ وَحدَہ لا شَرِیکَ لَہ ، وَ أشھَد أن مُحمَداً عَبدہُ، وَ رَسو لہُ، بے شک خالص تعریف اللہ کے لیے ہے ، ہم اُس کی ہی تعریف کرتے ہیں اور اُس سے ہی مدد طلب کرتے ہیں اور اُس سے ہی مغفرت طلب کرتے ہیں اور اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں اپنی جانوں کی بُرائی سے اور اپنے گندے کاموں سے ، جِسے اللہ ہدایت دیتا ہے اُسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا ، اور جِسے اللہ گُمراہ کرتا ہے اُسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک اللہ کے عِلاوہ کوئی سچا اور حقیقی معبود نہیں اور وہ اکیلا ہے اُس کا کوئی شریک نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک محمد اللہ کے بندے اور اُس کے رسول ہیں :
أما بعد ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
اِیمانی کمزرویوں کے سبب ہمارے معاشرے میں پائی جانی والی بیماریوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ والدین عموماً اپنی اولاد کی شادی کرنے میں دیر کرتے ہیں ، اور دیر کرنے کا بڑا سبب دُنیاوی مال و دولت کی کمی بناتے ہیں ، دُنیاوی مال کی کمی کے سبب اپنی اولاد کی شادی میں تاخیر کرنا اِیمان کی کمزوری کی علامت ہے ،
کہنے کو تو ہم کہتے ہیں کہ اللہ رزق دینے والا ہے ، لیکن بہت سے دیگر ز ُبانی عقائد کی طرح یہ عقیدہ بھی ہماری ز ُبانوں تک ہی ہوتا ہے ، اگر سینوں میں ہو تو اس پر عمل بھی نظر آئے ،
اگر ہمیں یقین ہو کہ ((((( وَكَأَيِّنْ مِنْ دَابَّةٍ لَا تَحْمِلُ رِزْقَهَا اللَّهُ يَرْزُقُهَا وَإِيَّاكُمْ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ::: اور کتنے ہی چوپایے ایسے ہیں جو اپنا رزق (اپنے ساتھ)اُٹھائے تو نہیں پھرتے (لیکن)اللہ ہی اُنہیں رِزق دیتا ہے اور تُم لوگوں کو بھی ،اور اللہ سننے والا بہت زیادہ عِلم والا ہے)))))سورت العنکبوت،آیت 60 ،
(((((إِنَّ اللهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ:::بے شک اللہ ہی بہت رزق دینے والا ، زبردست قوت والا ہے )))))سورت الذاریات/آیت58،
اِن مذکورہ بالا دو آیات کے علاوہ اور بھی کئی آیات مُبارکہ میں اللہ پاک نے اس بات کی ضمانت دی ہے کہ وہی اپنی تمام تر مخلوق کو رزق دیتا ہے ،پس کسی ایک جان کو کسی دوسرے کے رزق کی فکر نہیں ہونی چاہیے ، اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ نے ہر جان کا رزق اپنی رحمت اور بے عیب حِکمت کے مطابق مقرر فرما رکھا ہے ، خاوند، باپ بھائی وغیرہ اپنے اہل خانہ و خاندان تک ان کا رزق پہنچانے کا ذریعہ ہی ہوتے ہیں ، رازق صِرف اور صِرف اللہ ہی ہے،
اور خاص طور پر نکاح کے معاملے میں بھی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے یقین دھانی کروائی گئی ہے کہ نکاح رزق میں کمی کا نہیں بلکہ اضافے کا سبب ہوتا ہے ،
اللہ تبارک و تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ (((((وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ:::اور تم لوگ اپنے میں سے اکیلے (بغیر بیوی والے مرودوں اور بغیر شوہر والی عورتوں)اور اپنے نیک غُلاموں اور باندیوں کے نکاح کر دیا کرواگر وہ غریب ہیں( تو اس سے مت گھبراو) اللہ انہیں اپنے فضل سے مالدار کر دے گا اور اللہ بہت وسعت والا اور بہت علم والا ہے )))))سورت النور/آیت 32،
پس غریب یا کم مال ہونے کے سبب سے شادی میں تاخیر کرنا کسی بھی طور مناسب نہیں، بلکہ اللہ پر توکل کے خِلاف ہے جو سراسر کمزوریء اِیمان کی علامت ہے ، اور اللہ کی زمین مین فتنے اور فساد کا سبب ہے ، جِس کی خبر اللہ پاک نے اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی مُقدس، پاکیزہ اور معصوم ز ُبان سے کروائی اور حُکم کروایا کہ کہ (((((إِذَا خَطَبَ إِلَيْكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِينَهُ وَخُلُقَهُ فَزَوِّجُوهُ، إِلاَّ تَفْعَلُوا تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الأَرْضِ، وَفَسَادٌ عَرِيضٌ ::: اگر تم لوگوں سے کوئی ایسا شخص رشتہ طلب کرے جس کا دین اور کردار تم لوگوں کو اچھا لگے تو اس کی(اپنی لڑکی، بہن بیٹی جس کا اس نے رشتہ طلب کیا ہو ، اس سے)شادی کر دو ، اگر تُم لوگ ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ ہو جائے گا اور بہت بڑا فساد ہو جائے گا )))))سُنن الترمذی /حدیث1107/کتاب النکاح /باب3،سُنن ابن ماجہ/حدیث2043/کتاب النکاح/باب46 ، اِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے کہا حدیث حسن ہے ،
ہمیں تو اللہ پاک نے اپنے حبیب علیہ الصلاۃ و السلام کے ذریعے یہ خوش خبری بھی دے رکھی ہے کہ (((((ثَلاَثَةٌ حَقٌّ عَلَى اللَّهِ عَوْنُهُمُ الْمُجَاهِدُ فِى سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمُكَاتَبُ الَّذِى يُرِيدُ الأَدَاءَ وَالنَّاكِحُ الَّذِى يُرِيدُ الْعَفَافَ:::تین لوگوں کی مدد کرنا اللہ پر اُن لوگوں کا حق ہے ، (1) اللہ کی راہ میں جِہاد کرنے والا ، (2) غُلامی اور قرض وغیرہ سے آزادی حاصل کرنے کی کوشش کرنے والا، (3)اور اپنی عِفت محفوظ رکھنے کے لیے نکاح کرنے والا)))))سُنن الترمذی/حدیث1655/کتاب الجھاد/باب20،امام الترمذی رحمہُ اللہ نے کہا """حدیث حَسن صحیح """ہے ، اور اِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے """حَسن""" قرار دیا،
پس یہ بات یقینی ہے کہ نیک نیتی سے، اپنی عِزت و عِفت محفوظ رکھنے کی نیت سے نکاح کرنے والے کی مدد اللہ تعالیٰ خود کرتا ہے اور ایسے لوگوں کے لیے نکاح کرنے سے رزق میں کمی نہیں ہوتی بلکہ اضافے کا سبب ہو جاتا ہے ،
::::::: صحابہ رضی اللہ عنہم اس حقیقت کو نہ صِرف جانتے تھے بلکہ اِس کی تعلیم بھی دیتے تھے :::::::
:::::::خلیفہ اول بلا فصل أمیر المومنین ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ُ کا فرمان:::::::
ابھی ذِکر کی گئی سُورت النور کی آیت رقم 32 کی تفسیر میں اِمام عبد الرحمن بن محمدابن ابی حاتم الرازی رحمہ ُ اللہ نے اپنی تفسیر """ تفسير القرآن العظيم مسندا عن الرسول صلى الله عليه وسلم و الصحابة و التابعين """ میں اپنی سند کے ساتھ ذکر کیا کہ:::
""""" أَنَّ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّيقَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ ، أَطِيعُوا اللَّهَ فِيمَا أَمَرَكُمْ بِهِ مِنَ النِّكَاحِ، يُنْجِزْ لَكُمْ مَا وَعَدَكُمْ مِنَ الْغِنَى، قَالَ تَعَالَى،،، إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِه:::ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ُ کا فرمان ہے کہ ، اللہ تعالیٰ نے نکاح کرنے کے بارے میں تُم لوگوں کو جو حُکم دِیا ہے اُس میں اُس کی اطاعت کرو ، اللہ نے تُم لوگوں سے تونگری دینے کا جو وعدہ کیا ہے وہ اُسے پورا کرے گا ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ((((( إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِه ::: اگر وہ غریب ہیں( تو اس سے مت گھبراو) اللہ انہیں اپنے فضل سے مالدار کر دے گا)))))) """""
::::: خلیفہ دوئم بلا فصل أمیر المؤمنین عمر رضی اللہ عنہ ُ کا فرمان :::::
اسی آیت کی تفسیر میں اِمام ابو محمد الحسین بن مسعود البغوی رحمہُ اللہ نے اپنی تفیسر """معالم التزیل فی تفسیر القران، المعروف بالتفسیر البغوی """ میں ذِکر کیا ہے کہ """"" وَقَالَ عُمَرُ ، عَجِبْتُ لِمَنِ ابْتَغَى الْغِنَى بِغَيْرِ النِّكَاحِ، وَاللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ،،، إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِه:::اور عُمر (رضی اللہ عنہ ُ ) نے فرمایا ، میں اس کے بارے میں حیران ہوں جو نکاح کیے بغیر تونگری چاہتا ہے ، جبکہ اللہ عَز ّو جَلَّ تو کہتا ہے کہ،،، إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِه:::اگر وہ غریب ہیں( تو اس سے مت گھبراو) اللہ انہیں اپنے فضل سے مالدار کر دے گا """"""،
::::: عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ ُ کا فرمان :::::
اِمام مُحمد بن جریر ابو جعفر الطبری نے اپنی تفیسر """جامع البيان في تأويل القرآن ، المعروف تفسیر الطبری """ میں اپنی سند کے ساتھ لکھا """""عن عبداللہ بن مسعود،،،التَمِسُوا الغِنَى فِي النِّکاح ،،، يَقُولُ اللہُ تَعالیٰ ،،، إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِه ::: ابن مسعود (رضی اللہ عنہ ُ)کے بارے میں روایت ہے کہ (انہوں نے فرمایا )نکاح میں تونگری تلاش کرو ،،، اللہ تعالیٰ کہتا ہے،،، إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِه:::اگر وہ غریب ہیں(تو اس سے مت گھبراو) اللہ انہیں اپنے فضل سے مالدار کر دے گا """"""،
اِمام اِسماعیل بن عُمر ابن کثیر نے اپنی """ تفیسر القران العظیم ، المعروف تفسیر ابن کثیر """ میں بھی اِسی حوالے سے اِس قول کو نقل کِیا ہے ،
جو لوگ کسی شرعی عُذر کے سبب اپنے بچوں کی شادیوں میں تاخیر کرتے ہیں ، کوئی لڑکوں کی کمائی کے انتظار میں رہتا ہے اور کوئی لڑکیوں کے لیے مالدار رشتے کے انتظار میں ، وہ سب ہی اِس حقیقت سے لا علم ہوتے ہیں ، یا یوں کہیے کہ اِس حقیقت کو ماننے والے نہیں ہوتے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ جب ، جیسے اور جس کا چاہے رزق بڑھا دیتا ہے یا گھٹا دیتا ہے ، پس مال و دولت کے انتظار میں اپنے بچے بچیوں کی شادیوں میں تاخیر کرنا خود کو اور اپنے اہل خانہ ، اہل خاندان اور پورے ہی معاشرے کو مشکل میں ڈالے رکھنا ہے جو کہ نہ تو اخلاقاً درست ہے نہ ہی شرعاً ،
غُربت نکاح نہ کرنے کا کوئی عُذر نہیں جب اللہ نے اپنے کلام مبارک میں اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی مُقدس ، پاکیزہ اور معصوم ز ُبان سے ہمیں یہ مذکورہ بالا خوشخبریاں دے رکھی ہیں تو ہمیں اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی دی ہوئی خوش خبریوں پر اِیمان رکھنا ہی چاہیے ، اوراپنی ،اپنے بہنوں بھائیوں اور اپنے بچوں کے نکاح میں کسی شرع عُذر کے بغیر تاخیر نہیں کرنی چاہیے ،
اگر کسی کا معاملہ اِن مذکورہ بالا خوشخبریوں کے مطابق ظاہر نہیں ہوتا تو وہ اس کی ایمان کی کمزوری اور اللہ کے ساتھ اُس کے گمان کے مطابق ہوتا ہے ، اس کی خبر بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کریم مُحمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی پاکیزہ اور معصوم ز ُبان مُبارک سے ادا کروائی کہ (((((يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِى بِى ، ،،،،:::اللہ تعالیٰ کہتا ہے ، میں اپنے بندے کے پاس میرے بارے میں اُس کے گُمان کے مطابق ہوتا ہوں(یعنی اُس کے گُمان کے مطابق اُس کے ساتھ معاملہ کرتا ہوں)،،،،،)))))صحیح البُخاری/حدیث7405/کتاب التوحید/باب15،صحیح مُسلم /حدیث6981/کتاب الزِکر و الدُعاء و التوبہ/ پہلا باب،
پس ہر مسلمان کو اللہ کی کتاب ، اُس کے نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح سُنّت مُبارکہ اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے جماعت کے اقوال و افعال کے مطابق اپنے عقائد کی اصلاح کرنا چاہیے ، اپنے اِیمان کی پرکھ کرنا چاہیے ،اورسچے پکے اِیمان کے ساتھ اللہ پر حقیقی توکل کرتے ہوئے اپنے تمام تر معاملات نبھانے چاہیں ، اللہ رزق دینے والا ہے ، اپنی مخلوق کو اُس کے بارے میں گُمان اور اُس پر توکل کے مطابق رزق دیتا ہے ،
اللہ نے اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز ُبان مبارک سے یہ جو خبر کروائی ہے حق ہے کہ (((((لَوْ أَنَّكُمْ تَوَكَّلْتُمْ عَلَى اللَّهِ حَقَّ تَوَكُّلِهِ لَرَزَقَكُمْ كَمَا يَرْزُقُ الطَّيْرَ تَغْدُو خِمَاصًا وَتَرُوحُ بِطَانًا :::اگر تُم لوگ اللہ پر توکل کا حق ادا کرتے ہوئے توکل کرو تو یقیناً وہ تم لوگوں کو اُس طرح رزق دے گا جِس طرح پرندوں کو دیتا ہے کہ وہ خالی پیٹ صُبحُ کرتے ہیں اور شام کو بھرے پیٹ ہوتے ہیں)))))سُنن ابن ماجہ/حدیث4303/کتاب الزُھد/باب14،سُنن الترمذی/حدیث2515/کتاب الزُھد /باب33،، مُسند احمد میں مُسند عُمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ ُ کی حدیث رقم 127، امام الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دیا۔
اللہ ہی ہے جو ہمیں سچا پکا اِیمان اور اُس پر حقیقی توکل کرنے کی توفیق دینے والا ہے ، ہمیں کوشش کرنا ہے اور کرتے ہی رہنا ہے ، و السلام علیکم۔
طلبگارءدُعا ء ، عادل سہیل ظفر ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ """ یہاں """ سے اتارا جا سکتا ہے ۔