• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

:::::: نِکاح ، شادی اور رِزق :::::::

عادل سہیل

مشہور رکن
شمولیت
اگست 26، 2011
پیغامات
367
ری ایکشن اسکور
943
پوائنٹ
120
:::::: نِکاح ، شادی اور رِزق :::::::



بِسّمِ اللہ الرّ حمٰنِ الرَّحیم
اِنَّ اَلحَمدَ لِلِّہِ نَحمَدہ، وَ نَستَعِینہ، وَ نَستَغفِرہ، وَ نَعَوذ بَاللَّہِ مِن شرورِ أنفسِنَا وَ مِن سِیَّأاتِ أعمَالِنَا ، مَن یَھدِ ہ اللَّہُ فَلا مُضِلَّ لَہ ُ وَ مَن یُضلِل ؛ فَلا ھَاديَ لَہ ُ، وَ أشھَد أن لا إِلٰہَ إِلَّا اللَّہ وَحدَہ لا شَرِیکَ لَہ ، وَ أشھَد أن مُحمَداً عَبدہُ، وَ رَسو لہُ،
بے شک خالص تعریف اللہ کے لیے ہے ، ہم اُس کی ہی تعریف کرتے ہیں اور اُس سے ہی مدد طلب کرتے ہیں اور اُس سے ہی مغفرت طلب کرتے ہیں اور اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں اپنی جانوں کی بُرائی سے اور اپنے گندے کاموں سے ، جِسے اللہ ہدایت دیتا ہے اُسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا ، اور جِسے اللہ گُمراہ کرتا ہے اُسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک اللہ کے عِلاوہ کوئی سچا اور حقیقی معبود نہیں اور وہ اکیلا ہے اُس کا کوئی شریک نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک محمد اللہ کے بندے اور اُس کے رسول ہیں :
أما بعد ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
اِیمانی کمزرویوں کے سبب ہمارے معاشرے میں پائی جانی والی بیماریوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ والدین عموماً اپنی اولاد کی شادی کرنے میں دیر کرتے ہیں ، اور دیر کرنے کا بڑا سبب دُنیاوی مال و دولت کی کمی بناتے ہیں ، دُنیاوی مال کی کمی کے سبب اپنی اولاد کی شادی میں تاخیر کرنا اِیمان کی کمزوری کی علامت ہے ،
کہنے کو تو ہم کہتے ہیں کہ اللہ رزق دینے والا ہے ، لیکن بہت سے دیگر ز ُبانی عقائد کی طرح یہ عقیدہ بھی ہماری ز ُبانوں تک ہی ہوتا ہے ، اگر سینوں میں ہو تو اس پر عمل بھی نظر آئے ،
اگر ہمیں یقین ہو کہ ((((( وَكَأَيِّنْ مِنْ دَابَّةٍ لَا تَحْمِلُ رِزْقَهَا اللَّهُ يَرْزُقُهَا وَإِيَّاكُمْ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ::: اور کتنے ہی چوپایے ایسے ہیں جو اپنا رزق (اپنے ساتھ)اُٹھائے تو نہیں پھرتے (لیکن)اللہ ہی اُنہیں رِزق دیتا ہے اور تُم لوگوں کو بھی ،اور اللہ سننے والا بہت زیادہ عِلم والا ہے)))))سورت العنکبوت،آیت 60 ،
(((((إِنَّ اللهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ:::بے شک اللہ ہی بہت رزق دینے والا ، زبردست قوت والا ہے )))))سورت الذاریات/آیت58،
اِن مذکورہ بالا دو آیات کے علاوہ اور بھی کئی آیات مُبارکہ میں اللہ پاک نے اس بات کی ضمانت دی ہے کہ وہی اپنی تمام تر مخلوق کو رزق دیتا ہے ،پس کسی ایک جان کو کسی دوسرے کے رزق کی فکر نہیں ہونی چاہیے ، اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ نے ہر جان کا رزق اپنی رحمت اور بے عیب حِکمت کے مطابق مقرر فرما رکھا ہے ، خاوند، باپ بھائی وغیرہ اپنے اہل خانہ و خاندان تک ان کا رزق پہنچانے کا ذریعہ ہی ہوتے ہیں ، رازق صِرف اور صِرف اللہ ہی ہے،
اور خاص طور پر نکاح کے معاملے میں بھی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے یقین دھانی کروائی گئی ہے کہ نکاح رزق میں کمی کا نہیں بلکہ اضافے کا سبب ہوتا ہے ،
اللہ تبارک و تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ (((((وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ:::اور تم لوگ اپنے میں سے اکیلے (بغیر بیوی والے مرودوں اور بغیر شوہر والی عورتوں)اور اپنے نیک غُلاموں اور باندیوں کے نکاح کر دیا کرواگر وہ غریب ہیں( تو اس سے مت گھبراو) اللہ انہیں اپنے فضل سے مالدار کر دے گا اور اللہ بہت وسعت والا اور بہت علم والا ہے )))))سورت النور/آیت 32،
پس غریب یا کم مال ہونے کے سبب سے شادی میں تاخیر کرنا کسی بھی طور مناسب نہیں، بلکہ اللہ پر توکل کے خِلاف ہے جو سراسر کمزوریء اِیمان کی علامت ہے ، اور اللہ کی زمین مین فتنے اور فساد کا سبب ہے ، جِس کی خبر اللہ پاک نے اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی مُقدس، پاکیزہ اور معصوم ز ُبان سے کروائی اور حُکم کروایا کہ کہ (((((إِذَا خَطَبَ إِلَيْكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِينَهُ وَخُلُقَهُ فَزَوِّجُوهُ، إِلاَّ تَفْعَلُوا تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الأَرْضِ، وَفَسَادٌ عَرِيضٌ ::: اگر تم لوگوں سے کوئی ایسا شخص رشتہ طلب کرے جس کا دین اور کردار تم لوگوں کو اچھا لگے تو اس کی(اپنی لڑکی، بہن بیٹی جس کا اس نے رشتہ طلب کیا ہو ، اس سے)شادی کر دو ، اگر تُم لوگ ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ ہو جائے گا اور بہت بڑا فساد ہو جائے گا )))))سُنن الترمذی /حدیث1107/کتاب النکاح /باب3،سُنن ابن ماجہ/حدیث2043/کتاب النکاح/باب46 ، اِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے کہا حدیث حسن ہے ،
ہمیں تو اللہ پاک نے اپنے حبیب علیہ الصلاۃ و السلام کے ذریعے یہ خوش خبری بھی دے رکھی ہے کہ (((((ثَلاَثَةٌ حَقٌّ عَلَى اللَّهِ عَوْنُهُمُ الْمُجَاهِدُ فِى سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمُكَاتَبُ الَّذِى يُرِيدُ الأَدَاءَ وَالنَّاكِحُ الَّذِى يُرِيدُ الْعَفَافَ:::تین لوگوں کی مدد کرنا اللہ پر اُن لوگوں کا حق ہے ، (1) اللہ کی راہ میں جِہاد کرنے والا ، (2) غُلامی اور قرض وغیرہ سے آزادی حاصل کرنے کی کوشش کرنے والا، (3)اور اپنی عِفت محفوظ رکھنے کے لیے نکاح کرنے والا)))))سُنن الترمذی/حدیث1655/کتاب الجھاد/باب20،امام الترمذی رحمہُ اللہ نے کہا """حدیث حَسن صحیح """ہے ، اور اِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے """حَسن""" قرار دیا،
پس یہ بات یقینی ہے کہ نیک نیتی سے، اپنی عِزت و عِفت محفوظ رکھنے کی نیت سے نکاح کرنے والے کی مدد اللہ تعالیٰ خود کرتا ہے اور ایسے لوگوں کے لیے نکاح کرنے سے رزق میں کمی نہیں ہوتی بلکہ اضافے کا سبب ہو جاتا ہے ،
::::::: صحابہ رضی اللہ عنہم اس حقیقت کو نہ صِرف جانتے تھے بلکہ اِس کی تعلیم بھی دیتے تھے :::::::
:::::::خلیفہ اول بلا فصل أمیر المومنین ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ُ کا فرمان:::::::

ابھی ذِکر کی گئی سُورت النور کی آیت رقم 32 کی تفسیر میں اِمام عبد الرحمن بن محمدابن ابی حاتم الرازی رحمہ ُ اللہ نے اپنی تفسیر """ تفسير القرآن العظيم مسندا عن الرسول صلى الله عليه وسلم و الصحابة و التابعين """ میں اپنی سند کے ساتھ ذکر کیا کہ:::
""""" أَنَّ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّيقَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ ، أَطِيعُوا اللَّهَ فِيمَا أَمَرَكُمْ بِهِ مِنَ النِّكَاحِ، يُنْجِزْ لَكُمْ مَا وَعَدَكُمْ مِنَ الْغِنَى، قَالَ تَعَالَى،،، إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِه:::ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ُ کا فرمان ہے کہ ، اللہ تعالیٰ نے نکاح کرنے کے بارے میں تُم لوگوں کو جو حُکم دِیا ہے اُس میں اُس کی اطاعت کرو ، اللہ نے تُم لوگوں سے تونگری دینے کا جو وعدہ کیا ہے وہ اُسے پورا کرے گا ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ((((( إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِه ::: اگر وہ غریب ہیں( تو اس سے مت گھبراو) اللہ انہیں اپنے فضل سے مالدار کر دے گا)))))) """""
::::: خلیفہ دوئم بلا فصل أمیر المؤمنین عمر رضی اللہ عنہ ُ کا فرمان :::::
اسی آیت کی تفسیر میں اِمام ابو محمد الحسین بن مسعود البغوی رحمہُ اللہ نے اپنی تفیسر """معالم التزیل فی تفسیر القران، المعروف بالتفسیر البغوی """ میں ذِکر کیا ہے کہ """"" وَقَالَ عُمَرُ ، عَجِبْتُ لِمَنِ ابْتَغَى الْغِنَى بِغَيْرِ النِّكَاحِ، وَاللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ،،، إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِه:::اور عُمر (رضی اللہ عنہ ُ ) نے فرمایا ، میں اس کے بارے میں حیران ہوں جو نکاح کیے بغیر تونگری چاہتا ہے ، جبکہ اللہ عَز ّو جَلَّ تو کہتا ہے کہ،،، إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِه:::اگر وہ غریب ہیں( تو اس سے مت گھبراو) اللہ انہیں اپنے فضل سے مالدار کر دے گا """"""،
::::: عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ ُ کا فرمان :::::
اِمام مُحمد بن جریر ابو جعفر الطبری نے اپنی تفیسر """جامع البيان في تأويل القرآن ، المعروف تفسیر الطبری """ میں اپنی سند کے ساتھ لکھا """""عن عبداللہ بن مسعود،،،التَمِسُوا الغِنَى فِي النِّکاح ،،، يَقُولُ اللہُ تَعالیٰ ،،، إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِه ::: ابن مسعود (رضی اللہ عنہ ُ)کے بارے میں روایت ہے کہ (انہوں نے فرمایا )نکاح میں تونگری تلاش کرو ،،، اللہ تعالیٰ کہتا ہے،،، إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِه:::اگر وہ غریب ہیں(تو اس سے مت گھبراو) اللہ انہیں اپنے فضل سے مالدار کر دے گا """"""،
اِمام اِسماعیل بن عُمر ابن کثیر نے اپنی """ تفیسر القران العظیم ، المعروف تفسیر ابن کثیر """ میں بھی اِسی حوالے سے اِس قول کو نقل کِیا ہے ،
جو لوگ کسی شرعی عُذر کے سبب اپنے بچوں کی شادیوں میں تاخیر کرتے ہیں ، کوئی لڑکوں کی کمائی کے انتظار میں رہتا ہے اور کوئی لڑکیوں کے لیے مالدار رشتے کے انتظار میں ، وہ سب ہی اِس حقیقت سے لا علم ہوتے ہیں ، یا یوں کہیے کہ اِس حقیقت کو ماننے والے نہیں ہوتے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ جب ، جیسے اور جس کا چاہے رزق بڑھا دیتا ہے یا گھٹا دیتا ہے ، پس مال و دولت کے انتظار میں اپنے بچے بچیوں کی شادیوں میں تاخیر کرنا خود کو اور اپنے اہل خانہ ، اہل خاندان اور پورے ہی معاشرے کو مشکل میں ڈالے رکھنا ہے جو کہ نہ تو اخلاقاً درست ہے نہ ہی شرعاً ،
غُربت نکاح نہ کرنے کا کوئی عُذر نہیں جب اللہ نے اپنے کلام مبارک میں اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی مُقدس ، پاکیزہ اور معصوم ز ُبان سے ہمیں یہ مذکورہ بالا خوشخبریاں دے رکھی ہیں تو ہمیں اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی دی ہوئی خوش خبریوں پر اِیمان رکھنا ہی چاہیے ، اوراپنی ،اپنے بہنوں بھائیوں اور اپنے بچوں کے نکاح میں کسی شرع عُذر کے بغیر تاخیر نہیں کرنی چاہیے ،
اگر کسی کا معاملہ اِن مذکورہ بالا خوشخبریوں کے مطابق ظاہر نہیں ہوتا تو وہ اس کی ایمان کی کمزوری اور اللہ کے ساتھ اُس کے گمان کے مطابق ہوتا ہے ، اس کی خبر بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کریم مُحمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی پاکیزہ اور معصوم ز ُبان مُبارک سے ادا کروائی کہ (((((يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِى بِى ، ،،،،:::اللہ تعالیٰ کہتا ہے ، میں اپنے بندے کے پاس میرے بارے میں اُس کے گُمان کے مطابق ہوتا ہوں(یعنی اُس کے گُمان کے مطابق اُس کے ساتھ معاملہ کرتا ہوں)،،،،،)))))صحیح البُخاری/حدیث7405/کتاب التوحید/باب15،صحیح مُسلم /حدیث6981/کتاب الزِکر و الدُعاء و التوبہ/ پہلا باب،
پس ہر مسلمان کو اللہ کی کتاب ، اُس کے نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح سُنّت مُبارکہ اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے جماعت کے اقوال و افعال کے مطابق اپنے عقائد کی اصلاح کرنا چاہیے ، اپنے اِیمان کی پرکھ کرنا چاہیے ،اورسچے پکے اِیمان کے ساتھ اللہ پر حقیقی توکل کرتے ہوئے اپنے تمام تر معاملات نبھانے چاہیں ، اللہ رزق دینے والا ہے ، اپنی مخلوق کو اُس کے بارے میں گُمان اور اُس پر توکل کے مطابق رزق دیتا ہے ،
اللہ نے اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز ُبان مبارک سے یہ جو خبر کروائی ہے حق ہے کہ (((((لَوْ أَنَّكُمْ تَوَكَّلْتُمْ عَلَى اللَّهِ حَقَّ تَوَكُّلِهِ لَرَزَقَكُمْ كَمَا يَرْزُقُ الطَّيْرَ تَغْدُو خِمَاصًا وَتَرُوحُ بِطَانًا :::اگر تُم لوگ اللہ پر توکل کا حق ادا کرتے ہوئے توکل کرو تو یقیناً وہ تم لوگوں کو اُس طرح رزق دے گا جِس طرح پرندوں کو دیتا ہے کہ وہ خالی پیٹ صُبحُ کرتے ہیں اور شام کو بھرے پیٹ ہوتے ہیں)))))سُنن ابن ماجہ/حدیث4303/کتاب الزُھد/باب14،سُنن الترمذی/حدیث2515/کتاب الزُھد /باب33،، مُسند احمد میں مُسند عُمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ ُ کی حدیث رقم 127، امام الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دیا۔
اللہ ہی ہے جو ہمیں سچا پکا اِیمان اور اُس پر حقیقی توکل کرنے کی توفیق دینے والا ہے ، ہمیں کوشش کرنا ہے اور کرتے ہی رہنا ہے ، و السلام علیکم۔
طلبگارءدُعا ء ، عادل سہیل ظفر ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ """ یہاں """ سے اتارا جا سکتا ہے ۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
جزاک اللہ خیرا
بہت زبردست
یہ مضمون تو بہت اچھا ہے۔ماشاءاللہ

عادل سہیل بھائی،ایک سوال ہے اگر کوئی شخص جاب یا کاروبار نہ کرتا ہو اور ابھی پڑھائی کے مرحلے میں ہو،لیکن وہ گناہوں میں مبتلا ہونے کے خوف سے نکاح کی خواہش رکھتا ہو،اور اس کے گھر والے یہ کہیں کہ جب تک کوئی کام نہیں کرلیتے اور اچھی آمدنی نہیں آ جاتی تو اس مہنگائی کے دور میں شادی کرنا صحیح نہیں،تو ایسی صورت میں ایک عام آدمی کیا کرے؟
 

عادل سہیل

مشہور رکن
شمولیت
اگست 26، 2011
پیغامات
367
ری ایکشن اسکور
943
پوائنٹ
120
جزاک اللہ خیرا
بہت زبردست
یہ مضمون تو بہت اچھا ہے۔ماشاءاللہ

عادل سہیل بھائی،ایک سوال ہے اگر کوئی شخص جاب یا کاروبار نہ کرتا ہو اور ابھی پڑھائی کے مرحلے میں ہو،لیکن وہ گناہوں میں مبتلا ہونے کے خوف سے نکاح کی خواہش رکھتا ہو،اور اس کے گھر والے یہ کہیں کہ جب تک کوئی کام نہیں کرلیتے اور اچھی آمدنی نہیں آ جاتی تو اس مہنگائی کے دور میں شادی کرنا صحیح نہیں،تو ایسی صورت میں ایک عام آدمی کیا کرے؟
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
کِسی کے والدین کی طرف سے اُن کی اولاد کی شادی کرنے میں دیر کرنے کے جو اسباب آپ نے اپنے سوال میں ذِکر کیے ہیں ، مجھے تو ایسی باتوں کے دو ہی اسباب سُجھائی دیتے ہیں ،
::: (1) ::: نکاح کرنے سے رزق میں اضافہ ہونے کے بارے میں جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی دی ہوئی خوش خبریوں سے لا علمی ،
::: (2) ::: اگر اِن احادیث شریفہ کا عِلم ہے تو پھر اِن پر اِیمان میں کمزوری ،
اگر کِسی کے والدین اُس کی شادی اُس کی مالی حالت کی کمزوری کے سبب نہ کر رہے ہوں ، تو اُس جوان کو چاہیے کہ وہ تمام تر ادب ، محبت اور لجاجت کے ساتھ اپنے والدین کو اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی لہ وسلم کی بتائی ہوئی خوش خبریوں سنائے ،
اور اگر اس کے والدین جانتے ہیں ، یا جاننے کے بعد بھی وسوسوں کا شِکار رہتے ہیں تو یہ اپنی کوشش جاری رکھے اور اِس کے ساتھ ساتھ اُن کے لیے دُعاء بھی کرتا رہے کہ اللہ تعالیٰ اُنہیں سچا اور پکا اِیمان عطاء فرمائے ،
اور اگر اُس کی اپنی جان اور خواہش کا معاملہ اِس قدر شدید ہو جائے کہ وہ خود کو حرام کاری سے بچائے رکھنے میں ناکام محسوس کرنے لگے تو اُسے کِسی نیک لڑکی یا عورت کے ساتھ نکاح کر لینا چاہیے ، کیونکہ مرد اپنا نکاح کرنے میں خود مختار اور آزاد ہے ۔ والسلام علیکم۔
 
شمولیت
جولائی 06، 2014
پیغامات
165
ری ایکشن اسکور
60
پوائنٹ
75
ایک اچھی معلوماتی تحریر کے لیے شکریہ ۔ جزاک اللہ خیرا ۔

قرآن و احادیث اور اسلامی احکامات کی حقانیت پر کوئی کلام اور شبہ نہیں مگر ایک کم علم طالب علم کی حثیت ساے حقیقی زندگی سے مثال لے کر کچھ عرض کرنا چاہوں گا۔

ایک نوجوان، جو اپنی زندگی کے 27 یا 28 ویں سال میں ہے اور ابھی تک کچھ کمانے کا ذریعہ نہیں رکھتا۔ اسکی گزر بسر اپنے بھائیوں یا والدین کے ذریعہ سے ہے۔ نہ تو اسکی کوئی محنت نظر آتی ہے کہ وہ اپنی گزر بسر کے لیے کسی بھی قسم کا فکرمند ہے، اور نہ ہی مستقبل قریب میں اس کا کوئی امکان ہے ۔

اب ان حالات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کیا اس کا مطالبہ نکاح درست ہے جبکہ صاف واضح ہے کہ نکاح کے بعد بھی کوئی ذریعہ آمدن متوقع نہیں ۔ نہ تو لڑکا بہت تعلیم یافتہ ہے اور نہ ہی کوئی کاروبار کا سلسلہ ہے۔

کیا لڑکی والے (ایک مڈل یا لوئر کلاس) صرف اس بنیاد پر اس کو بیٹی دے دیں کہ دینی لحاظ سے لڑکا ٹھیک ہے؟ ایک آمدنی اور کمائی والا بندہ ذمہ دار ہوتا ہے اور احساس ذمہ داری ایک بڑی چیز ہے۔ یعنی لڑکی والے یہ جانتے ہیں کہ ابھی تو لڑکا خود اپنے گزر بسر کے لیے کمائی نہیں کر رہا تو کیا شادی کے بعد ان دونوں کی کفالت اس کے بھائی کریں گے تو کیا ان کے لیے یہ صورتحال کوئی مسئلہ نہیں ہونی چاہیے؟

یہ میرے اپنی زندگی سے کچھ حقیقی سوال ہیں جو کہ پریشان کرتے ہیں۔ کچھ ایسی مثالیں موجود ہیں کہ صرف اسی بنیاد پہ نکاح کر دیئے گئے کہ نکاح کا وقت ہوچکا تھا مگر بعد میں جو معاشرتی ابتری واضح ہوئی تو۔۔۔۔۔۔۔

Sent from my SM-N910C using Tapatalk
 

عادل سہیل

مشہور رکن
شمولیت
اگست 26، 2011
پیغامات
367
ری ایکشن اسکور
943
پوائنٹ
120
ایک اچھی معلوماتی تحریر کے لیے شکریہ ۔ جزاک اللہ خیرا ۔

قرآن و احادیث اور اسلامی احکامات کی حقانیت پر کوئی کلام اور شبہ نہیں مگر ایک کم علم طالب علم کی حثیت ساے حقیقی زندگی سے مثال لے کر کچھ عرض کرنا چاہوں گا۔

ایک نوجوان، جو اپنی زندگی کے 27 یا 28 ویں سال میں ہے اور ابھی تک کچھ کمانے کا ذریعہ نہیں رکھتا۔ اسکی گزر بسر اپنے بھائیوں یا والدین کے ذریعہ سے ہے۔ نہ تو اسکی کوئی محنت نظر آتی ہے کہ وہ اپنی گزر بسر کے لیے کسی بھی قسم کا فکرمند ہے، اور نہ ہی مستقبل قریب میں اس کا کوئی امکان ہے ۔

اب ان حالات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کیا اس کا مطالبہ نکاح درست ہے جبکہ صاف واضح ہے کہ نکاح کے بعد بھی کوئی ذریعہ آمدن متوقع نہیں ۔ نہ تو لڑکا بہت تعلیم یافتہ ہے اور نہ ہی کوئی کاروبار کا سلسلہ ہے۔

کیا لڑکی والے (ایک مڈل یا لوئر کلاس) صرف اس بنیاد پر اس کو بیٹی دے دیں کہ دینی لحاظ سے لڑکا ٹھیک ہے؟ ایک آمدنی اور کمائی والا بندہ ذمہ دار ہوتا ہے اور احساس ذمہ داری ایک بڑی چیز ہے۔ یعنی لڑکی والے یہ جانتے ہیں کہ ابھی تو لڑکا خود اپنے گزر بسر کے لیے کمائی نہیں کر رہا تو کیا شادی کے بعد ان دونوں کی کفالت اس کے بھائی کریں گے تو کیا ان کے لیے یہ صورتحال کوئی مسئلہ نہیں ہونی چاہیے؟

یہ میرے اپنی زندگی سے کچھ حقیقی سوال ہیں جو کہ پریشان کرتے ہیں۔ کچھ ایسی مثالیں موجود ہیں کہ صرف اسی بنیاد پہ نکاح کر دیئے گئے کہ نکاح کا وقت ہوچکا تھا مگر بعد میں جو معاشرتی ابتری واضح ہوئی تو۔۔۔۔۔۔۔

Sent from my SM-N910C using Tapatalk
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ،
اللہ تعالیٰ آپ کو بھی بہترین اجر عطاء فرمائے ، بھائی ابن طاھر،
ہر اچھا اور نیک کام صِرف اللہ کی توفیق سے ہی پورا ہو پاتا ہے ،
گو کہ آپ کے سوال کا جواب مضمون کے آخری حصے میں موجود ہے کہ """ اگر کسی کا معاملہ اِن مذکورہ بالا خوشخبریوں کے مطابق ظاہر نہیں ہوتا تو وہ اس کی ایمان کی کمزوری اور اللہ کے ساتھ اُس کے گمان کے مطابق ہوتا ہے ، اس کی خبر بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کریم مُحمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی پاکیزہ اور معصوم ز ُبان مُبارک سے ادا کروائی کہ (((((يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِى بِى ، ،،،،:::اللہ تعالیٰ کہتا ہے ، میں اپنے بندے کے پاس میرے بارے میں اُس کے گُمان کے مطابق ہوتا ہوں(یعنی اُس کے گُمان کے مطابق اُس کے ساتھ مُعاملہ کرتا ہوں)،،،،،)))))صحیح البُخاری/حدیث7405/کتاب التوحید/باب15،صحیح مُسلم /حدیث6981/کتاب الزِکر و الدُعاء و التوبہ/ پہلا باب،
پس ہر مسلمان کو اللہ کی کتاب ، اُس کے نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح سُنّت مُبارکہ اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے جماعت کے اقوال و افعال کے مطابق اپنے عقائد کی اصلاح کرنا چاہیے ، اپنے اِیمان کی پرکھ کرنا چاہیے ،اورسچے پکے اِیمان کے ساتھ اللہ پر حقیقی توکل کرتے ہوئے اپنے تمام تر معاملات نبھانے چاہیں ، اللہ رزق دینے والا ہے ، اپنی مخلوق کو اُس کے بارے میں گُمان اور اُس پر توکل کے مطابق رزق دیتا ہے """،
اگر کوئی کِسی بے روزگار کو اپنی لڑکی نہیں دیتا ، جبکہ اُس بے روزگار میں کوئی دینی یا اخلاقی عیب نہیں ، اور کمائی کر سکنے کی صلاحیت موجود ہے ، لیکن مواقع میسر نہیں تو یہ بھی اِیمان کی کمزوری ہی ہے ،
کوئی مانے یا نہ مانے ، سمجھے یا نہ سمجھے ، حقیقت یہی ہے کہ ایسا کرنے والوں کے ہاں اللہ عزّ و جلّ اور اور اُس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی دِی ہوئی خبروں پر یقین ہونے کی بجائے مادی وسائل پر یقین ہوتا ہے ،
جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سی شادیاں بہت زیادہ مادی وسائل کی موجودگی کی تسلی کے بعد کی جانے کے باوجود ناکام ہوتی ہیں ، اور خاندانوں اور مُعاشرے میں کئی مشکلات اور بسا اوقات گناہوں کا سبب بنتی ہیں ،
آپ نے کِسی کے ذمہ دار ہونے کا موازنہ کرنےکے لیے دینی طور پر ٹھیک ہونے والے اور آمدنی اور کمائی والا ہونے کی جو کسوٹی ذِکر کی ہے ، یہ بہت عجیب ہے ، اور خِلاف واقع ہے ،
میرے بھائی ، جو شخص دِینی طور پر ٹھیک ہو گا ، اُسے بلا شک اپنی آخرت کی فِکر ہو گی ، اور وہ اپنا ہر کام ، اپنا ہر معاملہ اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہی کے خیال سے کرے گا ، لہذا اُسے کِسی بھی ایسے شخص سے بڑھ کر اپنی ذمہ داریوں کو بہترین طور پر پورا کرنے کا احساس بلکہ فِکر ہو گی جِس شخص میں دِینی بگاڑ ہو،
اِس حقیقت سے اِنکار کی گنجائش نہیں کہ محض آمدن اور کمائی کرنے والوں کی اکثریت کو اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کا واحد سبب مال ہی سجھائی دیتا ہے جِسے کمانے کے لیے وہ حلال و حرام کی کوئی تمیز رَوا نہیں رکھتے ، اور اپنے لیے ، اپنے اھل خانہ و خاندان کے لیے بسا اوقات دُنیا کی مشکلات بھی ساتھ کماتے رہتے ہیں ، اور آخرت کے نقصانات تو یقیناً کماتے ہی ہیں ،
یہاں اِس نکتے کو بھی ذہن میں رکھیے کہ ہمارا موضوع نکاح کرنے کے بارے میں ہے ، فی الفور رخصتی کرنے کی بات نہیں ہے،
اگر کِسی بے روز گار کا ، اللہ جلّ جلالہُ پر اِیمان کے ساتھ ، اُسی پر توکل کرتے ہوئے نکاح کیا جائے تو اللہ تبارک و تعالیٰ یقیناً اُس کے رِزق میں اضافہ ، کشادگی اور برکت دے گا ، یہ اللہ کا ہی وعدہ ہے ،
بات گھوم پھر کر وہیں آ جاتی ہے کہ (((((أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِى بِى ، ،،،،::: میں اپنے بندے کے پاس میرے بارے میں اُس کے گُمان کے مطابق ہوتا ہوں(یعنی اُس کے گُمان کے مطابق اُس کے ساتھ مُعاملہ کرتا ہوں)،،،،،)))))،
پس جِس کے ساتھ جو مُعاملہ ہو گا ، وہ اُس طرح ہو گا جِس طرح وہ اپنے اللہ کے بارے میں وہ مُعاملہ کرنے کا گمان رکھے گا ۔ والسلام علیکم۔
 

عبداللہ حیدر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
316
ری ایکشن اسکور
1,018
پوائنٹ
120
السلام علیکم۔
آپ نے دُرست نشاندهى كى، ليكن ايك پہلو ميرے ذہن ميں ہے جس كى طرف توجہ دلانا اسى ضمن ميں ضرورى ہے،همارے معاشرے ميں ايسى مثاليں بہت عام هيں كہ لڑكے كى كم عمرى ميں والدين نے اس كى شادى كردى اور لڑكے نے انتہائى غير ذمہ دارى كا رويه اپنايا، خواه معاشى حوالے سے يا معاملات ميں، نتيجتا والدين كو ايك طرف لڑكے كے رويے پہ نادم هونا پڑتا ہے اور دوسرى طرف اس بياه كے لائى گئى لڑكى كى ذمہ دارى اٹھانى پڑتى ہے- بچے اپنى جگہ نفسياتى مسائل كا شكار هوجاتے هيں- اور واپسى كا راستہ تو همارے معاشرے ميں كفر كے مترادف ہے- يه مثاليں بہت عام هيں، اور حقيقى هيں- ايسے ميں نكاح كى كوئى غايت بهى پورى نهيں ہوتى-جب خوب لعن طعن هو رهتى ہے، دلوں ميں دورياں پيدا هوجاتى هيں تو لڑكى كے بھاگوں اس لڑكے كو ہدايت آگئى تو خير ورنه وہى تماشا- ايسى مثالوں سے تو يہى سبق حاصل هوتا ہے كہ كم سے كم كچھ شعور آنے كا انتظار كر لينا چاہيے-
والسلام علیکم
 
شمولیت
جولائی 06، 2014
پیغامات
165
ری ایکشن اسکور
60
پوائنٹ
75
جی، جیسا کہ عبدللہ حیدر بھائی نے واضح کیا، میں اسی خرابی کا بھی ذکر کرنا چاہ رہا تھا کہ ایسی بہت سی مثالیں عام ہیں.
الله سے توکل کی دعا ہے.
@عادل سہیل بھائی آپ نے بلکل ٹھیک فرمایا کہ ۔
اِس حقیقت سے اِنکار کی گنجائش نہیں کہ محض آمدن اور کمائی کرنے والوں کی اکثریت کو اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کا واحد سبب مال ہی سجھائی دیتا ہے جِسے کمانے کے لیے وہ حلال و حرام کی کوئی تمیز رَوا نہیں رکھتے ، اور اپنے لیے ، اپنے اھل خانہ و خاندان کے لیے بسا اوقات دُنیا کی مشکلات بھی ساتھ کماتے رہتے ہیں ، اور آخرت کے نقصانات تو یقیناً کماتے ہی ہیں ،
لیکن یہ ضروری نہیں کہ وہ حلال و حرام کی تمیز بھول جائیں، ابھی یہ مرحلہ تو آیا ہی نہیں (جس مثال کی میں بات کر رہا ہوں)۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ ذمہ داریاں پوری کرنے کا سبب آج کل کے دور میں "مال" پہلے نمبر پہ آتا ہے۔ ابھی تو وہ نوجوان اس سوچ کے دھارے میں ہی نہیں کہ اسے اپنے خاندان کا بازو بن کر اپنی زندگی کے فرائض کا احساس ہونا چاہیے. صرف یہ سوچ کہ شادی کر دیں، باقی الله کا فضل ہو جائے گا (بغیر کسی منصوبے اور ذمہ دار سوچ کے)، میرے خیال میں یہ خیالات کی ناپختگی ہوگی.
والسلام ۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ قَالَ حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ عَنْ عَلْقَمَةَ قَالَ كُنْتُ مَعَ عَبْدِ اللَّهِ فَلَقِيَهُ عُثْمَانُ بِمِنًى فَقَالَ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ إِنَّ لِي إِلَيْكَ حَاجَةً فَخَلَوَا فَقَالَ عُثْمَانُ هَلْ لَكَ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ فِي أَنْ نُزَوِّجَكَ بِكْرًا تُذَكِّرُكَ مَا كُنْتَ تَعْهَدُ فَلَمَّا رَأَى عَبْدُ اللَّهِ أَنْ لَيْسَ لَهُ حَاجَةٌ إِلَى هَذَا أَشَارَ إِلَيَّ فَقَالَ يَا عَلْقَمَةُ فَانْتَهَيْتُ إِلَيْهِ وَهُوَ يَقُولُ أَمَا لَئِنْ قُلْتَ ذَلِكَ لَقَدْ قَالَ لَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ مَنْ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ.
ہم سے عمر بن حفص نے بیان کیا ، مجھ سے ابراہیم نے بیان کیا ، ان سے اعمش نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے ابراہیم نے بیان کیا ، ان سے علقمہ بن قیس نے بیان کیا کہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا ، ان سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے منیٰ میں ملاقات کی اور کہا اے ابو عبد الرحمن ! مجھے آپ سے ایک کام ہے پھر وہ دونوں تنہائی میں چلے گئے ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا اے ابو عبد الرحمن ! کیا آپ منظور کریں گے کہ ہم آپ کا نکاح کسی کنواری لڑکی سے کردیں جو آپ کو گزرے ہوئے ایام یاد دلادے ۔ چونکہ حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتے تھے اس لئے انہوں نے مجھے اشارہ کیا اور کہا علقمہ ! میں جب ان کی خدمت میں پہنچا تو وہ کہہ رہے تھے کہ اگر آپ کایہ مشورہ ہے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا تھا اے نوجوانو ! تم میں جو بھی شادی کی طاقت رکھتا ہو اسے نکاح کر لینا چاہئےا ور جو اس کی طاقت نہ رکھتا ہو وہ روزے رکھے کیونکہ یہ خواہش نفسانی کو توڑ دے گا ۔
صحيح البخاري: كِتَابُ النِّكَاحِ (قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ: «مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمُ البَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ، لِأَنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ» وَهَلْ يَتَزَوَّجُ مَنْ لاَ أَرَبَ لَهُ فِي النِّكَاحِ)
صحیح بخاری: کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان (باب: جو جماع کی طاقت رکھتا ہو شادی کرئے)
(@محمد نعیم یونس بھائی! حدیث کی ویب سائٹ پر ملون الفاظ رہ گئے ہیں!)

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَأَبُو كُرَيْبٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: قَالَ لَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ، مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمُ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ، فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ، وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ، فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ»،
ابومعاویہ نے ہمیں اعمش سے حدیث سنائی، انہوں نے عمارہ بن عمیر سے، انہوں نے عبدالرحمٰن بن یزید سے، انہوں نے حضرت عبداللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا: " اے جوانوں کی جماعت! تم میں سے جو شادی کرنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ شادی کر لے،یہ نگاہوں کو جھکانے اور شرمنگاہ کی حفاظت کرنے میں (دوسری چیزوں کی نسبت) بڑھ کر ہے، اور جو استطاعت نہ پائے، وہ خود پر روزے کو لازم کر لے، یہ اس کے لیے اس کی خواہش کو قطع کرنے والا ہے
صحيح مسلم: كِتَابُ النِّكَاحِ (بَابُ اسْتِحْبَابِ النِّكَاحِ لِمَنْ تَاقَتْ نَفْسُهُ إِلَيْهِ، وَوَجَدَ مُؤَنَهُ، وَاشْتِغَالِ مَنْ عَجَزَ عَنِ الْمُؤَنِ بِالصَّوْمِ)
صحیح مسلم: کتاب: نکاح کے احکام و مسائل (باب: جس شخص کا دل چاہتا ہو اور کھانا پینا میسر ہو اس کے لیے نکاح کرنا مستحب ہے اور جو شخص کھانا پینا مہیا کرنے سے قاصر ہو وہ روزوں میں مشغول رہے)

مذکورہ بالا حدیث میں انہیں لوگوں کو روزہ رکھنے کا کہا گیا ہے، کہ جو بلوغت اور اہلیت جماع کے حامل ہوں، اور خواہاں بھی، لیکن اس کی استطاعت نہ رکھتے ہوں، اب یہ کیا امور ہیں جن کی استطاعت نہ رکھنے پر روزہ رکھنے کو کہا گیا؟
بلوغت کے بعد تو یہی استطاعت مراد ہے ہو سکتی ہے کہ وہ زوجہ کی ذمہ داری اٹھانے کی استطاعت نہیں رکھتا ہو! اور اس امر میں ''مال'' کا دخل سب سے اولیٰ ہے! جیسا کہ @ابن طاھر بھائی نے کہا۔
دوم کہ اپنی استطاعت کا اندازہ لگاتے ہوئے اللہ کے غیبی مدد کا شمار نہیں کرے گا، کیونکہ غیبی اگر استطاعت کے لئے غیبی مدد کو بھی داخل اندازہ رکھا جائے تو استطاعت ہمیشہ ہی قائم رہے گی، کہ اللہ کی غیبی مدد بے مثل و بے شمار و بلا قید ہے!
 
Last edited:

عادل سہیل

مشہور رکن
شمولیت
اگست 26، 2011
پیغامات
367
ری ایکشن اسکور
943
پوائنٹ
120
السلام علیکم۔
آپ نے دُرست نشاندهى كى، ليكن ايك پہلو ميرے ذہن ميں ہے جس كى طرف توجہ دلانا اسى ضمن ميں ضرورى ہے،همارے معاشرے ميں ايسى مثاليں بہت عام هيں كہ لڑكے كى كم عمرى ميں والدين نے اس كى شادى كردى اور لڑكے نے انتہائى غير ذمہ دارى كا رويه اپنايا، خواه معاشى حوالے سے يا معاملات ميں، نتيجتا والدين كو ايك طرف لڑكے كے رويے پہ نادم هونا پڑتا ہے اور دوسرى طرف اس بياه كے لائى گئى لڑكى كى ذمہ دارى اٹھانى پڑتى ہے- بچے اپنى جگہ نفسياتى مسائل كا شكار هوجاتے هيں- اور واپسى كا راستہ تو همارے معاشرے ميں كفر كے مترادف ہے- يه مثاليں بہت عام هيں، اور حقيقى هيں- ايسے ميں نكاح كى كوئى غايت بهى پورى نهيں ہوتى-جب خوب لعن طعن هو رهتى ہے، دلوں ميں دورياں پيدا هوجاتى هيں تو لڑكى كے بھاگوں اس لڑكے كو ہدايت آگئى تو خير ورنه وہى تماشا- ايسى مثالوں سے تو يہى سبق حاصل هوتا ہے كہ كم سے كم كچھ شعور آنے كا انتظار كر لينا چاہيے-
والسلام علیکم
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
جزاک اللہ خیراً ، آپ کے مُراسلے کے جواب میں کچھ گذارش کرنے سے پہلے میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے ہمارے مُعاشرے کی ایک اہم کمزوری کی طرف توجہ مبذول کروائی ہے ،
گو کہ میرے مضمون میں کم عُمری کے شادیوں کے معاملے کے بارے میں کوئی بات نہ تھی،بلکہ میرا موضوع کِسی غریب اور مالی طور پر کمزور مُسلمان کو اُس کی غریب اور مالی کمزوری کی وجہ سے نکاح سے روکنا ، منع کرنا ہے ، لیکن آپ کی طرف سے ظاہر کیے گئے اِس نکتے پر بات چیت بھی اِن شاء اللہ سب ہی کے لیے فائدہ مند رہے گی ،
جی میرے محترم ، آپ کا کہنا دُرُست ہے ، ایسی خاندانی تباہیوں کی مِثالیں ملتی ہیں ، لیکن اِس کا سبب لڑکے کی کم عُمری نہیں ہوتا ، بلکہ والدین ہوتے ہیں ،
جی ہاں ، کچھ ماضی قریب میں ہی عموماً کم عُمری میں ہی شادیاں ہوتی تھیں اور تقریبا ً سب ہی جوڑے بالکل کامیاب نہیں تو کم از کم مُعتدل انداز میں اپنی ازدواجی اور مُعاشرتی ذمہ داریاں نبھاتے چلتے تھے ،
جِس کا سبب اُن کے وقت میں پائے جانے والےماحول میں مُعاشرتی ذمہ داریوں کا احساس تھا ،
پس اُس وقت میں ، اُس مُعاشرے میں نمو پانے والے بچے اپنے احساسات کے نمو ساتھ یہ ذمہ داریاں بھی جانتے چلے جاتے اور جب کوئی ذمہ داری اُن پر آن پڑتی تو اُسے اچھے طور پر نبھاتے تا کہ مُعاشرے میں نہ تو خُود پریشان و رُسوا ہوں ، اور نہ ہی اپنے والدین یا بزرگوں کے لیے کِسی بدنامی یا پریشانی کا سبب بنیں ،
اُس سے کچھ اور پہلے ، مُسلمانوں کے مُعاشرے میں ہر بچے اور بچی کی تربیت اِسلامی تعلیمات کے مُطابق ہوتی تھی ، اُسے ایک اچھے مُسلمان کی طرح اپنے ظاہر و باطن کی اِصلاح اور حِفاظت کرنا سِکھایا جاتا تھا ،
اپنے دِین ، دُنیا اور آخرت کی خیر کمانا سِکھایا جاتا تھا ،
اور اُنہیں اپنے اِرد گِرد بھی ایسے ہی لوگوں کی کثرت دِکھائی دیتی تھی ، پس وہ لوگ بھی اچھے مُسلمانوں کی طرح اپنی تمام تر ذمہ داریاں نبھانے کی کوششوں میں رہتے خواہ وہ ذمہ داریاں اُن کی خود اختیارکی ہوتیں یا اُن پر آن پڑی ہوتیں ،
اب ہمارے پاس وہ مُعاشرتی تربیت بھی نہیں رہی اور اِسلامی تربیت تو کتابی قصے بن کر رہ گئی ہے ،
اور خاص طور پر نام نہاد خود ساختہ، اور اِسلام دُشمنوں کے بنائے ہوئے " مذھبی سکالرز"اور "حقوق اِنسانیت" کے علمبرداروں کے ظہور سے تو اِسلامی تربیت تو کیا اِخلاقیات سے بھی عاری شخصیات نمو پا رہی ہیں ،
پس کم عمری تو دُور ٹھہری بڑی عُمر والوں میں بھی اب خال خال ہی ایسے دِکھتے ہیں جو اپنی ذمہ داریوں کا سنجیدگی سے احساس ہی رکھتے ہوں ، چہ جائیکہ اُنہیں نِبھانے کی کوشش کریں ،
جن پریشانیوں کا آپ نے ذِکر کیا ہے اُن کا اصل سبب ہماری تربیت کی خامی ہے ، بالخصوص اِسلامی تربیت کا فُقدان ، کیونکہ اگر ہماری تربیت اللہ تعالیٰ کی ذات و صِفات، اُس کے ناموں کی پہچان کے ساتھ، اور اُس پہچان کے ساتھ اللہ تعالیٰ پر ، روزء حساب کے حساب پر ، سزاء وجزاء پر مکمل اِیمان والی ہو تو ایسی پریشانیاں شاذ شاذ ہی رہ جائیں ،
تربیت کے اِس نُقص کا قصور وار، ذمہ دار یُوں تو مُعاشرے کا ہر ایک فرد ہی قرار پاتا ہے لیکن والدین کا حصہ اِس میں سب سے زیادہ ہے ، ہمیں اکثر والدین کے حقوق کے بارے میں ہی پڑھایا سِکھایا جاتا ہے ، لیکن اولاد کے حقوق کی بات کہاں ہوتی ہے ؟؟؟ جِن میں سے بنیادی ترین اور مُستقل حق اولاد کی اچھی اِسلامی تربیت ہے ،
اگر واقعتا اِسلامی تربیت ہو تو اِن شاء اللہ ،بچوں کے سن بلوغ تک پہنتے پہنچتے وہ لوگ اتنا کچھ سیکھ اور سمجھ چکے ہوتے ہیں کہ اُنہیں اپنے شریک حیات اور اپنی اولاد کے حقوق کے بارے میں بھی اللہ کے سامنے جواب دہی کاخوف رہتا ہے ،
اور یہی وہ شعور ہے جو کِسی مُسلمان کی اُس کی تمام تر ذمہ داریوں کو خوبصُورت طور پر نِبھانے کی کوششوں کا سبب رہتا ہے ، اور اِس شعور کا وجودعُمر کے زیادہ یہ کم ہونے پر منحصر نہیں، کہ کئی کم عُمر بھی اللہ کے خوف میں کئی بوڑھوں سے کہیں زیادہ آگے ہوتے ہیں ، اور اپنا ہر کام اللہ تعالیٰ کے خوف سے ، اللہ کے سامنے جواب دہی کی تیاری کے شعور کے ساتھ کرتے ہیں ،
جب سب ہی کام اللہ عزّ و جلّ اور اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی دی ہوئی خبروں کی حقانیت کے اِیمان کے ساتھ، اور اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کے سامنے جواب دہی کے خوف کے ساتھ ہوں، تو پھر ہر کام کی ہر غرض و غایت اِن شاء اللہ پوری ہوتی ہے ،
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ، ہمارے اہل خانہ و خاندان ، اور ہمارے سارے کلمہ گو بھائیوں بہنوں کو اپنے اعمال کے محاسبے اور اللہ کے سامنے جواب دہی کا شعور عطاء فرمائے ، والسلام علیکم۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھائی ابن طاہر ، اور بھائی ابن داؤد کے خدمت میں بھی کچھ دیر بعد کچھ گذارشات پیش کرتا ہوں ،اِن شاء اللہ ۔
 

عادل سہیل

مشہور رکن
شمولیت
اگست 26، 2011
پیغامات
367
ری ایکشن اسکور
943
پوائنٹ
120
جی، جیسا کہ عبدللہ حیدر بھائی نے واضح کیا، میں اسی خرابی کا بھی ذکر کرنا چاہ رہا تھا کہ ایسی بہت سی مثالیں عام ہیں.
الله سے توکل کی دعا ہے.
@عادل سہیل بھائی آپ نے بلکل ٹھیک فرمایا کہ ۔

لیکن یہ ضروری نہیں کہ وہ حلال و حرام کی تمیز بھول جائیں، ابھی یہ مرحلہ تو آیا ہی نہیں (جس مثال کی میں بات کر رہا ہوں)۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ ذمہ داریاں پوری کرنے کا سبب آج کل کے دور میں "مال" پہلے نمبر پہ آتا ہے۔ ابھی تو وہ نوجوان اس سوچ کے دھارے میں ہی نہیں کہ اسے اپنے خاندان کا بازو بن کر اپنی زندگی کے فرائض کا احساس ہونا چاہیے. صرف یہ سوچ کہ شادی کر دیں، باقی الله کا فضل ہو جائے گا (بغیر کسی منصوبے اور ذمہ دار سوچ کے)، میرے خیال میں یہ خیالات کی ناپختگی ہوگی.
والسلام ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ،
محترم بھائی ، ابن طاھر، بھائی عبداللہ حیدر صاحب کی باتوں کے جواب میں اپنی گذارشات پیش کر چکا ہوں ، اُمید ہے کہ وہ آپ کے لیے بھی کچھ تسلی کا سبب ہو سکیں گی ، اِن شاء اللہ ،
میرے محترم بھائی ، حلال و حرام کی تمیز بھولنے کی بات مِعاشرے میں پائے جانے والے عام معمول کے مُطابق کی گئی ، جیسا کہ عمومی گفتگو کا عمومی اسلوب ہوتا ہے ، رہا معاملہ استثنائی حالات ، شخصیات اور واقعات کا تو وہ ہر مُعاشرے میں ہمیشہ پائے جاتے ہیں ، لیکن وہ کِسی معاملے کو سمجھنے کے لیے کوئی دلیل یا حُجت نہیں ہوتے ، اور نہ اُن کے ذریعے کسی معاملے کے بارے میں کوئی عمومی فیصلہ اپنایا جا سکتا ہے ،
مادی وسائل کے ذریعے ، دُنیاوی مادی ضروریات پوری کرنے کے لیے ، مال صِر ف فی زمانہ ہی پہلے نمبر پر نہیں آتا ، بلکہ اِنسانی تاریخ میں یہ ہمیشہ پہلے نمبر پر ہی رہا ہے ،
لیکن ، اِیمان والوں کا معاملہ مختلف ہوتا ہے کہ وہ مادی وسائل کو اختیار کرنے سے پہلے رُوحانی وسائل اختیار کرتے ہیں ، اُن کے ہاں روحانی وسائل پہلے نمبر پر ہوتے ہیں ، اور مادی وسائل بعد میں ، اور اول و آخر اُن کا توکل اللہ عزّ و جلّ پر ہی ہوتا ہے ،
میرے اِس مضمون میں اِسی بات کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے ،
نکاح کرنے سے رِزق میں اضافہ ہونے کا وعدہ اللہ پاک اور اُس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا ہے ، اِس وعدے پر یقین خیالات کی پختگی کا نہیں ، اِیمان کی پختگی کا حاجت مند ہے ، والسلام علیکم۔
 
Top