جب آپ نے یہ اعتراف کرلیا کہ بڑے بڑے اہل علم نے اس کے جواز کے فتوے دئے ہیں۔ پھر اس "اعتراف" کے بعد آپ کے "اعتراض" کی گنجائش صرف اسی صورت میں بنتی ہے کہ آپ بھی مذکورہ بڑے بڑے اہل علم کے ہم پلہ اہل علم میں سے ہوں۔
محترم
میں نے یہ ضرور کہا ہے مگر اس ک معنی ہرگز یہ نہیں کہ اس پر بڑے بڑے اہل علم نے اعتراض نہ کیا ہے جیسا اس مضمون میں البانی وغیرہ کا نام موجود ہے میں تو طفل مکتب ہوں مگر البانی صاحب ضرور ان بڑے بڑے ناموں کے ہم پلہ ہیں اور شاید اس کا اعتراف اپ بھی کریں۔
نکاح کی شرائط میں یہ کہاں مذکور ہے کہ (بالفرض) اگر گھر بسانے کی نیت نہ ہو تو نکاح ناجائز ہوگا۔ نکاح کی بنیادیشرائط میں (۱) فریقین کا ایجاب و قبول (۲) لڑکی کے ولی کی رضامندی (۳) کم از کم دو مرد گواہان کی موجودگی اور (۴) مہر کا تعین ہے۔ دوسری بات یہ کہ ایک مسلمان کے نکاح کرنے کی ایک سب سے بڑی وجہ شہوت پوری کرنا بھی ہے
اگر آپ کی کہی ہوئی بات مان لی جائے تو متعہ اور حلالہ میں بھی یہی شرائط ہوتی ہے بلکہ حلالہ میں عورت اپنے حقوق سے بھی دستبردار بھی نہیں ہوتی ہے پھر بھی حلالہ حرام کیوں؟
اس کی وجہ یہی ہے کہ اس میں نہ گھر بسانے کی نیت ہوتی ہے اور نہ نبھا کرنے کی فقط یہ مقصود ہوتا ہے کہ عورت کو چھوڑ دیا جائے گا۔ اگر کوئی حلالہ کرنے کو لئے اپنی بیوی کا نکاح کروائے مگر اس آدمی کی نیت گھر بسانے کی رغبت سے ہو تو نکاح منعقد ہو جائے گا اسی طرح اگر اپ کی پیش کردہ شرائط کے مطابق نکاح منعقد کیا جائے مگر مرد کی نیت یہ ہو "خواہ وہ کسی سے اس کا اظہار بھی نہ کرے" کہ میں اس کو ایک مدت بعد چھوڑ دوں گا تو وہ نکاح منعقد ہی نہیں ہو گا کیونکہ اس میں رغبت"گھر بسانے کی نہیں ہے"بلکہ چھوڑ دینے کی ہے آپ نکاح کے ظاہر پر بحث کر رہے ہیں میں نکاح سے متعلق باطن کی بات کر رہا ہوں یہ تو سب جانتے ہیں کہ"انماالاعمال بالنیات" اور اس حوالے سے خلفاء راشدین میں سے عثمان رضی اللہ عنہ اور عمررضی اللہ عنہ کے اقوال بھی ہیں کہ انہوں نے نکاح کے منعقد ہونے میں یہ شرط بھی رکھی ہے نکاح رغبت کے ساتھ کیا جائے