• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نکاح میں لڑکی والوں کی طرف سے دعوت کا حکم

شمولیت
نومبر 27، 2014
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
62
پوائنٹ
49
ہندو مذہب تو ہے ہی رسومات کا مجموعہ ۔ عملی طور پہ یہ کہاں ویدوں پر عمل کرتے ہیں ۔ بس پنڈت کا مذہب ہی ان کا مذہب بن گیا۔ اگرچہ ان کی کتابوں کا مجھے نہیں معلوم لیکن آپ دو حوالے دیکھیں ۔
مسلمانوں میں ہندوانہ رسوم و رواج ۔۔۔ حافظ عبدالسلام بن محمد۔
نکاح سے پہلے روٹی اور نیوندرا:
سب سے پہلے تو یہ کہ مسلمانوں میں دعوت ولیمہ لڑکے کی طرف سے ہوتی ہے اور خاوند اور بیوی کی آپس میں ملاقات کی بعد ہوتی ہے- یہاں لڑکی والوں کی طرف سے دعوت طعام کا ذکر کہیں نہیں ملے گا کہ بہت سے لوگ جمع کر کے بارات منا کر لڑکی والوں کے گھر ضیافت اڑائی جائے- ہمارے ہاں نکاح سے پہلے کھانا پکتا ہے- لڑکے والوں کے ہاں بھی اور لڑکی والوں کے ہاں بھی اور اس میں لوگوں کو بلایا جاتا ہے- اسے روٹی کہتے ہیں- یہ روٹی رسول اللہﷺ کا طریقہ نہیں- ہندوؤں کا طریقہ ہے- جب ہندوؤں کا ایک طریقہ اختیار کیا تو اس کے ساتھ ان کے دوسرے طریقے بھی اختیار کرنے پڑتے ہیں- چلئیے کھانا آپ نے کھلا دیا- اب رجسٹر رکھ کر بیٹھ گئے- کہتے ہیں:” پیسے لاؤ”- اس کا نویتہ (نیوندوا) رکھا ہوا ہے-
صفحہ 31
اس میں بھی رسم کے طور پر انہوں نے ذکر کیا ہے ۔
دوسرا حوالہ بڑا اہم ہے ۔ یہ مشہور کتاب تحفۃ الہند۔ جو کہ نو مسلم (غالباََ پنڈت بھی تھے) بعد میں اسلام کے عالم بھی ہوئے مولانا عبیداللہؒ کا ہے ۔
انہوں نے خوب پنڈتوں کے ساتھ اٹھ بیٹھ کے ہندو مذہب کو قریب سے دیکھ کر ان کی باتوں کو بیان کیا ہے ۔اور یہ رسومات انہوں نے بطور ہندو مذہب ہی بیان کی ہیں ۔ اور آپ کے علم میں ہی ہوگا کہ مرنے پر تیجہ دسواں وغیرہ کے بارے میں بھی علماءیہیں سے بھی دلیل دیتے ہیں کہ یہ ہندووں سے رسمیں آئی ہیں۔

انہوں نے اپنا کچھ تعارف یوں کروایا ہے ۔۔۔۔۔






یہ انہوں نے کافی تفصیل سے بیان کی ہیں ۔ اور ان کے گھر کے آدمی بھی رہے ہیں ۔
اس لئے پہلے جو میں نے ہندو رائٹرز کی تحریر پیش کی اس کو بھی تائید ملتی ہے ۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
بات دراصل یہ ہیکہ میں نے اب تک اس کا مشاہدہ نہیں کیا.
خیر ہندؤوں کی شادی میں ایک ہی بار جانے کا اتفاق ہوا ہے. لیکن ایسا کچھ ضروری ہے میں نے نہیں دیکھا. وہ صرف ضیافت کرتے ہوۓ انکو کھانا کھلاتے ہیں. اپنی مرضی سے. اور اپنی استطاعت کے بقدر. کچھ ہندو ساتھیوں سے بھی ایسا تذکرہ نہ سن سکا کہ یہ انکی مذہبی تہذیب وغیرہ ہے. بہرکیف جیسا کہ میں نے بتایا کہ میرا مشاہدہ کم رہا ہے اس سلسلے میں اور دنیا بہت بڑی ہے.
 
شمولیت
نومبر 27، 2014
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
62
پوائنٹ
49
یہ کتاب ۸۰ ، ۹۰ سال پرانی ہے ۔ بعض رسومات میں تغیر تو آتا ہی ہے ۔ میرا نقل کرنے کا مقصد تو صرف مذکورہ بات ہی تھی یعنی لڑکی والوں کی ضیافت ۔ ۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ ان کا ماخذ کیا ہے ۔ اور اگر اس کے تارک ہوں بھی تو کوئی بات نہیں ۔ چاہے سارے ہندو بھی چھوڑ دیں ۔ لیکن ماخذ تو وہی ہے ۔ جیسے ہم مسلمان کتنے دین سے دور ہیں ۔زیادہ مسلمان نماز نہیں پڑھتے ۔ ہمارے لئے یہ نقصان کی بات ہے ۔
جیسے علما میں یہ بحث ہوتی ہے کہ شیعہ کافر ہیں کہ نہیں ۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہر شیعہ کافر نہیں ۔ بلکہ جو جو فلاں فلاں ان کی کتاب میں لکھا ہوا عقیدہ (مثلاََ قرآن میں تحریف ، بدا ، ائمہ انبیاء سے افضل۔وغیرہ)کو جانتا مانتا ہو وہ کافر ہے ۔
اور عام شیعہ کہاں یہ سب جانتے ہیں ۔ میرے ارد گرد بھی جاننے والے شیعہ موجود ہیں ان سے سرسری بات سے معلوم ہوا ۔ ان کو اپنی کتابوں کا معلوم نہیں ۔ ان کی شیعیت بس حضرت علی ؓ کا نام لینے تک ہی ہے ۔
تو یہ ان کے لئے فائدہ کا باعث ہی ہے ۔
اسی طرح ہندو اگر عامل ہو تو وہ تو کچھ بھی نہیں چھوڑے گا ۔ لیکن عام ہندو بھی جن کا آپ ذکر کر رہے ہیں بہت اہم چیزیں تو نہیں چھوڑتے ہوں گے ۔۔۔جیسے پھیرے۔۔۔
اسی طرح کیا کوئی ایسی شادی کسی نے دیکھی جس میں لڑکی والوں کی ضیافت بھی نہ ہوئی ہو ۔۔ایسا دیکھا کہیں ۔۔یہ انڈیا میں رہنے والے بھائی زیادہ بہتر بتا سکتے ہیں ؟
اور جیسا کہ میں نے سب سے پہلی پوسٹ جو کی وہ نئی کتاب ہے ۔ اور ہے بھی ہندو رائٹرز کی ۔اس کے ضمن میں میں نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے رسومات کم بیان کیں ۔ شاید اہم والی بیان کیں ۔
واللہ اعلم
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
فتوی میں موجود ملون جملے کی دلیل درکار ہے..
محترم شیخ @اسحاق سلفی صاحب!


کیا برات کی دعوت کرنا مسنون ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جس طرح دعوت ولیمہ سنت ہے۔ کیا برات کی دعوت جو بیٹی والا کرتا ہے۔ وہ مسنونہ ہے۔ اگر کوئی قوم برات کی دعوت کو بوجہ گرانی اور اقتصادی حالات کے پیش نظر بند کردے۔ تو کوئی شرع حرج نہیں ہوگا۔ (عبد الستار دہلی)

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتهالحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ناکح کے ساتھ چند آدمیوں کا آنا اور کھانا بھی کھانا ثابت ہے۔ مگر ایسا نہ ہونا چاہیے۔ کہ لڑکی والے پردباؤ ڈال کر دعوت لی جائے۔ جیسا کہ آج کل رواج ہو رہا ہے۔ یہ شریعت کے علاوہ اخلاق کے بھی خلاف ہے۔ قرآن مجید میں کل نفقات ناکح پر ڈالے گئے ہیں۔ جیسا کہ ارشاد ہے۔ وبما انفقوا من اموالھم لڑکی والا ناکح کے ہمراہیوں کو بطور خاطر تواضع شربت دودھ وغیرہ پیش کرے۔ تو جائز ہے۔ مگر اتنا نہ ہو جس سے اس پر بوجھ پڑے۔ (اخبار اہلحدیث امرتسر 24 زیقعدہ 1361ء)

فتاویٰ ثنائیہ
جلد 2 ص 291
محدث فتویٰ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
فتوی میں موجود ملون جملے کی دلیل درکار ہے..
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اسکی تلاش میں ہوں ، جیسے ہی سراغ ملتا ہے پیش کرتا ہوں ،
ان شاء اللہ تعالی
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
فتوی میں موجود ملون جملے کی دلیل درکار ہے..
ناکح کے ساتھ چند آدمیوں کا آنا اور کھانا بھی کھانا ثابت ہے۔ مگر ایسا نہ ہونا چاہیے۔ کہ لڑکی والے پردباؤ ڈال کر دعوت لی جائے۔
اس کی دلیل یا ثبوت ’’ فتاوی ثنائیہ ‘‘ ہی میں ایک اور فتوی کے ضمن میں موجود ہے ،جس کا اقتباس درج ذیل ہے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ ابن ثیرا سدا لغا بہ لکھتے ہیں۔ کہ ام حبیبہ بنت ابی سفیا ن کا نجا شی نے حبشہ میں رسول اللہ ﷺ کے سا تھ عقد کیا تو عثما ن بن عفا ن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ام المو منین ام حبیبہ کی طرف سے گو شت کا ولیمہ کیا اور ابن حجر عقلانی اصا بہ میں لکھتے ہیں کہ ابن سعد نے اسمعیل بن عمر د بن سعید الا مو ی کے وا سطے سے ام المو منین ام حبیبہ کے عقد کا قصہ نقل کیا ہے اس میں ہے
وعمل لھم النجاشی طعاما فاکلوا

یعنی نجاشی نے صحا بہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے کھانا تیا ر کیا اور صحابہ نے کھا یا موا ہب دنیا میں ہے کہ جب نجا شی نے مہر کے دینار حضرت خا لدبن سعید کے سپرد کئے اور حضرت خا لد نے قبضہ کر لیا تو سب نے اٹھنے کا ارادہ کیا تو نجا شی نے کہا
فقال اجلسوا فان سنة الانبياء اذا تزوجوا ان يوكل طعام علي التزويج فدعا بطعام فاكلوا ثم تفرقوا

مو لا نا عبدالحیی صا حب مر حو م مجمو عہ فتا وی میں بعض اس تفتا کے جواب میں لکھتے ہیں کہ با را ت کے لو گوں کو کھا نا کھلا نا دلین والوں کی طرفسے درست ہے بلکہ یہی طریقہ ما ثو رہ حضرا ت انبیا ء رحمۃ اللہ علیہ سے ہے مدارج التبو ۃ وغیرہ میں اس کی تصر یح مو جو د ہے الغر ض لڑ کی والے کھا نا کھلا ئیں لیکن پہلے دعوت دے دیں تو دعوت کا قبو ل کر نا علی اختلاف الا قوال واجب فر ض یا سنت ہو گا وقت کی تعبین دعوت دینے والے کے اختیا ر میں ہے ۔۔۔۔۔۔ (اس اقتباس کا لنک )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب اس بات کی تحقیق ضروری ہے کہ ’’ لڑکی والوں کے ہاں کھانا کھانے ‘‘ کی دلیل جو دلیل دی گئی ہے کیا وہ سنداً صحیح ہے یا نہیں ۔
آج تو چونکہ جمعہ ہے ، اسلئے شاید وقت نہ مل سکے ،ان اگلے ایک دو دنوں میں کوشش کروں گا اس پر کچھ کہہ سکوں ۔ ان شاء اللہ
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
آج تو چونکہ جمعہ ہے ، اسلئے شاید وقت نہ مل سکے ،ان اگلے ایک دو دنوں میں کوشش کروں گا اس پر کچھ کہہ سکوں ۔ ان شاء اللہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
یادھانی!!
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
فتوی میں موجود ملون جملے کی دلیل درکار ہے..
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ابن حجر عقلانی اصا بہ میں لکھتے ہیں کہ ابن سعد نے اسمعیل بن عمر د بن سعید الا مو ی کے وا سطے سے ام المو منین ام حبیبہ کے عقد کا قصہ نقل کیا ہے اس میں ہے
وعمل لھم النجاشی طعاما فاکلوا

یعنی نجاشی نے صحا بہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے کھانا تیا ر کیا اور صحابہ نے کھا یا موا ہب دنیا میں ہے کہ جب نجا شی نے مہر کے دینار حضرت خا لدبن سعید کے سپرد کئے اور حضرت خا لد نے قبضہ کر لیا تو سب نے اٹھنے کا ارادہ کیا تو نجا شی نے کہا
فقال اجلسوا فان سنة الانبياء اذا تزوجوا ان يوكل طعام علي التزويج فدعا بطعام فاكلوا ثم تفرقوا
ام المومنین سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے نکاح اور اس ضمن میں نکاح کے بعد نجاشی کے ہاں اجتماعی کھا نے کی طویل روایت
علامہ ابن سعد
نے ’’ الطبقات ‘‘ میں سیدہ ام حبیبہ ؓ کے ترجمہ میں روایت فرمائی ہے ، اور طبقات ابن سعد سے علامہ ابن حجر عسقلانی نے ’’ الاصابۃ فی تمییز الصحابہ ‘‘
میں نقل کی ہے ، اس کی سند درج ذیل ہے :
أخبرنا محمد بن عمر. حدثنا عبد الله بن جعفر عن عثمان بن محمد الأخنسي أن أم حبيبة بنت أبي سفيان ولدت حبيبة ابنتها من عبيد الله بن جحش بمكة قبل أن تهاجر إلى أرض الحبشة. قال عبد الله بن جعفر: وسمعت إسماعيل بن محمد بن سعد يقول:
ولدتها بأرض الحبشة.
قال محمد بن عمر: فأخبرني أبو بكر بن إسماعيل بن محمد بن سعد عن أبيه قال: خرجت من مكة وهي حامل بها فولدتها بأرض الحبشة.
أخبرنا محمد بن عمر. حدثنا عبد الله بن عمرو بن زهير عن إسماعيل بن عمرو بن سعيد بن العاص قال: قالت أم حبيبة: رأيت في النوم عبيد الله بن جحش زوجي بأسوأ صورة وأشوهه ففزعت. فقلت: تغيرت والله حاله. فإذا هو يقول حيث أصبح: يا أم حبيبة إني نظرت في الدين فلم أر دينا خيرا من النصرانية وكنت قد دنت بها. ثم دخلت في دين محمد ثم قد رجعت إلى النصرانية. فقلت: والله ما خير ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقال: اجلسوا فإن سنة الأنبياء إذا تزوجوا أن يؤكل طعام على التزويج. فدعا بطعام فأكلوا ثم تفرقوا.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ

یہ سند ناکارہ ہے ، کیونکہ اس کے راوی محمد بن عمر الواقدی کو محدثین نے نہ صرف ضعیف بلکہ کذاب کہا ہے،
علامہ الذہبی میزان الاعتدال میں لکھتے ہیں :
وقال ابن معين: ليس بثقة.
وقال - مرة: لا يكتب حديثه / وقال البخاري وأبو حاتم: متروك.
وقال أبو حاتم أيضا والنسائي: يضع الحديث.
وقال الدارقطني: فيه ضعف.
وقال ابن عدي: أحاديثه غير محفوظة والبلاء منه.

اور امام حاکم نے مستدرک میں واقدی ہی کی سند اس روایت کو نقل کیا ہے ،
ـــــــــــــــــــــــــــــ۔
اور فتاوی ثنائیہ کی عبارت :
(ناکح کے ساتھ چند آدمیوں کا آنا ،اور کھانا بھی ثابت ہے )
کی دلیل کوئی اور روایت ہے تو میرے علم میں نہیں ،
 
Top