• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نکاح کیے بارے میں معلومات

mzada256

مبتدی
شمولیت
مارچ 26، 2017
پیغامات
3
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
17
السلام علیکم میرا سوال ھے اگر ایک بیوی کا شوہر گھوم ہوجاے تو کیا بیوی کتنے سال بعد دوسرا نکاح کریگی

Sent from my SM-N910C using Tapatalk
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
گم شدہ خاوند کی بیوی کتنا عرصہ انتظار کرے
سوال:
اگر کسی شادی شدہ عورت کا خاوند گم ہو جائے تو اسے کتنا عرصہ انتظار کرنا ہوگا، قرآن و حدیث کے مطابق وہ کتنی دیر تک عقد ثانی نہیں کر سکتی؟

جواب:
گم شدہ خاوند کی بیوی کے متعلق ایک حدیث بیان کی جاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لاپتہ شوہر کی بیوی اس وقت تک اس کی بیوی ہی رہے گی جب تک گم شدہ آدمی کے متعلق کوئی واضح اطلاع نہ موصول ہو جائے۔‘‘ (دارقطنی ص ۳۱۲ ج ۳)

لیکن یہ روایت ناقابل حجت اور بے کار ہے کیونکہ اس کی سند میں محمد بن شرحبیل صمدانی نامی ایک راوی ہے جسے محدثین نے متروک قرار دیا ہے نیز وہ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے منکر اور باطل روایات کرنے میں مشہور ہے۔ اس کے علاوہ آگے بیان کرنے والا اس کا شاگرد ’’سوار بن مصعب بھی اسی قسم کا ہے البتہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس اس طرح کا ایک معاملہ آیا تو انہوں نے فرمایا: ’’لاپتہ شوہر کی بیوی چار سال تک انتظار کرے پھر شوہر کے فوت ہونے کی عدت چار ماہ دس دن گزارے، اس کے بعد اگر چاہے تو شادی کر سکتی ہے۔‘‘ (بیہقی ص ۴۴۵ ج ۷)

بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی اسی موقف کو اختیار کیا تھا اور اس کے مطابق فیصلہ دیا تھا۔(مصنف عبدالرزاق ص ۸۵ ج ۷)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بھی یہی موقف ہے۔ (بیہقی ص ۴۴۵ ج ۷)

امام بخاری رحمہ اللہ کا رجحان ایک سال تک انتظار کرنے کی طرف معلوم ہوتا ہے، چنانچہ انہوں نے اپنی صحیح میں ایسے شخص کے متعلق ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: ’’گم شدہ خاوند کی بیوی اور اس کے مال و متاع کا حکم۔‘‘ (بخاری، الطلاق باب نمبر: ۲۲)

لیکن آپ نے واضح طور پردوٹوک الفاظ میں کوئی فیصلہ نہیں کیا البتہ پیش کردہ آثار واحادیث سے آپ کا رجحان معلوم کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ آپ نے حضرت سعید بن مسیب کا ایک فتویٰ نقل کیا ہے کہ جب کوئی سپاہی میدان جنگ میں گُم ہو جائے تو اس کی بیوی ایک سال تک انتظار کرے، نیز آپ نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے متعلق بیان کیا ہے کہ انہوں نے کسی سے ادھار لونڈی خریدی پھر لونڈی کا مالک گُم ہو گیا تو انہوں نے ایک سال تک اس کا انتظار کیا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنا رجحان بیان کرنے کیلئے حدیث لقطہ بیان کی ہے کہ اگر کسی کو گِرا پڑا سامان ملے تو وہ اس کا سال بھر اعلان کرے۔ (صحیح بخاری، الطلاق: ۵۲۹۲)

ان آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک گم شدہ خاوند کی بیوی کیلئے انتظار کا وقت ایک سال مقرر کیا جا سکتا ہے موجودہ احوال و ظروف اور ذرائع مواصلات کے پیش نظر یہ موقف انتہائی قرین قیاس ہے۔ ہمارے نزدیک بھی ایک سال کا انتظار کافی معلوم ہوتا ہے بصورت دیگر قدیم فتویٰ چار سال والا تو اپنی جگہ جمہور علماء اسلام اور مفتیانِ کرام کے ہاں رائج چلا آ رہا ہے لیکن عقد نکاح کوئی کچا دھاگہ نہیں کہ جسے آسانی سے توڑ دیا جائے اور یہ ایک ایسا حق ہے جو خاوند کیلئے لازم ہو چکا ہے، اس بناء پر اس عقد نکاح کو کھولنے کا مجاز عورت کا خاوند ہے جو گم ہو چکا ہے۔ اب دفع مضرت کیلئے عدالت‘ خاوند کے قائم مقام ہوگی اور اس نکاح کو فسخ قرار دینے کی مجاز ہوگی، جیسا کہ خلع وغیرہ میں ہوتا ہے۔ اس لئے ہمارے نزدیک گم شدہ خاوند سے خلاصی کیلئے یہ طریقہ اختیار کیا جائے کہ عورت فیملی کورٹ کی طرف رجوع کرے، رجوع سے قبل جتنی مدت گزر چکی ہو گی اس کا کوئی اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ ہمارے ہاں بعض عورتیں مدت دراز تک انتظار کرنے کے بعد عدالت کے نوٹس میں معاملہ لائے بغیر یا اس کا فیصلہ حاصل کرنے سے قبل محض فتویٰ لے کر آگے نکاح کر لیتی ہیں، ان کا یہ اقدام نکاح انتہائی محل نظر ہے۔

امام مالک رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ اگر کوئی عورت عدالت کے نوٹس میں لائے بغیر اپنے مفقود شوہر کا چار سال تک انتظار کرے تو کیا اس مدت کا اعتبار کیا جائے گا تو آپ نے جواب دیا: ’’اگر وہ اس طرح بیس سال بھی گزار دے تو بھی اس کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا۔‘‘ (المدونۃ الکبریٰ ص ۹۳ ج ۲)

اس بناء پر ضروری ہے کہ جس عورت کا خاوند لاپتہ ہو جائے تو وہ فوری طور پر عدالت کی طرف رجوع کرے پھر اگر عدالت اس نتیجہ پر پہنچے کہ واقعی اس کا خاوند گم شدہ ہے تو وہ اسے ایک سال تک انتظار کرنے کا حکم دے گی۔ اگر اس مدت تک اس کا شوہر نہ آئے توایک سال کے اختتام پر عدالت فسخ نکاح کی ڈگری جاری کرنے کی مجاز ہوگی۔ عدالت کے فیصلے کے بعد عورت اپنے شوہر کو مردہ تصور کر کے عدتِ وفات یعنی چار ماہ دس دن گزارے گی۔ اس کے بعد نکاح ثانی کرنے کی مجاز ہوگی۔ اگر عدالت بلاوجہ معاملہ کو طول دے اور عورت مجبور ہو کر صبر نہ کر سکے تو مسلمانوں کی ایک جماعت تحقیق کر کے اس کے گم شدہ خاوند کے متعلق فیصلہ کرے، ایسے حالات میں پنچائتی فیصلہ بھی عدالت مجاز کا فیصلہ ہی تصور ہوگا۔ (واللہ اعلم)
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
گم شدہ خاوند کی بیوی کتنا عرصہ انتظار کرے
سوال:
اگر کسی شادی شدہ عورت کا خاوند گم ہو جائے تو اسے کتنا عرصہ انتظار کرنا ہوگا، قرآن و حدیث کے مطابق وہ کتنی دیر تک عقد ثانی نہیں کر سکتی؟

جواب:
گم شدہ خاوند کی بیوی کے متعلق ایک حدیث بیان کی جاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لاپتہ شوہر کی بیوی اس وقت تک اس کی بیوی ہی رہے گی جب تک گم شدہ آدمی کے متعلق کوئی واضح اطلاع نہ موصول ہو جائے۔‘‘ (دارقطنی ص ۳۱۲ ج ۳)

لیکن یہ روایت ناقابل حجت اور بے کار ہے کیونکہ اس کی سند میں محمد بن شرحبیل صمدانی نامی ایک راوی ہے جسے محدثین نے متروک قرار دیا ہے نیز وہ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے منکر اور باطل روایات کرنے میں مشہور ہے۔ اس کے علاوہ آگے بیان کرنے والا اس کا شاگرد ’’سوار بن مصعب بھی اسی قسم کا ہے البتہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس اس طرح کا ایک معاملہ آیا تو انہوں نے فرمایا: ’’لاپتہ شوہر کی بیوی چار سال تک انتظار کرے پھر شوہر کے فوت ہونے کی عدت چار ماہ دس دن گزارے، اس کے بعد اگر چاہے تو شادی کر سکتی ہے۔‘‘ (بیہقی ص ۴۴۵ ج ۷)

بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی اسی موقف کو اختیار کیا تھا اور اس کے مطابق فیصلہ دیا تھا۔(مصنف عبدالرزاق ص ۸۵ ج ۷)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بھی یہی موقف ہے۔ (بیہقی ص ۴۴۵ ج ۷)

امام بخاری رحمہ اللہ کا رجحان ایک سال تک انتظار کرنے کی طرف معلوم ہوتا ہے، چنانچہ انہوں نے اپنی صحیح میں ایسے شخص کے متعلق ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: ’’گم شدہ خاوند کی بیوی اور اس کے مال و متاع کا حکم۔‘‘ (بخاری، الطلاق باب نمبر: ۲۲)

لیکن آپ نے واضح طور پردوٹوک الفاظ میں کوئی فیصلہ نہیں کیا البتہ پیش کردہ آثار واحادیث سے آپ کا رجحان معلوم کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ آپ نے حضرت سعید بن مسیب کا ایک فتویٰ نقل کیا ہے کہ جب کوئی سپاہی میدان جنگ میں گُم ہو جائے تو اس کی بیوی ایک سال تک انتظار کرے، نیز آپ نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے متعلق بیان کیا ہے کہ انہوں نے کسی سے ادھار لونڈی خریدی پھر لونڈی کا مالک گُم ہو گیا تو انہوں نے ایک سال تک اس کا انتظار کیا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنا رجحان بیان کرنے کیلئے حدیث لقطہ بیان کی ہے کہ اگر کسی کو گِرا پڑا سامان ملے تو وہ اس کا سال بھر اعلان کرے۔ (صحیح بخاری، الطلاق: ۵۲۹۲)

ان آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک گم شدہ خاوند کی بیوی کیلئے انتظار کا وقت ایک سال مقرر کیا جا سکتا ہے موجودہ احوال و ظروف اور ذرائع مواصلات کے پیش نظر یہ موقف انتہائی قرین قیاس ہے۔ ہمارے نزدیک بھی ایک سال کا انتظار کافی معلوم ہوتا ہے بصورت دیگر قدیم فتویٰ چار سال والا تو اپنی جگہ جمہور علماء اسلام اور مفتیانِ کرام کے ہاں رائج چلا آ رہا ہے لیکن عقد نکاح کوئی کچا دھاگہ نہیں کہ جسے آسانی سے توڑ دیا جائے اور یہ ایک ایسا حق ہے جو خاوند کیلئے لازم ہو چکا ہے، اس بناء پر اس عقد نکاح کو کھولنے کا مجاز عورت کا خاوند ہے جو گم ہو چکا ہے۔ اب دفع مضرت کیلئے عدالت‘ خاوند کے قائم مقام ہوگی اور اس نکاح کو فسخ قرار دینے کی مجاز ہوگی، جیسا کہ خلع وغیرہ میں ہوتا ہے۔ اس لئے ہمارے نزدیک گم شدہ خاوند سے خلاصی کیلئے یہ طریقہ اختیار کیا جائے کہ عورت فیملی کورٹ کی طرف رجوع کرے، رجوع سے قبل جتنی مدت گزر چکی ہو گی اس کا کوئی اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ ہمارے ہاں بعض عورتیں مدت دراز تک انتظار کرنے کے بعد عدالت کے نوٹس میں معاملہ لائے بغیر یا اس کا فیصلہ حاصل کرنے سے قبل محض فتویٰ لے کر آگے نکاح کر لیتی ہیں، ان کا یہ اقدام نکاح انتہائی محل نظر ہے۔

امام مالک رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ اگر کوئی عورت عدالت کے نوٹس میں لائے بغیر اپنے مفقود شوہر کا چار سال تک انتظار کرے تو کیا اس مدت کا اعتبار کیا جائے گا تو آپ نے جواب دیا: ’’اگر وہ اس طرح بیس سال بھی گزار دے تو بھی اس کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا۔‘‘ (المدونۃ الکبریٰ ص ۹۳ ج ۲)

اس بناء پر ضروری ہے کہ جس عورت کا خاوند لاپتہ ہو جائے تو وہ فوری طور پر عدالت کی طرف رجوع کرے پھر اگر عدالت اس نتیجہ پر پہنچے کہ واقعی اس کا خاوند گم شدہ ہے تو وہ اسے ایک سال تک انتظار کرنے کا حکم دے گی۔ اگر اس مدت تک اس کا شوہر نہ آئے توایک سال کے اختتام پر عدالت فسخ نکاح کی ڈگری جاری کرنے کی مجاز ہوگی۔ عدالت کے فیصلے کے بعد عورت اپنے شوہر کو مردہ تصور کر کے عدتِ وفات یعنی چار ماہ دس دن گزارے گی۔ اس کے بعد نکاح ثانی کرنے کی مجاز ہوگی۔ اگر عدالت بلاوجہ معاملہ کو طول دے اور عورت مجبور ہو کر صبر نہ کر سکے تو مسلمانوں کی ایک جماعت تحقیق کر کے اس کے گم شدہ خاوند کے متعلق فیصلہ کرے، ایسے حالات میں پنچائتی فیصلہ بھی عدالت مجاز کا فیصلہ ہی تصور ہوگا۔ (واللہ اعلم)
یہ فتوی کسی جمیعت اہلحدیث کا ہے.
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اسی معاملے کے تعلق سے میرا بھی ایک سوال ہے کہ:
شوہر کی گمشدگی کے دوران بیوی اور بچوں کے خرچے کا کون ذمہ دار ہو گا؟
 

mzada256

مبتدی
شمولیت
مارچ 26، 2017
پیغامات
3
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
17
ماشاء اللہ بہت خوب جواب

Sent from my SM-N910C using Tapatalk
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم

میری رائے کے مطابق شوہر کی گمشدگی کے دوران بیوی اور بچوں کا خرچہ بیت المال کے ذمہ ہے۔

والسلام
 
شمولیت
دسمبر 01، 2016
پیغامات
141
ری ایکشن اسکور
26
پوائنٹ
71
السلام علیکم

میری رائے کے مطابق شوہر کی گمشدگی کے دوران بیوی اور بچوں کا خرچہ بیت المال کے ذمہ ہے۔

والسلام
وعلیکم السلام
اس سلسلہ میں کوی نص ہو تو پیش کریں یا کم از کم یہ بتلا دیں کہ آپ کس بنیاد پر بیت المال کو ذمہ دار قرار دے سکتے ہیں یا پھر آپ نے قیاس کس طرح کیا ہے اسکی وضاحت کردیں تو بہتر ہوگا
 
Top