• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نکاح کے متعلق چند سوالات

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,128
پوائنٹ
412
السلام علیکم
ایک بہن کا سوال ہے!
الحمد للہ میری کوشش رہتی ہے کہ استخارہ کے ذریعے مدد لوں. لیکن پھر بھی میں شش و پنج کا شکار رہتی ہوں.
شادی کو لیکر میرا سوال ہے ..
میرے والدین اہل حدیث نہیں ہیں. اور الحمد للہ میں اہل حدیث ہوں.
اور اب جب شادی کا وقت ہے. تو میری اور انکی پسند میں بہت فرق ہو رہا ہے.. میں چاہتی ہوں کہ لڑکا توحید والا ہو. اور والدین کہتے ہیں کہ لڑکا کیسا بھی ہو بس کر لینا ہے. والدین کو سمجھانا میرے بس کی بات نہیں. انھیں جب بھی سمجھانے کی کوشش کرو تو. وہ یہی کہتے ہیں کہ لڑکا شادی کے بعد نماز پڑھنا چھوڑ دے تو پھر کیا کروگی؟
الله ہم سب کو صحیح دین کی سمجھ دے آمین.
خیر، اب مسئلہ یہ ہے کہ لڑکا ہے جو نماز کا پابند ہے.. لیکن میں اسکے گھر کے حالت نہیں جانتی. وہ توحید پر ہے یا نہیں. میں نے والدین سے کہا کہ وہ اس لڑکے سے پوچھیں یا انکے گھر والوں سے پوچھیں دین کے بارے میں لیکن والدین دین کی بارے میں پوچھنے پر راضی نہیں ہیں. ایسے میں کیا کرنا چاہیے؟ میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے.
اور دینداری دیکھ کر نکاح کرنے کا حکم ہے، دین میں کیا کیا چیزیں شامل ہوتی ہیں؟ ہمیں کیسے پتا چلے گا کہ سامنے والا بندہ دیندار ہے یا نہیں؟
کیا میں اس لڑکے سے میسج کے ذریعے دین کے متعلق بات کر کے معلوم کرسکتی ہوں کہ وہ بندہ توحید پر ہے بھی یا نہیں؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
السلام علیکم
ایک بہن کا سوال ہے!
الحمد للہ میری کوشش رہتی ہے کہ استخارہ کے ذریعے مدد لوں. لیکن پھر بھی میں شش و پنج کا شکار رہتی ہوں.
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
اصل مسئلہ کے جواب سے پہلے یہ جان لیں کہ :
استخارہ ہمیشہ اُن جائزاختیاری (Optional) کاموں کے لئے کرنا چاہیے جن کے ضمنی معاملات کے انتخاب کے لئے انسان کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ کرے یا نہ کرے اور اگر کرے تو وہ کوئی مخصوص کام کب، کیسے اور کس کے ساتھ کرے وغیرہ وغیرہ۔ یعنی اولاً پیشِ نظر معاملہ شریعت کے معیارِ حلال و حرام اور بنیادی رہنمائی سے مطابقت رکھنے والا ہو ۔ مثلاًرشتے کے حوالے سے بنیادی رہنمائی موجود ہے۔اسی طرح کے بنیادی اور شرعی معیارسواری، کاروبار، یا گھر کی خریداری اور سفر وغیرہ کے لئے بھی موجود ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

استخارہ جائز اور پسندیدہ ہے وہ ”مباح“ ہے یعنی جائز امور، جن کے کرنے یا نہ کرنے میں اللہ تعالیٰ نے مسلمان کو اختیار دیا ہے۔
مثلا دو جائز امور میں سے ایک کو اختیار کرنا کہ آیا ان میں سے ایک اختیار کیا جائے یا نہیں یا پھر کس کو اختیار کیا جائے، ایسے کاموں میں استخارہ جائز اور فائدہ مند ہے۔ یا پھر کسی ایک جائز کام کو شروع کرنے میں استخارہ کرے کہ آیا یہ کام اس کے لیے فائدہ مند ہے کہ شروع کرے یا پھر بے فائدہ ہے کہ اس کو چھوڑ دے۔

یاد رہے کہ استخارہ ایسے واجب اور مستحب امور میں بھی ہو سکتا ہے جن کے لیے شریعت نے کھلا وقت رکھا ہے لیکن اس کام کو کرنے یا نہ کرنےمیں استخارہ نہیں ہو گا کیونکہ وہ واجب یا مستحب ہے مگر اس کے لیے مناسب وقت اختیار کرنے میں ہو سکتا ہے کہ اسے آج شروع کرے یا کسی اور وقت میں شروع کرے مثلا حج ہر بالغ عاقل صاحب استطاعت مسلمان پر فرض ہے۔ اس کے کرنے یا نہ کرنے میں استخارہ نہیں ہو گا بلکہ اس لیے کہ حج کا سفر کب شروع کیا جائے، کون سا زاد راہ اختیار کیا جائے اور کن لوگوں کے ساتھ سفر کیا جائے؟
شادی اور استخارہ
انسان کی زندگی میں شادی اہم ترین مرحلہ ہے۔ شریک حیات کا انتخاب انتہائی سمجھ کر کرنا چاہیے۔ اگر میاں بیوی میں ہم آہنگی ہو، وہ ایک دوسرے کے طبعی میلان، عادات، پسند ناپسند کا خیال رکھیں تو ایسا گھر جنت نظیر ہوتا ہے اور اللہ نہ کرے اگر اس کے برعکس صورت حال ہو تو دنیا میں ہی عذاب سے واسطہ پڑ جاتا ہے ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ والدین اور اولاد دونوں کی طرف سے شادیوں کے فیصلے میں زبر دست زیادتیاں اور غلطیاں دیکھنے میں آتی ہیں۔ والدین عام طور پر رشتہ داروں میں یا لالچ کی خاطر شادیاں کرنے کے لیے غیر مناسب رشتوں کا انتخاب کرتے ہیں جس کا نتیجہ بربادی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ اسی طرح اولاد بھی حقائق کو ٹھکرا کر Love Marriage جیسی لعنت میں مبتلا ہو جاتی ہے جو وقتی اور جزباتی فیصلہ ہوتا ہے جس کا انجام کچھ ہی عرصہ کے بعد انتہائی بھیانک صورت حل میں سامنے آتا ہے۔ ان تمام مصائب سے بچنے کے لیے استخارہ ایک زبردست ہتھیار ہے جس میں ناکامی کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ میں اس موقع پر یہ بھی عرض کرنا چاہوں گا کہ شادی کی اہمیت کے پیش نظر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصی طور پر استخارہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے استخارہ کا ذکر عام طور پر کیا جس میں شادی بھی داخل ہے مگر اس کا خاص ذکر اس کی اہمیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ شادی کے لیے خاص طور پر استخارہ کی روایت ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تو بہترین طریقہ سے وضو کر پھر اللہ تعالیٰ نے جو تیرے مقدر میں لکھی ہے وہ نماز پڑھ پھر اللہ تعالیٰ کی تعریف اوربزر گی بیان کر“ پھر یہ کہہ :
﴿اللَّهُمَّ إِنَّكَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ وَأَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ، فَإِنْ رَأَيْتَ لِي فِي فُلَانَةِ ( تسميھا باسمھا . . .) خَيْرَاً فِي دِينِي وَدُنْيَايَ وَآخِرَتِي فَاقْدُرْهَا لِي وَإِنْ كَانَ غَيْرُهَا خَيْرٌ لِي مِنْهَا فِي دِينِي وَآخِرَتِي فاقض لِي بھا او قال فَاقْدُرْهَا لِي ﴾ (مستدرک حاکم، کتاب صلوۃ التطوع باب الاستخارہ فی خطبۃ النکاح : 314/1)
”اے اللہ تو قدرت رکھتا ہے اور میں طاقت نہیں رکھتا۔ تو جانتا ہے اور میں نہیں جانتا تو غیبوں کو خوب جاننے والا ہے اور اگر تو فلاں عورت کے متعلق سمجھتا ہے (اس کا نام لے) کہ اگر وہ میرے لیے دین، دنیا اور میری آخرت کے لحاظ سے بہتر ہے تو میرے لیے اس کا فیصلہ فرما دے اور اگر اس کے علاوہ کوئی میرے دین، دنیا اور آخرت کے لحاظ سے بہتر ہےتو میرے لیے اس کا فیصلہ کر دے یا اس کو میرے مقدر میں کر دے۔ “

احادیث کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ شادی کے متعلق اللہ تعالیٰ سے استخارہ کرنے والا ناکام نہیں ہوتا۔ کیونکہ اگر وہ اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے بہتری اور بھلائی کا سوال کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کبھی بھی اس کے لیے نامناسب فیصلہ نہیں کرتے۔
اس حدیث کی روشنی میں یہ بات بھی کہی جا سکتی ہے کہ والدین اپنی اولاد کے لیےکسی رشتہ کا انتخاب کرتے وقت استخارہ کر سکتے ہیں کہ آیا وہ اپنی بیٹی یا بیٹے کی شادی اس جگہ کریں یا نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کے لیے بہتر فیصلہ ہی فرمائیں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
سنن الترمذی
باب ما جاء إذا جاءكم من ترضون دينه فزوجوه
باب: قابل اطمینان دیندار کی طرف سے شادی کا پیغام آنے پر شادی کر دینے کا حکم


حدثنا قتيبة حدثنا عبد الحميد بن سليمان عن ابن عجلان عن ابن وثيمة النصري عن ابي هريرة قال:‏‏‏‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ " إذا خطب إليكم من ترضون دينه وخلقه فزوجوه إلا تفعلوا تكن فتنة في الارض وفساد عريض ". قال:‏‏‏‏ وفي الباب عن ابي حاتم المزني وعائشة ‘‘
(سنن الترمذی ،حدیث نمبر: 1084)
سیدنا ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تمہیں کوئی ایسا شخص شادی کا پیغام دے، جس کی دین داری اور اخلاق سے تمہیں اطمینان ہو تو اس سے شادی کر دو۔ اگر ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ اور فساد عظیم برپا ہو گا“۔


قال الشيخ الألباني: حسن، الإرواء (1668) ، الصحيحة (1022)

مزید تخریج کیلئے ، سنن ابن ماجہ/النکاح ۴۶ (۱۹۶۷) (حسن صحیح) (سند میں عبدالحمید بن سلیمان میں کچھ کلام ہے، لیکن متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، دیکھئے الإ رواء رقم: ۱۸۶۸، الصحیحة ۱۰۲۲)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

اور لڑکی کی رضابھی اس کے نکاح میں ضروری ہے:

حدثنا معاذ بن فضالة حدثنا هشام عن يحيى عن ابي سلمة ان ابا هريرة حدثهم ان النبي صلى الله عليه وسلم قال:‏‏‏‏"لا تنكح الايم حتى تستامر ولا تنكح البكر حتى تستاذن قالوا:‏‏‏‏ يا رسول الله وكيف إذنها؟ قال:‏‏‏‏ ان تسكت".
(صحیح البخاری ،حدیث نمبر: 5136 )
جناب ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بیوہ عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ لی جائے اور کنواری عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ مل جائے۔ صحابہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! کنواری عورت اذن کیونکر دے گی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی صورت یہ ہے کہ وہ خاموش رہ جائے۔ یہ خاموشی اس کا اذن سمجھی جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


(( عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ جَارِیَۃً بِکْرًا أَتَتِ النَّبِيَّ صلی الله علیہ وسلم فَذَکَرَتْ لَہٗ أَنَّ أَبَاھَا زَوَّجَھَا وَھِيَ کَارِھَۃٌ ، فَخَیَّرَھَا النَّبِيُّ صلی الله علیہ وسلم ))
’’ ابن عباس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک کنواری لڑکی نبی صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئی اور اس نے کہا کہ اس کے باپ نے اس کا نکاح کیا ہے اور وہ پسند نہیں کرتی تو نبی صلی الله علیہ وسلمنے اسے اختیار دے دیا۔‘‘سنن ابن ماجہ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ


بغیر ولی کے نکاح کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مجھے یہ دریافت کرنا تھا کہ کیا لڑکی اپنی مرضی سے نکاح کر سکتی ہے۔؟ اور ایک حدیث کی مکمل تخریج اور سندبھی چاہیے، حدیث کچھ اس طرح ہے۔:
"جب تمہارے پاس ايسا شخص آئے جس كے دين اور اخلاق كو تم پسند كرتے ہو تو تم اس كے ساتھ ( اپنى لڑكى كا ) نكاح كر دو، اگر ايسا نہيں كرو گے تو زمين ميں بہت زيادہ فتنہ و فساد برپا ہو گا"
یہ حدیث کس کتاب میں درج ہے اور باب اور حدیث نمبر بھی درکار ہے۔ جلد سےجلد جواب سے آراستہ کریں۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ۔
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال


وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عورت بذات خود اپنا نکاح نہیں کر سکتی ،کیونکہ شرعاً عورت نہ اپنی ولی بن سکتی ہے اور نہ ہی کسی دوسری عورت کی ولی بن سکتی ہے ۔اور ولی کے بغیر نکاح واقع ہی نہیں ہوتا۔
نبی کریم نے فرمایا:
’’ لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ ‘‘ (جامع ترمذی أبواب النکاح باب ما جاء لا نکاح إلا بولی ح ۱۱۰۱)
ولی کے بغیر نکاح نہیں ہے۔
دوسری جگہ آپ نے فرمایا:
’’ أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إِذْنِ مَوَالِيهَا فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ‘‘ (سنن ابی داود کتاب النکاح باب فی الولی ح ۲۰۸۳)
جو عورت بھی اپنے اولیاء کی اجازت کے بغیر نکاح کرواتی ہے تو اسکا نکاح باطل ہے آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے یہ بات تین مرتبہ دہرائی ۔
یہ حدیث مبارکہ سنن ترمذی (ابواب النکاح،بَابُ مَا جَاءَ إِذَا جَاءَكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِينَهُ فَزَوِّجُوهُ،نمبر ،امام ۱۰۸۵) میں موجود ہے ،امام البانی رحمہ اللہ نے اس کو حسن لغیرہ کہا ہے،جس کے الفاظ یہ ہیں۔
’’ إذا أتاكم من ترضون خلقه ودينه فزوجوه إلا تفعلوا تكن فتنة في الأرض وفساد عريض‘‘
"جب تمہارے پاس ايسا شخص آئے جس كے دين اور اخلاق كو تم پسند كرتے ہو تو تم اس كے ساتھ نكاح كر دو، اگر ايسا نہيں كرو گے تو زمين ميں بہت زيادہ فتنہ و فساد برپا ہو گا"
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتویٰ کمیٹی
محدث فتویٰ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
عادتا اورغالب طور پر بھی گھر والے ہی اپنی بیٹی کے لیے زيادہ مناسب رشتہ تلاش کرسکتے ہیں اوروہی اس کی تحدید کر سکتے ہیں کہ ان کی بیٹی کے لیے کون بہتر رہے گا ، کیونکہ غالب طور پر بیٹی کو زيادہ علم نہيں ہوتا اورنہ ہی اسے زندگی کا زيادہ تجربہ ہے ، ہوسکتا ہے وہ بعض میٹھے بول اورکلمات سے دھوکہ کھاجائے اوراپنی عقل کی بجائے اپنے جذبات سے فیصلہ کرڈالے ۔

اس لیے لڑکی کو چاہیے کہ اگر اس کے گھروالے دینی اورعقلی اعتبار سے صحیح ہوں تو وہ اپنے گھر والوں کی رائے سے باہر نہ جائے بلکہ ان کی رائے قبول کرلے ،
لیکن اگر عورت کےولی بغیر کسی صحیح سبب کے رشتہ رد کریں یا ان کا رشتہ اختیار کرنے میں معیار ہی غیر شرعی ہو مثلا اگر وہ صاحب دین اوراخلاق والے شخص پر کسی مالدار فاسق کو مقدم کریں ۔تو شرعا لڑکی کو بھی انکار کا حق ہے ،
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
مرد ہو یا عورت نکاح کےلئے اس کی ترجیح ہمیشہ دینداری ہونی چاہیئے ،
صحیح بخاری (حدیث نمبر: 5090 ) اور دیگر کئی کتب حدیث میں حدیث رسول ﷺ ہے :
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ لِأَرْبَعٍ: لِمَالِهَا، وَلِحَسَبِهَا، وَجَمَالِهَا، وَلِدِينِهَا، فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاكَ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورت سے نکاح چار چیزوں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے اس کے مال کی وجہ سے اور اس کے خاندانی شرف کی وجہ سے اور اس کی خوبصورتی کی وجہ سے اور اس کے دین کی وجہ سے اور تو دیندار عورت سے نکاح کر کے کامیابی حاصل کر، تیرے ہاتھ خاک آلودہ ہوں ۔
اور گذشتہ پوسٹ میں حدیث شریف نقل کی تھی کہ :
ن ابي هريرة قال:‏‏‏‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ " إذا خطب إليكم من ترضون دينه وخلقه فزوجوه إلا تفعلوا تكن فتنة في الارض وفساد عريض ". قال:‏‏‏‏ وفي الباب عن ابي حاتم المزني وعائشة ‘‘
(سنن الترمذی ،حدیث نمبر: 1084)
سیدنا ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تمہیں کوئی ایسا شخص شادی کا پیغام دے، جس کی دین داری اور اخلاق سے تمہیں اطمینان ہو تو اس سے شادی کر دو۔ اگر ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ اور فساد عظیم برپا ہو گا“۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس لئے لڑکی کے والدین کو رشتہ کیلئے اس شرعی معیار کو سامنے رکھنے پر آمادہ کیا جائے ،
اور لڑکی بھی والدین کو احترام اور آداب کا لحاظ رکھتے ہوئے اسی مطلوبہ شرعی معیار کی پابندی کا قائل و فاعل بنائے
والدین کو قائل کرنے کیلئے خاندان کے مؤثر حضرات و خواتین سے مدد بھی لی جاسکتی ہے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
اور دینداری دیکھ کر نکاح کرنے کا حکم ہے، دین میں کیا کیا چیزیں شامل ہوتی ہیں؟ ہمیں کیسے پتا چلے گا کہ سامنے والا بندہ دیندار ہے یا نہیں؟
کیا میں اس لڑکے سے میسج کے ذریعے دین کے متعلق بات کر کے معلوم کرسکتی ہوں کہ وہ بندہ توحید پر ہے بھی یا نہیں؟
دینداری کیلئے ابتدائی دینی شعور یعنی توحید و شرک کی اجمالی تمیز ۔۔۔ سنت و بدعت کی ابتدائی پہچان ۔۔
اسلام کے بنیادی فرائض کی ضروری شناسائی اور
اور ان پر حسب توفیق عمل یعنی نماز و روزہ وغیرہ کی پابندی ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میسج کے زریعہ معلوم کیا جاسکتا ہے ۔۔۔ اس میں کوئی شرعی قباحت تو نہیں ۔۔۔لیکن ۔۔۔ یہ دیکھ لیجئے کہ :
ایسا ماحول اور صورت حال نہ ہو کہ میسج کے اثرات و نتائج نقصان دہ ہوں ۔
یعنی میسج کا معاملہ حسب حال ہی دیکھنا ہوگا ۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,128
پوائنٹ
412
بارک اللہ فیکم
جزاکم اللہ خیرا
 
Top