اہل علم سے یہ حقیقت پوشیدہ نہیں ہے کہ نہج البلاغہ کے اکثر خطبات خود ساختہ اور جھوٹے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کسی قدیم کتاب میں مندرج نہیں ۔ اسکی حد یہ ہے کہ کتب ادب جن میں سند مذکور نہیں ہوتی ، ان میں بھی یہ الفاظ مذکور نہیں ہیں۔ مثلا جاحظ کی '' البیان والتبین'' میں حضرت علیؓ کا یہ خطبہ صرف چند سطروں تک محدود ہے ، اگر اس خطبہ کا تقابل نہج البلاغہ میں ذکر کردہ خطبہ کے ساتھ کیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ نہج البلاغہ میں اس خطبہ کو بہت بڑحا چڑھا کر بیان کیا گیا ہے اور وہ اضافہ کیا گیا ہے جو جاحظ کے زمانہ تک موجود نہیں تھا۔ مشہور شیعہ عالم رضی اور انکے بھائی مرتضی نے نہج البلاغہ میں جس جعل سازی کا کام کیا ہے،وہ یہ ہے کہ ایک ثابت شدہ چیز پر بے بنیاد باتوں کا اضافہ کرتے ہیں۔ '' لقد تقمصا'' کاجملہ بھی اسی میں شامل ہے۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ نہج البلاغہ میں ذکر کردہ اقوال حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ارشادات کی تنقیض ہوتے ہیں اور انکی نہ کوئی سند ہوتی ہے نہ کوئی دلیل۔ روافض کے ستم ظریفی ملاحظہ فرمائیے کہ اس طرح انہوں نے حضرت علی کے اقوال میں تناقص ثابت کردیا جس سے انکا دامن پاک تحا۔ نہج البلاغہ کے خطبات میں بعض ایسی باتیں بھی ہیں جن کے خلاف صراحتہ حضرت علیؓ سے منقول ہے۔ اللہ تعالی نے بندوں پر یہ ضروری قرار نہیں دیا کہ کسی بات کو بلادلیل تسلیم کرلیں۔
منہاج السنتہ النبویۃ ، شیخ السلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ ، المنتقی علامہ ذہبی رحمہ اللہ، تحشیہ علامہ محب الدین خطیب رحمہ اللہ ، ترجمہ پروفیسر غلام احمد حریری۔ صفحہ نمبر 629۔۔
سید مہدی بن سید نجف رضوی شیعی مولف کتاب تذکرہ العلماء میں کہتا ہے کہ کتاب نہج البلاغہ شریف الرضی کی تصنیف ہے۔
نہج البلاغہ کی چوتھی صدی ہجری کے اواخر کی تصنیف ہونے کا ایک ثبوت یہ ہے کہ اس زمانہ میں عبیدیوں (فاطمی خلفاء مصر) کو قوت حاصل ہوگئی تھی چناجچہ نہج البلاغہ کے مصنف نے حضرت علی کی زبان سے عبیدیوں کے فاطمی نسب ہونے کے ثبوت میں یہ الفاظ ادا کروائے۔ ''
پھر قیروان کا حاکم ظاہر ہوگا جو نوخیز ، نازک اندام، سچے نسب والا ہوگا اور اعلی خاندان والے چادر سے ڈھکے ہوئے کی اولاد سے ہوگا۔''
ابن ابی الحدید نے نہج البلاغہ کے ان فقرات کی تشریح میں لکھا ہے کہ '' چادر سے ڈھکے ہوئے سے مراد اسماعیل ہے ، جو حضرت علی کی وفات سے تقریبا ایک صدی بعد اپنے والد جعفر کے زندگی میں مرگئے تھے۔
وضعی روایت میں کہا گیا ہے کہ انکو ایک چادر میں ڈھانپ کر شیعوں کو دکھایا جاتا ہے۔ عبید اللہ نے اسماعیل کے فرزند محمد کی اولاد میں ہونے کا دعوی کیا تھا۔ عبید اللہ ہی نے حضرت علی کی وفات کے تقریبا ڈھائی سو سال بعد قیروان پر قبضہ کرلیا تھا۔ قیروان کا کوئی وجود حضرت علی کے زمانے میں نہیں تھا۔ حضرت علی کے اس وضعی قول کی جعلسازی ثابت ہوگئی کیونکہ مسلمانوں میں سے کسی نے عبیدیوں کے دعوے کو قبول نہیں کیا تھا۔
شیعوں کا دعوی ہے کہ حضرت علی کے خطبات کی یاداشتیں لکھی گئیں ہیں جو انکی اولاد میں منتقل ہوتی رہیں۔ شیعوں کے بموجب۔ جعفر صادق (وفات ۱۳۸ ھ) نے حضرت علی کی وفات کے کم و بیش ستر سال بعد ان یاداشتوں کی مدد سے پانچ سو سے زیادہ خطبے تصنیف کئے۔ بعد میں شریف الرضی اور شریف المرتضی دونوں بھائیوں نے ان الگ الگ خطبات کو ایک کتاب میں اکھٹا کردیا۔ ا س طرح شیعوں کا کہنا ہے کہ نہج البلاغہ حضرت علی کے خطبات ہیں ۔ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ نہج البلاغہ ، تحت کلام الخالق اور فوق کلام المخلوق ہے۔ گویا اسکا درجہ نعوذ باللہ احادیث نبوی سے بڑھ کر ہے۔ اگر نہج البلاغہ کے خطبات کو حضرت علی کے خطبات تسلیم کیا جائے تو ان سے غلط تاثر پیدا ہوتا ہے کہ رسول اکرم ﷺ کے تربیت یافتہ صحابہ ایسے عقائد کے حامل نہیں ہوسکتے، جو نہج البلاغہ کے خطبات میں پائے جاتے ہیں۔
کتاب : شمع حقیقت ، قاضی محمد علی ، صفحہ نمبر ۱۴۰ ۔ ۱۳۸