• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نہ یہ اســـــلام ہے نہ یہ ثواب ہے نہ یہ جہـــــاد ہے !!!

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
نہ یہ اســـــلام ہے نہ یہ ثواب ہے نہ یہ جہـــــاد ہے !!!

10501602_878799202162569_6153451092311847353_n.png



دھمـــــاکے کرنا ! عام بے گناہ شہریوں پر یا عبادت گاہوں پر

نہ یہ اســـــلام ہے نہ یہ ثواب ہے نہ یہ جہـــــاد ہے

جو یہ کام کرتے ہیں وہ ملک و قوم اور اسلام کے خیر خواہ نہیں ہو سکتے


 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069

پاکستان میں قتل و غارت گری جہاد نہیں فساد ہے – مفتی عبدالرحمن عابد

فیصل آباد- جماعۃ الدعوۃ پاکستان کے مرکزی رہنما مفتی عبدالرحمن عابد نے کہا ہے کہ پاکستان میں بم دھماکوں اور فرقہ وارانہ قتل و غارت گری میں بھارت ملوث ہے۔ مسلمانوں پر کفر کے فتوے لگا کر قتل وغارت گری کی تحریکیں پروان چڑھانا اسلامی شریعت میں کسی صورت جائز نہیں ہے اور یہ فتنہ مسلم ملکوں میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ جب یہ فتنہ پروان چڑھتا ہے تو صر ف چند لوگوں تک نہیں محدود نہیں رہتا بلکہ ہر شخص اس سے متاثر ہوتا ہے اس لئے اس فتنہ کے خاتمہ کیلئے بھی ہر شخص کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی چاہئیں۔

پاکستان میں قتل و غارت گری جہاد نہیں فساد ہے۔ علماء کرام قوم کی رہنمائی کریں اور بیرونی سازشوں سے آگاہ کرتے ہوئے مسلمانوں کو متحد وبیدار کرنے کا فریضہ سرانجام دیں۔

وہ مرکز خیبر نشاط آبادمیں نماز جمعہ کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب کر رہے تھے۔ اس موقع پر مختلف مکاتب فکر اور شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد نے ان کی امامت میں نماز جمعہ ادا کی۔مفتی عبدالرحمن عابد نے اپنے خطاب میں کہاکہ مسلمان بہت صاحب بصیرت ہوتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام معاملات کی اصلاح اور اتحادویکجہتی کا ماحول پیدا کرنے کیلئے بھرپور کردار اد اکیاجائے۔

انہوں نے کہاکہ مسلم ملکوں میں فتنہ تکفیر بہت زیادہ شدت اختیا رکر چکا ہے۔ فرقہ واریت عام ہونے کی وجہ سے بھی یہ فتنہ پروان چڑھ رہا ہے۔ جب یہ فتنے انتہا کو پہنچ رہے ہوں تو ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگا نا جلتی پر تیل ڈالنے کے مترادف ہے۔حکمرانوں و عوام کی کمزوریاں دیکھ کر ان پر کفر کے فتوے لگانا درست نہیں بلکہ ان کی اصلاح کرنی چاہیے۔افسوسناک امر یہ ہے کہ مسلمانوں کی صفوں میں گھسے ہوئے اس فتنہ کا شکار بعض لوگ مسلم معاشروں میں قتل و غارت گری اور تباہیاں پھیلا رہے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ مسلمان آپس کی لڑائیاں ترک کر دیں اور دشمنان اسلام کی سازشیں ناکام بنانے کیلئے متحد ہو جائیں۔ کلمہ طیبہ کی بنیاد پر حاصل کئے گئے ملک میں دھماکوں کو جائز سمجھنے والوں کو چاہیے کہ وہ کشمیرجاکر مظلوم کشمیریوں کو آٹھ لاکھ بھارتی فوج کے ظلم و تشدد سے نجات دلائیں۔

علماء اور خطباء کو بھی چاہیے کہ وہ نوجوانوں کو کفار کی سازشوں اور امت کا شیرازہ بکھرنے سے بچائیں۔ علماء اورفقہا میں مسائل پر علمی اختلافات ہمیشہ رہے ہیں لیکن ان میں شدت نہیں تھی ۔سب آئمہ کرام نے مسلمانوں کو نبی اکرم ﷺ کی سیرت پر عمل کرنے پر زور دیااور اسی بنیاد پر امت کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی۔ آج بھی مسلم امہ کو صرف نبی مکرم ﷺ کی ذات پر ہی متحد کیاجاسکتا ہے۔

http://jamatdawa.org/killing-muslims-is-not-jihad-mufti-abdul-rehman-abid/
 

مون لائیٹ آفریدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 30، 2011
پیغامات
640
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
127
بے شک عبادت گاہوں پر دھماکے درست نہیں ہے ۔ جب یہ مومن مسلمانوں کے ہو ، لیکن شیعہ روافض کے امام باڑے اس سے مستثناء ہے جیسا کہ " مسجد ضرار" کو ڈھایا جائے گا ۔
جس میں مندرجہ ذیل صفات میں سے چند پائیں جائے ۔
وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مَسْجِدًا ضِرَ‌ارً‌ا وَكُفْرً‌ا وَتَفْرِ‌يقًا بَيْنَ الْمُؤْمِنِينَ وَإِرْ‌صَادًا لِّمَنْ حَارَ‌بَ اللَّهَ وَرَ‌سُولَهُ مِن قَبْلُ ۚ وَلَيَحْلِفُنَّ إِنْ أَرَ‌دْنَا إِلَّا الْحُسْنَىٰ ۖ وَاللَّـهُ يَشْهَدُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ ﴿١٠٧﴾
اور بعض ایسے ہیں جنہوں نے اغراض کے لئے مسجد بنائی ہے کہ ضرر پہنچائیں اور کفر کی باتیں کریں اور ایمانداروں میں تفریق ڈالیں اور اس شخص کے قیام کا سامان کریں جو اس پہلے سے اللہ اور رسول کا مخالف ہے (١) اور قسمیں کھائیں گے کہ ہم بجز بھلائی کے اور ہماری کچھ نیت نہیں، اور اللہ گواہ ہے کہ وہ بالکل جھوٹے ہیں۔
رافضیوں کے امام باڑوں میں یہ صفات پوری ہیں ۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
اور بعض ایسے ہیں جنہوں نے اغراض کے لئے مسجد بنائی ہے کہ ضرر پہنچائیں اور کفر کی باتیں کریں اور ایمانداروں میں تفریق ڈالیں اور اس شخص کے قیام کا سامان کریں جو اس پہلے سے اللہ اور رسول کا مخالف ہے (١) اور قسمیں کھائیں گے کہ ہم بجز بھلائی کے اور ہماری کچھ نیت نہیں، اور اللہ گواہ ہے کہ وہ بالکل جھوٹے ہیں۔
رافضیوں کے امام باڑوں میں یہ صفات پوری ہیں ۔
محترم بھائی ایک اسلامی ریاست میں امام باڑوں کو گرانے کے درست ہونے یا نہ ہونے کی بحث کے بغیر میں یہ کہنا چاہوں گا کہ ہم اسکی بجائے مزاروں کی مثال لے لیتے ہیں اور پھر اسی پر قیاس کرتے ہوئے آپ کے دیکھ لیجیئے گا کہ آپ کا اوپر امام باڑے گرانے کا مشورہ کس حد تک درست ہے

میرے خیال میں تمام اہل حدیث کے نزدیک مزارات جو شرک کی فیکٹریاں بنے ہوئے ہیں انکو گرانا نہ صرف درست ہے بلکہ ہمارا شرعی فرض ہے اور سعودی حکومت نے یہ کام کیا بھی تھا لیکن میرے نزدیک اسکے لئے ایک مناسب وقت بھی ہوتا ہے چنانچہ جب سعودی حکومت کو وہ وقت میسر آیا تو انہوں نے وہ کام کر دکھایا
محترم بھائی اصول فقہ کے تحت کچھ احکامات یا فرائض پر عمل خاص وقت یا حالات کے تحت مقید ہوتا ہے اور کچھ کا حکم مطلق یعنی بغیر زمانہ یا حالات کی قید کے ہوتا ہے اب یہ قید کبھی اسی حکم میں بھی ہو سکتی ہے اور کبھی شریعت کی دوسری نصوص سے بھی ثابت ہو سکتی ہے
مثلا خانہ کعبہ کو اسکی بنیادون پر نہ بنانا ایک قسم کا ظلم تھا جسکو ختم کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کام تھا مگر جب آپ نے عائشہ رضی اللہ عنھا کو کہا کہ میں اسکی خوایش کے باوجود دوسری مصلحت کی وجہ سے یہ کام نہیں کر رہا تو پتا چلا کہ کسی حکم پر عمل کسی وجہ سے موخر بھی ہو سکتا ہے
پس میرا یہ نظریہ ہے کہ جو مسلمان ان مزاروں یعنی شرک کے اڈوں کو گرانے کی خواہش ہی نہیں رکھتا یا اسکے کے لئے حالات کو ساز گار بنانے کی کوشش ہی نہیں کرتا تو وہ شریعت کی خلاف ورزی کر رہا ہے
البتہ اگر وہ یہ سب کچھ کرنے کے ساتھ ساتھ صرف حالات کے ساز گار نہ ہونے کی وجہ سے مزارات کو گرا نہیں رہا تو وہ شریعت کی خلاف ورزی نہیں کر رہا
اب اگر کوئی مسلمان حالات کو مزارات گرانے کے لئے درست نہیں سمجھتا تو ظاہر ہے وہ ایسے حالات میں مزارات گرانے والوں کو غلط ہی کہے گا اور یہ بھی کہے گا کہ وہ جہاد نہیں بلکہ فساد پھیلا رہے ہیں کیونکہ ایسا کرنا ان حالات میں منہج نبوی کے خلاف ہو گا اور صحیح جہاد تو منہج نبوی کے عین مطابق ہوتا ہے پس اسکے نظریے کے مطابق اس عمل کو فساد کہنا درست ہو گا
البتہ اگر کسی کو یہ اعتراض ہو کہ یہ وہ حالات نہیں جب مزار گرانا ممنوع ٹھہرے تو وہ پہلے اس پر اس کو قائل تو کرے کہ یہ وہ حالات نہیں اور اسکے لئے میں یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں جہادی علماء (جن کو آپ جہادی مانتے ہیں مثلا امین اللہ پشاوری یا حامد کمال الدین وغیرہ) سے بھی پوچھا جائے کہ وہ پاکستان میں مزارات گرائیں گے تو وہ کبھی اسکی تائید نہیں کریں گے پس یہاں کے علماء عراق میں داعش کی طرف سے مزارات کو گرانے کو تو درست کہ سکتے ہیں اور کچھ نے کہا بھی ہے مگر وہی علماء یہاں پاکستان میں ایسا کرنے کو درست نہیں سمجھتے
اب آپ اگر غور کریں کہ ان علماء کو کیا فرق نظر آیا جو داعش کے مزارات گرانے کو فساد نہیں کہتے مگر یہاں پاکستان کے مزارات گرانے کو فساد کہتے ہیں تو پتا چلے گا کہ یہ حالات کا فرق ہے (یاد رکھیں داعش کے شیعہ اور اسرائیل سے لڑنے کی اکثر علماء حمایت کریں گے البتہ انکے اہل سنت کو مارنے کو فساد کہتے رہے ہیں جیسا کہ یہاں ڈاکٹر حسن مدنی حفظہ اللہ کے داعش پر مضمون میں اس طرف اشارہ موجود ہے)
جلدی میں اگر کوئی وضاحت رہ گئی ہو یا غلطی ہو گئی ہو تو بتا دیں میں اپنی اصلاح کر لوں گا ان شاءاللہ
 

مون لائیٹ آفریدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 30، 2011
پیغامات
640
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
127
مصلحت سے بھی کام لینا چاہئیے ۔ یہ بات درست ہے ۔ لیکن مصلحت ایسی ہو کہ اس میں دین اسلام اور مسلمانوں کا فائدہ بھی ہو یا کم ازکم مسلمانوں کا نقصان نہ ہو ۔
لیکن ایسی مصلحت کہ ایک ملک اس طرح اختیارکرے کہ ہم کفار امریکہ سے بظاہر ملے ہوئے ہیں لیکن باطن میں ان کفار کو مغلوب کررہے ہیں ۔
اور ایسی مصلحت میں اپنی ہی مسلمانوں کو نشانہ بنائے ۔
تو ایسی مصلحت کیا درست ہوگی ؟
 
Top