اور بعض ایسے ہیں جنہوں نے اغراض کے لئے مسجد بنائی ہے کہ ضرر پہنچائیں اور کفر کی باتیں کریں اور ایمانداروں میں تفریق ڈالیں اور اس شخص کے قیام کا سامان کریں جو اس پہلے سے اللہ اور رسول کا مخالف ہے (١) اور قسمیں کھائیں گے کہ ہم بجز بھلائی کے اور ہماری کچھ نیت نہیں، اور اللہ گواہ ہے کہ وہ بالکل جھوٹے ہیں۔
رافضیوں کے امام باڑوں میں یہ صفات پوری ہیں ۔
محترم بھائی ایک اسلامی ریاست میں امام باڑوں کو گرانے کے درست ہونے یا نہ ہونے کی بحث کے بغیر میں یہ کہنا چاہوں گا کہ ہم اسکی بجائے مزاروں کی مثال لے لیتے ہیں اور پھر اسی پر قیاس کرتے ہوئے آپ کے دیکھ لیجیئے گا کہ آپ کا اوپر امام باڑے گرانے کا مشورہ کس حد تک درست ہے
میرے خیال میں تمام اہل حدیث کے نزدیک مزارات جو شرک کی فیکٹریاں بنے ہوئے ہیں انکو گرانا نہ صرف درست ہے بلکہ ہمارا شرعی فرض ہے اور سعودی حکومت نے یہ کام کیا بھی تھا لیکن میرے نزدیک اسکے لئے ایک مناسب وقت بھی ہوتا ہے چنانچہ جب سعودی حکومت کو وہ وقت میسر آیا تو انہوں نے وہ کام کر دکھایا
محترم بھائی اصول فقہ کے تحت کچھ احکامات یا فرائض پر عمل خاص وقت یا حالات کے تحت مقید ہوتا ہے اور کچھ کا حکم مطلق یعنی بغیر زمانہ یا حالات کی قید کے ہوتا ہے اب یہ قید کبھی اسی حکم میں بھی ہو سکتی ہے اور کبھی شریعت کی دوسری نصوص سے بھی ثابت ہو سکتی ہے
مثلا خانہ کعبہ کو اسکی بنیادون پر نہ بنانا ایک قسم کا ظلم تھا جسکو ختم کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کام تھا مگر جب آپ نے عائشہ رضی اللہ عنھا کو کہا کہ میں اسکی خوایش کے باوجود دوسری مصلحت کی وجہ سے یہ کام نہیں کر رہا تو پتا چلا کہ کسی حکم پر عمل کسی وجہ سے موخر بھی ہو سکتا ہے
پس میرا یہ نظریہ ہے کہ جو مسلمان ان مزاروں یعنی شرک کے اڈوں کو گرانے کی خواہش ہی نہیں رکھتا یا اسکے کے لئے حالات کو ساز گار بنانے کی کوشش ہی نہیں کرتا تو وہ شریعت کی خلاف ورزی کر رہا ہے
البتہ اگر وہ یہ سب کچھ کرنے کے ساتھ ساتھ صرف حالات کے ساز گار نہ ہونے کی وجہ سے مزارات کو گرا نہیں رہا تو وہ شریعت کی خلاف ورزی نہیں کر رہا
اب اگر کوئی مسلمان حالات کو مزارات گرانے کے لئے درست نہیں سمجھتا تو ظاہر ہے وہ ایسے حالات میں مزارات گرانے والوں کو غلط ہی کہے گا اور یہ بھی کہے گا کہ وہ جہاد نہیں بلکہ فساد پھیلا رہے ہیں کیونکہ ایسا کرنا ان حالات میں منہج نبوی کے خلاف ہو گا اور صحیح جہاد تو منہج نبوی کے عین مطابق ہوتا ہے پس اسکے نظریے کے مطابق اس عمل کو فساد کہنا درست ہو گا
البتہ اگر کسی کو یہ اعتراض ہو کہ یہ وہ حالات نہیں جب مزار گرانا ممنوع ٹھہرے تو وہ پہلے اس پر اس کو قائل تو کرے کہ یہ وہ حالات نہیں اور اسکے لئے میں یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں جہادی علماء (جن کو آپ جہادی مانتے ہیں مثلا امین اللہ پشاوری یا حامد کمال الدین وغیرہ) سے بھی پوچھا جائے کہ وہ پاکستان میں مزارات گرائیں گے تو وہ کبھی اسکی تائید نہیں کریں گے پس یہاں کے علماء عراق میں داعش کی طرف سے مزارات کو گرانے کو تو درست کہ سکتے ہیں اور کچھ نے کہا بھی ہے مگر وہی علماء یہاں پاکستان میں ایسا کرنے کو درست نہیں سمجھتے
اب آپ اگر غور کریں کہ ان علماء کو کیا فرق نظر آیا جو داعش کے مزارات گرانے کو فساد نہیں کہتے مگر یہاں پاکستان کے مزارات گرانے کو فساد کہتے ہیں تو پتا چلے گا کہ یہ حالات کا فرق ہے (یاد رکھیں داعش کے شیعہ اور اسرائیل سے لڑنے کی اکثر علماء حمایت کریں گے البتہ انکے اہل سنت کو مارنے کو فساد کہتے رہے ہیں جیسا کہ یہاں ڈاکٹر حسن مدنی حفظہ اللہ کے داعش پر مضمون میں اس طرف اشارہ موجود ہے)
جلدی میں اگر کوئی وضاحت رہ گئی ہو یا غلطی ہو گئی ہو تو بتا دیں میں اپنی اصلاح کر لوں گا ان شاءاللہ