• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نیو ائیر نائیٹ کی تقاریب کا بائیکاٹ کیجیے !

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
بسم اللہ الرحمن الرحیم

نئے سال کی مبارکباد !


حديث نمبر :149
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
بتاریخ : 21/22/محرم 1432 ھ، م 28/27 ڈسمبر2010


نئے سال کی مبارکباد ؟


عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ـ رضى الله عنه ـ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ " لَتَتَّبِعُنَّ سَنَنَ مَنْ قَبْلَكُمْ شِبْرًا بِشِبْرٍ، وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ، حَتَّى لَوْ سَلَكُوا جُحْرَ ضَبٍّ لَسَلَكْتُمُوهُ ". قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى قَالَ " فَمَنْ "؟.

( صحيح البخاري :3456 ،الأنبياء – صحيح مسلم :2669 ، العلم )

ترجمہ: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : تم لوگ اپنے سے پہلی قوموں کی ضرور پیروی کروگے ، بالشت بالشت برابر اور ہاتھ ہاتھ کے برابر ، حتی کہ اگر وہ لوگ گوہ [گھوڑپوڑ] کے سوراخ میں داخل ہوں گے تو تم لوگ بھی ان کی پیروی کروگے ، حضرت ابو سعید کہتے ہیں کہ یہ سننے کے بعد ہم لوگوں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول کیا [پہلی قوموں سے مراد ] یہود ونصاری ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : پھر اور کون ۔

{ صحیح بخاری و صحیح مسلم }

تشریح :

باوجود اس کے کہ اللہ تبارک وتعالی نے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے بڑی تاکید سے یہ حکم دیا ہے کہ وہ اللہ و رسول کے دشمنوں کی پیروی نہ کریں ، وہ اسی صراط مستقیم پر قائم رہیں جو اللہ تعالی کا پسندیدہ راستہ اور اس تک پہنچنے کا آسان ذریعہ ہے جو اللہ تعالی کے محبوب بندوں کا راستہ ہے


وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ {الأنعام:153} "

اور یہ کہ یہ دین میرا راستہ ہے ، سو اسی پر چلو اور دوسری راہوں پر مت چلو کہ وہ راہیں تم کو اللہ تعالی کی راہ سے جدا کردیں گی-

نیز فرمایا :

[ثُمَّ جَعَلْنَاكَ عَلَى شَرِيعَةٍ مِنَ الأَمْرِ فَاتَّبِعْهَا وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ] {الجاثية:18} "

پھر ہم نے آپ کو دین کی راہ پر قائم کردیا سو آپ اسی پر جمے رہیں اور نادانوں کی خواہش کی پیروی نہ کریں


نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی اس شمار انہیں لوگوں میں ہوگا

{ سنن ابو داود } ۔


اور فرمایا :

جہاں تک ہوسکے شیطان کے چیلوں کی مخالفت کرو

{الطبرانی الاوسط }


ان تمام تاکیدات کے باوجود امت کا ایک طبقہ شیطان کی پیروی اور نفسانی خواہشات کی غلامی میں صراط مستقیم سے ہٹ کر اللہ ورسول کے دشمنوں کی راہوں پر چل چکا ہے جن سے دور رہنے کی اللہ اور اس کے رسول نے تاکید فرمائی تھی ، حتی کہ اللہ کے وہ دشمن صرف اپنی ہی نہیں بلکہ اخلاقی پستی کے اس مقام تک پہنچ چکے ہیں جس کا تصور ایک صاحب عقل و خرد آدمی نہیں کرسکتا جیسا کہ زیر بحث حدیث میں پیشین گوئی کے طور پر اور ساتھ ہی ساتھ امت کو اس پستی میں گرنے سے روکنے کے لئے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تھا کہ قیامت قائم ہونے سے قبل ایک وقت ایسا ضرور آئے گا کہ تم لوگ اپنے سے پہلی قومیں جن پر اللہ تعالی کا غضب نازل ہوچکا ہے اور جو گمراہی و ضلالت میں اس قدر آگے بڑھ گئے ہیں کہ اللہ وحدہ لاشریک لہ کے لئے بیٹا ہونے کا عقیدہ رکھ لیا ہے ان کی پیروی میں ضرور پڑو گے اور حیرت تو یہ ہے اس وقت تم عقل سے اس قدر دور ہوچکے ہوگے اور تقلید کے نشے میں اس قدر مست ہوگے اور نفسانی خواہش تم کو اس قدر پاگل بنا چکی ہوگی کہ تم سوچ و فکر سے عاری ہوچکے ہوگے اسی کی وضاحت کے لئے حدیث میں گوہ[گھوڑپوڑ] کے سوراخ میں داخل ہونے کی مثال دی گئی ہے کیونکہ عادۃ و عقلا گوہ کے سوراخ میں کسی انسان کا داخل ہونا ایک ناممکن امر ہے ، پھر بھی اگر کوئی یہودی ونصرانی اس میں داخل ہونا چاہے گا تو میری امت کے بعض افراد بھی اس کی پیروی کریں گے اور اپنی عقل و فہم سے کام نہ لیں گے یعنی اگر یہود و نصاری کوئی کام کریں گے جو عقل و اخلاق کے معیار پر کسی بھی طرح پورا نہیں اترے گا پھر بھی میری قوم کے بعض افراد ان کی پیروی ضرور کریں گے ۔

اس اندھی تقلید کی ایک جیتی جاگتی مثال یہود ونصاری اور غیر قوموں کی تہذبوں کو اپنا نا ہےجیسا کہ آج امت کا وہ طبقہ جو خود کو تعلیم یافتہ ، مہذب اور دیندار تصور کرتا ہے لیکن اپنے بچوں کی "برتھ ڈے پارٹی " ضرور منعقد کرتا جو کہ یہود ونصاری کی کھلی تقلید ہے ، اسی طرح ان کی ان عیدیوں میں شرکت جن میں ایسے حیا سوز منظر پیش کئے جاتے ہیں جو انسانی فطرت اور ایمانی غیرت کے سراسر منافی ہیں ، مثال کے طور پر آج کل کافروں کے نئے سال کی آمد ہے ، دنیا کے ہر کونے میں اس کا چرچا ہے لوگ بڑی شدت سے نئے سال کا انتظار کررہے ہیں کافر قوموں کے ساتھ بہت سے مسلمان حتی کہ بعض حکومتیں بھی اس نئے سال کا جشن منانے کی تیاری کررہی ہیں

حالانکہ مسلمانوں کا ایسا کرنا از روئے شرع کئی لحاظ سے جائز نہیں ہے :

[۱] مسلمانوں کے نزدیک عید کا معاملہ ایک شرعی امر ہے لہذا جس دن کو شریعت عید کا دن نہ قرار دے اس دن کو عید کا دن قرار دینا ضلالت و گمراہی اور بدعت ہوگا ۔

[۲] یہ نیا سال مسلمانوں کا سال نہیں ہے بلکہ کافروں اور اللہ کے دشمنوں کا سال ہے اس لئے خلیفہ راشد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کے لئے نئی تقویم کا ایجاد کیا ہے ، لہذا اس کی آمد پر خوشی ایک غیر شرعی کام اور اللہ کے دشمنوں سے مشابہت ہے جس سے سختی سے منع کیا گیا ہے ۔

[۳] اس عید میں بعض ایسے حیا سوز کام کا ارتکاب کیا جاتا ہے جو اسلام کی نظر میں حرام اور اسے جائز یا بہتر سمجھنا دین سے خروج اور بغاوت ہے ۔

[۴] اگر یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ کافروں کے سال کا استعمال جائز ہے تو ایسے موقعہ پر ایک مسلمان سے یہ مطالبہ ہے کہ وہ اپنا محاسبہ کرے کہ جس سال کو رخصت کررہا ہے اس میں وہ کیا کھویا اور کیا پایا کتنے نیک عمل کئے اور کتنے برے عمل تاکہ نیک عمل کی قبولیت کی دعا کی جائے اور برے کام سے توبہ و استغفار ۔

[۵] علمائے امت کا متفقہ فتوی ہے کہ کافروں کی عیدوں میں شریک ہونا ، انہیں مبارک باد پیش کرنا ، کسی بھی طرح سے اس عید میں ان سے تعاون کرنا قطعی طور پر جائز نہیں ہے ۔
{ دیکھئے میری کتاب وفاداری وبیزاری ،ص:270 اور اس کے بعد جسے مندرجہ ذیل ویب سائٹ پر پڑھا جاسکتا ہے }


http://islamidawah.com/books/ur_Alliance_and_Amity.pdf

فوائد :

۱- غیر قوم خصوصا یہود و نصاری کے رسم و رواج میں شرکت ضلالت و گمراہی ہے ۔

۲- کسی کی تقلید میں جب انسان پڑتا ہے تو اس کی واضح غلطیاں بھی اچھی لگتی ہیں ۔

۳- نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا معجزہ کہ آپ نے جیسا فرمایا بعینہ وہ چیزیں سامنے آگئیں ۔

۴- مسلمانوں کا سال و مہینہ اور تاریخ کافروں سے جدا اور الگ ہے ۔

ختم شدہ
طباعة
 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
عیسائیوں کو انکی عید کے موقع پر مبارکباد دینا


سوال: عیسائیوں کو انکی عید کے موقع پر "ہر سال تم سلامت رہو"کہہ کر مبارکباد دینا کیسا ہے، مقصد یہ ہے کہ تم اچھے بن کر رہو اور ہمیں ہمارے دین کے بارے میں تکلیف نہ دو، نا کہ یہ مقصد ہے کہ انہیں ان کے شرک پر مبارکباد دی جائے، جیسے کہ بعض مشایخ کے ہاں یہ بات پھیلا دی گئی ہے۔

الحمد للہ:

تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں

عیسائیوں کو مبارکباد دینے میں ممنوع یہ ہے کہ ان کیلئے خوشی اور مسرت کا اظہار کیا جائے، انکے کام پر چشم پوشی سے اظہار موافقت کیا جائے، چاہے یہ سب کچھ ظاہری طور پرہو دلی طور پر نہ ہو۔

اس لئے کسی بھی طرح انکے کام پر خوشی کا اظہار کیا جائے وہ کام حرام ہی ہوگا، جیسے خود شریک ہوں، تحائف کا تبادلہ ہو، یا زبانی کلامی مبارکبادی دی جائے، کام سے چھٹی کردی جائے، انکے لئے کھانے تیار کئے جائیں، اور کھیل کود میں شرکت کیلئے تفریحی اور سیر وسیاحت کی جگہوں پر نکلیں، وغیرہ۔

الفاظ کے معنی اور مفہوم کے مخالف نیت کرنے سے حکم جواز سے تبدیل نہیں ہو جائے گا، کیونکہ ان کاموں کا ظاہر ہی حرام ہونے کیلئے کافی ہے۔

اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ اکثر لوگ اس قسم کے معاملات میں ڈھیل سے کام لیتے ہیں ، انکا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ ہم بھی عیسائیوں کے شرک میں حصہ دار بنیں، بلکہ انہیں لحاظ رکھنے کی وجہ سے شرکت کرنی پڑتی ہے، اور کبھی کبھار شرم و حیاء کی وجہ سے شریک ہوتےہیں، حالانکہ باطل کاموں پر لحاظ رکھنے کی اجازت نہیں ہے، بلکہ واجب یہ ہے کہ گناہ سے روکا جائے اور اسے تبدیل کرنے کی کوشش کی جائے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ "مجموع الفتاوى" (2/488)میں کہتے ہیں:

"مسلمانوں کیلئے جائز نہیں کہ کفار کی کسی بھی شکل میں مشابہت اختیار کریں، انکے تہواروں میں ، کھانے پینے ، لباس ، غسل، آگ جلانے، یا کام سے چھٹی وغیرہ کر کے، ان کے ساتھ مشابہت اختیار کریں، ایسے ہی ان دنوں میں دعوتیں کرنا، تحائف دینا، اور ان کے تہواروں کیلئے معاون اشیاء کو اسی قصد سے فروخت کرنا کہ انکے کام آئیں گی، بچوں کو انکے تہواروں کے خاص کھیل کھیلنے کی اجازت دینا ، اور اچھے کپڑے زیب تن کرنا ، یہ سب کچھ حرام ہے۔

مجموعی طور پر کوئی بھی مسلمان انکے شعائر کو انکے تہواروں میں نہیں اپنا سکتا، بلکہ انکے ایامِ تہوار مسلمانوں کے ہاں عام دن کی طرح گزریں گےاور کسی بھی کام کو ان دنوں میں خاص نہیں کرینگے، چنانچہ اگر کوئی مسلمان قصدًا انکے کام کرے تو اسے بہت سے سلف اور متاخرین علماء مکروہ جانا ہے۔

اور اگر مندرجہ بالا کام ان دنوں کے ساتھ خاص کرتا ہے تو اس کی تحریم کے بارے میں تمام علماء متفق ہیں، بلکہ کچھ علماء نے ان کاموں کو کرنے والے کی تکفیر بھی کی ہے، اس لئےکہ ایسے کام کرنے سے کفریہ شعائر کی تعظیم ہوتی ہے۔

علماء کی ایک جماعت نے یہ بھی کہا ہے کہ : جس نے انکے تہوار کے دن مرتے ہوئے جانور کوبھی اسی قصد سے ذبح کیا ، گویا کہ اس نے خنزیر ذبح کیا۔

عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :

"جس نے عجمیوں کے پیچھے چلتے ہوئے اور انکے تہوار نیروز اور مہرجان منائے، اور انہی کی مشابہت اختیار کی یہاں تک کہ اسے اِسی حالت میں موت آگئی ، تو قیامت کے دن اُنہی کے ساتھ اٹھایا جائے گا"
جبکہ امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام کے ساتھ ساتھ ائمہ کرام نے بھی ان پر لازم کیا ہوا تھا کہ اپنے تہوار اعلانیہ طور پر نہیں منائیں گے بلکہ اپنے اپنے گھروں تک محدود رکھیں گے۔
بہت سے سلف نے فرمانِ باری تعالی:

( والذين لا يشهدون الزور )
ترجمہ: وہ لوگ بیہودہ محفلوں میں شریک نہیں ہوتے۔
اس آیت کی تفسیر میں بیان کیا ہے کہ اسکا مطلب ہےکہ وہ کفار کے تہواروں میں شرکت نہیں کرتے، چنانچہ اگر صرف شرکت کا یہ حال ہے تو ان افعال کرنے کے بارے میں کیا ہوگا جو ان کے تہواروں کے ساتھ خاص ہیں، جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مسند اور سنن میں یہ روایت موجود ہے کہ (جس نے جس قوم کی مشابہت اختیار کی وہ اُنہی میں سے ہے) ایک لفظ میں ہے: (وہ ہم میں سے نہیں جس نے کسی دوسرے کی مشابہت اختیار کی) یہ حدیث جید ہے، اگر صرف مشابہت میں یہ حکم ہے چاہے اسکا تعلق رہن سہن سے ہی کیوں نہ ہو، تو اس سے بڑے امور میں مشابہت کرنے کا کیا حکم ہوگا؟۔

جمہور ائمہ کرام نے -چاہے تحریمی ہو یا تنزیہی- انکے تہواروں میں ذبح کئے گئے جانوروں کا گوشت کھانا مکروہ جانا ہے ، اس لئے کہ یہ ان کے نزدیک غیر اللہ کے نام پر مشہور کیا گیا ہےاور کسی تھان پر ذبح شدہ جانور کے مساوی ہے۔

اسی طرح علماء نے انکی عید کے موقع پر تحائف دینا، یا خریدو فروخت کرنے سے منع کیا ہے، انہوں نے کہا: کسی بھی مسلمان کیلئے جائز نہیں کہ عیسائیوں کو انکے تہواروں میں انکی ضرورت کی اشیاء فروخت کریں، نہ گوشت، نہ خون، نہ کپڑا، نہ ہی اپنی سواری انہیں استعمال کیلئے دیں، اور نہ ہی انکے کسی بھی مذہبی کام پر اُنکی مدد کریں، کیونکہ یہ سب کام انکے شرکیہ کاموں کی تعظیم شمار ہونگے، جو کہ کفریہ کاموں میں انکی مدد ہے، اس لئے تمام مسلم حکمرانوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ مسلمانوں کو ان تمام کاموں سے روکیں-

اس لئے کہ اللہ تعالی فرماتا ہے:

( وتعاونوا على البر والتقوى ولا تعاونوا على الإثم والعدوان )

ترجمہ:نیکی اور تقوی کے کاموں کی تعاون کرو، برائی اور زیادتی کے کاموں پر تعاون مت کرو-
اسی طرح کسی بھی مسلمان کیلئے یہ جائز نہیں کہ وہ انہیں شراب نوشی میں مدد فراہم کرتے ہوئے ان کیلئے شراب تیار کرے، جب شراب تیار کرکے نہیں دے سکتا تو کفریہ کاموں پر مدد کیسے کر سکتا ہے؟! جب انکی مدد کرنا ہی حرام ہے تو کیا خود اس کے لئے کفریہ کام کرنا درست ہوگا؟!" انتہی


واللہ اعلم .
اسلام سوال و جواب
 
Top