• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نیکی کی بات بتانے والا شیطان؟

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
‏‏‏‏ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی نہیں مگر اس کے ساتھ ایک شیطان اس کا ساتھی نزدیک رہنے والا مقرر کیا گیا ہے۔ لوگوں نے عرض کیا: کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی یا رسول اللہ شیطان ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں میرے ساتھ بھی ہے لیکن اللہ نے اس پر میری مدد کی ہے تو میں سلامت رہتا ہوں اور نہیں بتلاتا مجھ کو کوئی بات سوائے نیکی کے۔




محترم علماء کرام سے گذارش ہے کہ اس موضوع پر ایک مکمل مدلل جواب عنایت فرمائیں ۔ کیونکہ اس سے ذہن کافی انتشار کا شکار ہورہا ہے ۔
بشیطان یعنی ابلیس تو ایک ہی ہے ۔جو اس کے آلہ کار ہیں وہ کون سی مخلوق ہیں جہاں تک میری ناقص معلومات ہے شیطان جنوں میں سے تھا تو کیا اس کا لشکر بھی جنوں کا ہے ۔ تو کیا ان جنوں کو ہدایت بھی مل سکتی ہے یعنی کوئی ابلیس کے لشکر سے نیک بھی بن سکتا ہے ؟

ایک شیطان اس کا ساتھی نزدیک رہنے والا سے کیا مراد ہے ۔ اور ان کو کیا اللہ کی طرف سے مقرر کیا گیا ہے ؟
اور جس شیطان کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مقرر کیا گیا تھا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نیکی کی بات بتا تا تھا یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی ہے ؟

اس کے علاوہ یہ حدیث کہ شیطان انسان کہ جسم میں خون بن کر دوڑتا ہے تو اس کا کیا مطلب ہے کہ یہ ایک دوسرا شیطان ہے ؟
ایک اور حدیث میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جس راستے سے گذرتے تھے شیطان وہاں سے بھاگ جاتا تھا پھر خون میں دوڑنے والے شیطان کی کیا تشریح ہوگی ؟

ایک اور حدیث میں ہے کہ شیطان نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قرات بھلادی تھی ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک قول کے مطابق ان کے ساتھ کے شیطان کو نیک کر دیا گیا تھا تو پھر وہ کون سا دوسرا شیطان تھا؟
ایک اور سوال یہ کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے تو ڈر کر شیطان بھاگ جاتا ہے لیکن اس کو اتنی قدرت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قرات میں خلل ڈالے ؟

@اسحاق سلفی صاحب
@خضر حیات صاحب


 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
بشیطان یعنی ابلیس تو ایک ہی ہے ۔جو اس کے آلہ کار ہیں وہ کون سی مخلوق ہیں جہاں تک میری ناقص معلومات ہے شیطان جنوں میں سے تھا تو کیا اس کا لشکر بھی جنوں کا ہے ۔ تو کیا ان جنوں کو ہدایت بھی مل سکتی ہے یعنی کوئی ابلیس کے لشکر سے نیک بھی بن سکتا ہے ؟
اللہ تعالی نے جن کو باقاعدہ اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے وہ دو مخلوقات ہیں، جن اور انسان۔
وما خلقت الجن والإنس إلا ليعبدون-
جنوں میں سے ابلیس تھا، جیسا کہ قرآن کریم میں صراحت کے ساتھ مذکور ہے: کان من الجن ففسق عن أمر ربہ
یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ جن اور انسان ہر دو مخلوقات مین نیک اور بد دونوں ہی ہیں، سورہ جن میں نیک اور مؤمن جنوں کا تذکرہ ہے، اور اسی میں جن یہ کہتے ہیں کہ وأنا منا المسلمون ومنا القاسطون کہ ہم میں مسلم و غیر مسلم دونوں قسم کے لوگ ہیں۔
جس طرح دونوں مخلوقات میں اللہ کے بندے بھی ہیں، اسی طرح دونوں میں شیطان یعنی ابلیس کے پیروکار و آلہ کار بھی ہیں۔
( وكذلك جعلنا لكل نبي عدوا شياطين الإنس والجن يوحي بعضهم إلى بعض زخرف القول غرورا )
اس آیت میں جنوں اور انسانوں دونوں میں شیاطین کا ذکر ہے۔
جب ابلیس راندہ درگاہ ہوا تو اس نے کہا تھا کہ اے اللہ میں تمہاری سب مخلوق کو گمراہ کروں گا، اور مختلف حیلوں بہانوں سے کروں گا، تو اللہ تعالی نے فرمایا کہ تم اس کی اجازت ہے کہ لیکن میرے مخلص بندوں پر تیرا وار نہیں چل سکے گا۔
ابلیس کے باقاعدہ لاؤ لشکر اور اس کی ذریت اور کارندوں کا ذکر قرآن کریم میں بھی ہے، اور احادیث میں بھی ہے، لہذا ابلیس اکیلا نہیں ہے، بلکہ اس کے ساتھ مکمل ایک فوج ہے، جن سے وہ مختلف کام لیتا ہے۔
ایک شیطان اس کا ساتھی نزدیک رہنے والا سے کیا مراد ہے ۔ اور ان کو کیا اللہ کی طرف سے مقرر کیا گیا ہے ؟
یہ صحیح حدیث کے اندر موجود ہے کہ انسان کے ساتھ ایک جن اور ایک فرشتہ مقرر کردیا جاتا ہے، فرشتہ اس کو نیکی کی طرف راغب کرتا ہے، جبکہ جن اس کو برائی کی طرف۔ اور یہ سب چیزیں اللہ کی مخلوقات ہی ہیں، اور اللہ تعالی نے آزمائش اور جزا و سزا کے طور پر نیکی و برائی دونوں راستے میسر کیے ہوئے ہیں۔
اور جس شیطان کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مقرر کیا گیا تھا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نیکی کی بات بتا تا تھا یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی ہے ؟
فرشتہ نیکی کی بات کیسے بتاتا ہے؟ یہ سمجھ میں آگیا؟
جس طرح فرشتہ نیکی کی طرف رہنمائی کرتا ہے، آپ کا جن بھی مطیع و فرمانبردار ہوکر شر سے ہٹ کر خیر کی طرف راغب ہونے اور کرنے والا بن گیا۔
ہمیں جن اور فرشتے نظر نہیں آتے، لیکن بہرصورت وہ ہر وقت ہمارے ساتھ ہوتے ہیں۔ اور بعض لوگ تو بعض اوقات اس کو باقاعدہ محسوس بھی کرلیتے ہیں۔
اس کے علاوہ یہ حدیث کہ شیطان انسان کہ جسم میں خون بن کر دوڑتا ہے تو اس کا کیا مطلب ہے کہ یہ ایک دوسرا شیطان ہے ؟
جیساکہ میں نے کہا کہ ابلیس کی پوری فوج موجود ہے، لہذا دوسرا تیسرا نہیں بلکہ یہ بے شمار شیاطین ہیں، جو مختلف اوقات میں مختلف کاموں میں لگے رہتے ہیں۔ اور اللہ تعالی انہیں قدرت دی ہے کہ یہ انسان کے متعلق وہ کچھ معلومات رکھتے ہیں جو خود انسان کو بھی نہیں ہوتی، جس طرح خون انسان کی رگوں میں دوڑتا ہے، شیطان کو اللہ تعالی انسان کے جسم میں اتنی قدرت دی ہے، البتہ انسان ذکر و اذکار اور نماز روزہ کی پابندی کرکے شیطان کو ملی شیطانی طاقتوں اور حرکات سے محفوظ رہ سکتا ہے۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جس راستے سے گذرتے تھے شیطان وہاں سے بھاگ جاتا تھا پھر خون میں دوڑنے والے شیطان کی کیا تشریح ہوگی ؟
شیطان کو صرف ایک نہ سمجھیں، اسی لیے یہ سب اشکال پیدا ہورہے ہیں۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ شیطان نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قرات بھلادی تھی ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک قول کے مطابق ان کے ساتھ کے شیطان کو نیک کر دیا گیا تھا تو پھر وہ کون سا دوسرا شیطان تھا؟
ایک اور سوال یہ کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے تو ڈر کر شیطان بھاگ جاتا ہے لیکن اس کو اتنی قدرت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قرات میں خلل ڈالے ؟
جو مطيع و فرمانبردار ہوا وہ ’قرین‘ کہلایا جانے والا شیطان تھا، بلکہ ڈر کر بھاگنے والا یا نیکی میں رکاوٹ ڈالنے والا یا نماز میں وسوسے اور بھلانے والے شیاطین اور ہیں۔
شیطان عمر رضی اللہ عنہ بھاگتا تھا، تو ہر مسجد میں ہونے والی اذان سے بھی بھاگتا ہے، لیکن پھر اسی مسجد میں آکر نماز پڑھنے والوں کو وسوسے بھی ڈالتا ہے، یہ اللہ کی قدرت و خلقت ہے، اس کی کنہ تک پہنچنا انسانی عقل اور بس سے باہر ہے، اسی لیے ہم اس میں قرآن وسنت میں جو بتادیا گیا، اس کے پابند ہوتے ہیں، کیونکہ عقل میں اتنی قوت و طاقت نہیں کہ ہم اس کے بل بوتے پر خود کو مطمئن کرسکیں۔
کیونکہ اس سے ذہن کافی انتشار کا شکار ہورہا ہے ۔
میرا مشورہ ہے کہ آپ ایمانیات کی بنیادی باتوں پر توجہ دیں، جب ارکان اسلام، ارکان ایمان، قرآن وسنت وغیرہ مبادیات کی حقانیت پر ایمان پختہ ہو تو ایسے اشکالات و الجھنیں آتی نہیں، اور آجائیں تو جواب معلوم ہو کہ نہ ہو، انسان اطمینان و ایقان کی دولت سے محروم نہیں ہوتا۔
 
Top