• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نیک بیوی کی صفات :

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
نیک بیوی کی صفات


لنک

الشیخ حافظ صلاح الدین یوسف
1) نیک بیوی کی پہلی صفت وہ صالحہ اور قانتہ ہو :

صالح بیوی کی صفات میں قرآن مجید کی یہ آیت (جو سورۂ نساء میں ہے) بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے پہلے تو مرد کی قوّامیت حاکمیت و بالا دستی بیان فرمائی جس سے از خود یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ گھر کا نظام امن وسکون کے ساتھ تب ہی چل سکتا ہے جب اس گھر میں آنے والی عورت (بیوی) خاوند کی بالا دستی کو تسلیم کرے گی، اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

[فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ ][النساء34]

’’نیک عورت فرماں بردار ہوتی ہے (اپنے رب کی بھی اور اپنے خاوند کی بھی) پوشیدہ باتوں کی حفاظت کرتی ہے بہ سبب اس کے کہ اللہ نے اس کی بھی حفاظت فرمائی ہے۔‘‘

اس میں نیک عورت کی فرماں برداری اور پوشیدہ معاملات کی حفاظت اور اس کی غیر موجودگی میں اس کے مال، اس کے گھر اور اپنی عصمت کی حفاظت جیسی صفات کو مرد کی قوامیت کا نتیجہ بتلایا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو عورت مرد کی اس فطری بالا دستی کو تسلیم نہیں کرے گی، وہ نیکی اور فرماں برداری کے تقاضے بھی پورے نہیں کر سکے گی جب کہ ان تقاضوں کی ادائیگی ہی پر گھر کے امن و سکون کا انحصار ہے۔

غیبی معاملات کی حفاظت کا سبب اللہ نے یہ بتلایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کے حقوق بھی محفوظ کر دیے ہیں اور وہ اس طرح کہ مرد کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ عورت کو حق مہر دے، اس کے نان نفقہ اور رہائش کا انتظام کرے اور اس کی دیگر ضروریات پوری کرے۔

اس قسم کی صالحہ اور قانتہ عورت کے ساتھ مرد کی زندگی نہایت خوش گوار گزرتی ہے اور حالات و معاملات میں کوئی کشیدگی اور تنائو پیدا نہیں ہوتا۔ البتہ جو عورت ان صفات سے محروم ہوگی تو اس کے اندر ان صفات کے بر عکس نشوز پیدا ہوگا جو مرد و عورت کے تعلقات کو نا خوشگوار بنائے رکھے گا۔

2) عورت ناشزہ نہ ہو اور اس کا مطلب :

نشوز کیا ہے اور اس کا کیا حل اللہ تعالیٰ نے بتلایا ہے؟

اسی آیت زیر بحث میں کہا گیا ہے:

[ وَالّٰتِيْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَھُنَّ فَعِظُوْھُنَّ وَاهْجُرُوْھُنَّ ][النسآء 34]

’’وہ عورتیں جن سے تمہیں نشوز کا خوف ہو تو تم ان کو وعظ و نصیحت کرو اور ان کو بستروں میں الگ کردو اور ان کی سرزنش کرو۔‘‘

نشوز عربی زبان میں ارتفاع (بلندی) کو کہتے ہیں۔ یہاں اس لفظ کا مطلب یہ ہوگا کہ جو عورت، مرد کو بالادست سمجھنے کی بجائے، اپنی بالا دستی منوانے کی کوشش کرے گی اور اس کی اطاعت کرنے کے بجائے اپنا حکم چلائے گی اور مرد کو زیر دست رکھنے کی کوشش کرے گی تو چونکہ یہ نشوز فطرت کے خلاف ہے تو اس کا نتیجہ گھر کی بربادی کے سوا اور کچھ نہیں نکلے گا۔

اللہ تعالیٰ نے مرد کو دو وجہ سے عورت پر قوّام بنایا ہے، ایک کا تعلق وھبی صفت سے ہے کہ اس کو عورت کے مقابلے میں زیادہ قوت و توانائی اور زیادہ دماغی و ذہنی صلاحیتوں سے نوازا گیا ہے، دوسری کا تعلق کسبی صفت سے ہے کہ مرد محنت کرکے عورت کی تمام ضروریات پوری کرتا ہے (مہر، نان نفقہ اور دیگر ضروریات مرد کے ذمے ہے) جو عورت صالحہ، قانتہ ہوتی ہے وہ اس حقیقت کو سمجھتی ہے اور مرد کی شکر گزار اور فرماں بردار بن کر رہتی ہے اور جو صالحہ قانتہ نہ ہو، وہ عدم اطاعت اور ناشکری کا راستہ اختیار کرکے فطرت سے جنگ کرتی ہے، اس کے نتیجے میں میاں بیوی کے تعلقات میں جو ناہمواری اور ناخوش گواری پیدا ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کا حل یہ بتلایا ہے کہ:

(1)اس کو وعظ و نصیحت کی جائے، اس کو اللہ سے ڈرایا جائے۔

(2)یہ کار گر نہ ہو تو مرد رات کو اس کے ساتھ سونا چھوڑ دے اور رات کی حد تک علیحدگی اختیار کر لے۔

(3)یہ علیحدگی بھی اس کوسمجھنے پر آمادہ نہ کرے تو اس کو ہلکی سے مار مار لے جس سے اس کے کسی عضو کو نقصان نہ پہنچے۔ کیونکہ اس تادیب (سرزنش) سے مقصود اس کی اصلاح ہے نہ کہ اس کو جسمانی نقصان پہنچانا۔

(4)اس سے بھی مسئلہ حل نہ ہو تو پھر خاندان کے لوگوں کو صورت حال سے مطلع کرکے دوحَکَم(ثالث) مقرر کیے جائیں، جو دونوں کی باتیں سن کر اس کی روشنی میں ان کا فیصلہ کریں۔


اس تفصیل سے یہ واضح ہوا کہ نیک عورت کی صفات میں ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ ناشزہ نہ ہو یعنی وہ خاوند کی فرماں بردار ہو نہ کہ اس کو اپنا فرماں بردار بنانے والی۔ گھر میں اس کی بالا دستی کو تسلیم کرنے والی ہو نہ کہ اپنے کو بالا دست سمجھنے والی، خاوند کی بن کر رہنے والی ہو نہ کہ خاوند کو اپنا بنا کر رکھنے والی اور خاوند کے حق کو سمجھنے والی اور اس کو ادا کرنے والی ہو نہ کہ اس کے برعکس صرف اپنا ہی حق جتلانے اور منوانے والی۔ فنعوذ باللّٰہ من ھذہ المرأۃ

3) خیر اور بھلائی کے کاموں میں خاوند کی فرماں بردار :

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: کون سی عورت بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا:

’اَلَّتِی تَسُرُّہُ إِذَا نَظَرَ، وَتُطِیعُہُ إِذَا أَمَرَ، وَلَا تُخَالِفُہُ فِیمَا یَکْرَہُ فِی نَفْسِہَا وَمَالِہِ‘[1]

’’وہ عورت، جب خاوند اس کی طرف دیکھے تو اسے خوش کن نظر سے دیکھے، جب خاوند اس کو کسی بات کا حکم دے تو اسے بجا لائے اور عورت اپنے نفس اور خاوند کے مال میں اس کی خواہش کے برعکس ایسا رویہ اختیار نہ کرے جو اس کے خاوند کو ناپسند ہو۔‘‘

4) خاوند کا استقبال مسکراہٹ اور اچھے لباس میں کرے :

اس حدیث میں فرماں برداری کے علاوہ چند اور صفات کا بھی بیان ہے ۔ ان میں ایک صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ خاوند اس کی طرف دیکھے تو اس کا رویہ اور اس کی ہیئت ایسی ہو کہ خاوند اس کو دیکھ کر باغ باغ ہوجائے۔ اس سے ایک بات یہ معلوم ہوئی کہ عورت مسکراہٹ کے ساتھ خاوند کا استقبال کرے، منہ بنایا ہوا نہ ہو، خفگی اور ناراضی کے آثار چہرے پر نہ ہوں، غصے میں بھری ہوئی نہ ہو۔

5) اپنی عصمت و آبرو کا پورا تحفظ کرے :

ایک صفت یہ معلوم ہوئی کہ اپنی عصمت و آبرو کا پورا تحفظ کرے اور کسی بھی وقت اور کسی کے ساتھ بھی ایسا رویہ اختیار نہ کرے جس سے خاوند کو کوئی شکایت پیدا ہو یا اس کی مردانہ غیرت و حمیت کے خلاف ہو۔ اسی لیے ایک حدیث میں عورت کو یہ تاکید بھی کی گئی ہےکہ وہ گھر میں ایسے کسی شخص کو آنے کی اجازت نہ دے جس کو خاوند ناپسند کرتا ہو۔

اس حدیث کے بین السطور سے یہ بھی معلوم ہوا کہ گھر میں خاوند کے قریبی رشتے دار چھوٹے بڑے بھائی (عورت کے دیور ، جیٹھ) اور اسی طرح عورت کے قریبی رشتے دار ، اس کے ماموں زاد، چچا زاد، خالہ زاد، پھوپھی زاد، (جن کو آج کل کزن کہا جاتا ہے) سے بھی پردے کا اہتمام کرے، ان سے بے تکلف نہ ہو۔ ان سے زیادہ بے تکلفی ، قربت اور بے پردگی نہایت خطرناک ہے جس سے اس کی عصمت کی ردائے تقدس بھی تار تار ہوسکتی ہے۔ اس لیے حدیث میں دیور، جیٹھ وغیرہ کو موت قرار دیا گیا ہے۔

6) خاوند کے مال میں بے جا تصرف نہ کرے :

ایک اور صفت اس حدیث میں یہ بتلائی گئی ہے کہ عورت خاوند کے مال میں ایسا تصرف نہ کرے جو خاوند کو ناپسند ہو، اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ فضول خرچی سے اور اسی طرح غیر ضروری چیزوں میں پیسے خرچ کرنے سے اجتناب کرے اور ہر وقت مرد کی آمدنی کو سامنے رکھے اور اس کے مطابق ہی اپنا بجٹ بنائے اور اسی دائرے میں رہ کر ہی سب کچھ خرچ کرے۔ حتی کہ صدقہ و خیرات بھی اسی دائرے میں رہ کر کرے تاکہ خاوند کو بھی اس پر اعتراض نہ ہو اور اگر کہیں صدقہ و خیرات زیادہ کرنے کی ضرورت محسوس کرے تو خاوند سے مشورہ کرے اور اس کی اجازت کے بغیر اس طرح طاقت سے زیادہ صدقہ و خیرات نہ کرے جس سے گھریلو بجٹ متأثر ہویا خاوند کے لیے مشکلات کا باعث ہو۔

7) بچوں پر نہایت مہربان، خاوند کے مفادات کا خیال رکھنے والی:

ایک حدیث میں بہترین اور صالح ترین عوت کی یہ دو صفات بیان ہوئی ہیں:

’أَحْنَاہُ عَلٰی وَلَدٍ فِی صِغَرِہٖ وَأَرْعَاہُ عَلٰی زَوْجٍ فِی ذَاتِ یَدِہٖ‘[2]

’’اپنے بچوں پر جب کہ وہ کم عمر ہوتے ہیں، بڑی مہربان اور شفیق اور اپنے خاوندوں کے معاملات میں ان کے مفادات کا بہت خیال رکھنے والی۔‘‘

اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ عورت کا دائرۂ کار گھر کی چار دیواری ہے جس میں گھریلو امور سر انجام دینے کے علاوہ، مزید دو ذمے داریوں کا بوجھ بھی اس نے اٹھانا ہے۔ ایک بچوں کی حفاظت، جس میں حمل سے لے کر رضاعت تک اور اس کے بعد بھی بدوِ شعور تک کے مراحل ہیں۔ دوسرے خاوند کی خدمت و اطاعت۔ گویا عورت نے بہ یک وقت تین خدمات سر انجام دینی ہیں:

(1)امور خانہ داری۔

(2)بچوں کی پرورش و نگرانی۔

(3)خاوند کی خدمت اور اس کی خواہشات کی تسکین۔


یہ تینوں خدمات اتنی عظیم ہیں کہ اس کے شب و روز کے تمام لمحات اس میں صرف ہوجاتے ہیں یوں وہ پورے طور پر مرد کی شریک زندگی بن کر مرد کو سکون مہیا کرتی ہے جس کی وجہ سے مرد گھریلو معاملات سے بے فکر ہو کر یکسوئی سے کسب معاش میں مصروف رہتا ہے۔

اسی لیے شریعت اسلامیہ نے عورت کو کسب معاش کے جھمیلوں میں ڈالنا پسند نہیں کیا ہے کیونکہ یہ دوہری ذمے داری ہوتی کہ وہ گھر کا سارا انتظام بھی سنبھالے اور گھر کا نظام چلانے کے لیے سرمایایہ بھی مہیا کرے۔ یہ ظلم ہے اسلام نے عورت کو اس ظلم سے بچایا اور کسب معاش کا مکمل ذمے دار مرد کو قرار دیا ہے۔

8) خاوند کی خدمت و اطاعت کی اہمیت و تاکید :

خاوند کی خدمت و اطاعت کی اسلام میں کتنی اہمیت اور تاکید ہے، اس کااندازہ ذیل کی چند احادیث سے لگایا جا سکتا ہے۔

ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’اگر میں کسی کو کسی کے لیے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو یقینا عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کیا کرے۔‘[3]

دوسری حدیث میں فرمایا:

’’عورت خاوند کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر (نفلی) روزہ نہ رکھے۔‘‘[4]

9) خاوند جب بھی بیوی کو بلائے، بلا تاخیر اس کی خواہش پوری کرے :

ایک اور حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے، عورت اپنے رب کا حق اس وقت تک ادا نہیں کر سکتی جب تک کہ وہ اپنے خاوند کا حق ادا نہیں کرتی، اگر خاوند اس سے اپنی (ہم بستری کی) خواہش کا اظہار کرے جب کہ وہ اونٹ کے کجاوے پر بیٹھی ہو (پا رکاب ہو، کہیں جانے کے لیے گاڑی وغیرہ میں بیٹھی ہو) تب بھی اسے اس کی خواہش پوری کرنے سے انکار نہیں کرنا چاہیے۔‘‘[5]

10) انکار کرنے والی عورت پر فرشتے لعنت کرتے ہیں :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’جب مرد اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلائے اور وہ آنے سے انکار کردے تو صبح تک فرشتے اس پر لعنت کرتے ہیں۔‘‘

ایک دوسری روایت کے الفاظ اس طرح ہیں:

’’جب عورت اپنے خاوند کے بستر کو چھوڑ کر رات گزارتی ہے تو فرشتے اس پر لعنت کرتے رہتے ہیں تا آنکہ وہ لوٹ آئے ۔‘‘[6]

آسمان والا بھی ایسی عورت سے ناراض رہتا ہے

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہٖ! مَا مِنْ رَجُلٍ یَدْعُوا اِمْرَأَتَہُ إِلٰی فِرَاشِھَا، فَتَابٰی عَلَیْہِ إِلَّا کَانَ الَّذِی فِی السَّمَاءِ سَاخِطًا عَلَیْھَا، حَتّٰی یَرْضیٰ عَنْھَا‘[7]’’

قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، کوئی آدمی اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلاتا ہے اور وہ اس کے پاس آنے سے انکار کر دیتی ہے تو آسمان والا (رب) اس پر ناراض ہوتا ہے یہاں تک کہ خاوند اس سے راضی ہوجائے۔‘‘

اس مضمون کی احادیث کی بنیاد پر علماء نے کہا ہے کہ کسی شرعی عذر کے بغیر عورت کا اپنے شوہر کے بستر پر جانے سے انکار کرنا حرام ہے حتی کہ حیض کے ایام میں بھی اس کے لیے انکار کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ حالت حیض میں بھی جماع کے علاوہ خاوند کو عورت سے لطف اندوز ہونے کی اجازت ہے۔ جیسے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اس حالت میں بیویوں سے بوس و کنار (مباشرت) کرنا ثابت ہے۔

11) معصیت میں خاوند کی اطاعت کی اجازت نہیں :

البتہ خاوند اگرعورت کو ایسا کام کرنے پر مجبور کرے جس کی شرعاً اجازت نہیں ہے تو معصیت الٰہی والے کاموں میں خاوند کی اطاعت نہیں بلکہ انکار ضروری ہے۔

جیسے خاوند عورت کو حالت حیض میں جماع پر مجبور کرے تو عورت کے لیے ضروری ہے کہ وہ انکار کر دے اور اس کو یہ ناجائز خواہش پوری نہ کرنے دے۔

یا جیسے آج کل بہت سے لوگ اپنی بیویوں کو اپنے دوستوں کے سامنے بے پردہ آنے پر یا سرے سے بے پردہ ہونے پر مجبور کرتے ہیں۔ خاوند کے کہنے پر ایسا کرنے کی قطعاً اجازت نہیں ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

’لَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوقٍ فِی مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ‘[8]

’’جس کام میں خالق کی معصیت ہو، وہاں کسی بھی مخلوق کی اطاعت جائز نہیں۔‘‘

بنا بریں کسی بھی کام یا معاملے میں اللہ کی نافرمانی نہیں کرنی، نہ اپنی مرضی سے اور نہ خاوند یا کسی اور کے کہنے پر۔ اس قسم کے موقع پر یعنی دین پر ثابت قدمی کی وجہ سے جو تکلیف یا آزمائش آئے، اس کو برداشت کیا جائے، یہ دنیا کی آزمائش آخرت کے اس عذاب کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی جو اللہ کی نافرمانی کے نتیجے میں مل سکتاہے۔ عورت مرد کی قوّامیت(حاکمیت) کو برداشت کرے

گھر کا نظام صحیح طریقے سے چلانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے مرد کو حاکم اور سرابرہ بنایا ہے کیونکہ کسی ایک کی حاکمیت اور سر براہی کے بغیر کوئی بھی نظام نہیں چل سکتا (اس کی وجوہ گزشتہ صفحات میں گزر چکی ہیں۔) عورت اگر چاہتی ہے کہ وہ امن و سکون اور آرام و راحت کی زندکی گزارے تو اس کے لیے یہ ناگزیر ہے کہ وہ مرد کی فطری قوامیت کو تسلیم کرے۔

اس کا ایک تقاضا تو یہ ہے کہ مرد اپنے حاکمانہ اختیارات کو ظلم و جبر کے لیے استعمال نہ کرے بلکہ جس طرح ایک سمجھ دار حاکم وقت (خلیفہ، بادشاہ) اپنی رعایا کے ساتھ شفقت ونرمی اورعدل و انصاف کا معاملہ کرتا ہے، اسی طرح مرد بھی اپنی چھوٹی سی مملکت (گھر) میں نرمی، شفقت اور عدل و انصاف سے کام لے اور عورت کو ہر طرح کی سہولت بہم پہنچا کر اچھی حکمرانی کی مثال قائم کر کے اللہ کو خوش کرے۔

دوسرا تقاضا یہ ہے کہ عورت مرد کی حاکمانہ حیثیت کو تسلیم کرے اور خود قوّام بننے کی سعی نہ کرے، اس سے باہم تعاون کے بجائے تصادم اور ٹکرائو پیدا ہو گا جس سے گھرکا سکون برباد ہوجائے گا۔ بعض عورتیں بعض وجوہات کی وجہ سے ایسا کرتی ہیں اور مرد کے مقابلے میں ہر موقعے پر اپنی چودھراہٹ قائم کرنے کی کوشش کرتی ہیں جس سے اکثر و بیشتر معاملات بگڑ جاتے اور گھر برباد ہوجاتے ہیں۔ مرد کتنا بھی نرم خُو، صلح جُو اور مرنجا ں مرنج قسم کا ہو لیکن عورت کی تفوّق و برتری تسلیم کرنا اس کے لیے مشکل ہے۔ بنا بریں ظاہری حالات کے اعتبار سے چاہے عورت مرد سے ممتاز ہو، مثلاً وہ اونچے خاندان کی ہو، اصحاب حیثیت گھرانوں سے اس کا تعلق ہو، یا حسن و جمال میں منفرد ہو اور مرد ان چیزوں میں اس سے فروتر ہو۔ تب بھی عورت کی سرتابی اور برتری جتلانے کی روش گھر کو برباد کر سکتی ہے۔ بھلائی اسی میں ہے کہ عورت، عورت بن کر ہی رہے، مرد بننے کی کوشش نہ کرے، ماتحتی والی تواضع ہی اختیار کرے، حاکمانہ خوا بوں سے اپنے کو بچائے۔ ’من تواضع للّٰہ رفعہ اللّٰہ‘ ’’جو اللہ کی خاطر تواضع اختیار کرتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس کو بلند کر دیتا ہے۔‘‘

12) کسی کے لیے بد دعا نہ کرے :

عورت جِبّلی طور پر کمزور ہے اسی لیے اسے صنف نازک کہا جاتا ہے۔ اس فطری کمزوری کی وجہ سے عورت جلد ہی پریشان ہوجاتی ہے اور بد دعا دینے پراتر آتی ہے۔ بچوں نے پریشان کیا تو ان کو بد دعا دینی شروع کردی ، خاوند کے رویے کی وجہ سے اس کو بد دعا دے دی، حتی کہ بعض دفعہ اپنے آپ کے لیے بھی بد دعا کر دیتی ہے۔ یہ طرز عمل یکسر غلط ہے، عورت کوہر موقعے پر صبر و تحمل ، برداشت اور حوصلہ مندی سے کام لینا چاہیے اور زبان سے اپنے لیے یا بچوں کے لیے یا خاوند یا گھر کے کسی اور فرد کے لیے ایسے بد دعا کے الفاظ نہیں نکالنے چاہئیں کہ اگر وہ اللہ کے ہاں قبول ہوگئے تو عورت پچھتانے پر مجبور ہوجائے۔ اس لیے کہ اس کی بد دعا کے نتیجے میں اگر اولاد یا خاوند یا خود اسے نقصان پہنچے گا تو اس کا خمیازہ تو اس کو بھی بھگتنا پڑے گا، ظاہر بات ہے کہ یہ رویہ دانش مندی کے خلاف ہے۔

اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’لاَ تَدْعُوْا عَلٰی أَنْفُسِکُمْ ، وَلاَ تَدْعُوا عَلٰی أَوْلاَدِکُمْ وَلاَ تَدْعُوا عَلٰی أَمْوَالِکُمْ،
لَاتُوَافِقـُوا مِنَ اللّٰہِ سَاعَۃً یُسْأَلُ فِیہَا عَطَاءٌ فَیَسْتَجِیبُ لَکُمْ‘[9]


’’تم اپنے آپ کے لیے بد دعا نہ کرو، اپنی اولاد کے لیے بد دعا نہ کرو، اپنے مالوں کے لیے بد دعا نہ کرو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمھاری بد دعا ایسی گھڑی کو پالے جس میں اللہ تعالیٰ سے جو مانگا جائے اسے قبول فرما لیتا ہے، تو تمھاری بد دعا تمھارے لیے قبول ہوجائے ۔‘‘

13) جنتی عورتوں کی صفات سے متصف :

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جنتی عورتوں کی بہت سی صفات بیان فرمائی ہیں، جن میں بہت سی تو ایسی ہیں کہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کے لیے بطور انعام خصوصی، وہ صفتیں ان کے اندر ودیعت فرمائے گا جس کی تفصیل قرآن کریم اور احادیث صحیحہ میں موجود ہے۔ وہ صفتیں دنیا میں بہت کم دیکھنے میں آتی ہیں، بلکہ بعض تو ممکن بھی نہیں ہیں۔

تاہم بعض صفتیں ایسی ہیں کہ ہر عورت اپنے کو ان صفات سے آراستہ (متصف) کر سکتی ہیں اور وہ مثلاً ہیں، [قٰصِرٰتُ الطَّرْفِ ۙ لَمْ يَطْمِثْهُنَّ اِنْسٌ قَبْلَهُمْ وَلَا جَاۗنٌّ 56۝ۚ] وغیرہ۔

(1) [قٰصِرٰتُ الطَّرْفِ] کا مطلب ہے اپنی نگاہوں کو پست رکھنے والی جس کا مطلب ہے کہ وہ اپنے خاوند کے علاوہ کسی اور کی طرف دیکھنے والی نہ ہو۔ ہر مومنہ عورت کو اپنے اندر یہ خوبی پیدا کرنی چاہیے۔ اس کا مرکز توجہ، اس کی رعنائیاں اور اس کا سب کچھ صرف اور صرف خاوند کے لیے ہو، کسی اور کی طرف اس کی توجہ مبذول نہ ہو۔

(2) [لَمْ يَطْمِثْهُنَّ اِنْسٌ قَبْلَهُمْ وَلَا جَاۗنٌّ ](جن کو کسی انسان نے چھوا نہ جن نے) یعنی جنتی عورتوں کی طرح وہ پاک دامن ہو۔ خاوند کے علاوہ کسی بھی غیر محرم نے اسے چھوا نہ ہو ۔

(3)ایک صفت جنتی عورتوں کی یہ بیان کی گئی ہے کہ [مَّقْصُوْرٰتٌ فِي الْخِيَامِ]وہ خیموں میں بند(رہنے والی) ہوں گی۔ یعنی بن سنور کر بازاروں میں، کلبوں میں پھرنے والی ، دوسرے کی باہوں میں جھولنے والی نہ ہو، بلکہ گھر کی چار دیواری میں اپنے خاوند ہی کی بن کر رہنے والی ہو۔


14) قرآن کریم میں بیان کردہ مومنہ عورتوں کی صفات :

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کی حسب ذیل صفات بیان فرمائی ہیں:

[اِنَّ الْمُسْلِمِيْنَ وَالْمُسْلِمٰتِ وَالْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ وَالْقٰنِتِيْنَ وَالْقٰنِتٰتِ وَالصّٰدِقِيْنَ وَالصّٰدِقٰتِ وَالصّٰبِرِيْنَ وَالصّٰبِرٰتِ وَالْخٰشِعِيْنَ وَالْخٰشِعٰتِ وَالْمُتَصَدِّقِيْنَ وَالْمُتَصَدِّقٰتِ وَالصَّاۗىِٕـمِيْنَ وَالـﮩـىِٕمٰتِ وَالْحٰفِظِيْنَ فُرُوْجَهُمْ وَالْحٰفِظٰتِ وَالذّٰكِرِيْنَ اللّٰهَ كَثِيْرًا وَّالذّٰكِرٰتِ ۙ اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ مَّغْفِرَةً وَّاَجْرًا عَظِيْمًا 35؀][ الأحزاب35]

’’ بے شک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں،مومن مرد اور مومن عورتیں، فرماں بر دار مرد اور فرماں بردار عورتیں،سچے مرد اورسچی عورتیں،صابر مرد اور صابر عورتیں، عاجزی کرنے والے مرد اورعاجزی کرنے والی عورتیں،صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں،روزہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں،اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں اور اللہ کا کثرت سے ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں، ان سب کے لیے اللہ نے مغفرت اور بہت بڑا اجر تیار کررکھا ہے۔‘‘

مذکورہ صفات جس طرح ایک مومن مرد کے لیے ضروری ہیں، اسی طرح مومنہ عورتوں کو بھی ان صفات کا حامل ہونا چاہیے۔ اگر مرد کے اندر یہ صفات ہوں لیکن عورت ان سے محروم ہو تو مرد کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنی عورت کو بھی ان صفات کا حامل بنائے۔ اسی طرح اگر عورت ان صفات سے متصف ہو لیکن مرد ان سے محروم ہو تو عورت کوشش کرے کہ اس کے خاوند کے اندر بھی یہ مومنانہ صفات پیدا ہوں تاکہ دونوں ایک ساتھ جنت میں جائیں۔

15) خاوند کو تسلی دینے والی :

نیک عورت کی ایک صفت یہ ہے کہ خاوند کو زندگی میں کوئی ایسا مرحلہ پیش آجائے جس سے وہ گھبرا جائے اور اندیشہ ہائے دور درازمیں مبتلا ہو جائے تو عورت اس کو تسلی دے، اس کی ڈھارس بندھائے اور اس کی خوبیوں کا ذکر کر کے اس کو اللہ سے اچھی امیدیں وابستہ کرنے کی تلقین کرے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر غار حرا میں جب غیر متوقع طور پر پہلی مرتبہ حضرت جبریل علیہ السلام وحی لے کر نازل ہوئے اور جبرئیل نے سورہ علق کی ابتدائی آیات پڑھنے کی تلقین کی تو آپ چونکہ امیّ (غیر تعلیم یافتہ) تھے تو آپ کی زبان مبارک سے وہ الفاظ ادا نہیں ہورہے تھے اور آپ جبریل کے جواب میں یہی فرماتے تھے مَا اَنَا بِقَارِئ (میں پڑھا ہوا نہیں ہوں) جبریل آپ کو بھیجتے اور آپ یہی فرماتے۔ جبریل نے تین مرتبہ آپ کو بھینچا جس کے بعد آپ کی زبان مبارک پر وحی کے الفاظ جاری ہوگئے۔ اس واقعے کی اصل حقیقت آپ نہیں سمجھ سکے کہ یہ کیا ہے؟ اور یہ کون شخص ہے جس نے آپ کو کچھ الفاظ پڑھانے کی کوشش کی؟ جس پر آپ ایک انجانے خوف میں مبتلا ہوگئے۔ اور آپ اسی خوف و دہشت کے عالم میں گھر تشریف لائے، آپ کے جسم پر ایک کپکپی سی کیفیت طاری تھی اور آپ نے اپنی اہلیہ محترمہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے کہا: زَمِّلُوْنِیْ، زَمِّلُوْنِیْ، ’’مجھے کمبل اڑھادو ، مجھے کمبل اڑدھا دو۔‘‘

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اندازہ لگا لیا کہ آپ کی ساتھ کوئی غیر معمولی واقعہ پیش آیا ہے جس سے آپ پر خوف اور دہشت کی کیفیت طاری ہوگئی ہے، اس موقعے پر ایک سمجھ دار خاتون کی طرح انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اخلاقی خوبیوں کا تذکرہ کرکے فرمایا کہ آپ کے اندر تویہ یہ خوبیاں ہیں، اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ اچھا ہی معاملہ فرمائے گا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا:

’کَلَّا، وَاللّٰہِ! مَا يُخْزِيكَ اللّٰہُ أَبَدًا، إِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَحْمِلُ الْکَلَّ وَتَکْسِبُ الْمَعْدُومَ وَتَقْرِی الضَّیْفَ وَتُعِینُ عَلٰی نَوَائِبِ الْحَقِّ‘[10]

’’ہرگز نہیں، اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی حزن و غم میں مبتلا نہیں کرے گا، آپ تو صلہ رحمی کرتے ہیں، تھکے ہاروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، تہی دستوں کو کما کر کھلاتے ہیں، مہمان کی میزبانی کرتے ہیں اور حق (کی راہ میں آنے والے) مصائب پر مدد کرتے ہیں۔‘‘

دوسری تدبیر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے یہ اختیار فرمائی کہ آپ کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں۔ یہ ورقہ دور جاہلیت میں عیسائی ہوگئے تھے اور عبرانی زبان جاننے کی وجہ سے انجیل کی باتوں کا علم بھی رکھتے تھے، انھوں نے یہ ماجرا سنا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر گزرا تھا تو انھوں نے کہا: یہ تو وہی ناموس ہے جسے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام پر نازل کیا تھا۔ اس طرح انھوں نے بھی آپ کو تسلی بلکہ خوش خبری دی کہ یہ تو وحی و رسالت کا وہ سلسلہ ہے جس سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے نوازتا ہے۔

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی یہی خوبیاں تھیں جن کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی وفات کے بعد بھی، جب کہ آپ کے حبالۂ عقد میں متعدد ازواج مطہرات تھیں، ان کو یاد کرتے اور ان کا تذکرہ فرماتے رہتے تھے حتی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی بعض دفعہ ان کی تعریف سن کر رشک کا شکار ہوجاتیں حالانکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آپ کی سب سے زیادہ چہیتی بیوی تھیں۔

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی سیرت و کردار میں یہ سبق پنہاں ہے کہ خاوند کے ساتھ عورت کا رویہ اس طرح اخلاص و ہمدردی پر مبنی ہونا چاہیے کہ عورت اگر خاوند کی زندگی میں فوت ہوجائے تو مرد کے دل میں اس کی یادوں کا چراغ عمر بھر فروزاں رہے اور اس کو کبھی فراموش نہ کر سکے۔

16) صبر و ضبط کا نمونہ :

اسی طرح عورت کو صبر و ضبط کا بھی ایسا نمونہ ہونا چاہیے جس سے مرد کو بھی حوصلہ ملے اور پہنچنے والا صدمہ برداشت کرنا آسان ہوجائے۔ غم و حزن کے موقعے پر عورت بے صبری اورعدم برداشت کا مظاہرہ کرے گی تو یہ ایک تو شریعت کی تعلیمات کے خلاف ہے ۔ دوسرے مرد کو بھی غلط راستے پر ڈالنے کی مجرم ہوگی۔ اس کے برعکس صبر و ضبط کا مظاہرہ کرنے پر اللہ کی رحمتوں اور برکتوں کے نزول کی خوش خبری ہے۔

[وَبَشِّرِ الصّٰبِرِيْنَ ١٥٥؁ۙالَّذِيْنَ اِذَآ اَصَابَتْهُمْ مُّصِيْبَةٌ ۙ قَالُوْٓا اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ ١٥٦؁ۭاُولٰۗىِٕكَ عَلَيْهِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ ۣوَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُهْتَدُوْنَ ١٥٧؁][البقرۃ155-157]

’’اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجیے۔ وہ لوگ کہ جب انھیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں:بے شک ہم اللہ ہی کے لیے ہیں اور بے شک ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن کے لیے ان کے رب کی طرف سے بخشش اور رحمت ہے اور یہی ہدایت یافتہ ہیں۔‘‘

صبر و ضبط کا ایک مثالی نمونہ :

اس کا بہترین نمونہ ایک صحابیہ رضی اللہ عنہا نے پیش کیا جس میں قیامت تک آنے والی مسلمان عورتوں کے لیے بہترین سبق ہے۔ وہ ہے حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کی اہلیہ محترمہ اُمِّ سُلَیم رضی اللہ عنہا ۔ ان کا واقعہ صحیح بخاری و صحیح مسلم میں آتا ہے جسے امام نووی رحمہ اللہ نے ریاض الصالحین میں نقل کیا ہے۔ ہم اسے ریاض الصالحین ہی کے حوالے سے یہاں درج کرتے ہیں واقعہ تفصیلی ہے، اس لیے اس کا اردو ترجمہ پیش کیا جاتا ہے۔

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کا ایک بیٹا بیمار تھا، ابوطلحہ (جب کام کاج کے لیے) باہر چلے گئے تو بیٹا فوت ہوگیا۔ جب واپس آئے تو پوچھا: میرے بیٹے کا کیا حال ہے؟ (ان کی اہلیہ اور بچے کی ماں) ام سُلَیم نے کہا: وہ پہلے سے کہیں زیادہ سکون میں ہے پس بیوی نے ان کے سامنے رات کا کھانا رکھا جو انھوں نے تناول فرمایاپھر بیوی سے ہم بستری کی۔ جب ابوطلحہ فارغ ہوگئے تو (بیوی نے بتلایا کہ بچہ تو فوت ہوگیا ہے)۔ اب اسے دفنا دو! جب انھوں نے صبح کی تو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یہ سارا ماجرا بیان کیا آپ نے پوچھا: کیا رات کو تم نے ہم بستری کی تھی؟ انھوں نے جواب دیا: ہاں۔ آپ نے دعا فرمائی: اے اللہ! ان دونوں کے لیے برکت عطا فرما۔ (چنانچہ اس دعا کے نتیجے میں، مدت مقررہ کے بعد) ان کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا۔ (حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ) مجھ سے ابوطلحہ نے کہا: ابوطلحہ حضرت انس کی والدہ ام سُلَیم کے دوسرے خاوند تھے ، یعنی حضرت انس کے سوتیلے باپ تھے۔ ام سلیم کے پہلے خاوند حضرت انس کے والد، مالک بن نضر تھے جو اسلام لانے کے بجائے شام چلے گئے تھے اور وہیں فوت ہوگئے۔ حضرت انس کی والدہ نے اس کے بعد ابوطلحہ سے نکاح کر لیا۔) اس بچے کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے جائو اور کچھ کھجوریں بھی ساتھ دے دیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا اس کے ساتھ کوئی چیز ہے؟ انھوں نے کہا: ہاں، کچھ کھجوریں ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کھجوریں لے لیں اور ان کو منہ میں چبایا، پھر وہ اپنے منہ سے نکال کر بچے کے منہ میں ڈال دیں، اور اس کو (یوں) گھٹی دی اور اس کا نام عبداللہ رکھا۔[11]

اور بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ ابن عینیہ نے کہا: انصار کے ایک آدمی نے انھیں بتایا کہ میں نے (اس) پیدا ہونے والے (بچے) عبداللہ کی اولاد سے نو لڑکے دیکھے، سب کے سب قرآن کے قاری تھے۔ [12]

اور مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ ابوطلحہ کا ایک بیٹا، جو ام سلیم کے بطن سے تھا، فوت ہوگیا تو ام سلیم نے اپنے گھر والوں سے کہا: تم ابوطلحہ کو ان کے بیٹے کی بابت مت بتلانا میں خود ہی ان کو بتلائوں گی۔ چنانچہ ابوطلحہ آئے، ام سلیم نے رات کا کھانا ان کے سامنے رکھا، انھوں نے کھایا پیا، پھر پہلے سے کہیں زیادہ بن سنور کر ان کے پاس آئیں، انھوں نے ان سے ہم بستری کی، جب ام سلیم نے دیکھا کہ وہ خوب سیر ہوگئے اور ہم بستری کر لی ہے تو کہا: اے ابوطلحہ! ذرا بتلائو! اگر کچھ لوگ کسی گھر والوں کو کوئی چیز عاریتہ (عارضی طور پر) دیں، پھر وہ اپنی عاریت کے طور پر دی ہوئی چیز واپس مانگیں تو کیا ان کے لیے جائز ہے کہ وہ دینے سے انکار کر دیں؟ ابوطلحہ نے جواب دیا: نہیں۔ پس ام سلیم نے کہا: تم اپنے بیٹے کے بارے میں اللہ سے ثواب کی امید رکھو! (یعنی تمھارا بیٹا بھی، جو اللہ ہی کا دیا ہوا تھا،اس نے اپنی امانت واپس لے لی ہے۔) یہ سن کر وہ غضب ناک ہوئے اور فرمایا: (جب میں گھر آیا تو کچھ بتلائے بغیر) تو نے مجھے یوں ہی چھوڑے رکھا حتی کہ میں ہم بستری تک سے آلودہ ہوگیا اور اس کے بعد تونے مجھے میرے بیٹے (کی وفات) کی خبر دی۔ (اس کے بعد) وہ گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور جو کچھ ہوا وہ بیان کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سن کر دعا فرمائی: اللہ تعالیٰ تم دونوں کے لیے تمھاری اس رات میں برکت عطا فرمائے۔ چنانچہ ام سلیم کو حمل قرار پا گیا۔ (راویٔ حدیث حضرت انس نے بیان کیا کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر میں تھے، حضرت ام سلیم بھی (اپنے خاوند ابوطلحہ کے ہمراہ) آپ کے ساتھ تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کا معمول تھا کہ جب (سفر سے) مدینہ واپس تشریف لاتے تو رات کو تشریف نہ لاتے۔ جب یہ قافلہ مدینے کے قریب پہنچا تو ام سلیم کو درد زہ (زچگی کے عین وقت جو درد ہوتا ہے) شروع ہوگیا چنانچہ ابوطلحہ ان کی خدمت کے لیے رک گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سفر جاری رکھا۔ حضرت انس نے بیان کیا کہ پھر وقتی طور پر درد زہ رک گیا اور ابوطلحہ بھی مدینہ آگئے، وہاں آ کر ان کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا، پس میری والدہ ام سلیم نے مجھے کہا: اس کو اس وقت تک کوئی دودھ نہ پلائے جب تک تم صبح صبح اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش نہیں کر دیتے۔ پس صبح ہوتے ہی میں اسے اٹھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے گیا۔ آگے باقی حدیث بیان کی (جو پہلے گزر چکی ہے)۔ [13]

اس حدیث سے ہمیں معاشرتی زندگی کے لیے بہت سی ہدایات ملتی ہیں۔ مثلاً :

(1)ایک صابر و شاکر عورت کا کردار کہ بچہ فوت ہوگیا لیکن کوئی جزع فزع ، واویلا، بین اور نوحہ و ماتم نہیں کیا۔ حتی کہ خاوند جب گھر آتا ہے تو پہلے ایک خدمت گزار بیوی کی طرح خاوند کی تمام ضروریات کا اہتمام کرتی ہیں اور اس کے بعد خاوند کو ایک نہایت اچھوتے انداز سے بچے کی وفات کی اطلاع دیتی ہیں۔ جس سے یہ سبق ملتا ہے کہ خاوند کی خدمت اور اسے آرام و سکون پہنچانا ایک مسلمان عورت کا اولین فرض ہے۔

(2)گھر میں خاوند کے لیے سولہ سنگھار اور زیب و زینت کا اہتمام کرنا مستحسن ہے۔

(3)ولادت کے بعد بچے کو کسی نیک آدمی کے پاس لے جا کر اس سے تحنیک کروانا(گھٹی دلوانا)چاہیے۔

(4)مصیبت میں جو اللہ کے فیصلے پر راضی رہتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے بہترین بدلہ عطا فرماتا ہے۔

5ایسا تعریض و کنایہ(توریہ) جائز ہے جس سے دوسرا شخص مغالطے میں پڑ جائے تاہم وہ جھوٹ نہ ہو۔ وغیرہ۔


17) شکر گزار عورت :

مسلمان عورت کی ایک اہم صفت شکر گزاری ہے، یعنی عسر و یسر، خوش حالی اور تنگ دستی ہر حالت میں اللہ کا بھی شکر ادا کرے اور اپنے خاوند کی بھی شکر گزار ہو۔

آج کل ہماری معیشت و معاشرت میں جو تکلفات در آئے ہیں، اس نے ہر مرد و عورت کو احساس محرومی میں مبتلا کر دیا ہے جس کی وجہ سے کلمات تشکر ہماری زبان پر آتے ہی نہیں ہیں، نہ اللہ کے لیے اور نہ خاوند اور والدین کے لیے ، حالانکہ انسان پر سب سے پہلے احسانات اللہ تعالیٰ کے ہیں، پھر والدین کے اور خاوند کے اور درجہ بدرجہ دیگر قرابت داروں کے۔ اللہ کے ساتھ ساتھ ان سب کا مرہون احسان رہنا نہایت ضروری ہے، ورنہ انسان ناشکری میں مبتلا ہوجاتا ہے اور یہ ناشکری بہت بڑا جرم ہے اور عورتوں کی اکثریت اسی ناشکری کی وجہ سے جہنم کا ایندھن بنے گی۔

یہ موضوع چونکہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے، لیکن بد قسمتی سے جتنی زیادہ اس کی اہمیت ہے، اتنی ہی اس سے بے اعتنائی بھی عام ہے۔ اس لیے ہم اس پر قدرے تفصیل سے گفتگو کرنا مناسب بلکہ ضروری سمجھتے ہیں۔

18) اللہ کی اور خاوند کی ناشکری، ایک بڑا جرم اور اس کا نبوی حل :

’عَنْ عَبْدِاللہ بْنِ عَبَّاسٍ (قَالَ فِی حَدِیثِ خُسُوفِ الشَّمْسِ عَلٰی عَہْدِ رَسُولِ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، قَالَ رَسُولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) وَرَأَیْتُ النَّارَ فَلَمْ أَرَ کَالْیَوْمِ مَنْظَرًا قَطُّ، وَرَأَیْتُ أَکْثَرَ أَہْلِھَا النِّسَاءَ، قَالُوا: لِمَ یَارَسُولَ اللہ! قَالَ بِکُفْرِھِنَّ، قِیلَ یَکْفُرْن بِاللّٰہِ ؟ قَالَ یَکْفُرْنَ الْعَشِیرَ وَیَکْفُرْنَ الْإِحْسَانَ، لَوْ أَحْسَنْتَ الٰی اِحْدَاھُنَّ الدَّھْرَ ثُمَّ رَأَتْ مِنْکَ شَیْئًا قَالَتْ: مَا رَأَیْتُ مِنْکَ خَیْرًا قَطّ[14]

’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں سورج گرہن کا واقعہ بیان فرمایا، اس میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کوخوف کی نماز پڑھائی، اس نماز میں آپ کو جنت اور دوزخ کا مشاہدہ کروایا گیا، نماز کے بعد آپ نے اس کی کچھ تفصیل بیان فرمائی۔ اس میں آپ نے فرمایا: ’’میں نے جہنم کو بھی دیکھا، اور اس جیسا (ہولناک) منظر، جو میں نے آج دیکھا، کبھی نہیں دیکھا۔ اور میں نے جہنم میں اکثریت عورتوں کی دیکھی۔ صحابہ نے پوچھا، اللہ کے رسول! اس کی وجہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا، ان کا ناشکری کرنا۔ پوچھا گیا، کیا اللہ کی ناشکری کرنا؟ آپ نے فرمایا: (نہیں) وہ خاوند کی ناشکری کرتی ہیں اور اس کے احسان کو تسلیم نہیں کرتیں۔ اگر تم ان میں سے کسی کے ساتھ زندگی بھر احسان کرتے رہو، پھر وہ تم سے کوئی ایسی بات دیکھ لے (جو اس کے مزاج اور طبیعت کے خلاف ہو) تو وہ کہے گی، میں نے تو تیرے ہاں کبھی سکھ دیکھا ہی نہیں۔‘‘

اس حدیث میں عورتوں کی ایک بہت بڑی کمزوری کا بیان ہے اور وہ ہے خاوند کی ناشکری۔ عورت مرد کی رفیقِ زندگی اور شریکِ سفر ہے۔ زندگی میں نشیب وفراز اور حالات میں مدّو جزر آتے رہتے ہیں۔ انصاف اور اخلاق کا تقاضا ہے کہ کبھی مرد مشکلات میں پھنس جائے اور اس پر تنگ دستی کا دور آجائے، تو ایسے حالات میں بھی عورت مرد کا اسی طرح ساتھ دے جیسے خوش حالی کے دور میں وہ دیتی رہی تھی اور حرف شکایت زبان پر لا کر مرد کی دل شکنی یا اس کی مشکلات میں اضافہ نہ کرے۔

جو عورتیں اس کے برعکس رویہ اختیار کرتی ہیں اور تنگی میں بھی ان کی توجہ اپنے لباس، اپنے زیورات اور اپنی آسائشوں اور سہولتوں ہی پر رہتی ہے اور ان میں کمی آنے پر مردوں کو کو ستی اور شکوہ شکایتوں سے مردوں کی پریشانیوں میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔ یہ نا انصافی ہے اور خاوندوں کی ناشکری ہے، جو اللہ کو ناپسند ہے اور یہ صفت اسے اتنی ناپسند ہے کہ اس کی وجہ سے ہی اللہ تعالیٰ ایسی عورتوں کو جہنم میں ڈال دے گا۔

بنا بریں ضروری ہے کہ نیک خواتین، جنت میں جانے کی خواہش مند خواتین، اس حدیث رسول کو ہر وقت اپنے سامنے رکھیں اور کسی موقعے پر بھی خاوند کی ناشکری کریں اور نہ اللہ کی ناشکری کریں، کہ یہ دونوں ناشکریاں جہنم میں لے جانے کا باعث بن سکتی ہیں۔ بلکہ بہتر ہے کہ محرومی اور تنگ دستی کے موقعے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث سامنے رکھی جائے جس میں

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔

’اُنْظُرُوا إِلٰی مَنْ ھُوَ اَسْفَلَ مِنْکُمْ وَلَا تَنْظُرُوا إِلٰی مَنْ ھُوَ فَوْقَکُمْ فَھُوَ أَجْدَرُ أَنْ لَّا تَزْدَرُوا نِعْمَۃَ اللّٰہ عَلَیْکُمْ‘[15]

’’ان کو دیکھو جو تم سے کمتر ہیں، ان کو مت دیکھو جو تم سے برتر ہیں۔ اس طرح تم ان نعمتوں کی جو اللہ نے تمھیں عطا کیں ہیں ناقدری نہیں کرو گے۔‘‘

کمتر اور برتر دنیا کی حیثیت سے۔ یعنی دنیوی مال و اسباب یا ظاہری شکل و صورت کے اعتبار سےجو تم سے برتر ہے، اسے مت دیکھو، اس طرح تمھیں جو بے شمار نعمتیں حاصل ہیں، ان کی کوئی قدر تمھاری نظر میں نہیں رہے گی اور یوں تم اللہ کی ناشکری کرو گے۔ اس کے برعکس جب تم اپنے سے کم تر یا اپنے سے بد شکل لوگوں کو دیکھو گے، تو تمھارے دل میں اللہ کی نعمتوں کا احساس پیدا ہوگا اور تم اللہ کا شکر کرو گے۔ اس مفہوم کو ایک دوسری حدیث میں اس طرح واضح کیا گیا ہے۔

’إِذَا نَظَرَ أَحَدُکُمْ إِلٰی مَنْ فُضِّلَ عَلَیْہِ فِی الْمَالِ وَالْخَلْقِ، فَلْیَنْظُرْ إِلٰی مَنْ ہُوَ أَسْفَلَ مِنْہُ مِمَّنْ فُضِّلَ عَلَیْہِ‘[16]

’’جب تم میں سے کوئی شخص ایسے شخص کو دیکھے جو مال و دولت اور پیدائش (حسن و جمال) میں اس سے زیادہ حیثیت رکھنے والا ہو، تو وہ ایسے شخص کو بھی دیکھے جو (مذکورہ حیثیتوں کے اعتبار سے) اس سے کمتر ہو۔‘‘

ایک اور حدیث میں نقطۂ نظر کے مذکورہ دونوں پہلوئوں کے نتائج کو ان الفاظ میں واضح کیا گیا ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’خَصْلَتَانِ مَنْ کَانَتَا فِیہِ کَتَبَہُ اللہ شَاکِرًا صَابِرًا وَمَنْ لَّمْ تَکُونَا فِیہِ لَمْ یَکْتُبْہُ اللہ شَاکِرًا وَلَا صَابِرًا، مَنْ نَظَرَ فِی دِینِہِ إِلٰی مَنْ ہُوَ فَوْقہُ فَاقْتَدٰی بِہٖ۔ وَمَنْ نَظَرَ فِی دُنْیَاہُ إِلٰی مَنْ ھُوَ دُونَہُ فَحَمِدَاللہ عَلٰی مَا فَضَّلَہُ بِہٖ عَلَیْہِ کَتَبَہُ اللہ شَاکِرًا وَ صَابِرًا وَمَنْ نَظَرَ فِی دِینِہِ إِلٰی مَنْ ھُوَ دُونَہُ وَنَظَرَ فِی دُنْیَاہُ إِلٰی مَنْ ھُوَ فَوْقَہُ فَأَسِفَ عَلَی مَا فَاتَہُ مِنْہُ لَمْ یَکْتُبْہُ اللہ شَاکِرًا وَلَا صَابِرًا‘[17]


’’دو خصلتیں ایسی ہیں جس میں وہ ہوں گی، اللہ تعالیٰ اسے شاکر و صابر لکھ دیتا ہے اور جس میں وہ نہیں ہوں گی، اسے اللہ شاکر و صابر نہیں لکھتا۔ جوشخص اپنے دین کے معاملے میں ایسے شخص پر نظر رکھتا ہے جو اس سے بڑھ کر ہے، پھر اس کی اقتداء کرتا ہے۔ اور دنیا کے معاملے میں اس شخص کو دیکھتا ہے جو اس سے کمتر حیثیت کا حامل ہے، پھر اس بات پر اللہ کی حمد کرتا ہے کہ اللہ نے اس کو اس پر فضیلت عطا کی ہے۔ (ان دو خصلتوں کے حامل شخص کو) اللہ تعالیٰ شاکر اور صابر لکھ دیتا ہے۔ اور جو شخص اپنے دین کے معاملے میں اپنے سے کمتر (دیندار) کو دیکھتا ہے اور دنیا کے معاملے میں اپنے سے برتر (مال دار) کو دیکھتا ہے اور پھر جو اسے (دنیا کے مال و اسباب سے) میسر نہیں ہے اس پر افسوس کا اظہار کرتا ہے، تو ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ نہ شاکر لکھتا ہے اور نہ صابر۔‘‘

اس حدیث میں مذکورہ دو خصلتوں کی موجودگی یا عدم موجودگی کا نتیجہ بتلایا گیا ہے جس میں پہلی دو خصلتیں ہوں گی، وہ یقینا ایک تو دین و شریعت کی پابندی کا بھی زیادہ اہتمام کرے گا، کیونکہ اس کی نظر اپنے سے زیادہ متقی و پارسا شخص پر ہوگی اور وہ اسی کو نمونے کے طور پر اپنے سامنے رکھ کر اس کی اقتداء کرے گا۔ دوسرے، وہ شخص اللہ کا شکر بھی خوب ادا کرے گا کیونکہ وہ ہر وقت ان کو دیکھے گا جو اس سے بھی زیادہ محروم قسم کے لوگ ہیں، تو قدرتی طور پر ہر وقت اس کی زبان کلمات حمد سے تر اور اس کا دل اعتراف نعمت سے معمور رہے گا۔ اس کے برعکس جس شخص کے اندر یہ دو خصلتیں نہیں ہوں گی، وہ ایک تو دین و شریعت کی پابندی کا بھی زیادہ اہتمام نہیں کرے گا، کیونکہ اس کے سامنے وہ نمونے ہوں گے جو دین کے زیادہ پابند نہیں ہوںگے۔ دوسرے، یہ شخص ہر وقت اپنی محرومی ہی کا گلہ اور اللہ کی نعمتوں کی ناقدری ہی کرے گا، کیونکہ اس کے آئیڈیل وہ لوگ ہوں گے جو محض دنیا دار اور ہر طرح کے وسائل سے بہرہ ور ہوں گے۔


[1] سنن النسائي، حدیث: 3233

[2] صحیح البخاري، حدیث: 5365

[3] جامع الترمذي، جدیث: 1159

[4] صحیح مسلم، حدیث: 1026

[5] سنن ابن ماجہ، حدیث: 1853

[6] صحیح البخاري، حدیث: 5193،5194

[7] صحیح مسلم، حدیث: 1436

[8] جامع الترمذي،کتاب فضال الجھاد باب ماجاء لاطاعۃ فی معصیۃ الخالق،معجم الکبیر طبرانی18/170،حدیث نمبر :381

[9] صحیح مسلم، حدیث: 3009

[10] صحیح البخاري، حدیث: 2

[11] صحیح بخاری ،کتاب العقیقہ،باب تسمیۃ المولود۔حدیث نمبر:5470،صحیح مسلم،کتاب الآداب،باب الاستہباب تنیک المولود:حدیث:2144

[12] صحیح بخاری کتاب الجنائز،باب من لم یظہرحزنہ عندا لمصیبۃ،حدیث نمبر1301

[13] ریاض الصالحین، باب الصبر، بحوالہ صحیح البخاري، حدیث: 5470,1301، و صحیح مسلم، حدیث: 2144۔

[14] صحیح البخاري، کتاب النکاح باب کفران العشیر وھوالزوج،وھوالخلیط من لمعاشرۃ حدیث نمبر:5197

[15] صحیح مسلم:كتاب الزهد والرقائق،حدیث: 2963

[16] صحیح البخاري:کتاب الرقائق ۔باب لینظر الی من ھوا:حدیث: 6490،و صحیح مسلم: كتاب الزهد والرقائق ،حدیث: 2963

[17] تاب صفۃ القیامۃ،باب النظر الیٰ من ھوافوقہ فی الدین
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
71
اس حدیث کے بین السطور سے یہ بھی معلوم ہوا کہ گھر میں خاوند کے قریبی رشتے دار چھوٹے بڑے بھائی (عورت کے دیور ، جیٹھ) اور اسی طرح عورت کے قریبی رشتے دار ، اس کے ماموں زاد، چچا زاد، خالہ زاد، پھوپھی زاد، (جن کو آج کل کزن کہا جاتا ہے) سے بھی پردے کا اہتمام کرے، ان سے بے تکلف نہ ہو۔ ان سے زیادہ بے تکلفی ، قربت اور بے پردگی نہایت خطرناک ہے جس سے اس کی عصمت کی ردائے تقدس بھی تار تار ہوسکتی ہے۔ اس لیے حدیث میں دیور، جیٹھ وغیرہ کو موت قرار دیا گیا ہے۔
محترم بھائی،
السلام علیکم ، بہت عمدہ تحریر ہے میں صرف یہ جاننا چاہتا ہوں آج کل کے جوائیٹ فمیلی سسٹم میں دیور اور جیٹھ سے پردہ"چہرے کا پردہ" کس طرح ممکن ہے
 
Top