محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,785
- پوائنٹ
- 1,069
بسم اللہ الرحمن الرحیم !
نیک صحبت اور انسانی زندگی پر اس کا اثر :
إن الحمد لله، نحمده، ونستعينه، ونستغفره، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا وسيئات أعمالنا، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادى له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لاشريك له، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله،
اسلام دین فطرت ہے، چنانچہ وہ ناقابل تغیر فطرت کے بھی لائق ہے اور قابل تغیر کے بھی، اس لیے کہ وہ اس کا علاج ودوا ہے-
، اسی طرح آدم علیہ السلام کے لیے حواء کوپیدا کیا گیا ، تاکہ وہ اس سے سکون حاصل کریں،مگر اللہ نے ان کو اکیلا نہیں چھوڑا ، فرمایا:جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی متفق علیہ حدیث میں ہے:
"کل مولود یولد علی الفطرۃ، وإنما أبواہ یھودانہ، وینصرانہ ویمجسانہ"
ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے مگر اس کے والدین اسے یہودی وعیسائی اور مجوسی بنادیتے ہیں-
اس فطرت کو اس فطرت سے جوڑنے اور جمعہ وجماعت ، عیدین اور صلاۃ کسوف جیسی اسلامی تشریعات میں نمایاں مختلف مرکزی امور پر اس فطرت کو مرکوز کرنا اسلام کا خاص کام ہے۔ جماعت میں حاضر نہیں ہونے والوں کے گھر کو جلانے کے سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارادہ سے یہ بات واضح ہے۔ اور صحیحین میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرا ارادہ ہے کہ میں مؤذن کو اذان کا حکم دوں ، پھر ایک آدمی سے لوگوں کو نماز پڑھانے کے لیے کہوں، اس کے بعد اپنے ساتھ کچھ لوگوں کو لے چلو ں،جن کے ساتھ لکڑیوں کی گٹھری ہو، پھر نماز باجماعت سے پیچھے رہنے والوں کے پاس جاؤں اور ان کے گھر وں میں آگ لگادوں ۔(هُوَ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ إِلَيْهَا) (الأعراف: 189)
"وہ اللہ تعالیٰ ایسا ہے جس نے تم کو جان واحد سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ وہ اس اپنے جوڑے سے انس حاصل کرے۔"
اسی طرح مسافر کو جماعت کے ساتھ سفر کرنے کی تاکید فرمائی اور سفر میں جماعت سے الگ رہنے والے کو شیطان کا نام دیا، جیسا کہ عمر وبن شعیب عن ابیہ عن جدہ کی مرفوع حدیث میں ہے: ایک سوار شیطان ہے اور دو دو شیطان ہیں، مگر تین سواروں کی جماعت ہے، اس حدیث کو امام مالک وترمذی اور ابو داؤد ونسائی نے روایت کی اورعلامہ البانی نے اسے صحیح قراردیا ہے۔
اس زندگی کی ضروریات میں سے ایک آدمی کا اپنے لیے دوست کا اختیار وانتخاب بھی ہے تاکہ بھولنے پر وہ اسے یاد دلائے، یا غافل ہو نے پر اسے متنبہ کرے، اور نہ جاننے پر اس کو سکھلائے۔ چنانچہ دوست اپنے ہم نشین وساتھی کا عنوان ونشان ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا،
عن المرء لا تسأل وابصر خلیلہ
وکل قرین بالمقارن یقتدی
إن کان ذا شر، فجانبہ سرعۃ
وإن کان خیرًا فقارنہ تھتدی
وکل قرین بالمقارن یقتدی
إن کان ذا شر، فجانبہ سرعۃ
وإن کان خیرًا فقارنہ تھتدی
" آدمی کے بارے میں مت پوچھو کہ وہ کیسا ہے ، اس کے دوست کو دیکھ لو تو اس آدمی کے بارے میں بھی پتہ چل جائےگا۔ ہر دوست اپنے ساتھی کی ہی اقتدا کرتا ہے اگر وہ دوست برا ہو تو جلد ہی اس سے دور ہوجاؤ۔ اور اگر اچھا ہو تو اس کے ساتھ ملے رہو را ستہ پالوگے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے اپنے دین ورسول اور مومنوں کو دوست بنا یا اور یہی ایمان کا سب سے مضبوط بندھن ہے۔ اسی طرح ہمارے اوپر اللہ اور اس کے رسول کے خلاف ہر چیز سے براء ت کو واجب قرار دیا ہے-
مومنوں سے موالات کے وجوب سے متعلق فرمایا:
(إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّـهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ) (المائدۃ:55)
" (مسلمانو) ! تمہارا دوست خود اللہ ہے اور اس کا رسول ہے اور ایمان والے ہیں جو نمازوں کی پابندی کرتے ہیں اور زکاة ادا کرتے ہیں اور وه رکوع (خشوع وخضوع) کرنے والے ہیں۔"
(وَمَن يَتَوَلَّ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا فَإِنَّ حِزْبَ اللَّـهِ هُمُ الْغَالِبُونَ) (المائدۃ:56)
"اور جو شخص اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسول سے اور مسلمانوں سے دوستی کرے، وه یقین مانے کہ اللہ تعالیٰ کی جماعت ہی غالب رہےگی۔"
علامہ شنقیطی فرماتے ہیں کہ:یہ آيت کریمہ لفظ خبر کے ساتھ وارد ہوئی ہے ، مگر مراد انشاء ہے۔ اور وہ ہے اللہ کے دشمنوں سے دوستی نہ کرنے کا تاکیدی حکم ہے۔ انشاء لفظ خبر کے ساتھ بہت پختہ ومؤکد ہوتا ہے، بالمقابل انشاء کے ذریعہ خبر کو لانے کے۔ اس آیت میں اللہ اور اس کے رسول سے دشمنی کی بڑی سخت ممانعت ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
(لَّا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ ۚ) (المجادلۃ:22)
"اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والوں کو آپ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والوں سے محبت رکھتے ہوئے ہرگز نہ پائیں گے گو وه ان کے باپ یا ان کے بیٹے یا ان کے بھائی یا ان کے کنبہ (قبیلے) کے (عزیز) ہی کیوں نہ ہوں۔"
اور دوسری آیت میں ارشاد ہے:
(قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَآءُ مِنكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاءُ أَبَدًا حَتَّىٰ تُؤْمِنُوا بِاللَّـهِ وَحْدَهُ) (الممتحنة:4)
" (مسلمانو) ! تمہارے لیے حضرت ابراہیم میں اور ان کے ساتھیوں میں بہترین نمونہ ہے، جبکہ ان سب نے اپنی قوم سے برملا کہہ دیا کہ ہم تم سے اور جن جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو ان سب سے بالکل بیزار ہیں۔ ہم تمہارے (عقائد کے) منکر ہیں جب تک کہ تم اللہ کی وحدانیت پر ایمان نہ لاؤ۔"
ایک اور جگہ ارشاد ہے:
(مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّـهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ) (الفتح:29)
"محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں، کافروں پر سخت ہیں آپس میں رحم دل ہیں۔"
ایک اور جگہ ارشاد ہے:
(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَن يَرْتَدَّ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّـهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ) (المائدة:54)
"اے ایمان والو! تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے تو اللہ تعالیٰ بہت جلد ایسی قوم کو لائےگا جو اللہ کی محبوب ہوگی اور وه بھی اللہ سے محبت رکھتی ہوگی وه نرم دل ہوں گے مسلمانوں پر اور سخت اور تیز ہوں گے کفار پر۔"
ایک اور جگہ ارشاد ہے:
(وَلْيَجِدُوا فِيكُمْ غِلْظَةً) (التوبة:123)
"اور ان کو تمہارے اند ر سختی پانا چاہئے۔"
اب تو ان آیتوں کے معنی و مفہوم کی روشنی میں نیک صحبت کو اپنانا اور بری صحبت سے بچنا واجب ہے۔ایک اور جگہ ارشاد ہے:
(يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ ۚ) (التوبۃ:37)
"اے نبی! کافروں اور منافقوں سے جہاد جاری رکھو، اور ان پر سخت ہو جاؤ۔"
Last edited: