محمدسمیرخان
مبتدی
- شمولیت
- فروری 07، 2013
- پیغامات
- 453
- ری ایکشن اسکور
- 924
- پوائنٹ
- 26
باغیوں کا انجام
اسی طرح اﷲتعالیٰ نے پے درپے یہ وعید سُنائی ہے کہ وہ جھٹلانے والوں ،ظالموں اور سرکشوں اورمجرموں کو آخرت میں پکڑے گا اور دُنیا میں ایک مدّت مقرر تک ان کی رسی ڈھیلی چھوڑے گا اورانہیں مہلت دے گا ۔اگرچہ ان میں سے بعض کو اﷲتعالیٰ نے کبھی کبھی دنیا میں بھی پکڑلیا ہے۔لیکن اصل سزا کے لیے آخرت ہی پر زوردیا گیا ہے :
لا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي الْبِلادِ(١٩٦)مَتَاعٌ قَلِيلٌ ثُمَّ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمِهَادُ(١٩٧). (آل عمران)
’’ملک کے اندر اﷲ کے نافرمان لوگوں کی چلت پھرت تمہیں کسی دہوکہ میں نہ ڈالے ۔یہ چند روزہ زندگی کا لُطف ہے ‘پھر ان کا ٹھکانہ جہنم ہوگا جو بہت بُری جائے قرار ہے‘‘۔
وَلَا ﺗَﺤۡﺴَﺒَﻦَّ اﷲَ غَافِلًا عَمَّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ ، اِنَّمَا یُؤَخِّرُھُمْ لِیَوْمٍ تَشْخَصُ فِیْہِ الْاَبْصَارُ، مُھْطِعیْنَ مُقْنِعِیْ رُءُ وسِھِمْ لَا یرْتَدُّ اِلَیْھِمْ طَرْفُھُمْ وَاَفْئِدَ تُھُمْ ھَوَآء.
’’یہ ظالم لوگ جو کچھ کررہے ہیں اﷲکو تم اس سے غافل نہ سمجھو۔اﷲتو انہیں ٹال رہا ہے اُس دن کے لیے جب یہ حال ہوگا کہ آنکھیں پھٹی پھٹی رہ گئی ہیں ۔سراُٹھائے بھاگے چلے جارہے ہیں ،نظریں اُوپر جمی ہیں اور دل اڑے جاتے ہیں‘‘۔
فَذَرْهُمْ يَخُوضُوا وَيَلْعَبُوا حَتَّى يُلاقُوا يَوْمَهُمُ الَّذِي يُوعَدُونَ(٤٢)يَوْمَ يَخْرُجُونَ مِنَ الأجْدَاثِ سِرَاعًا كَأَنَّهُمْ إِلَى نُصُبٍ يُوفِضُونَ(٤٣)خَاشِعَةً أَبْصَارُهُمْ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ ذَلِكَ الْيَوْمُ الَّذِي كَانُوا يُوعَدُونَ (٤٤).(معارج)
’’انہیں بے ہودہ باتیں اور کھیل کرنے دو یہاں تک کہ آخر کار وہ دن آموجود ہو جس کا وعدہ ان سے کیا گیا ہے ۔وہ دن جب کہ یہ قبروں سے نکل کھڑے ہوں گے اور اس طرح دوڑ رہے ہوں گے کہ گویا وہ کسی استھان کی طرف لپک رہے ہیں۔ان کی نظریں جُھکی ہوں گی ذِلّت چہروں پر چھارہی ہوگی ،یہی تو وہ دن ہوگا جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا تھا‘‘۔
علیٰ ہذا القیاس انسانی زندگی کا ملاء اعلیٰ کی زندگی سے رشتہ قائم ہے ۔اور دُنیا کا آخرت سے ۔لہٰذا خیر وشر کا معرکہ ِحق وباطل کی آویزش اور ایمان وبغاوت کی کشمکش کا سارا مدار صرف دنیا کے اسٹیج پر نہیں ہے ،اور نہ یہ معاملہ دنیاوی زندگی کے اندر ہی انجام پذیر ہوتا ہے۔اور نہ دنیاوی زندگی ہی کے اندر اس کا فیصلہ سُنایا جاتا ہے۔دنیاوی زندگی اور اس سے وابستہ تمام راحتیں اور تکلیفیں یا لذتیں اورمحرومیاں ہی اﷲ کی میزان فیصلہ کا اصل وزن نہیں ہیں۔اس حقیقت کی رُو سے معرکۂ خیر وشر کا میدان بھی بڑا وسیع ہے ،اور عرصہ بھی بڑا وسیع ہے ۔اور کامیابی اورناکامی کے پیمانے اور اوزان کا دائرہ بھی بڑا وسیع ہے۔اسی بناپر مومن کے فکر ونظر کے آفاق میں غیر معمولی پھیلاؤ آجاتا ہے اور اس کی دلچسپیاں اور توجہات بھی اونچے درجے کی ہوجاتی ہیں ۔اور یہ دنیا اور اس کی رعنائیاں اور یہ زندگی اور اس کے لوازم اُس کی نگاہ میں حقیر اور بے وقعت ہوکر رہ جاتے ہیں۔اور جس قدر اُس کے فکرونظر کے زاویے بلند ہوتے جاتے ہیں اُس کے درجات میں بلندی ہوتی جاتی ہے۔ایسا وسیع ہمہ گیر ا ور پاکیزہ وبلند ترایمانی تصور پیدا کرنے کے لیے اصحاب الاخدود کا قصہ چوٹی کی مثال ہے ۔