• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

واقعہ حرہ میں مسجد نبوی میں اذان بند ہونے سے متعلق روایات کا جائزہ

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
جزاک اللہ خیرا کفایت اللہ بھائی جان۔ قبوری شریعت کی تشہیر میں مصروف برصغیر کے دونوں مشہور گروہ اس روایت کو قبروں سے فیض پانے کی دلیل کے طور پر اس زبان زد عام روایت کو پیش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہدایت دے۔ آمین۔
"قبوری شریعت" ۔۔۔ بہت خوب کہا
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
’’ محمد بن سعيد القرشی ‘‘


پیش کردہ روایت کو سعیدابن المسیب سے ’’ محمد بن سعيد القرشی ‘‘ نے بھی نقل کیا ہے ، اس کی حقیقت بھی ملاحظہ :

امام ابن سعد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قال: أخبرنا محمد بن عمر قال: حدثني طلحة بن محمد بن سعيد عن أبيه قال: كان سعيد بن المسيب أيام الحرة في المسجد لم يبايع ولم يبرح، وكان يصلي معهم الجمعة ويخرج إلى العيد، وكان الناس يقتتلون وينتبهون وهو في المسجد لا يبرح إلا ليلا إلى الليل. قال فكنت إذا حانت الصلاة أسمع أذانا يخرج من قبل القبر حتى أمن الناس وما رأيت خبرا من الجماعة .[الطبقات الكبرى لابن سعد 5/ 132]

یہ روایت موضوع ہے ، اس میں کئی علتیں ہیں:
پہلی علت:
''محمد بن سعید'' کو ابن حبان کے علاوہ کسی نے ثقہ نہیں کہا ہے ، لہٰذا یہ نامعلوم التوثیق ہے۔
دوسری علت:
''طلحہ بن محمد '' مجہول ہے ۔
امام أبو حاتم الرازی رحمہ اللہ (المتوفی277 ) نے کہا:
لا اعرف طلحة بن محمد بن سعید بن المسیب[الجرح والتعدیل لابن أبی حاتم 4/ 476]۔
تیسری علت:
امام ابن سعد کا استاذ ''محمدبن عمر '' کذاب ہے۔
امام شافعی رحمہ اللہ (المتوفی 204)نے کہا:
کتب الواقدی کذب[الجرح والتعدیل لابن أبی حاتم:٢٠٨ وسندہ صحیح]۔
امام علی بن المدینی رحمہ اللہ (المتوفی234)نے کہا:
ولا أرضاہ فِی الحدیث، ولا فِی الأنساب ولا فِی شیء .[تاریخ بغداد: ٥٢١٤ ]۔
امام سحاق بن راہَوَیْہ رحمہ اللہ (المتوفی 237)نے کہا:
عندی ممن یضع الحدیث [الجرح والتعدیل لابن أبی حاتم:٢٠٨ وسندہ صحیح]۔
امام ابن القیسرانی رحمہ اللہ (المتوفی507)نے کہا:
أجمعوا علی ترکہ[معرفة التذکرة لابن القیسرانی ص 163]۔
ان تینوں علتوں کی بنیاد پر یہ روایت موضوع ہے۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
جزاک اللہ خیرا کفایت اللہ بھائی جان۔۔۔اللہ تعالیٰ آپ کے علم و عمل میں اضافہ فرمائیں اور دنیا و آخرت میں آپ کو اس کا بہترین بدلہ عطا فرمائیں۔ آمین۔
 

afrozsaddam350

مبتدی
شمولیت
اگست 31، 2019
پیغامات
25
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
17
امام تمیہ رحمہ اللہ نے یہ حدیث کو کیوں بیان کیے ہے۔
اسکی وجہ درکار ہے؟


Sent from my JSN-L22 using Tapatalk
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
امام تمیہ رحمہ اللہ نے یہ حدیث کو کیوں بیان کیے ہے۔
اسکی وجہ درکار ہے؟


Sent from my JSN-L22 using Tapatalk
و علیکم السلام و رحمت الله

امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ بہت سے خلف نے ان واقعات کو منکرات کہہ دیا ہے جبکہ یہ منکرات نہیں ہیں مثلا “مسجد نبوی میں برابر تین دن اذان کی آواز کا آنا جو کہ نبی اکرم کی قبر انور سے آتی تھی اورسعید ملسیب رحم اللہ کا سن کر نماز ادا کرنا فرماتے ہین شرک وبدعت میں یہ چیز داخل نہیں”- اور جو روایت ہے رسول کریم کی قبر سے سلام کا جواب سنا اور باقی اولیا ء کی قبروں سے ۔پھرفرماتے ایام قحط سالی میں ایک شخص قبر مبارک کے پاس آیا اورقحط سالی کی شکایت کی اسنے حضور اکرم کو دیکھا کہ عمر کہ پاس جاو اور کہو کہ نماز استسقاء پڑھائیں،فرماتے ہیں کہ یہ واقعات شرک وبدعت کے باب سے نہیں اس طرح کے کثیر واقعات آپ صل الله علیہ و آله وسلم کی امت کے بزرگان دین سے بھی ثابت ہیں – (اقتضائے صراط مستقیم)

ابن تیمیہ سے دین کے بعض اجتہادات و مسائل میں سخت چوک ہوئی ہے، اُن میں انہوں نے جمہور علماء کی روش سے ہٹ کر شذوذ وتفرد کی رائے اختیار کی ہے۔

امام ابن تیمیہ علماء کے اس گروہ سے تعلق رکھتے تھے جو نہ صرف کشف القبور پر ایمان رکھتے ہیں بلکہ تصوف کو بھی ایک مستقل مذہب کا درجہ دیتے ہیں - جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ سلف و صالحین اور قرون اولیٰ کا دین نہیں -ضعیف روایات عقائد میں کبھی بھی حجت نہیں بن سکتی لیکن بعض نامور عالموں نے بشمول ابن تیمیہ نے عقائد سے متعلق مردود روایات کو صحیح قرار دے کر بڑی غلطی کی اور امّت میں بدعات کی راہ ہموار کردی -اگرچہ شاید ان کی یہ نیت نہ تھی کہ اس سے امّت میں شرک پھیلے گا -لیکن جب ایک چیز کا جواز پیدا ہو جائے تو گمراہی خود با خود پھیلتی ہے- جس طرح قران میں ہے کہ زنا کے قریب مت جاؤ (یعنی ان اسباب و خیالات سے دور رہو ) جو زنا پر مجبور کرتے ہیں -اسطرح بدرجہ اولیٰ شرک پیدا کرنے والے اسباب و عقائد اور غلط روایات سے بھی دور رہنا ضروری ہے-

دور حاضر کے نام نہاد بدعتی اب اپنے باطل وسیلوں کو جواز بخشنے کے لئے ابن تیمیہ اور ابن قیم کے حوالے پیش کرتے ہیں کہ جب یہ اکابر ان روایات کو کہ جن میں ہیں کہ "حرہ کے دنوں میں قبر نبوی سے اذان کی آواز آتی تھی، یا نبی کریم امّت کا قبر کا قریب سے بیھجا جانے والا درود خود سنتے ہیں، یا وہ روایت کے جس میں ہے ک عیسیٰ علیہ سلام، نبی کریم کی قبر پر حاضر ہونگے اور نبی کریم اپنی قبر نبوی میں سے عیسیٰ علیہ سلام کو سلام کا جواب دینگے وغیرہ -" کو صحیح کہتے ہیں تو کیوں نہ ان کو مدد و وسیلے کے لئے بھی پکارا جائے-جب نبی قبر میں زندہ ہے تو کیا صرف درود سننے کے لئے زندہ ہے - کیا ہماری مناجات نہیں سن سکتا ؟؟ یہ ہے وہ گمراہی جو امّت میں ان روایات کو صحیح قرار دینے کی بنا پر عقائد کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے -

قرآن میں تو الله رب العزت نے لوگوں واضح کردیا کہ:

اور جن جن کو یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے سوا پکارتے ہیں (یعنی انبیا و اولیاء کو)- وه کسی چیز کو پیدا نہیں کرسکتے، بلکہ وه خود پیدا کیے ہوئے ہیں- مردے ہیں زنده نہیں، انہیں تو اس بات کا بھی شعور نہیں کہ کب زندہ کرکے اٹھائے جائیں گے - سوره النحل ٢٠-٢١

الله سب کو ہدایت دے (آمین)
 
Last edited:
Top