• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

واقعہ کربلا کے اصل واقعات

شمولیت
اکتوبر 31، 2013
پیغامات
85
ری ایکشن اسکور
54
پوائنٹ
28
واقعہ کربلا کے صحیح واقعات
ترجمہ و ترتیب از محمد عطاءاللہ حنیف رحمہ اللہ
ہر سال محرم جب بھی آتا ہے غالباً خاص سیاسی مقاصد کیلئے واقعاتِ کربلا کی رونے رُلانے والی بہت سی ایسی کہانیوں سے جلسوں تقریروں اور محافل کا رنگ جمایا جاتا ہے ۔ اوراقِ تاریخ پر جن کا ثبوت سخت مخدوش اور مشکوک ہے کیونکہ جس راوی کے ذریعے ہماری تاریخ میں یہ رواج پا گئی ہیں ۔ وہ ایک داستان گوابو مخنف لوط بن یحییٰ (متوفی ۱۷۵ھ) تھاجو ایک کٹر قسم کا دروغ گوغالی شیعہ بتایا جاتا ہے جیسا کہ رجالِ حدیث اور بعض تاریخ کی کتابوں میں تفصیلاً موجود ہے ۔
(میزان الاعتدال ص:۱۹، ج:۴طبع جدید ، لسان المیزان ، نیز دیکھئے الاصابہ ص:۱۷، ج:۲، والبدایہ والنہایہ ص:۲۰۲، ج:۸ وغیرہ )
اولاً تو اس موسم میں اس حادثے کا تذکرہ کوئی مفید نہیں ۔ ثانیاً اگر ناگزیر ہوتو اتنا ہی کافی ہے جتنا سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے پوتے حضرت ابو جعفر محمد باقررحمہ اللہ جو حضرت زین العابدین علی بن حسین کے فرزندِ ارجمند اور اثناعشری شیعہ حضرات کے ایک ''امام معصوم'' ہیں کی زبانی تہذیب التہذیب آٹھویں صدی ہجری کے محدث حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کی تالیف میں مذکور ہے ۔اگرچہ حضرت باقررحمہ اللہ خود اس حادثے کے وقت موجود نہ تھے ۔ مگر ظاہر ہے کہ انہوں نے یہ سب کچھ اپنے والد محترم سے سنا ہو گا جو اول سے آخر تک اس میں موجود رہے اور تمام صورتِ حالات کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا۔
بڑ ی خصوصیت اس روایت کی یہ ہے کہ بہت حد تک جذباتی رنگ آمیزی سے پاک اور مؤرخا نہ طرزِ بیان کی حامل ہے پھر یہ کہ ایسے شخص(جو خود اس کا راوی بھی ہے ) کے اس سوال کے جواب میں ہے جو اہلِ بیت کی پارٹی کا ہے ۔ آپ مجھ سے واقعہ کربلا کو اس انداز سے بیان فرمائیے گویا کہ میں خود وہاں موجود ہوں ۔
بنا بریں یہ نہیں ہو سکتا کہ حضرت موصوف نے کوئی ضروری بات چھوڑ دی ہو یا عقیدت کیش راوی نے اس میں کتر بیونت کی ہو غالباً یہی بات ہے کہ ''تہذیب التہذیب'' میں اس روایت کا انتخاب کیا گیا اور واقعہ یہ ہے کہ اس سے اس حادثہ کے خدوخال نمایاں طور پر واضح ہوجاتے ہیں ۔
روایت حضرت ابو جعفر باقررحمہ اللہ
روایت کے راوی عمار دہنی نے کہا کہ میں نے محمد بن علی بن الحسین سے عرض کیا کہ آپ مجھ سے واقعہ قتلِ حسین رضی اللہ عنہ ایسے انداز سے بیان فرمائیں کہ گویا میں خود وہاں موجود تھا اور یہ سامنے ہورہا ہے اس پر حضرت محمد باقررحمہ اللہ نے فرمایا۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے انتقال کے وقت ولید بن عتبہ بن ابی سفیان (سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا بھتیجا اور یزید کا چچیرا بھائی ) مدینہ منورہ کا گورنر تھا۔ ولید نے حسب دستور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو پیغام بھیجاتاکہ ان سے نئے امیر یزید کیلئے بیعت لیں ۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے جواب میں فرمایا کہ سرِدست آپ سوچنے کی مہلت دیں اور اس بارے میں نرمی اختیار کریں ولید نے ان کو مہلت دے دی ۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ مہلت پا کر مکہ معظمہ تشریف لے گئے ۔
دریں اثنا جب کوفہ والوں کو اس کا پتہ چلا کہ حضرت تو مکہ مکرمہ پہنچ گئے ہیں تو انہوں نے اپنے قاصد سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی خدمت میں روانہ کئے اور ان سے درخواست کی کہ آپ کوفہ تشریف لے آئیں ہم اب آپ ہی کے ہوگئے ہیں ۔ ہم لوگ یزید کی بیعت سے منحرف ہیں ۔ ہم نے گورنر کوفہ کے پیچھے جمعہ پڑ ھنا بھی چھوڑ دیا ہے ۔ اس وقت نعمان بن بشیر انصاری صیزید کی طرف سے کوفہ کے گورنر تھے جب اہلِ کوفہ کی طرف سے اس قسم کی درخواستیں آئیں تو سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے چچیرے بھائی مسلم بن عقیل رحمہ اللہ علیہ کو کوفہ بھیجنے کا پروگرام بنایا تاکہ وہ کوفہ جائیں اور وہاں جا کر صورتِ حال کا اچھی طرح جائزہ لیں اگر اہلِ کوفہ کے بیانات صحیح ہوں تو خود بھی کوفہ پہنچ جائیں گے ۔
حضرت مسلم رحمہ اللہ کی کوفہ کو روانگی
قرار داد کے مطابق حضرت مسلم رحمہ اللہ مکہ مکرمہ سے پہلے مدینہ منورہ پہنچے وہاں راستہ کی راہنمائی کیلئے دو آدمی ساتھ لیے اور کوفے کی طرف روانہ ہوگئے جس راستے سے وہ لے گئے اس میں ایک ایسا لق ودق میدان آ گیا جس میں پانی نہ ملنے کے سبب پیاس سے دو چار ہوگئے چنانچہ اسی جگہ ایک راہنما انتقال کرگیا۔ اس صورتِ حال کے پیش آنے پر حضرت مسلم رحمہ اللہ نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو ایک خط لکھ کر کوفہ جانے سے معذرت چاہی لیکن حضرت ممدوح نے معذرت قبول کرنے سے انکار کر دیا اور لکھا کہ آپ ضرور کوفہ جائیں ۔ بنابریں حضرت مسلم رحمہ اللہ کوفہ کی طرف چل دیے ۔ وہاں پہنچ کر ایک شخص عوسجہ نامی کے گھر قیام فرمایا۔ جب اہل کوفہ میں حضرت مسلم رحمہ اللہ کی تشریف آوری کا چرچا ہوا تو وہ خفیہ طور پر ان کے ہاں پہنچے اور ان کے ہاتھ پر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کیلئے بیعت کرنے لگے چنانچہ بارہ ہزار اشخاص نے بیعت کر لی۔دریں اثناء یزید کے ایک کارندے عبد اللہ بن مسلم بن شعبہ حضرمی کو اس کا پتہ چلا تو اس نے ساری کاروائی کی اطلاع جناب نعمان بن بشیرص گورنر کوفہ کودے دی اور ساتھ ہی کہا یا تو آپ واقعۃً کمزور ہیں یا کوفہ والوں نے آپ کو کمزور سمجھ رکھا ہے ۔دیکھتے نہیں کہ شہر کی صورت حال مخدوش ہورہی ہے ؟ اس پر حضرت نعمان رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ''میری ایسی کمزوری جو بربنائے اطاعتِ الٰہی ہو وہ مجھے اس قوت وطاقت سے زیادہ پسند ہے جو اس کی معصیت میں ہو مجھ سے یہ نہیں ہو سکتا کہ جس امر پر اللہ تعالیٰ نے پردہ ڈالے رکھا ہے ۔ خواہ مخواہ اس پردے کو فاش کروں اس پرعبد اللہ مذکور نے یہ سارا ماجرا یزید کو لکھ کر بھیج دیا۔ یزید نے اپنے ایک آزاد کردہ غلام سرحون نامی کے اس بارے میں مشورہ لیا اس نے کہا اگر آپ کے والد زندہ ہوتے اور آپ کو کوئی مشورہ دیتے تو اسے قبول کرتے ، یزید نے کہا ضرور سرحون نے کہا تو پھر مشورہ یہ ہے کہ آپ کوفہ کی گورنری عبید اللہ بن زیاد کے سپرد کر دیں ۔ ادھر صورتحال ایسی تھی کہ ان دنوں یزید عبید اللہ مذکور پر ناراض تھا اور بصرہ کی گورنری سے بھی اس کو معزول کرنا چاہتا تھا مگر سرحون کے مشورے پر اس نے اظہار پسندیدگی کرتے ہوئے بصرہ کے ساتھ کوفے کی گورنری پر بھی عبید اللہ بن زیاد کو نامزد کر دیا اور لکھ دیا کہ کوفہ پہنچ کر مسلم بن عقیل رحمہ اللہ کو تلاش کرو اگر مل جائے تو اس کو قتل کر دو۔
ابنِ زیاد کوفے میں اور افشائے راز
اس حکم کی بنا پر عبید اللہ بصرہ کے چند سرکردہ لوگوں کے ہمراہ اس حالت میں کوفہ پہنچا کہ اس نے ڈھانٹا باندھ رکھا تھا تاکہ اسے کوئی پہچان نہ سکے وہ اہلِ کوفہ کی جس مجلس سے گزرتا اس پر سلام کہتا اور وہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ سمجھ کر وعلیک السلام یا ابن رسول اللہ (اے رسول اللہ کے بیٹے آپ پر بھی سلام) سے جواب دیتے اسی طرح سلام کہتا اور جواب لیتا ہوا وہ قصرِ امارت میں پہنچ گیا۔ وہاں پہنچ کر اس نے اپنے ایک غلام کو تین ہزار درہم دئیے اور کہا تم جا کر اس شخص کا پتہ لگاؤ جو کوفے والوں سے بیعت لیتا ہے لیکن دیکھو تم خود کو ''حمص'' کا باشندہ ظاہر کرنا اور یہ کہنا کہ میں بیعت کرنے کیلئے آیا ہوں اور یہ رقم بھی پیش کرنا چاہتا ہوں تاکہ اپنے مشن کی تکمیل میں اس کو صرف کریں چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا اور بہ لطائف الحیل اس شخص تک اس کی رسائی ہوگئی جو بیعت لینے کا اہتمام کرتا تھا اور اس نے اپنے آنے کی اور امدادی رقم پیش کرنے کی سب بات کہہ ڈالی۔ اس نے کہا مجھے یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی کہ تمہیں ہدایت کا راستہ نصیب ہوا لیکن یہ محسوس کر کے دکھ بھی ہورہا ہے کہ ہماری سکیم ابھی پختہ نہیں ہوئی تاہم وہ اس غلام کو حضرت مسلم بن عقیل رحمہ اللہ کے ہاں لے گیا۔ حضرت مسلم رحمہ اللہ نے اس سے بیعت بھی لے لی اور رقم بھی اس سے قبول کر لی۔ اب وہ یہاں سے نکلا اور عبید اللہ بن زیاد کے پاس سیدھا پہنچا اور سب کچھ اس کو بتلادیا۔ادھر حضرت مسلم رحمہ اللہ عبید اللہ کی کوفہ میں آمد کے بعد عوسجہ کا گھر چھوڑ کر ہانی بن عروہ مرادی کے مکان پر فروکش ہوئے اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی خدمت میں لکھ بھیجا کہ بارہ (۱۲) ہزار کی تعداد میں ہماری لوگوں نے بیعت کر لی ہے آپ کوفہ تشریف لے آئیں ۔
اور یہاں یہ ہوا کہ جب عبید اللہ کو پتہ چل گیا کہ مسلم رحمہ اللہ ہانی کے مکان پر ہیں ، تو اس نے کوفے کے سرکردہ لوگوں سے کہا کہ کیا بات ہے ہانی میرے پاس نہیں آئے ؟ اس پر حاضرین سے ایک شخص محمد بن اشعث چند ہمراہیوں کے ساتھ ہانی کے ہاں گئے تو وہ اپنے دروازے پر موجود تھے ۔ اشعث نے کہا کہ گورنر صاحب آپ کو یاد فرماتے ہیں اور آپ کے اب تک نہ حاضر ہونے کو بہت محسوس کرتے ہیں لہذا آپ کو چلنا چاہیے چنانچہ ان کے زور دینے پر ہانی ان کے ساتھ ہولیے اور وہ عبید اللہ کے پاس پہنچے اور اتفاق سے اس وقت قاضی شریح بھی ابن زیادہ کے پاس موجود تھے ۔ ان سے مخاطب ہوکر اس نے کہا دیکھو ہانی کی چال کھوٹ کی مظہر ہے پھر اتنے میں وہ اس کے پاس آ گیا تو کہا ہانی مسلم بن عقیل رحمہ اللہ کہاں ہیں ؟ اس نے کہا مجھے علم نہیں اس پر عبید اللہ نے تین ہزار روپے والے غلام کو اس کے سامنے کر دیا۔ ہانی بالکل لاجواب ہوگئے البتہ اتنا کہا میں نے انہیں اپنے گھر بلایا نہیں وہ خودبخود میرے گھر آ کر ٹھہر گئے ہیں ۔ ابن زیاد نے کہا اچھا ان کو حاضر کرو۔ اس پر پس وپیش کیا تو ابن زیاد نے اپنے قریب بلوا کر اس کے زور سے چھڑ ی ماری جس سے ان کی بھویں پھٹ گئیں اس پر ہانی نے اس کے ایک محافظ سپاہی سے تلوار چھین کر عبید اللہ پر وار کرنا چاہا لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکا۔ اس پر ابن زیاد نے یہ کہہ کر اب تمہارا خون حلال ہے ۔ قصرِ امارت کے ایک حصے میں اس کوقید میں ڈال دیا۔
اس واقعے کی اطلاع ہانی کے قبیلے مذحج کو ہوئی تو انہوں نے قصرِ امارت پر یلغار بول دی ۔ عبید اللہ نے شور سنا اور پوچھا تو کہا گیا ہانی کا قبیلہ ان کو چھڑ انے کیلئے چڑ ھ آیا ہے اس نے قاضی شریح کے ذریعے ان کو کہلایا کہ ہانی کو مسلم بن عقیل کا پتہ کرنے اور بعض باتوں کی تحقیق کے لیے روک لیا گیا ہے ۔ خطرے کی کوئی بات نہیں لیکن ساتھ ہی قاضی شریح پر بھی ایک غلام کو لگا دیا یہ معلوم کرنے کیلئے کہ وہ لوگوں سے کیا کہتے ہیں قاضی شریح لوگوں کی طرف جاتے ہوئے ہانی کے پاس سے گزرے تو اس نے قاضی صاحب سے کہا کہ میرے بارے میں اللہ سے ڈرنا ابن زیاد میرے قتل کے درپے ہے تاہم قاضی شریح نے ہجوم کو ابن زیاد والی بات کہہ کر مطمئن کر دیا اور لوگ بھی یہ سمجھ کر مطمئن ہوگئے کہ ہانی کو کوئی خطرہ نہیں ۔
حضرت مسلم رحمہ اللہ کو جب ہنگامے کی اطلاع ہوئی تو انہوں نے اپنے ذرائع ابلاغ سے کوفہ میں اعلان کرادیا۔ جس کے نتیجہ میں چالیس ہزار لوگ ان کے پاس جمع ہوگئے جس کو انہوں نے باقاعدہ ایک فوجی دستہ کی شکل دے دی جس کا مقدمۃ الجیش میمنہ اور میسرہ وغیرہ سبھی کچھ تھا۔ خود حضرت مسلم رحمہ اللہ اس کے قلب میں ہوگئے اس طرح چالیس ہزار کا یہ لشکرِ جرار قصرِ امارت کی طرف روانہ ہو گیا۔ عبید اللہ کو اس کی اطلاع ہوئی تو اس نے اعیانِ کوفہ کو اپنے قصر میں بلایا جب یہ لشکر قصر امارت تک پہنچ گیا تو سردارانِ کوفہ نے اپنے اپنے قبیلے کو دیواروں کے اوپر سے گفتگو کر کے سمجھانا شروع کیا اب تو مسلم رحمہ اللہ کی فوج کے آدمی کھسکنے شروع ہوئے اور ہوتے ہوتے شام تک صرف پانچ سو رہ گئے حتی کہ رات کے اندھیرے تک وہ بھی اوجھل ہوگئے ۔ جب مسلم رحمہ اللہ نے دیکھا کہ وہ تنہا رہ گئے ہیں تو وہ بھی وہاں سے چل پڑ ے راستہ میں ایک مکان کے دروازہ پر پہنچے تو ایک خاتون اندر سے آپ کی طرف نکلی تو آپ نے اس کو پانی پلانے کیلئے کہا تو اس نے پانی تو پلادیا لیکن اندر واپس چلی گئی۔ تھوڑ ی دیر کے بعد پھر باہر آئی تو آپ کو دروازے پر دیکھ کر اس نے کہا اے اللہ کے بندے ! آپ کا اس طرح بیٹھنا مشکوک ہے یہاں سے چلے جائیں ۔ آپ نے کہا : میں مسلم بن عقیل ہوں کیا تم مجھے پناہ دو گی؟ اس نے کہا ہاں آجائیے آپ اندر چلے گئے ۔ لیکن کرنا خدا کا یہ ہوا کہ اس عورت کا لڑ کا محمد بن اشعث کا آزاد کردہ غلام تھا جب اس کو پتہ چلا کہ یہ مسلم بن عقیل ہیں تو اس نے محمد بن اشعث مذکور کو اطلاع دے دی جس نے فوراً عبید اللہ تک خبر پہنچائی جس نے اس کے ہمراہ پولیس روانہ کر دی اور ان کو مسلم رحمہ اللہ کی گرفتاری کا حکم دے دیا۔ پولیس نے جا کر مکان کا محاصرہ کر لیا جبکہ مسلم کو خبر تک نہ ہو سکی تھی۔ اب خود کو انہوں نے محصور پایا تو تلوار سونت کر نکل آئے اور پولیس سے مقابلہ کی ٹھان لی۔ لیکن ابن اشعث نے ان کو روک کرکہا کہ میں ذمہ دارہوں آپ محفوظ رہیں گے ۔ پس وہ مسلم کو ابن زیاد کے پاس پکڑ کر لے گئے ۔ چنانچہ ابن زیاد کے حکم سے قصرِ امارت کی چھت پر لے جا کر مسلم رحمہ اللہ کو قتل کر دیا گیا۔ (إنا للہ وإنا إلیہ راجعون)
اور ان کی لاش بازار میں لوگوں کے سامنے پھینک دی گئی نیز اس کے حکم سے ہانی کو کوڑ ے کرکٹ کی جگہ تک گھسیٹتے ہوئے لے جا کر سولی دے دی گئی ادھر تو کوفہ میں یہ تک ہو گیا تھا
سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی روانگی کوفہ
ادھر مسلم رحمہ اللہ چونکہ خط لکھ چکے تھے کہ بارہ ہزار اہل کوفہ نے بیعت کر لی ہے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ جلد از جلد تشریف لے آئیں ۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ سے کوفہ کی طرف روانہ ہوگئے تاآنکہ آپ قادسیہ سے صرف تین میل کے فاصلے پر تھے کہ حُربن یزید تمیمی سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے قافلے کو ملا اس نے کہا کہاں تشریف لے جا رہے ہو آپ نے فرمایا کوفہ اس نے کہا وہاں توکسی خیر کی توقع نہیں ۔ آپ کو یہاں سے ہی واپس ہوجانا چاہیے پھر کوفیوں کی بے وفائی اور حضرت مسلم کے قتل کی پوری رُو داد آپ کو سنائی۔
سارا قصہ سن کر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے تو واپسی کا ارادہ کر لیا لیکن مسلم رحمہ اللہ کے بھائیوں نے یہ کہہ کر واپس جانے سے انکار کر دیا کہ ہم مسلم رحمہ اللہ کا بدلہ لیں گے یا خود بھی مارے جائیں گے اس پر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا تمہارے بغیر میں جی کرکیا کروں گا۔ اب وہ سب کوفہ کی طرف روانہ ہوگئے جب آپ کو ابنِ زیاد کی فوج کا ہراول دستہ نظر آیا تو آپ نے ''کربلا'' کا رخ کر لیا اور وہاں جا کر ایسی جگہ پڑ اؤ ڈالا جہاں ایک ہی طرف سے جنگ کی جا سکتی تھی چنانچہ خیمے نصب کر لیے ۔ اس وقت آپ کے ساتھ پنتالیس سوار اور سو کے قریب پیدل تھے ۔
دریں اثنا عبید اللہ نے عمر بن سعد کو جو کوفے کا گورنر تھا بلایا اور اس سے کہا اس شخص حسین رضی اللہ عنہ کے معاملے میں میری مدد کریں اس نے کہا مجھے تو معاف ہی رکھیے ۔ ابن زیاد نہ مانا۔ اس پر عمربن سعد نے کہا پھر ایک شب سوچنے کی مہلت تو دے دیجئے ۔اس نے کہا ٹھیک ہے ، سوچ لو۔ ابن سعد نے رات بھر سوچنے کے بعد صبح کو آمادگی کی اطلاع دے دی۔
اب عمر بن سعد سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضرا ہوا۔ حضرت نے اس کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ دیکھو تین باتوں میں سے ایک بات منظورکر لو یا تو مجھے کسی اسلامی سرحد پر چلے جانے دو یا مجھے موقع دو کہ میں براہِ راست یزید کے پاس پہنچ جاؤں اور یا پھر یہ کہ جہاں سے آیا ہوں وہیں واپس چلا جاؤں ۔
ابنِ سعد نے یہ تجویز خود منظور کر کے ابن زیاد کو بھیج دی۔ اس نے لکھا ہمیں یہ منظور نہیں ۔ بس ایک ہی بات ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ (یزید کیلئے ) میری بیعت کریں ۔ ابن سعد نے یہی بات سیدنا حسین رضی اللہ عنہ تک پہنچا دی انہوں نے فرمایا ایسا نہیں ہو سکتا، اس پر آپس میں لڑ ائی چھڑ گئی اور حضرت کے سب ساتھی (مظلومانہ) شہید ہوگئے جن میں دس سے کچھ اوپر نوجوان ان کے گھر کے تھے ۔ اسی اثنا میں ایک تیر آیا جو حضرت کے چھوٹے بچے پر لگا جو گود میں تھا آپ رضی اللہ عنہ اس سے خون پونچھ رہے تھے اور فرما رہے تھے ۔ اے اللہ ہمارے اور ایسے لوگوں کے درمیان فیصلہ فرما جنہوں نے پہلے یہ لکھ کر ہمیں بلایا کہ ہم آپ کی مدد کریں گے پھر اب ہمیں قتل کر رہے ہیں ۔ اس کے بعد خود تلوار ہاتھ میں لی مردانہ وار مقابلہ کیا اور لڑ تے لڑ تے شہید ہوگئے ۔رضی اللہ عنہ اور یہ شخص جس کے ہاتھ سے حسین رضی اللہ عنہ شہید ہوئے قبیلہ مذحج کا آدمی تھا اگرچہ اس بارے میں دوسرے اقوال بھی متعلقہ تاریخوں میں مذکور ہیں ۔
مذحج ہانی کا وہی قبیلہ تھا جس نے قصرِ امارت پر چڑ ھائی کر دی یہ شخص حضرت کا سرتن سے جدا کر کے ابنِ زیاد کے پاس لے گیا اس نے اس شخص کو آپ کا سرمبارک دے کر یزید کے پاس بھیج دیا جہاں جا کر یزید کے سامنے رکھ دیا گیا ادھر ابن سعد بھی سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے اہل خانہ کو لیکر ابن زیاد کے پاس پہنچ گیا اور ان کا صرف ایک لڑ کا بچارہ گیا تھا اور وہ بچہ علی بن حسین زین العابدین رحمہ اللہ تھے اور روایت کے راوی ابو جعفر الباقر کے والد تھے یہ عورتوں کے ساتھ اور بیمارتھے ابن زیاد نے حکم دیا اس بچے کو بھی قتل کر دیا جائے اس پر ان کی پھوپھی زینب بنت علی اس کے اوپر گرپڑ یں اور فرمایا کہ جب تک میں قتل نہ ہو جاؤں گی اس بچے کو قتل نہ ہونے دوں گی۔ اس صورتحال کے نتیجے میں ابن زیاد نے اپنا یہ حکم واپس لے لیا اور بعدہ اسیرانِ جنگ کو یزید کے پاس بھیج دیا۔
جب سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے بچے کھچے یہ افرادِ خانہ یزید کے دربار میں پہنچے تو چند درباریوں نے حسبِ دستور یزید کو تہنیتِ فتح پیش کی۔ ان میں سے ایک شخص نے یہاں تک جسارت کر ڈالی کہ ایک لڑ کی کی طرف اشارہ کر کے کہا امیر المؤمنین ! یہ مجھے دے دیجئے ۔ یہ سن کر حضرت زینب بنت علی نے کہا بخدا ! یہ نہیں ہو سکتا۔ بجز اس صورت کے کہ یزید دینِ الٰہی سے نکل جائے پھر اس شخص نے دوبارہ کہا تو یزید نے اسے ڈانٹ دیا۔ اس کے بعد یزید نے ان سب کو محل سرا میں بھیج دیا پھر ان کو تیار کراکے مدینہ روانہ کروادیا۔ جب یہ لوگ مدینے پہنچے تو خاندان عبد المطلب کی ایک عورت سر پیٹتی اور روتی ان سے ملنے آئی اور اس
کی زبان پر یہ اشعار تھے ۔
ماذا تقولون ان قال النبی لکم
ماذا فعلتم وأنتم آخر الأمم
بعترتی وبأہلی بعد مفتقدی
منہم أُساریٰ وقتلی ضرجوا بدم
ماکان ہذا جزائی إذا نصحت لکم
ان تخلفونی بشر فی ذوی رحمی
جناب ابو جعفر باقررحمہ اللہ کا بیان ختم ہو گیا ۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ الاصابہ ص/۱۷، ج/۲۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے تذکرہ میں اس روایت کے بعد لکھتے ہیں ۔ وقد صنّف جماعۃ من القدماء فی مقتل الحسین تصانیف فیہا الغث والسمین والصحیح والسقیم وفی ہذہ القصۃ التی سقتہا غنی
یعنی چند تاریخ نویسوں نے مقتل حسین رضی اللہ عنہ کے بار ے میں مستقل کتابیں لکھی ہیں جن میں رطب ویابس، غلط صحیح سب کچھ بھر دیا گیا ہے لیکن جس قدریہ قصہ میں نے ذکر کیا ہے یہی کافی ہے ۔
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
واقعہ کربلا کے حقائق کو اتنا پھیلادیں۔۔۔
جتنا ان رافضیوں نے اس کہانی کو پھیلا کر اُمت کے عقائد اور ایمان کو برباد کردیا ہے۔۔۔
تاکہ مقابلہ برابر کا ہو اور پڑھنے والا خود فیصلہ کرے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ۔۔۔
اور اہلبیت کو شہید کرنے والے کوفی شیعہ تھے۔۔۔ نہ کے یزید رحمۃ اللہ علیہ۔۔۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ الاصابہ ص/۱۷، ج/۲۔
سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے تذکرہ میں اس روایت کے بعد لکھتے ہیں ۔
وقد صنّف جماعۃ من القدماء فی مقتل الحسین تصانیف فیہا الغث والسمین والصحیح والسقیم وفی ہذہ القصۃ التی سقتہا غنی

یعنی چند قدیم تاریخ نویسوں نے مقتل حسین رضی اللہ عنہ کے بار ے میں مستقل کتابیں لکھی ہیں جن میں رطب ویابس، غلط صحیح سب کچھ بھر دیا گیا ہے لیکن جس قدریہ قصہ میں نے ذکر کیا ہے یہی کافی ہے ۔
 
Top