محترم۔
اپ نے عجیب و غریب منطق پیش کی ہے کہ ایک دوسرے کے مدمقابل دونوں ہی صحیح اور حق پر ہوں یہ کیسے ممکن ہے دوفریق جب آمنے سامنے ہوں تو ایک صحیح اور ایک غلط ہی ہوتا ہے دونوں صحیح کیسے ہو سکتے ہیں اپ نے جو حدیث پیش کی ہے اس میں اقرب الحق دونوں اس لئے تھے کہ وہ ایک تیسرے گروہ"خوارج" سےلڑ رہے تھے تو ان میں حق سے ایک قریب اور دوسرا بہت قریب تھا جبکہ معاویہ اور علی رضی اللہ عنہ جو آپس میں مد مقابل تھے ان میں علی رضی اللہ عنہ حق پر تھے اور معاویہ رضی اللہ عنہ کا گروہ باغی تھا اور اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے لے کر آئمہ و محدثین اور امت کے اکابرین کا اجماع ہے اور امام نووی جن کی اپ نے دلیل پیش کی ہے وہ بھی یہی فرما رہے ہیں کہ اہل سنت کا یہی موقف ہے کہ علی رضی اللہ عنہ اپنی جنگوں میں حق پر تھے اپ کے لئے چن اقوال پیش خدمت ہیں۔
عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ:
زِيَادِ بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ: كُنْتُ إِلَى جَنْبِ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ بِصِفِّينَ , وَرُكْبَتِي تَمَسُّ رُكْبَتَهُ , فَقَالَ رَجُلٌ: كَفَرَ أَهْلُ الشَّامِ , فَقَالَ عَمَّارٌ: لَا تَقُولُوا ذَلِكَ نَبِيُّنَا وَنَبِيُّهُمْ وَاحِدٌ , وَقِبْلَتُنَا وَقِبْلَتُهُمْ وَاحِدَةٌ ; وَلَكِنَّهُمْ قَوْمٌ مَفْتُونُونَ جَارُوا عَنِ الْحَقِّ , فَحَقَّ عَلَيْنَا أَنْ نُقَاتِلَهُمْ حَتَّى يَرْجِعُوا إِلَيْه(مصنف ابن ابی شیبہ رقم 37841)
ترجمہ زیاد بن حارث جو عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کی قریب گئے اور کہا کہ اہل شام نے کفر کیا ہےانہوں نے فرمایا یہ نہ کہو ان کا اور ہمارا قبلہ ایک ہے لیکن یہ لوگ حق سے ہٹ گئے ہیں اور ہم حق پر ہیں اور اس لئے ان سے لڑ رہے ہیں کہ یہ اس(حق) کی طرف آجائیں۔
حدیث کا مسلمہ اصول ہے کہ روای اپنی روایت کامفہوم دوسروں سےبہتر سمجھتا ہےاور عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ خود فرما رہے ہے کہ ان کے مخالف گروہ باغی ہے تو آج اپ کے قول کی کیا حیثیت کہ دونوں کو حق پر فرما رہے ہیں
حسن بصری رحمہ اللہ:
قد فسر الحسن البصري الفئة الباغية بأهل الشام: معاوية وأصحابه.(فتح الباری ابن رجب الحنبلی باب التعاون علی المسجد جلد 3 ص 311)
حافظ ابن حجر:
هَذَا الْحَدِيثِ عَلَمٌ مِنْ أَعْلَامِ النُّبُوَّةِ وَفَضِيلَةٌ ظَاهِرَةٌ لِعَلِيٍّ وَلِعَمَّارٍ وَرَدٌّ عَلَى النَّوَاصِبِ الزَّاعِمِينَ أَنَّ عَلِيًّا لَمْ يَكُنْ مُصِيبًا فِي حُرُوبِهِ(فتح الباری تحت رقم 447)
علی رضی اللہ عنھما کی فضیلت ثابت ہوتی ہے اور ان میں ناصبیوں کا رد ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ اپنی جنگوں میں حق پر نہیں تھے۔
ابن حجر رحمہ اللہ نے واضح لکھا کہ علی رضی اللہ عنہ اپنی تمام جنگوں میں حق پر تھے اب اس بات پر بھی اقوال دیکھتے ہیں جو معاویہ رضی اللہ عنہ کے باغی گروہ ہونے پر دلالت کرتے ہیں
ابن کثیر:
أَخْبَرَ بِهِ الرَّسُولُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَنَّهُ تَقْتُلُهُ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ وَبَانَ بِذَلِكَ أَنَّ عَلِيًّا مُحِقٌّ وَأَنَّ مُعَاوِيَةَ بَاغٍ(البدایہ والنھایہ جلد 7 ص266 باب مقتل عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ)
ترجمہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی کہ (عماررضی اللہ عنہ) کو باغی گروہ قتل کرے گا اس سے یہ ثابت ہے کہ علی رضی اللہ عنہ حق پر تھے اور معاویہ رضی اللہ عنہ باغی تھے۔
امام شوکانی:
قَوْلُهُ: (أَوْلَاهُمَا بِالْحَقِّ) فِيهِ دَلِيلٌ عَلَى أَنَّ عَلِيًّا وَمَنْ مَعَهُ هُمْ الْمُحِقُّونَ، وَمُعَاوِيَةَ وَمَنْ مَعَهُمْ هُمْ الْمُبْطِلُونَ، وَهَذَا أَمْرٌ لَا يَمْتَرِي فِيهِ مُنْصِفٌ وَلَا يَأْبَاهُ إلَّا مُكَابِرٌ مُتَعَسِّفٌ، وَكَفَى دَلِيلًا عَلَى ذَلِكَ الْحَدِيثُ. وَحَدِيثُ " يَقْتُلُ عَمَّارًا الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ " وَهُوَ فِي الصَّحِيحِ(نیل الاوطار جلد 7 ص 59)
ترجمہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان(اولاھما بالحق) اس میں دلیل ہے کہ علی رضی اللہ عنہ اور جو ان کے ساتھ تھے وہ حق پر تھے اور معاویہ رضی اللہ عنہ باطل پر تھے اور اس میں کسی بھی انصاف کرنے والے کے لئے کوئی شک نہیں ہے اور اس سے صرف ضدی اور ہٹ دھرم ہی انکار کرے گا۔
محمد بن اسماعیل الصنعانی:
وَالْحَدِيثُ دَلِيلٌ عَلَى أَنَّ الْفِئَةَ الْبَاغِيَةَ مُعَاوِيَةُ وَمَنْ فِي حِزْبِهِ وَالْفِئَةَ الْمُحِقَّةَ عَلِيٌّ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - وَمَنْ فِي صُحْبَتِهِ وَقَدْ نَقَلَ الْإِجْمَاعَ مِنْ أَهْلِ السُّنَّةِ بِهَذَا الْقَوْلِ جَمَاعَةٌ مِنْ أَئِمَّتِهِمْ كَالْعَامِرِيِّ وَغَيْرِهِ وَأَوْضَحْنَاهُ فِي الرَّوْضَةِ النَّدِيَّةِ.(سبل السلام جلد 2 ص376 تحت رقم 1119 باب قتال البغاہ)
ترجمہ: یہ حدیث دلیل ہے کہ باغی گروہ معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کی گروہ کا ہے اور حق کی جماعت علی اور ان کے ساتھی تھے اور اس قول پر اہل سنت نے اجماع نقل کیا آئمہ میں سے عامری وغیرہ اور اس کو تفصیل سے میں نے الروضہ الندیہ میں نقل کیا ہے۔
[FONT=Tahoma, sans-serif]
یہ وہ چند حوالے ہیں جن میں آئمہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے گروہ کوواضح باغی لکھا ہے اور اس پر اجماع ہے تو ابھی بہت سے اقوال باقی ہیں اور یہ کوئی رافضیوں کے آئمہ نہیں ہے یہ اہلسنت کے وہ اکابرین ہیں
ابن عمر رضی اللہ عنہ صرف یزید کی بیعت توڑنے کو برا جانتے تھے کیونکہ وہ بیعت کو ایک عھد مانتے تھے اس لئَے کسی کی بھی بیعت توڑنے کو عھد شکنی سے تعبیر کرتے تھے انہوں نے نہ یزید کو کبھی نیک سمجھا اور نہ کبھی کہا ہے اگر ایسی کوئی بات ہے تو اپ پیش فرما دیں کہ انہوں نے یزید کو نیک کہا ہو بلکہ انہوں نے تو یزید کی شر سے پناہ طلب کی تھی اور اس کی بیعت کرنے پر راضی بھی نہیں تھے اس حوالے سے میں کافی لکھ چکا ہوں اس لئے اس کی حاجت نہیں ہاں یزید کے حق میں اگر کوئی تعریفی کلمات ابن عمررضی اللہ عنہ نے کہے ہیں تو اپ پیش فرما دیں سوائے اس کی بیعت توڑنے کواور کوئی بات انہوں نے کی ہی نہیں ہے اس لئے اپ کا اس بات کی یہ دلیل بنانا کہ یزید شراب نہیں پیتا تھا اور نماز کا تارک نہیں تھا کوئی معنی نہیں رکھتی ہے کیونکہ ایک صحابی رسول معقل بن سنان رضی اللہ عنہ اس کو شرابی مانتے تھے اور اس کی شراب پینے کی بنیاد پر اس کی بیعت توڑ دی تھی دلیل پیش ہے
قَالَ الْمَدَائِنِيُّ، عَنْ عَوَانَةَ، وَأَبِي زَكَرِيَّا الْعَجْلانِيِّ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ خَالِدٍ: إِنَّ مُسْلِمًا لَمَّا دَعَا أَهْلَ الْمَدِينَةِ إِلَى الْبَيْعَةِ، يَعْنِي بَعْدَ وَقْعَةِ الْحَرَّةِ، قَالَ: لَيْتَ شِعْرِي مَا فَعَلَ مَعْقِلُ بْنُ سِنَانٍ، وَكَانَ لَهُ مُصَافِيًا، فَخَرَجَ نَاسٌ مِنْ أَشْجَعَ، فَأَصَابُوهُ فِي قَصْرِ الْعَرَصَةِ، وَيُقَالُ: فِي جَبَلِ أُحُدٍ، فَقَالُوا لَهُ: الأَمِيرُ يُسْأَلُ عَنْكَ فَارْجِعْ إِلَيْهِ، قَالَ: أَنَا أَعْلَمُ بِهِ مِنْكُمْ، إِنَّهُ قَاتِلِي، قَالُوا: كَلا، فَأَقْبَلَ مَعَهُمْ، فَقَالَ لَهُ: مَرْحبًا بِأَبِي مُحَمَّدٍ، أَظُنُّكَ ظَمْآنَ [1] ، وَأَظُنُّ هَؤُلاءِ أَتْعَبُوكَ، قَالَ: أَجَلْ، قَالَ: شَوِّبُوا لَهُ عَسَلا بِثَلْجٍ، فَفَعَلُوا وَسَقَوْهُ، فَقَالَ: سَقَاكَ اللَّهُ أَيُّهَا الأَمِيرُ مِنْ شَرَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، قَالَ: لا جَرَمَ وَاللَّهِ لا تَشْرَبُ بَعْدَهَا حَتَّى تَشْرَبَ مِنْ حَمِيمِ جَهَنَّمَ، قَالَ: أَنْشُدُكَ اللَّهَ وَالرَّحِمَ، قَالَ: أَلَسْتَ قُلْتَ لِي بِطَبَرِيَّةَ وَأَنْتَ مُنْصَرِفٌ مِنْ عِنْدِ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ وَقَدْ أَحْسَنَ جَائِزَتَكَ: سِرْنَا شَهْرًا وَخَسِرْنَا ظَهْرًا، نَرْجِعُ إِلَى الْمَدِينَةِ فَنَخْلَعُ الْفَاسِقَ يَشْرَبُ الْخَمْرَ، عَاهَدْتُ اللَّهَ تِلْكَ اللَّيْلَةَ لا أَلْقَاكَ فِي حَرْبٍ أَقْدِرُ عَلَيْكَ إِلا قَتَلْتُكَ، وَأَمَرَ بِهِ فَقُتِلَ
اور اخری بات یزید کے دور میں صحابہ کرارم رضی اللہ عنہم کی بہت کم تعداد موجود تھی اور ان میں سے بھی اکثر اپنے گھروں میں بند ہو گئے تھے اس کی دلیل میں امام ذہبی اور ابن کثیر کے حوالے سے کئی بار لکھ چکا ہو یہ صرف ناصبیوں کی پھیلائی ہو منگھرٹ کہانی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ بڑی تعدادمیں موجود تھے[/FONT]
اور رہی بات نصیحت کرنے کی تو بھائی انکھیں کھول کر کتب احادیث پڑھ لیں کہ جن جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے نصیحت کرنے کی کوشش کی ان کی کس طرح تذلیل کی جاتی تھی چند صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے نام اور ان کو جن برے الفاظ سے یزیدکے گورنر "نعوذ باللہ "تذلیل کرتے تھے وہ حوالے پیش کر رہا ہوں
21171 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
[FONT=Tahoma, sans-serif][/FONT]
ایک حدیث مبارکہ میں حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ ان سے مسور بن مخرمہ اور عبدالرحمن القاری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ انہوں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما کو فرماتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک زندگی کے اندر میں نے ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہما کو سورۂ الفرقان پڑھتے ہوئے سنا۔ وہ کسی اور قرأت میں پڑھ رہے تھے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے میں نے اس قرأت میں نہیں پڑھی تھی۔ قریب تھا کہ میں نماز ہی کے دوران میں ان پر ٹوٹ پڑتا لیکن سلام پھیرنے تک میں نے صبر سے کام لیا اور پھر میں نے اپنی چادر ان کے گلے میں ڈال کر کہا: تمہیں اس طرح یہ سورت کس نے پڑھائی جس طرح میں نے تمہاری زبانی سنی ہے؟ انہوں نے کہا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پڑھائی ہے۔ میں نے کہا: تم نے جھوٹ بولا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے تو اور طرح پڑھائی ہے، پھر میں انہیں کھینچ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں لے گیا اور میں عرض گزار ہوا کہ جس طرح آپ نے سورۂ الفرقان مجھے سکھائی میں نے انہیں اس سے مختلف طریقے پر پڑھتے ہوئے سنا ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں چھوڑ دو اور اے ہشام! تم پڑھو۔ پھر انہوں نے سورۂ الفرقان اسی طرح پڑھی جس طرح میں نے ان کی زبانی سنی تھی۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اسی طرح نازل ہوئی ہے پھر فرمایا: اے عمر! تم پڑھو، تو میں نے اسی طرح پڑھی جس طرح آپ نے مجھے پڑھائی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اسی طرح نازل ہوئی ہے۔ اور فرمایا:
إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ أُنْزِلَ عَلَی سَبْعَةِ أَحْرُفٍ فَاقْرَءُ وا مَا تَيَسَّرَ مِنْهُ.
لہذا آپ کا یہ اصول کہ : دو فریق جب آمنے سامنے ہوں تو ایک صحیح اور ایک غلط ہی ہوتا ہے - بذات خود ایک غلط نظریہ ہے- بعض اوقات ایک فریق جن حالات و واقعات اور جو اس کو علم ہوتا ہے اس کو سامنے رکھ کر اجتہاد کررہا ہوتا ہے وہ بظاھر صحیح ہوتا ہے- دوسرا فریق اس کے برعکس اپنا نقطہ نظر اور اجتہاد پیش کرتا ہے- لہذا نوعیت کے اعتبار سے اکثر اوقات دونوں کا اجتہاد غلط نہیں ہوتا - جیسا اوپر حدیث مبارکہ سے بھی ثابت ہے کہ دونوں اصحاب کرام کے اجتہاد کو نبی کریم نے صحیح قرار دیا -
علی و معاویہ رضی الله عنہ کے معاملے میں بھی ایسا ہی تھا-دونوں اصحاب کا اجتہاد نوعیت کے اعتبار صحیح تھا- اور پھر جیسا کہ امام نووی رحم الله نے بھی فرمایا کہ "اگر بعض اصحاب کرام کو صحیح بات کا یقین ہو جاتا تو وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی معاونت سے پیچھے نہ رہتے۔ لیکن اصحاب کرم میں بہت تھوڑی تعداد میں ایسے تھے جنہوں نے صفین میں علی کا ساتھ دیا -
اہل حدیث عالم یوسف صلاح الدین جنگ صفین کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ : اگر حدیث قتل عمار بن یاسر جنگ صفین میں حق و باطل کا معیار ہوتی تو جنگ سے پہلے ہی حق و باطل واضح ہو جاتا - عمار بن یاسر جس گروہ کے ساتھ ہوتے - وہ اعلی اعلان کہتا کہ "ہم حق پر ہیں کہ عمار ہمارے ساتھ ہیں- جن اصحاب نے صفین میں معاویہ کا ساتھ دیا -وہ بھی جنگ کے بعد معاویہ کا ساتھ چھوڑ دیتے - بلکہ بہت ممکن ہے کہ جنگ کی نوبت ہی نہ آتی- کیوں کہ ہر ایک کو اندیشہ ہوتا کہ جس نے بھی عمار کو شہید کیا وہ باغی تصور ہو گا"-
بہر حال ایک گروہ کو متعلقاً نہ حق پر اور دوسرے گروہ کو
نہ متعلقاً باطل پر کہا جا سکتا ہے
پھر آپ کہتے ہیں کہ "
عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ خود فرما رہے ہے کہ ان کے مخالف گروہ باغی ہے تو آج اپ کے قول کی کیا حیثیت کہ دونوں کو حق پر فرما رہے ہیں"
جب کہ آپ کی پیش کردہ مصنف ابن ابی شیبہ روایت میں عمار بن یاسر کہہ رہے ہیں کہ :
عَمَّارٌ: لَا تَقُولُوا ذَلِكَ نَبِيُّنَا وَنَبِيُّهُمْ وَاحِدٌ , وَقِبْلَتُنَا وَقِبْلَتُهُمْ وَاحِدَةٌ ; وَلَكِنَّهُمْ قَوْمٌ مَفْتُونُونَ جَارُوا عَنِ الْحَقِّ ,
اس روایت میں معاویہ کے گروہ کے باغی ہونے کا ذکر تک نہیں ہے- حق پر نہ ہونے سے اگر کوئی گروہ
"باغی" تصور ہوتا تو جنگ جمل میں عائشہ رضی اللہ عنھما کا گروہ بھی باغی کہلاتا - وہاں بھی گرچہ حق علی کے ساتھ تھا - لیکن عائشہ رضی الله عنہ کو تو کسی نے باغی نہ کہا - جب کہ معاویہ و عائشہ رضی الله عنہ کا علی سے اختلاف ایک ہی موقف پر تھا کہ قاتلین عثمان سے فوری قصاص لیا جائے- تو ایک گروہ کو اجتہادی خطا پر محمول کیا جائے اور دوسرے کو باغی یہ کیسی منطق ہے؟؟ -
نیز -نبی کریم نے عمار بن یاسر سے متعلق جس روایت میں یہ فرمایا کہ عمار تمہیں باغی گروہ شہید کرے گا - اس میں یہ بھی ہے کہ "
ويح عمار تقتله الفئة الباغية يدعوهم إلى الجنة ويدعونه إلى النار" عمار تو ان کو جنّت کی طرف دعوت دے رہا ہوگا اور وہ اس کو آگ (جہنم) کی طرف بلا رہے ہونگے-
کیا معاویہ رضی الله عنھم خود اور آپ کے ساتھی اصحاب سب اس روایت کی رو سے جہنمی نہ ہوے ؟؟
کیا علی کے سگے بھائی عقیل بن ابی طالب جو معاویہ کے کیمپ میں تھے - اس روایت کی رو سے جہنمی نہ ہوے ؟؟
کیا علی کے بیٹے حسن نے ایک باغی و جہنمی "معاویہ" کے ہاتھ پر مصالحت کی بیعت کی اور انھیں احساس تک نہ تھا؟؟
کیا علی کے بیٹے حسن و حسین دونوں معاویہ کے دور خلافت میں ان سے خراج وصول نہ کرتے تھے (مصنف ابی شیبہ) یہ سوچے بغیر کہ وہ ایک "باغی" سے خراج وصول کررہے ہیں؟؟
علی دوران جنگ اپنے اصحاب کو لڑنے سے روک دیتے ہیں - کیا انہوں نے قران سے کفر نہیں کیا؟؟ - قرآن تو کہتا ہے کہ باغیوں سے وقت تک لڑو جب تک فتنہ ختم نہ ہو یا باغی توبہ کرلیں- (سوره المائدہ)-
محترم آپ کے رافضیت زدہ عقائد اور نام نہاد اجماع کے دعوے سے خود اہل بیت کی پاک ہستیوں پر ضرب پڑتی ہے- آج احناف سے تو ہم خائف ہیں کہ وہ اپنے آئمہ کی اندھی تقلید میں ڈوبے ہوے ہیں - لیکن کیا ہمیں رافضیت پسند اہل سنّت کی اندھی تقلید نظر نہیں آتی - جو معاویہ اور ان کے خاندان تو کیا خود اہل بیت کے پاک نفوس پر کیچڑ اچھالنے کا سبب بن رہی ہے ؟؟
الله رب العزت سب کو ہدایت دے (امین)
یزید بن معاویہ سے متعلق پہلے ہی بہت لکھا جا چکا ہے اس پر مزید بحث کا ارادہ نہیں -