• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

واقعہ کربلا کے تئیں اہل سنت کے غور و فکر کے لیے چند باتیں

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
محترم،
جس جس کو جب جو حدیث یاد آئی وہ علی رضی اللہ عنہ کے مقابلے پر واپس پلٹ گیا اماں عائشہ حواب سے واپس آ رہی تھی ابن زبیر اور طلحہ رضی اللہ عنہما واپس پلٹ گئے تھے اگر ان کو حدیث سفینہ نہ ملی اس کا مطلب یہ ضعیف ہو گئی سبحان اللہ


آپ نے شاید اہل مدینہ کی اس تحریک کے بارے میں باغور نہیں پڑھا ہے وگرنہ اپنا موقف ضرور بدل دیتے اس تحریک میں صحابی رسول سے لے کر تابعین کرام کی بڑی جماعت شامل تھی
معقل بن سنان رضی اللہ عنہ صحابی رسول
عبداللہ بن حنظلہ صحابی رسول
عبداللہ بن مطیع رحمہ اللہ تابعین
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ یزید کے حملے کے خلاف تھے اور انہوں اہل مدینہ کو خوفزدہ کرنے والی روایت سنائی
ایک صحابی رسول نے یزید کے لشکر کے سالار کو حملہ کرنے پر تنبیہ کی تھی اور حدیث سنائی تھی
ابن عمر رضی اللہ عنہ کے بھنوئی اس تحریک میں شامل تھے
ان سب کے حوالے پیش کیے جا سکتے ہیں اگر آں جناب کی جانب سے مطالبہ ہو
میرے خیال سے اب آپ کا موقف بدل جانا چاہیے
دوسری بات کہ حسین رضی اللہ عنہ سے بے شک کسی نے تعاون نہیں کیا مگر حسین رضی اللہ عنہ کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور لوگوں کی حمایت حاصل تھی جس کا میں اسی پوسٹ میں ما قبل ذکر کر چکا ہوں
باقی رہے یزید پر الزامات کی بات تو وہ سو فی صد صحیح تھے یزید کا شراب پینا نمازیں چھوڑنا صحیح احادیث اورروایات سے ثابت ہے
تو اگر اپ کا یہ کہنا کہ سب شر پسند ہی تھے تو اس کی دلیل پیش فرما دیں اپ کی اپنی ہوائی باتیں علمی میدان میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی ہیں
امام النووی (المتوفی 676ھ) شرح صحیح مسلم میں رقم طراز ہیں:

و مذهب أهل السنة و الحق إحسان الظن بهم و الإمساک عما شجر بينهم و تاويل قتالهم، و إنهم مجتهدون متأولون لم يقصد و امعصية ولا محض الدنيا، بل اعتقد و اکل فريق أنه المحق و مخلافه باغ فوجب قتاله لير جع الی أمر الله، وکان بعضهم مصيباً و بعضهم مخطئاً معذوراً في الخطأ لأنه بإجتهاد و لمجتهد إذاأ خطألا إثم عليه وکان علی رضی الله عنه هو المحق المصيب في ذلک الحروب هذا مذهب أهل السنة و کانت القضايا مشتبة حتی أن جماعة من الصحابة تحيرو ا فيها فاعتزلو االطائفتين ولم يقاتلو اولو تيقنو االصواب لم يتأ خرواعن مساعدته


اہلِ سنت اہل حق کا مذہب یہ ہے کہ سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں حسن ظن رکھا جائے۔ ان کے آپس کے اختلافات میں خاموشی اور ان کی لڑائیوں کی تاویل کی جائے۔ وہ بلا شبہ سب مجتہد اور صاحب رائے تھے معصیت اور نافرمانی ان کا مقصد نہ تھا اور نہ ہی محض دنیا طلبی پیش نظر تھی، بلکہ ہر فریق یہ اعتقاد رکھتا تھا کہ وہی حق پر ہے اور دوسرا باغی ہے اور باغی کے ساتھ لڑائی ضروری ہے تاکہ وہ امر الٰہی کی طرف لوٹ آئے، اس اجتہاد میں بعض راہ صواب پر تھے اور بعض خطا پر تھے، مگر خطا کے باوجود وہ معذور تھے کیونکہ اس کا سبب اجتہاد تھا اور مجتہد خطا پر بھی گنہگار نہیں ہوتا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ ان جنگوں میں حق پر تھے اہلِ سنت کا یہی موقف ہے، لیکن معاملات بڑے مشتبہ تھے یہاں تک کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت اس پر حیران و پریشان تھی جس کی بنا پر وہ فریقین سے علیحدہ رہی اور قتال میں انہوں نے حصہ نہیں لیا، اگر انہیں صحیح بات کا یقین ہو جاتا تو وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی معاونت سے پیچھے نہ رہتے۔
نووی، شرح صحيح مسلم، 2: 390، کتاب الفتن

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے گروہوں کے بارے میں ( صحیح مسلم؛1065)فرمایا کہ:
مسلمانوں میں اختلاف ہوگا اس وقت ایک دین سے نکل جانے والا تیسرا گروہ نکلے گا- (خوارج) اس وقت خوارج سے قتال وہ گروہ کرے گا جو؛ يَقْتُلُهَا أَوْلَى الطَّائِفَتَيْنِ بِالْحَقِّ
“جو دونوں گروہوں میں سے حق کے زیادہ قریب ہوگا۔”


یعنی دونوں علی معاویہ کے گروہوں میں کوئی بھی باطل یا باغی گروہ نہ تھا- دونوں حق پر تھے-ایک حق سے نسبتاً قریب اور دوسرا کم قریب تھا- لیکن کوئی باطل نہ تھا - (جیسا کہ رافضیت زدہ لوگوں کا نظریہ ہے کہ معاویہ کا گروہ باطل اور باغی تھا)- بلکہ اصل میں باغی گروہ (خوارج) کا تھا - یہی وہ گروہ تھا جس نے عمار رضی الله عنہ کو شہید کیا تھا-

آپ کا کہنا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کے بھنوئی اس تحریک میں شامل تھے -

بہتر ہوتا کہ آپ ان کا نام بھی لے لیتے - ابن عمر رضی الله عنہ کا بہنوئی کسانیہ فرقے کا بانی "مختار بن ابی عبید ثقفی تھا" - یہی وہ بدنام زمانہ شخص ہے کہ جس نے شہید کربلا کے نام پر تحریک چلائی اور دھوکے سے اہل مدینہ اور اہل کوفہ کو اپنی خلافت کی مہم کی طرف راغب کرنے کی مذموم کوشش کی - ابن عمر رضی الله عنہ اس کی بد فطرت کو جانتے تھے اسی لئے صحیح بخاری کی روایات کے مطابق آپ رضی الله عنہ صاف فرمایا کہ جو یزید بن معاویہ رحم الله کی بیعت توڑے گا وہ باغی تصور کیا جائے گا- اور قیامت کے دن بھی وہ اس کے ہاتھ میں بغاوت کا جھنڈا ہو گا-

لہذا آپ کہ کہنا کہ "باقی رہے یزید پر الزامات کی بات تو وہ سو فی صد صحیح تھے یزید کا شراب پینا نمازیں چھوڑنا صحیح احادیث اورروایات سے ثابت ہے-تو اگر اپ کا یہ کہنا کہ سب شر پسند ہی تھے تو اس کی دلیل پیش فرما دیں اپ کی اپنی ہوائی باتیں علمی میدان میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی ہیں"-

تو صحیح بخاری کی ابن عمر والی روایت ہی اس کی دلیل ہے کہ یزید پر ان گناہوں کا صرف الزام تھا - جو ثابت ہی نہیں- ورنہ ابن عمر رضی الله عنھما سمیت دیگر اصحاب کرام جو بڑی تعداد میں تھے ہرگز امیر یزید بن معاویہ رحم الله کی بیعت نہ کرتے- بلکہ ان کے خلاف تلوار سے جنگ کرتے یا کم از کم اس سے پہلے یزید بن معاویہ کو نصیحت کرتے- جو کسی روایت سے ثابت نہیں ہے-کیا ابن عمر رضی الله عنہ کا اہل مدینہ سے خطاب ہوائی بات ہے ؟؟-

الله سب کو ہدایت دے (آمین)-[/ARB]
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
آپ کا کہنا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کے بھنوئی اس تحریک میں شامل تھے -

بہتر ہوتا کہ آپ ان کا نام بھی لے لیتے - ابن عمر رضی الله عنہ کا بہنوئی کسانیہ فرقے کا بانی "مختار بن ابی عبید ثقفی تھا" - [/ARB]
یہاں مجھ سے غلطی ہوئی ہے -

مختار ثقفی- عبدللہ بن عمر رضی الله عنہ کا سالا تھا بہنوئی نہیں تھا -مختار کی بہن یعنی صفیہ بنت ابو عبید، عبد اللہ ابن عمر کی زوجہ تھی۔
 
شمولیت
دسمبر 10، 2013
پیغامات
386
ری ایکشن اسکور
137
پوائنٹ
91
اور رہی بات یزید کی تو ان کی بیعت نہ کرنے والے اور اس سے اختلاف کرنے والے بڑے بڑے صحابی رسول تھے چند نام پیش ہیں
ابن الزبیر
حسین بن علی
ابن عباس
عمرو بن حزم
اسیر
جابر بن عبداللہ
عمرو بن العاص
سعد بن ابی وقاص
رضی اللہ عنھم
عمرو بن العاص رضہ ، اور سعد بن ابی وقاص رضہ یزید کی ولی عہدی سے بھی پہلے وفات پاچکے تھے تو بیعت کا سوال کیا۔۔
ابن عباس رضہ و ابن عمر رضہ ، انس بن مالک رضہ ، ابو سعید الخدری رضہ ، ابو واقد اللیثی رضہ ، جابر بن عبداللہ رضہ ، ابی السلمہ الاکوع رضہ ، نعمان بن بشیر رضہ ،عبداللہ بن جعفر رضہ یہ وہ نام ہیں جن کی بیعت یزید کتب تواریخ میں ثابت ہے ۔ اس لئے تھوڑہ سا تاریخ کا مطالعہ بھی کرلیں۔۔۔
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
71
سیدنا علی رضی اللہ عنہ ان جنگوں میں حق پر تھے اہلِ سنت کا یہی موقف ہے، لیکن معاملات بڑے مشتبہ تھے یہاں تک کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت اس پر حیران و پریشان تھی جس کی بنا پر وہ فریقین سے علیحدہ رہی اور قتال میں انہوں نے حصہ نہیں لیا، اگر انہیں صحیح بات کا یقین ہو جاتا تو وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی معاونت سے پیچھے نہ رہتے
محترم۔
اپ نے عجیب و غریب منطق پیش کی ہے کہ ایک دوسرے کے مدمقابل دونوں ہی صحیح اور حق پر ہوں یہ کیسے ممکن ہے دوفریق جب آمنے سامنے ہوں تو ایک صحیح اور ایک غلط ہی ہوتا ہے دونوں صحیح کیسے ہو سکتے ہیں اپ نے جو حدیث پیش کی ہے اس میں اقرب الحق دونوں اس لئے تھے کہ وہ ایک تیسرے گروہ"خوارج" سےلڑ رہے تھے تو ان میں حق سے ایک قریب اور دوسرا بہت قریب تھا جبکہ معاویہ اور علی رضی اللہ عنہ جو آپس میں مد مقابل تھے ان میں علی رضی اللہ عنہ حق پر تھے اور معاویہ رضی اللہ عنہ کا گروہ باغی تھا اور اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے لے کر آئمہ و محدثین اور امت کے اکابرین کا اجماع ہے اور امام نووی جن کی اپ نے دلیل پیش کی ہے وہ بھی یہی فرما رہے ہیں کہ اہل سنت کا یہی موقف ہے کہ علی رضی اللہ عنہ اپنی جنگوں میں حق پر تھے اپ کے لئے چن اقوال پیش خدمت ہیں۔
عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ:
زِيَادِ بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ: كُنْتُ إِلَى جَنْبِ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ بِصِفِّينَ , وَرُكْبَتِي تَمَسُّ رُكْبَتَهُ , فَقَالَ رَجُلٌ: كَفَرَ أَهْلُ الشَّامِ , فَقَالَ عَمَّارٌ: لَا تَقُولُوا ذَلِكَ نَبِيُّنَا وَنَبِيُّهُمْ وَاحِدٌ , وَقِبْلَتُنَا وَقِبْلَتُهُمْ وَاحِدَةٌ ; وَلَكِنَّهُمْ قَوْمٌ مَفْتُونُونَ جَارُوا عَنِ الْحَقِّ , فَحَقَّ عَلَيْنَا أَنْ نُقَاتِلَهُمْ حَتَّى يَرْجِعُوا إِلَيْه(مصنف ابن ابی شیبہ رقم 37841)
ترجمہ زیاد بن حارث جو عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کی قریب گئے اور کہا کہ اہل شام نے کفر کیا ہےانہوں نے فرمایا یہ نہ کہو ان کا اور ہمارا قبلہ ایک ہے لیکن یہ لوگ حق سے ہٹ گئے ہیں اور ہم حق پر ہیں اور اس لئے ان سے لڑ رہے ہیں کہ یہ اس(حق) کی طرف آجائیں۔
حدیث کا مسلمہ اصول ہے کہ روای اپنی روایت کامفہوم دوسروں سےبہتر سمجھتا ہےاور عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ خود فرما رہے ہے کہ ان کے مخالف گروہ باغی ہے تو آج اپ کے قول کی کیا حیثیت کہ دونوں کو حق پر فرما رہے ہیں

حسن بصری رحمہ اللہ:
قد فسر الحسن البصري الفئة الباغية بأهل الشام: معاوية وأصحابه.(فتح الباری ابن رجب الحنبلی باب التعاون علی المسجد جلد 3 ص 311)

حافظ ابن حجر:
هَذَا الْحَدِيثِ عَلَمٌ مِنْ أَعْلَامِ النُّبُوَّةِ وَفَضِيلَةٌ ظَاهِرَةٌ لِعَلِيٍّ وَلِعَمَّارٍ وَرَدٌّ عَلَى النَّوَاصِبِ الزَّاعِمِينَ أَنَّ عَلِيًّا لَمْ يَكُنْ مُصِيبًا فِي حُرُوبِهِ(فتح الباری تحت رقم 447)

علی رضی اللہ عنھما کی فضیلت ثابت ہوتی ہے اور ان میں ناصبیوں کا رد ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ اپنی جنگوں میں حق پر نہیں تھے۔
ابن حجر رحمہ اللہ نے واضح لکھا کہ علی رضی اللہ عنہ اپنی تمام جنگوں میں حق پر تھے اب اس بات پر بھی اقوال دیکھتے ہیں جو معاویہ رضی اللہ عنہ کے باغی گروہ ہونے پر دلالت کرتے ہیں


ابن کثیر:
أَخْبَرَ بِهِ الرَّسُولُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَنَّهُ تَقْتُلُهُ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ وَبَانَ بِذَلِكَ أَنَّ عَلِيًّا مُحِقٌّ وَأَنَّ مُعَاوِيَةَ بَاغٍ(البدایہ والنھایہ جلد 7 ص266 باب مقتل عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ)
ترجمہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی کہ (عماررضی اللہ عنہ) کو باغی گروہ قتل کرے گا اس سے یہ ثابت ہے کہ علی رضی اللہ عنہ حق پر تھے اور معاویہ رضی اللہ عنہ باغی تھے۔

امام شوکانی:قَوْلُهُ: (أَوْلَاهُمَا بِالْحَقِّ) فِيهِ دَلِيلٌ عَلَى أَنَّ عَلِيًّا وَمَنْ مَعَهُ هُمْ الْمُحِقُّونَ، وَمُعَاوِيَةَ وَمَنْ مَعَهُمْ هُمْ الْمُبْطِلُونَ، وَهَذَا أَمْرٌ لَا يَمْتَرِي فِيهِ مُنْصِفٌ وَلَا يَأْبَاهُ إلَّا مُكَابِرٌ مُتَعَسِّفٌ، وَكَفَى دَلِيلًا عَلَى ذَلِكَ الْحَدِيثُ. وَحَدِيثُ " يَقْتُلُ عَمَّارًا الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ " وَهُوَ فِي الصَّحِيحِ(نیل الاوطار جلد 7 ص 59)
ترجمہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان(اولاھما بالحق) اس میں دلیل ہے کہ علی رضی اللہ عنہ اور جو ان کے ساتھ تھے وہ حق پر تھے اور معاویہ رضی اللہ عنہ باطل پر تھے اور اس میں کسی بھی انصاف کرنے والے کے لئے کوئی شک نہیں ہے اور اس سے صرف ضدی اور ہٹ دھرم ہی انکار کرے گا۔

محمد بن اسماعیل الصنعانی:
وَالْحَدِيثُ دَلِيلٌ عَلَى أَنَّ الْفِئَةَ الْبَاغِيَةَ مُعَاوِيَةُ وَمَنْ فِي حِزْبِهِ وَالْفِئَةَ الْمُحِقَّةَ عَلِيٌّ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - وَمَنْ فِي صُحْبَتِهِ وَقَدْ نَقَلَ الْإِجْمَاعَ مِنْ أَهْلِ السُّنَّةِ بِهَذَا الْقَوْلِ جَمَاعَةٌ مِنْ أَئِمَّتِهِمْ كَالْعَامِرِيِّ وَغَيْرِهِ وَأَوْضَحْنَاهُ فِي الرَّوْضَةِ النَّدِيَّةِ.(سبل السلام جلد 2 ص376 تحت رقم 1119 باب قتال البغاہ)
ترجمہ: یہ حدیث دلیل ہے کہ باغی گروہ معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کی گروہ کا ہے اور حق کی جماعت علی اور ان کے ساتھی تھے اور اس قول پر اہل سنت نے اجماع نقل کیا آئمہ میں سے عامری وغیرہ اور اس کو تفصیل سے میں نے الروضہ الندیہ میں نقل کیا ہے۔

[FONT=Tahoma, sans-serif]یہ وہ چند حوالے ہیں جن میں آئمہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے گروہ کوواضح باغی لکھا ہے اور اس پر اجماع ہے تو ابھی بہت سے اقوال باقی ہیں اور یہ کوئی رافضیوں کے آئمہ نہیں ہے یہ اہلسنت کے وہ اکابرین ہیں

تو صحیح بخاری کی ابن عمر والی روایت ہی اس کی دلیل ہے کہ یزید پر ان گناہوں کا صرف الزام تھا - جو ثابت ہی نہیں- ورنہ ابن عمر رضی الله عنھما سمیت دیگر اصحاب کرام جو بڑی تعداد میں تھے ہرگز امیر یزید بن معاویہ رحم الله کی بیعت نہ کرتے- بلکہ ان کے خلاف تلوار سے جنگ کرتے یا کم از کم اس سے پہلے یزید بن معاویہ کو نصیحت کرتے- جو کسی روایت سے ثابت نہیں ہے-کیا ابن عمر رضی الله عنہ کا اہل مدینہ سے خطاب ہوائی بات ہے ؟؟-
ابن عمر رضی اللہ عنہ صرف یزید کی بیعت توڑنے کو برا جانتے تھے کیونکہ وہ بیعت کو ایک عھد مانتے تھے اس لئَے کسی کی بھی بیعت توڑنے کو عھد شکنی سے تعبیر کرتے تھے انہوں نے نہ یزید کو کبھی نیک سمجھا اور نہ کبھی کہا ہے اگر ایسی کوئی بات ہے تو اپ پیش فرما دیں کہ انہوں نے یزید کو نیک کہا ہو بلکہ انہوں نے تو یزید کی شر سے پناہ طلب کی تھی اور اس کی بیعت کرنے پر راضی بھی نہیں تھے اس حوالے سے میں کافی لکھ چکا ہوں اس لئے اس کی حاجت نہیں ہاں یزید کے حق میں اگر کوئی تعریفی کلمات ابن عمررضی اللہ عنہ نے کہے ہیں تو اپ پیش فرما دیں سوائے اس کی بیعت توڑنے کواور کوئی بات انہوں نے کی ہی نہیں ہے اس لئے اپ کا اس بات کی یہ دلیل بنانا کہ یزید شراب نہیں پیتا تھا اور نماز کا تارک نہیں تھا کوئی معنی نہیں رکھتی ہے کیونکہ ایک صحابی رسول معقل بن سنان رضی اللہ عنہ اس کو شرابی مانتے تھے اور اس کی شراب پینے کی بنیاد پر اس کی بیعت توڑ دی تھی دلیل پیش ہے
قَالَ الْمَدَائِنِيُّ، عَنْ عَوَانَةَ، وَأَبِي زَكَرِيَّا الْعَجْلانِيِّ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ خَالِدٍ: إِنَّ مُسْلِمًا لَمَّا دَعَا أَهْلَ الْمَدِينَةِ إِلَى الْبَيْعَةِ، يَعْنِي بَعْدَ وَقْعَةِ الْحَرَّةِ، قَالَ: لَيْتَ شِعْرِي مَا فَعَلَ مَعْقِلُ بْنُ سِنَانٍ، وَكَانَ لَهُ مُصَافِيًا، فَخَرَجَ نَاسٌ مِنْ أَشْجَعَ، فَأَصَابُوهُ فِي قَصْرِ الْعَرَصَةِ، وَيُقَالُ: فِي جَبَلِ أُحُدٍ، فَقَالُوا لَهُ: الأَمِيرُ يُسْأَلُ عَنْكَ فَارْجِعْ إِلَيْهِ، قَالَ: أَنَا أَعْلَمُ بِهِ مِنْكُمْ، إِنَّهُ قَاتِلِي، قَالُوا: كَلا، فَأَقْبَلَ مَعَهُمْ، فَقَالَ لَهُ: مَرْحبًا بِأَبِي مُحَمَّدٍ، أَظُنُّكَ ظَمْآنَ [1] ، وَأَظُنُّ هَؤُلاءِ أَتْعَبُوكَ، قَالَ: أَجَلْ، قَالَ: شَوِّبُوا لَهُ عَسَلا بِثَلْجٍ، فَفَعَلُوا وَسَقَوْهُ، فَقَالَ: سَقَاكَ اللَّهُ أَيُّهَا الأَمِيرُ مِنْ شَرَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، قَالَ: لا جَرَمَ وَاللَّهِ لا تَشْرَبُ بَعْدَهَا حَتَّى تَشْرَبَ مِنْ حَمِيمِ جَهَنَّمَ، قَالَ: أَنْشُدُكَ اللَّهَ وَالرَّحِمَ، قَالَ: أَلَسْتَ قُلْتَ لِي بِطَبَرِيَّةَ وَأَنْتَ مُنْصَرِفٌ مِنْ عِنْدِ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ وَقَدْ أَحْسَنَ جَائِزَتَكَ: سِرْنَا شَهْرًا وَخَسِرْنَا ظَهْرًا، نَرْجِعُ إِلَى الْمَدِينَةِ فَنَخْلَعُ الْفَاسِقَ يَشْرَبُ الْخَمْرَ، عَاهَدْتُ اللَّهَ تِلْكَ اللَّيْلَةَ لا أَلْقَاكَ فِي حَرْبٍ أَقْدِرُ عَلَيْكَ إِلا قَتَلْتُكَ، وَأَمَرَ بِهِ فَقُتِلَ
اور اخری بات یزید کے دور میں صحابہ کرارم رضی اللہ عنہم کی بہت کم تعداد موجود تھی اور ان میں سے بھی اکثر اپنے گھروں میں بند ہو گئے تھے اس کی دلیل میں امام ذہبی اور ابن کثیر کے حوالے سے کئی بار لکھ چکا ہو یہ صرف ناصبیوں کی پھیلائی ہو منگھرٹ کہانی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ بڑی تعدادمیں موجود تھے
[/FONT]
اور رہی بات نصیحت کرنے کی تو بھائی انکھیں کھول کر کتب احادیث پڑھ لیں کہ جن جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے نصیحت کرنے کی کوشش کی ان کی کس طرح تذلیل کی جاتی تھی چند صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے نام اور ان کو جن برے الفاظ سے یزیدکے گورنر "نعوذ باللہ "تذلیل کرتے تھے وہ حوالے پیش کر رہا ہوں

ghustakhi.png


[FONT=Tahoma, sans-serif][/FONT]
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
71
عمرو بن العاص رضہ ، اور سعد بن ابی وقاص رضہ یزید کی ولی عہدی سے بھی پہلے وفات پاچکے تھے تو بیعت کا سوال کیا۔۔
ابن عباس رضہ و ابن عمر رضہ ، انس بن مالک رضہ ، ابو سعید الخدری رضہ ، ابو واقد اللیثی رضہ ، جابر بن عبداللہ رضہ ، ابی السلمہ الاکوع رضہ ، نعمان بن بشیر رضہ ،عبداللہ بن جعفر رضہ یہ وہ نام ہیں جن کی بیعت یزید کتب تواریخ میں ثابت ہے ۔ اس لئے تھوڑہ سا تاریخ کا مطالعہ بھی کرلیں۔۔۔
محترم،
عمرو بن العاص غلطی سے لکھا تھا ان کے بیٹے عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ تھے
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بیعت کرنا کسی صحیح سند سے ثابت نہیں ہے ابن عمر رضی اللہ عنہ نے تو جبرا بیعت کی تھی جابر بن عبدااللہ نے اگرچہ بیعت کی ہوگی مگر انہوں نے یزید کے اس لشکر کے امیر پر یہ حدیث فٹ کی تھی کہ جس میں اہل مدینہ کو ڈرانے کی وعید ہے اس لئے اگرچہ جن کے نام اپ نے لئے ہیں ان کی بیعت اگرچہ ثابت ہو تو بھی کسی نے یزید کا ساتھ نہیں دیا وگرنہ اگر یزید حق پر ہوتا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی دین حمیت ان کو یزید کا ساتھ دینے پر ضرور باضرور کہتی مگر یزید کے لشکر کا کسی صحابی رسول نے ساتھ نہیں دیا یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یزید کی بیعت کوئی راضی خوشی نہیں تھی اور دوسری بات جن صحابہ کرام کا نام اپ نے لیا ہے ان سے صحیح سند سے بیعت کرنا ثابت ہے سند پیش فرما دیں میری معلومات کی حد تک زیادہ تر ضعیف اسناد ہیں۔
 
شمولیت
دسمبر 10، 2013
پیغامات
386
ری ایکشن اسکور
137
پوائنٹ
91
محترم،
عمرو بن العاص غلطی سے لکھا تھا ان کے بیٹے عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ تھے
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بیعت کرنا کسی صحیح سند سے ثابت نہیں ہے ابن عمر رضی اللہ عنہ نے تو جبرا بیعت کی تھی جابر بن عبدااللہ نے اگرچہ بیعت کی ہوگی مگر انہوں نے یزید کے اس لشکر کے امیر پر یہ حدیث فٹ کی تھی کہ جس میں اہل مدینہ کو ڈرانے کی وعید ہے اس لئے اگرچہ جن کے نام اپ نے لئے ہیں ان کی بیعت اگرچہ ثابت ہو تو بھی کسی نے یزید کا ساتھ نہیں دیا وگرنہ اگر یزید حق پر ہوتا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی دین حمیت ان کو یزید کا ساتھ دینے پر ضرور باضرور کہتی مگر یزید کے لشکر کا کسی صحابی رسول نے ساتھ نہیں دیا یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یزید کی بیعت کوئی راضی خوشی نہیں تھی اور دوسری بات جن صحابہ کرام کا نام اپ نے لیا ہے ان سے صحیح سند سے بیعت کرنا ثابت ہے سند پیش فرما دیں میری معلومات کی حد تک زیادہ تر ضعیف اسناد ہیں۔
اگر بات حق نا حق کی نہیں ان صحابہ اکرام نے نہ تو شامیوں کے لڑے نہ ان کے لئے لڑے لیکن اپنی بیعت فسخ نہیں کی۔ دوسری بات یہ کہ مدینہ والوں ڈرانے کی وعید انہوں امیر المومنین عثمان رضہ کے قاتلین کو کیں تھیں۔کیوں کہ انہیں نے واقعی میں مدینہ والوں کے ظلم کیا تھا ۔ کیوں کہ واقعہ حرہ میں مدینہ والے اجتھادی خطا پر تھے اس لئے بہت صحابہ نے ان کو منع کیا کہ بیعت فسخ نہ کریں۔۔
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
71
اگر بات حق نا حق کی نہیں ان صحابہ اکرام نے نہ تو شامیوں کے لڑے نہ ان کے لئے لڑے
کیوں کہ واقعہ حرہ میں مدینہ والے اجتھادی خطا پر تھے
محترم،
آپ کی منطق سمجھ سےباہر ہے ایک طرف تو اپ فرما رہے ہیں یہ حق ناحق کا معاملہ ہی نہیں تھا اور دوسری طرف آپ اہل مدینہ کو اجتھادی غلطی پر مان رہے ہیں جب ایک غلط ہے تو دوسرا صحیح اور حق بجانب ہو گا تو پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یزید کا ساتھ کیوں نہ دیا؟
بات وہی ہے جو میں نقل کر چکا کہ بیعت توڑنے کو وعدہ خلافی سے تعبیر کرتے تھے صرف اسی وجہ سے وہ بیعت نہیں توڑ رہے تھے وگرنہ دل سے جس طرح حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے اسی طرح اہل مدینہ کے بھی ساتھ تھے اور اس کے دلائل میں اوپر کاف دے چکا ہوں
اور رہی اپ کی بات کے اہل مدینہ کو خوف زدہ شر پسند کر رہے تھے تو واقعی وہ شر پسند ہی تھے اور وہ یزید کے بھیجے ہوئے شر پسند تھے کیونکہ واقع حرۃ اسی یزید کا کیا وہ سیاہ کارنامہ ہے اور یہ بھی اپ کی غلط فہمی ہے کہ اہل مدینہ اجتھادی غلطی پر تھے اہل مدینہ کے حق پر ہونے پر آئمہ محدثین کا اجماع ہے آپ کے لئے پیش ہے

قِسْمٌ خَرَجُوا غَضَبًا لِلدِّينِ مِنْ أَجْلِ جَوْرِ الْوُلَاةِ وَتَرْكِ عَمَلِهِمْ بِالسُّنَّةِ النَّبَوِيَّةِ فَهَؤُلَاءِ أَهْلُ حَقٍّ وَمِنْهُمُ الْحَسیَنُ بْنُ عَلِيٍّ وَأَهْلُ الْمَدِينَةِ فِي الْحَرَّةِ وَالْقُرَّاءُ الَّذِينَ خَرَجُوا عَلَى الْحَجَّاجِ(ُفتح الباری تحت رقم 6929)
ایک قسم ان حضرات کی ہے جوحکام کے ظلم و ستم اور سنت نبوی پر انکے عمل نہ کرنے کی بنا پر دینی غیرت و حمیت میں نکلے یہ سب اہل حق ہیں ان میں حسین بن علی رضی اللہ عنھما اور اہل مدینہ جنہوں نے مقام حرہ میں جہاد کیا اور وہ تمام علماء جو حجاج کے خلاف نکلے سب کا شمار ان ہی اہل حق میں ہے۔
 
شمولیت
دسمبر 10، 2013
پیغامات
386
ری ایکشن اسکور
137
پوائنٹ
91
قِسْمٌ خَرَجُوا غَضَبًا لِلدِّينِ مِنْ أَجْلِ جَوْرِ الْوُلَاةِ وَتَرْكِ عَمَلِهِمْ بِالسُّنَّةِ النَّبَوِيَّةِ فَهَؤُلَاءِ أَهْلُ حَقٍّ وَمِنْهُمُ الْحَسیَنُ بْنُ عَلِيٍّ وَأَهْلُ الْمَدِينَةِ فِي الْحَرَّةِ وَالْقُرَّاءُ الَّذِينَ خَرَجُوا عَلَى الْحَجَّاجِ(ُفتح الباری تحت رقم 6929)
ایک قسم ان حضرات کی ہے جوحکام کے ظلم و ستم اور سنت نبوی پر انکے عمل نہ کرنے کی بنا پر دینی غیرت و حمیت میں نکلے یہ سب اہل حق ہیں ان میں حسین بن علی رضی اللہ عنھما اور اہل مدینہ جنہوں نے مقام حرہ میں جہاد کیا اور وہ تمام علماء جو حجاج کے خلاف نکلے سب کا شمار ان ہی اہل حق میں ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا قول صحیح ہوگا لیکن میرے بھائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کئی احادیث انہیں فسخ بیعت سے منع کرتی ہین اور ایک تو سیدنا ابن عمر رضہ نے انہیں سنا بھی دی تھی اور صحابہ کا بیعت فسخ نہ کرنا اور نعمان بن بشیر رضہ کا مدینہ تشریف لانا اور انہین سمجھانا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ خطا اجتہادی پر تھے لیکن وہ خؤد کو حق پر سمجھتے تھے یہی سوچ کر انہوں نے جنگ کی اور ایک اجر پایا ، حافظ محترم کا بھی یہی مطلب ہے ، اور رہی بات حسین رضہ کی تو وہ یزید کی امارت درست ہونے تک شہید ہوچکے تھے کیوںکہ ان کی خروج کے وقت اہل کوفہ نے بیعت نہیں کی تھی۔
آپ ان صحابہ کے نام بتادیں جنہوں فسخ بیعت کی تھی ؟؟؟
کیا یزید کی بیعت کرنے کے بعد انہیں بیعت فسخ کرنا چہائے تھا ؟؟
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
محترم۔
اپ نے عجیب و غریب منطق پیش کی ہے کہ ایک دوسرے کے مدمقابل دونوں ہی صحیح اور حق پر ہوں یہ کیسے ممکن ہے دوفریق جب آمنے سامنے ہوں تو ایک صحیح اور ایک غلط ہی ہوتا ہے دونوں صحیح کیسے ہو سکتے ہیں اپ نے جو حدیث پیش کی ہے اس میں اقرب الحق دونوں اس لئے تھے کہ وہ ایک تیسرے گروہ"خوارج" سےلڑ رہے تھے تو ان میں حق سے ایک قریب اور دوسرا بہت قریب تھا جبکہ معاویہ اور علی رضی اللہ عنہ جو آپس میں مد مقابل تھے ان میں علی رضی اللہ عنہ حق پر تھے اور معاویہ رضی اللہ عنہ کا گروہ باغی تھا اور اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے لے کر آئمہ و محدثین اور امت کے اکابرین کا اجماع ہے اور امام نووی جن کی اپ نے دلیل پیش کی ہے وہ بھی یہی فرما رہے ہیں کہ اہل سنت کا یہی موقف ہے کہ علی رضی اللہ عنہ اپنی جنگوں میں حق پر تھے اپ کے لئے چن اقوال پیش خدمت ہیں۔
عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ:
زِيَادِ بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ: كُنْتُ إِلَى جَنْبِ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ بِصِفِّينَ , وَرُكْبَتِي تَمَسُّ رُكْبَتَهُ , فَقَالَ رَجُلٌ: كَفَرَ أَهْلُ الشَّامِ , فَقَالَ عَمَّارٌ: لَا تَقُولُوا ذَلِكَ نَبِيُّنَا وَنَبِيُّهُمْ وَاحِدٌ , وَقِبْلَتُنَا وَقِبْلَتُهُمْ وَاحِدَةٌ ; وَلَكِنَّهُمْ قَوْمٌ مَفْتُونُونَ جَارُوا عَنِ الْحَقِّ , فَحَقَّ عَلَيْنَا أَنْ نُقَاتِلَهُمْ حَتَّى يَرْجِعُوا إِلَيْه(مصنف ابن ابی شیبہ رقم 37841)
ترجمہ زیاد بن حارث جو عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کی قریب گئے اور کہا کہ اہل شام نے کفر کیا ہےانہوں نے فرمایا یہ نہ کہو ان کا اور ہمارا قبلہ ایک ہے لیکن یہ لوگ حق سے ہٹ گئے ہیں اور ہم حق پر ہیں اور اس لئے ان سے لڑ رہے ہیں کہ یہ اس(حق) کی طرف آجائیں۔
حدیث کا مسلمہ اصول ہے کہ روای اپنی روایت کامفہوم دوسروں سےبہتر سمجھتا ہےاور عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ خود فرما رہے ہے کہ ان کے مخالف گروہ باغی ہے تو آج اپ کے قول کی کیا حیثیت کہ دونوں کو حق پر فرما رہے ہیں

حسن بصری رحمہ اللہ:
قد فسر الحسن البصري الفئة الباغية بأهل الشام: معاوية وأصحابه.(فتح الباری ابن رجب الحنبلی باب التعاون علی المسجد جلد 3 ص 311)

حافظ ابن حجر:
هَذَا الْحَدِيثِ عَلَمٌ مِنْ أَعْلَامِ النُّبُوَّةِ وَفَضِيلَةٌ ظَاهِرَةٌ لِعَلِيٍّ وَلِعَمَّارٍ وَرَدٌّ عَلَى النَّوَاصِبِ الزَّاعِمِينَ أَنَّ عَلِيًّا لَمْ يَكُنْ مُصِيبًا فِي حُرُوبِهِ(فتح الباری تحت رقم 447)

علی رضی اللہ عنھما کی فضیلت ثابت ہوتی ہے اور ان میں ناصبیوں کا رد ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ اپنی جنگوں میں حق پر نہیں تھے۔
ابن حجر رحمہ اللہ نے واضح لکھا کہ علی رضی اللہ عنہ اپنی تمام جنگوں میں حق پر تھے اب اس بات پر بھی اقوال دیکھتے ہیں جو معاویہ رضی اللہ عنہ کے باغی گروہ ہونے پر دلالت کرتے ہیں


ابن کثیر:
أَخْبَرَ بِهِ الرَّسُولُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَنَّهُ تَقْتُلُهُ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ وَبَانَ بِذَلِكَ أَنَّ عَلِيًّا مُحِقٌّ وَأَنَّ مُعَاوِيَةَ بَاغٍ(البدایہ والنھایہ جلد 7 ص266 باب مقتل عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ)
ترجمہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی کہ (عماررضی اللہ عنہ) کو باغی گروہ قتل کرے گا اس سے یہ ثابت ہے کہ علی رضی اللہ عنہ حق پر تھے اور معاویہ رضی اللہ عنہ باغی تھے۔

امام شوکانی:قَوْلُهُ: (أَوْلَاهُمَا بِالْحَقِّ) فِيهِ دَلِيلٌ عَلَى أَنَّ عَلِيًّا وَمَنْ مَعَهُ هُمْ الْمُحِقُّونَ، وَمُعَاوِيَةَ وَمَنْ مَعَهُمْ هُمْ الْمُبْطِلُونَ، وَهَذَا أَمْرٌ لَا يَمْتَرِي فِيهِ مُنْصِفٌ وَلَا يَأْبَاهُ إلَّا مُكَابِرٌ مُتَعَسِّفٌ، وَكَفَى دَلِيلًا عَلَى ذَلِكَ الْحَدِيثُ. وَحَدِيثُ " يَقْتُلُ عَمَّارًا الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ " وَهُوَ فِي الصَّحِيحِ(نیل الاوطار جلد 7 ص 59)
ترجمہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان(اولاھما بالحق) اس میں دلیل ہے کہ علی رضی اللہ عنہ اور جو ان کے ساتھ تھے وہ حق پر تھے اور معاویہ رضی اللہ عنہ باطل پر تھے اور اس میں کسی بھی انصاف کرنے والے کے لئے کوئی شک نہیں ہے اور اس سے صرف ضدی اور ہٹ دھرم ہی انکار کرے گا۔

محمد بن اسماعیل الصنعانی:
وَالْحَدِيثُ دَلِيلٌ عَلَى أَنَّ الْفِئَةَ الْبَاغِيَةَ مُعَاوِيَةُ وَمَنْ فِي حِزْبِهِ وَالْفِئَةَ الْمُحِقَّةَ عَلِيٌّ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - وَمَنْ فِي صُحْبَتِهِ وَقَدْ نَقَلَ الْإِجْمَاعَ مِنْ أَهْلِ السُّنَّةِ بِهَذَا الْقَوْلِ جَمَاعَةٌ مِنْ أَئِمَّتِهِمْ كَالْعَامِرِيِّ وَغَيْرِهِ وَأَوْضَحْنَاهُ فِي الرَّوْضَةِ النَّدِيَّةِ.(سبل السلام جلد 2 ص376 تحت رقم 1119 باب قتال البغاہ)
ترجمہ: یہ حدیث دلیل ہے کہ باغی گروہ معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کی گروہ کا ہے اور حق کی جماعت علی اور ان کے ساتھی تھے اور اس قول پر اہل سنت نے اجماع نقل کیا آئمہ میں سے عامری وغیرہ اور اس کو تفصیل سے میں نے الروضہ الندیہ میں نقل کیا ہے۔

[FONT=Tahoma, sans-serif]یہ وہ چند حوالے ہیں جن میں آئمہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے گروہ کوواضح باغی لکھا ہے اور اس پر اجماع ہے تو ابھی بہت سے اقوال باقی ہیں اور یہ کوئی رافضیوں کے آئمہ نہیں ہے یہ اہلسنت کے وہ اکابرین ہیں



ابن عمر رضی اللہ عنہ صرف یزید کی بیعت توڑنے کو برا جانتے تھے کیونکہ وہ بیعت کو ایک عھد مانتے تھے اس لئَے کسی کی بھی بیعت توڑنے کو عھد شکنی سے تعبیر کرتے تھے انہوں نے نہ یزید کو کبھی نیک سمجھا اور نہ کبھی کہا ہے اگر ایسی کوئی بات ہے تو اپ پیش فرما دیں کہ انہوں نے یزید کو نیک کہا ہو بلکہ انہوں نے تو یزید کی شر سے پناہ طلب کی تھی اور اس کی بیعت کرنے پر راضی بھی نہیں تھے اس حوالے سے میں کافی لکھ چکا ہوں اس لئے اس کی حاجت نہیں ہاں یزید کے حق میں اگر کوئی تعریفی کلمات ابن عمررضی اللہ عنہ نے کہے ہیں تو اپ پیش فرما دیں سوائے اس کی بیعت توڑنے کواور کوئی بات انہوں نے کی ہی نہیں ہے اس لئے اپ کا اس بات کی یہ دلیل بنانا کہ یزید شراب نہیں پیتا تھا اور نماز کا تارک نہیں تھا کوئی معنی نہیں رکھتی ہے کیونکہ ایک صحابی رسول معقل بن سنان رضی اللہ عنہ اس کو شرابی مانتے تھے اور اس کی شراب پینے کی بنیاد پر اس کی بیعت توڑ دی تھی دلیل پیش ہے
قَالَ الْمَدَائِنِيُّ، عَنْ عَوَانَةَ، وَأَبِي زَكَرِيَّا الْعَجْلانِيِّ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ خَالِدٍ: إِنَّ مُسْلِمًا لَمَّا دَعَا أَهْلَ الْمَدِينَةِ إِلَى الْبَيْعَةِ، يَعْنِي بَعْدَ وَقْعَةِ الْحَرَّةِ، قَالَ: لَيْتَ شِعْرِي مَا فَعَلَ مَعْقِلُ بْنُ سِنَانٍ، وَكَانَ لَهُ مُصَافِيًا، فَخَرَجَ نَاسٌ مِنْ أَشْجَعَ، فَأَصَابُوهُ فِي قَصْرِ الْعَرَصَةِ، وَيُقَالُ: فِي جَبَلِ أُحُدٍ، فَقَالُوا لَهُ: الأَمِيرُ يُسْأَلُ عَنْكَ فَارْجِعْ إِلَيْهِ، قَالَ: أَنَا أَعْلَمُ بِهِ مِنْكُمْ، إِنَّهُ قَاتِلِي، قَالُوا: كَلا، فَأَقْبَلَ مَعَهُمْ، فَقَالَ لَهُ: مَرْحبًا بِأَبِي مُحَمَّدٍ، أَظُنُّكَ ظَمْآنَ [1] ، وَأَظُنُّ هَؤُلاءِ أَتْعَبُوكَ، قَالَ: أَجَلْ، قَالَ: شَوِّبُوا لَهُ عَسَلا بِثَلْجٍ، فَفَعَلُوا وَسَقَوْهُ، فَقَالَ: سَقَاكَ اللَّهُ أَيُّهَا الأَمِيرُ مِنْ شَرَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، قَالَ: لا جَرَمَ وَاللَّهِ لا تَشْرَبُ بَعْدَهَا حَتَّى تَشْرَبَ مِنْ حَمِيمِ جَهَنَّمَ، قَالَ: أَنْشُدُكَ اللَّهَ وَالرَّحِمَ، قَالَ: أَلَسْتَ قُلْتَ لِي بِطَبَرِيَّةَ وَأَنْتَ مُنْصَرِفٌ مِنْ عِنْدِ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ وَقَدْ أَحْسَنَ جَائِزَتَكَ: سِرْنَا شَهْرًا وَخَسِرْنَا ظَهْرًا، نَرْجِعُ إِلَى الْمَدِينَةِ فَنَخْلَعُ الْفَاسِقَ يَشْرَبُ الْخَمْرَ، عَاهَدْتُ اللَّهَ تِلْكَ اللَّيْلَةَ لا أَلْقَاكَ فِي حَرْبٍ أَقْدِرُ عَلَيْكَ إِلا قَتَلْتُكَ، وَأَمَرَ بِهِ فَقُتِلَ
اور اخری بات یزید کے دور میں صحابہ کرارم رضی اللہ عنہم کی بہت کم تعداد موجود تھی اور ان میں سے بھی اکثر اپنے گھروں میں بند ہو گئے تھے اس کی دلیل میں امام ذہبی اور ابن کثیر کے حوالے سے کئی بار لکھ چکا ہو یہ صرف ناصبیوں کی پھیلائی ہو منگھرٹ کہانی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ بڑی تعدادمیں موجود تھے
[/FONT]
اور رہی بات نصیحت کرنے کی تو بھائی انکھیں کھول کر کتب احادیث پڑھ لیں کہ جن جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے نصیحت کرنے کی کوشش کی ان کی کس طرح تذلیل کی جاتی تھی چند صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے نام اور ان کو جن برے الفاظ سے یزیدکے گورنر "نعوذ باللہ "تذلیل کرتے تھے وہ حوالے پیش کر رہا ہوں

21171 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں

[FONT=Tahoma, sans-serif][/FONT]
ایک حدیث مبارکہ میں حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ ان سے مسور بن مخرمہ اور عبدالرحمن القاری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ انہوں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما کو فرماتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک زندگی کے اندر میں نے ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہما کو سورۂ الفرقان پڑھتے ہوئے سنا۔ وہ کسی اور قرأت میں پڑھ رہے تھے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے میں نے اس قرأت میں نہیں پڑھی تھی۔ قریب تھا کہ میں نماز ہی کے دوران میں ان پر ٹوٹ پڑتا لیکن سلام پھیرنے تک میں نے صبر سے کام لیا اور پھر میں نے اپنی چادر ان کے گلے میں ڈال کر کہا: تمہیں اس طرح یہ سورت کس نے پڑھائی جس طرح میں نے تمہاری زبانی سنی ہے؟ انہوں نے کہا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پڑھائی ہے۔ میں نے کہا: تم نے جھوٹ بولا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے تو اور طرح پڑھائی ہے، پھر میں انہیں کھینچ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں لے گیا اور میں عرض گزار ہوا کہ جس طرح آپ نے سورۂ الفرقان مجھے سکھائی میں نے انہیں اس سے مختلف طریقے پر پڑھتے ہوئے سنا ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں چھوڑ دو اور اے ہشام! تم پڑھو۔ پھر انہوں نے سورۂ الفرقان اسی طرح پڑھی جس طرح میں نے ان کی زبانی سنی تھی۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اسی طرح نازل ہوئی ہے پھر فرمایا: اے عمر! تم پڑھو، تو میں نے اسی طرح پڑھی جس طرح آپ نے مجھے پڑھائی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اسی طرح نازل ہوئی ہے۔ اور فرمایا: إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ أُنْزِلَ عَلَی سَبْعَةِ أَحْرُفٍ فَاقْرَءُ وا مَا تَيَسَّرَ مِنْهُ.

لہذا آپ کا یہ اصول کہ : دو فریق جب آمنے سامنے ہوں تو ایک صحیح اور ایک غلط ہی ہوتا ہے - بذات خود ایک غلط نظریہ ہے- بعض اوقات ایک فریق جن حالات و واقعات اور جو اس کو علم ہوتا ہے اس کو سامنے رکھ کر اجتہاد کررہا ہوتا ہے وہ بظاھر صحیح ہوتا ہے- دوسرا فریق اس کے برعکس اپنا نقطہ نظر اور اجتہاد پیش کرتا ہے- لہذا نوعیت کے اعتبار سے اکثر اوقات دونوں کا اجتہاد غلط نہیں ہوتا - جیسا اوپر حدیث مبارکہ سے بھی ثابت ہے کہ دونوں اصحاب کرام کے اجتہاد کو نبی کریم نے صحیح قرار دیا -

علی و معاویہ رضی الله عنہ کے معاملے میں بھی ایسا ہی تھا-دونوں اصحاب کا اجتہاد نوعیت کے اعتبار صحیح تھا- اور پھر جیسا کہ امام نووی رحم الله نے بھی فرمایا کہ "اگر بعض اصحاب کرام کو صحیح بات کا یقین ہو جاتا تو وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی معاونت سے پیچھے نہ رہتے۔ لیکن اصحاب کرم میں بہت تھوڑی تعداد میں ایسے تھے جنہوں نے صفین میں علی کا ساتھ دیا -

اہل حدیث عالم یوسف صلاح الدین جنگ صفین کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ : اگر حدیث قتل عمار بن یاسر جنگ صفین میں حق و باطل کا معیار ہوتی تو جنگ سے پہلے ہی حق و باطل واضح ہو جاتا - عمار بن یاسر جس گروہ کے ساتھ ہوتے - وہ اعلی اعلان کہتا کہ "ہم حق پر ہیں کہ عمار ہمارے ساتھ ہیں- جن اصحاب نے صفین میں معاویہ کا ساتھ دیا -وہ بھی جنگ کے بعد معاویہ کا ساتھ چھوڑ دیتے - بلکہ بہت ممکن ہے کہ جنگ کی نوبت ہی نہ آتی- کیوں کہ ہر ایک کو اندیشہ ہوتا کہ جس نے بھی عمار کو شہید کیا وہ باغی تصور ہو گا"-

بہر حال ایک گروہ کو متعلقاً نہ حق پر اور دوسرے گروہ کو
نہ متعلقاً باطل پر کہا جا سکتا ہے

پھر آپ کہتے ہیں کہ " عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ خود فرما رہے ہے کہ ان کے مخالف گروہ باغی ہے تو آج اپ کے قول کی کیا حیثیت کہ دونوں کو حق پر فرما رہے ہیں"

جب کہ آپ کی پیش کردہ مصنف ابن ابی شیبہ روایت میں عمار بن یاسر کہہ رہے ہیں کہ :

عَمَّارٌ: لَا تَقُولُوا ذَلِكَ نَبِيُّنَا وَنَبِيُّهُمْ وَاحِدٌ , وَقِبْلَتُنَا وَقِبْلَتُهُمْ وَاحِدَةٌ ; وَلَكِنَّهُمْ قَوْمٌ مَفْتُونُونَ جَارُوا عَنِ الْحَقِّ ,

اس روایت میں معاویہ کے گروہ کے باغی ہونے کا ذکر تک نہیں ہے- حق پر نہ ہونے سے اگر کوئی گروہ "باغی" تصور ہوتا تو جنگ جمل میں عائشہ رضی اللہ عنھما کا گروہ بھی باغی کہلاتا - وہاں بھی گرچہ حق علی کے ساتھ تھا - لیکن عائشہ رضی الله عنہ کو تو کسی نے باغی نہ کہا - جب کہ معاویہ و عائشہ رضی الله عنہ کا علی سے اختلاف ایک ہی موقف پر تھا کہ قاتلین عثمان سے فوری قصاص لیا جائے- تو ایک گروہ کو اجتہادی خطا پر محمول کیا جائے اور دوسرے کو باغی یہ کیسی منطق ہے؟؟ -

نیز -نبی کریم نے عمار بن یاسر سے متعلق جس روایت میں یہ فرمایا کہ عمار تمہیں باغی گروہ شہید کرے گا - اس میں یہ بھی ہے کہ "ويح عمار تقتله الفئة الباغية يدعوهم إلى الجنة ويدعونه إلى النار" عمار تو ان کو جنّت کی طرف دعوت دے رہا ہوگا اور وہ اس کو آگ (جہنم) کی طرف بلا رہے ہونگے-

کیا معاویہ رضی الله عنھم خود اور آپ کے ساتھی اصحاب سب اس روایت کی رو سے جہنمی نہ ہوے ؟؟

کیا علی کے سگے بھائی عقیل بن ابی طالب جو معاویہ کے کیمپ میں تھے - اس روایت کی رو سے جہنمی نہ ہوے ؟؟

کیا علی کے بیٹے حسن نے ایک باغی و جہنمی "معاویہ" کے ہاتھ پر مصالحت کی بیعت کی اور انھیں احساس تک نہ تھا؟؟

کیا علی کے بیٹے حسن و حسین دونوں معاویہ کے دور خلافت میں ان سے خراج وصول نہ کرتے تھے (مصنف ابی شیبہ) یہ سوچے بغیر کہ وہ ایک "باغی" سے خراج وصول کررہے ہیں؟؟

علی دوران جنگ اپنے اصحاب کو لڑنے سے روک دیتے ہیں - کیا انہوں نے قران سے کفر نہیں کیا؟؟ - قرآن تو کہتا ہے کہ باغیوں سے وقت تک لڑو جب تک فتنہ ختم نہ ہو یا باغی توبہ کرلیں- (سوره المائدہ)-

محترم آپ کے رافضیت زدہ عقائد اور نام نہاد اجماع کے دعوے سے خود اہل بیت کی پاک ہستیوں پر ضرب پڑتی ہے- آج احناف سے تو ہم خائف ہیں کہ وہ اپنے آئمہ کی اندھی تقلید میں ڈوبے ہوے ہیں - لیکن کیا ہمیں رافضیت پسند اہل سنّت کی اندھی تقلید نظر نہیں آتی - جو معاویہ اور ان کے خاندان تو کیا خود اہل بیت کے پاک نفوس پر کیچڑ اچھالنے کا سبب بن رہی ہے ؟؟

الله رب العزت سب کو ہدایت دے (امین)

یزید بن معاویہ سے متعلق پہلے ہی بہت لکھا جا چکا ہے اس پر مزید بحث کا ارادہ نہیں -
 
Last edited:

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
71
لہذا آپ کا یہ اصول کہ : دو فریق جب آمنے سامنے ہوں تو ایک صحیح اور ایک غلط ہی ہوتا ہے - بذات خود ایک غلط نظریہ ہے- بعض اوقات ایک فریق جن حالات و واقعات اور جو اس کو علم ہوتا ہے اس کو سامنے رکھ کر اجتہاد کررہا ہوتا ہے وہ بظاھر صحیح ہوتا ہے- دوسرا فریق اس کے برعکس اپنا نقطہ نظر اور اجتہاد پیش کرتا ہے- لہذا نوعیت کے اعتبار سے اکثر اوقات دونوں کا اجتہاد غلط نہیں ہوتا - جیسا اوپر حدیث مبارکہ سے بھی ثابت ہے کہ دونوں اصحاب کرام کے اجتہاد کو نبی کریم نے صحیح قرار دیا -
محترم،
اپ نے بھی کیا اجتھاد کیا ہے یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآت کے سات طریقہ سکھائے تھے اور دونوں کو اس لئے صحیح کہا کہ دونوں کو جو قرآت سکھائی تھی وہ اس کے مطابق پڑ رہے تھے اس لئےدونوں کو صحیح کہا تھا مگر یہاں ایک کو خود صحیح فرمایا یعنی علی رضی اللہ عنہ کو اور دوسرے کو باغی اس لئے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ آ گیا اور اس پر امت کا اجماع موجود ہے اپ کی یہ بے معنی اور مضحکہ خیز تاویلیں کوئی حیثیت نہیں رکھتی ہیں اس لئے اس کو اپ اپنے پاس ہی رکھی ناصبیوں کی خوش کرنے کے کام آئیں گی اہلسنت کا اجماع اسی بات پر ہے کہ علی رضی اللہ عنہ حق پر تھے اور امام نووی نے جو یہ فرمایا کہ صحابہ کو علم ہو جاتا تو علی رضی اللہ عنہ کا ساتھ دیتے کیوں دیتے اس لئے کہ علی رضی اللہ عنہ حق پر تھے

اہل حدیث عالم یوسف صلاح الدین جنگ صفین کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ : اگر حدیث قتل عمار بن یاسر جنگ صفین میں حق و باطل کا معیار ہوتی تو جنگ سے پہلے ہی حق و باطل واضح ہو جاتا - عمار بن یاسر جس گروہ کے ساتھ ہوتے - وہ اعلی اعلان کہتا کہ "ہم حق پر ہیں کہ عمار ہمارے ساتھ ہیں- جن اصحاب نے صفین میں معاویہ کا ساتھ دیا -وہ بھی جنگ کے بعد معاویہ کا ساتھ چھوڑ دیتے - بلکہ بہت ممکن ہے کہ جنگ کی نوبت ہی نہ آتی- کیوں کہ ہر ایک کو اندیشہ ہوتا کہ جس نے بھی عمار کو شہید کیا وہ باغی تصور ہو گا"-

صلاح الدین یوسف صاحب خود ناصبیت سے متاثر ہیں ان کی تحریر میں کافی پڑھ چکا ہوں اس لئے آج کے کسی عالم وہ بھی ناصبیت سے متاثر کی صحابہ اور امت کے اکابرین اور سلف صالحین کے سامنے کیا حیثیت ہے اور رہی بات ان کے اس قول کی کہ جنگ کا فیصلہ اسی وقت ہو جات تو موصوف کی خدمت میں عرض ہےکہ جنگ کا فیصلہ تو اسی وقت ہو گیا تھا جب عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو شہید کیا گیا تھا اسی وقت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ گھبراہٹ میں یہ حدیث سناتے ہیں کہ عمار کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا مگر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس کو نہیں مانتے اور تاویل کرتے ہیں تو معلوم تو اسی وقت ہو گیا تھا کہ باغی گروہ کونسا ہے اسی لئے معاویہ رضی اللہ عنہ نے بعد میں جنگ بندی کی پیش کش کرکے قرآن پر فیصلہ کرنے کی کوشش کی تھی

اس روایت میں معاویہ کے گروہ کے باغی ہونے کا ذکر تک نہیں ہے- حق پر نہ ہونے سے اگر کوئی گروہ "باغی" تصور ہوتا تو جنگ جمل میں عائشہ رضی اللہ عنھما کا گروہ بھی باغی کہلاتا - وہاں بھی گرچہ حق علی کے ساتھ تھا - لیکن عائشہ رضی الله عنہ کو تو کسی نے باغی نہ کہا - جب کہ معاویہ و عائشہ رضی الله عنہ کا علی سے اختلاف ایک ہی موقف پر تھا کہ قاتلین عثمان سے فوری قصاص لیا جائے- تو ایک گروہ کو اجتہادی خطا پر محمول کیا جائے اور دوسرے کو باغی یہ کیسی منطق ہے؟؟ -

آپ نے روایت شاید غور سے پڑھی نہیں ہے اس میں عمار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم ان سے لڑیں یہاں تو کہ وہ واپس ہماری طرف آ جائیں یعنی دوبارہ حق کی طرف اور حدیث یہی کہتی ہے کو وہ باغی ہو گے جن کو حق کی طرف بلایا جائے گا تو عمار رضی اللہ عنہ حدیث کی ہی وضاحت کی ہے کہ ان کو حق پر لایا جائے گا اور رہی بات اماں عائشہ رضی اللہ عنہ کے گروہ کو باغی کہنے کی بات تو یہ اپ کی اپنی گستاخی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اماں عائشہ رضی اللہ عنہ کو بھی حدیث حواب سنائی تھی مگر اس میں کسی کو باغی نہیں کہا تھا تو جن کو اللہ نے رسول نے باغی کہا اسکو آپ مان نہیں رہے اور تاویل پیش کر رہے ہوں اور جن کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے باغی نہیں کہا ان کی باغی بنانے پر تلے ہیں واہ انصاف اور اتباع رسول۔

نیز -نبی کریم نے عمار بن یاسر سے متعلق جس روایت میں یہ فرمایا کہ عمار تمہیں باغی گروہ شہید کرے گا - اس میں یہ بھی ہے کہ "ويح عمار تقتله الفئة الباغية يدعوهم إلى الجنة ويدعونه إلى النار" عمار تو ان کو جنّت کی طرف دعوت دے رہا ہوگا اور وہ اس کو آگ (جہنم) کی طرف بلا رہے ہونگے-

کیا معاویہ رضی الله عنھم خود اور آپ کے ساتھی اصحاب سب اس روایت کی رو سے جہنمی نہ ہوے ؟؟
اس لئے کہتا ہو بھائی اللہ کے واسطے ناصبیت کی کتابوں سے باہر نکلو اہل سنت کو پڑھو حافظ ابن حجر نے اور دیگر نے اس کی یہی وجہ بتائی ہےکہ یہاں آگ کی طرف بلانے سے مراد امیر کی عطا سے دور کریں گے تو یہاں آگ سے مراد جہنمی نہیں ہے نعوذ باللہ بلکہ امیر کی نافرمانی مراد ہے

کیا علی کے سگے بھائی عقیل بن ابی طالب جو معاویہ کے کیمپ میں تھے - اس روایت کی رو سے جہنمی نہ ہوے ؟؟

کیا علی کے بیٹے حسن نے ایک باغی و جہنمی "معاویہ" کے ہاتھ پر مصالحت کی بیعت کی اور انھیں احساس تک نہ تھا؟؟

کیا علی کے بیٹے حسن و حسین دونوں معاویہ کے دور خلافت میں ان سے خراج وصول نہ کرتے تھے (مصنف ابی شیبہ) یہ سوچے بغیر کہ وہ ایک "باغی" سے خراج وصول کررہے ہیں؟؟

علی دوران جنگ اپنے اصحاب کو لڑنے سے روک دیتے ہیں - کیا انہوں نے قران سے کفر نہیں کیا؟؟ - قرآن تو کہتا ہے کہ باغیوں سے وقت تک لڑو جب تک فتنہ ختم نہ ہو یا باغی توبہ کرلیں- (سوره المائدہ)-

اس کو میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن رضی اللہ عنہ کی اس پر تحسین فرمائی تھی اور اہلسنت اس کو تحسین میں ہی لیتے ہیں اور رہی بات کہ خراج وصول کرنا اور وظائف لینا وغیرہ تو یہ ان کا حق تھا اس پر اہل سنت کے اکابرین جانتے ہیں کہ کتنی بھی باطل اور ظالم حکومت آ جائے خراج وغیرہ لینا جائز ہوتا ہے اس لئے اس قسم کی باتیں ناصبیت کی کتابوں میں ہی لکھی ہیں کیونکہ وہ بنو امیہ اور بنو مروان کی حکومتوں کو خلافت اور اسلامی حکومت ثابت کرنے کے لئے اسی قسم کی بے کار تاویلیں پیش کرتے ہیں مگر اہل سنت کے یہاں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
اور رہی بات مجھے رافضیت زدہ اور اجماع کو خود ساختہ کہنے کی اپ کی اس گستاخی پر میں اس پر اہل سنت کے اقوال پیش کر چکا ہوں یہ سب کیا رافضی ذہن ہیں اوران کا اس معاملے کو اجماع کہنا خودساختہ ہے تو اگر ہمت ہے تو کھول کر کہیں کہ
ابن کثیر نے معاویہ رضی اللہ عنہ باغی کہا ہے حوالہ موجود ہے کیا ابن کثیر رافضی ذہن تھے
امام شوکانی رافضی ذہن تھے جواب دیں
امام الصنعانی رافضی ذہن تھے اور انہوں نے خود ساختہ اجماع نقل کر دیا
یہ سب رافضی ذہن نہیں آپ ناصبیت زدہ ہو چکے ہو اس لئے اہلسنت کے اکابرین کے اقوال بھی اپ کو رافضیت زدہ لگتے ہیں اللہ اصلاح کرے
اور آخر میں یزید کے حوالے سے جو موصوف نے اپنی خام خیالی پیش کی ہے کہ" یزید کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے"
صرف اپ نے لکھ ہے میرے اس پر جواب نہیں پڑھے ہیں جن پر آں جناب کا کوئی تبصرہ نہیں آتا تھا
 
Top