- شمولیت
- اگست 25، 2014
- پیغامات
- 6,372
- ری ایکشن اسکور
- 2,589
- پوائنٹ
- 791
واقعہ کربلا کے تئیں اہل سنت کے غور و فکر کے لیے چند باتیں
لیکن کیا اہل سنت اس نقطۂ نظر کو تسلیم کر لیں گے
کیا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی غیرت پر نعوذ باللہ شک کرنے کی جرات کا تصور بھی کیا جاسکتا ہے؟
یقیناً کوئی اہل سنت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق اس قسم کا عقیدہ نہیں رکھتا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی بڑی تلخ ہے کہ اہل سنت شہادت حسین کا جو فلسفہ بیان کرتے ہیں وہ اسی تال سر سے ترتیب پاتا ہے جو شیعیت کا مخصوص راگ ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ سانحۂ کربلا کو معرکہ حق و باطل باور کرانے سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عظمت کردار اور ان کی دینی حمیت مجروح ہوتی ہے اور شیعوں کا مقصد بھی یہی ہے لیکن یہ ہمارے سوچنے کی بات ہے کہ واقعہ ایسا ہے یا نہیں؟
تو حقیقت یہ ہے کہ یہ حق و باطل کا تصادم نہیں تھا، یہ کفر واسلام کا معرکہ نہیں تھا، یہ اسلامی جہاد نہ تھا۔ اگر ایسا ہوتا تو اس راہ میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ اکیلے نہ ہوتے، ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تعاون بھی انہیں حاصل ہوتا جن کی پوری عمریں اعلائے کلمۃ اللہ میں گزریں جو ہمہ وقت باطل کے لیے شمشیر برہنہ اور کفر و ارتداد کے لیے خدائی للکار تھے۔ یہ تصادم دراصل ایک سیاسی نوعیت کا تھا اس نکتے کو سمجھنے کے لیے حسب ذیل پہلو قابل غور ہیں۔
واقعات کربلا سے متعلقہ سب ہی تاریخوں میں ہے کہ حضرت حسین جب کوفے کی طرف کوچ کرنے کے لیے تیار ہو گئے تو ان کے رشتہ داروں اور ہمدردوں نے انہیں روکنے کی پوری کوشش کی اور اس اقدام کے خطرناک نتائج سے ان کو آگاہ کیا۔ ان میں حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت ابو سعید خدری، حضرت ابو الدرداء،حضرت ابو واقد لیثی، جابر بن عبداللہ، حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت حسین رضی اللہ عنہم کے بھائی محمد بن الحنفیہ نمایاں ہیں۔ آپ نے ان کے جواب میں نہ عزم سفر ملتوی فرمایا نہ اپنے موقف کی کوئی دلیل پیش کی،ورنہ ممکن ہے کہ وہ بھی اس موقف میں ان کے ساتھ تعاون کے لیے آمادہ ہو جاتے۔ دراصل حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ذہن میں یہ بات تھی کہ اہل کوفہ ان کو مسلسل کوفہ آنے کی دعوت دے رہے ہیں،یقیناً وہاں جانا ہی مفید رہے گا۔
یہ بھی تمام تاریخوں میں آتا ہے کہ ابھی آپ راستے ہی میں تھے کہ آپ کو خبر پہنچی کہ کوفے میں آپ کے چچیرے بھائی مسلم بن عقیل شہید کر دئیے گئے جن کو آپ نے کوفے کے حالات معلوم کرنے کے لیے ہی بھیجا تھا۔ اس المناک خبر سے آپ کا اہل کوفہ پر سے اعتماد متزلزل ہو گیا اور واپسی کا عزم ظاہر کیا، لیکن حضرت مسلم رحمۃ اللہ علیہ کے بھائیوں نے یہ کہہ کر واپس ہونے سے انکار کر دیا کہ ہم تو اپنے بھائی مسلم کا بدلہ لیں گے یا خود بھی مر جائیں گے اس پر حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "تمہارے بغیر میں بھی جی کر کیا کروں گا؟"
"وكان معه إخوة مسلم بن عقيل فقالوا : والله لا نرجع حتى نأخذ بثأرنا ممن قتل أخانا أو نقتل . فقال : لا خير في الحياة بعدكم۔"
"چنانچہ حضرت حسین نے رضی اللہ عنہ نے واپسی کا ارادہ کر لیا، لیکن آپ کے ساتھ مسلم بن عقیل کے جو بھائی تھے، انہوں نے کہا کہ ہم تو اس وقت تک واپس نہیں جائیں گے جب تک کہ ہم انتقام نہ لے لیں یا پھر خود بھی قتل ہو جائیں"، چنانچہ آپ نے فرمایا کہ" تمہارے بغیر میرے جینے میں کوئی بھلائی نہیں۔"(1)
(1)۔تاریخ الطبری: 292/4، مطبعۃ الاستقامۃ، قاہرۃ: 1939ء)
اور یوں اس قافلے کا سفر کوفے کی طرف جاری رہا۔
پھر اس پر بھی تمام تاریخیں متفق ہیں کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ جب مقام کربلا پر پہنچے تو گورنر کوفہ ابن زیاد نے عمر بن سعد کو مجبور کر کے آپ کے مقابلے کے لیے بھیجا۔ عمر بن سعد نے آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر آپ سے گفتگو کی تو متعدد تاریخی روایتوں کے مطابق حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے ان کے سامنے یہ تجویز رکھی۔
"اختر منی احدیٰ ثلاث اما ان الحق بثغر من الثغور واما ان ارجع الی المدینۃ واما ان اضع فی ید یزید بن معاویۃ فقبل ذلک عمر منہ"
یعنی "تین باتوں میں سے ایک بات مان لو۔ میں یا تو کسی اسلامی سرحد پر چلا جاتا ہوں یا واپس مدینہ منورہ لوٹ جاتا ہوں یا پھر میں (براہ راست جا کر) یزید بن معاویہ کی ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دیتا ہوں(یعنی ان سے بیعت کر لیتا ہوں) عمر بن سعد نے ان کی یہ تجویز قبول کر لی۔(2)
(2)۔الاصابۃ: 71/2، الطبعۃ 1995ء، دارالکتب العلمیۃ
ابن سعد نے خود منظور کر لینے کے بعد یہ تجویز ابن زیاد (گورنر کوفہ ) کو لکھ کر بھیجی مگر اس نے اس تجویز کو ماننے سے انکار کر دیا اور اس بات پر اصرار کیا کہ پہلے وہ (یزید کے لیے )میرے ہاتھ پر بیعت کریں۔
"فکتب الیہ عبید اللہ (ابن زیاد) لا اقبل منہ حتی یضع یدہ فی یدی"
حضرت حسین رضی اللہ عنہ اس کے لیے تیار نہ ہوئے اور ان کی طبع خوددار نے یہ گوارا نہیں، چنانچہ اس شرط کو مسترد کر دیا جس پر لڑائی چھڑ گئی اور آپ کی مظلومانہ شہادت کا یہ حادثۂ فاجعہ پیش آ گیا۔(3)
(3)۔ (الاصابۃ: 71/2، الطبری: 293/4)
"فانا للہ وانا الیہ راجعون۔ فامتنع الحسین فقاتلوہ۔۔۔ ثم کان آخر ذلک ان قتل رضی اللہ عنہ وارضاہ"
یقینا ہم سب اللہ ہی کےلئے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ چنانچہ حسین رضی اللہ عنہ اس بات سے انکار کردیا اور انہوں نے ان کے ساتھ قتال کیا ۔۔۔ اورآخر کار ان سب کا یہ نتیجہ نکلا کہ حسین رضی اللہ عنہ نے جام شہادت نوش فرمالی۔
اس روایت کے مذکورہ الفاظ جس میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے بیعت یزید پر رضا مندی کا اظہار فرمایا(4)
(4)۔ملاحظہ فرمائیں:"الاصابہ" کے علاوہ تہذیب التہذیب، 328/2، 353 ،تاریخ طبری، 293/4 ،تہذیب تاریخ ابن عسا کر، 325/4، 337 ،البدایۃ والنہایۃ، 170/8۔175 ،کامل ابن اثیر،283/3 اور دیگر کئی کتابوں میں بھی موجود ہیں۔ حتی کہ شیعی کتابوں میں بھی ہیں۔ ان کے دوسرے الفاظ بھی ہیں تاہم نتیجے میں کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔
ان تاریخی شواہد سے معلوم ہوا کہ اگر یہ حق و باطل کا معرکہ ہوتا تو کوفے کے قریب پہنچ کر جب آپ کو مسلم بن عقیل کی مظلومانہ شہادت کی خبر ملی تھی۔ آپ واپسی کا عزم ظاہر نہ فرماتے۔ ظاہر بات ہے کہ راہ حق میں کسی کی شہادت سے احقاق حق اور ابطال باطل کا فریضہ ساقط نہیں ہو جاتا۔
پھر ا ن شرائط مصالحت سے جو حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے عمر بن سعد کے سامنے رکھیں، یہ بات بالکل نمایاں ہو جاتی ہے ہے کہ آپ کے ذہن میں کچھ تحفظات تھے بھی تو آپ ان سے دست بردار ہو گئے تھے، بلکہ یزید کی حکومت تک کو تسلیم کر لینے پر آمادگی ظاہر کر دی تھی۔
ایک یہ بات اس سے واضح ہوئی کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ، امیر یزید کو فاسق و فاجر یا حکومت کا نا اہل نہیں سمجھتے تھے، اگر ایسا ہوتا تو وہ کسی حالت میں بھی اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دینے کے لیے تیار نہ ہوتے جیسا کہ وہ تیار ہو گئے تھے، بلکہ یزید کے پاس جانے کے مطالبے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو ان سے حسن سلوک ہی کی توقع تھی۔ ظالم وسفاک بادشاہ کے جانے کی آرزو (آخری چارۂ کار کے طور پر بھی) کوئی نہیں کرتا۔
اس تفصیل سے اس حادثے کے ذمہ دار بھی عریاں ہو جاتے ہیں اور وہ ہے ابن زیاد کی فوج، جس میں سب وہی کوفی تھے جنہوں نے آپ کو خط لکھ کر بلایا تھا، انہی کوفیوں نے عمر بن سعد کی سعیِ مصالحت کو بھی ناکام بنا دیا جس سے کربلا کا یہ المناک سانحۂ شہادت پیش آیا۔
وَكَانَ أَمْرُ ٱللَّهِ قَدَرًا مَّقْدُورًا
(اس کی مزید تفصیل کتاب کے دیگر مضامین میں۔۔۔ سانحۂ کربلا، پس منظر اور اسباب۔۔۔ میں ملاحظہ فرمائیں۔)
ماخوذ از کتاب "رسومات محرم الحرام اور سانحہ کربلا"
از صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ تعالیٰ، مدیر: شعبۂ ترجمہ و تحقیق و تصنیف،
Last edited: