عبداللہ عبدل
مبتدی
- شمولیت
- نومبر 23، 2011
- پیغامات
- 493
- ری ایکشن اسکور
- 2,479
- پوائنٹ
- 26
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
میں آپکی خدمت میں ایک مضمون پیش کرنے جا رہا ہوں کہ جس میں ایک سوال کا جواب دیا گیا ہے اور یہ حکمرانوں کے فسق و فجور، ظلم کی بنا پر انکے خلاف خروج کرنے کے مسئلے کو خوب نکھارتا ہے..
اللہ ہماری رہنمائی فرمائے.....
آمین!
ہمارے ایک دوست نے سوال کیا ہے کہ ۔۔۔۔
کیا یہ سچ ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے کربلا سے واپسی کی پیشکش کرتے ہوئے یزید کے ہاتھ میں ہاتھ دینے کی خواہش کی تھی؟
واقعۂ حرہ کے بعد یزید پر لعن طعن کرتے ہوئے اہل مدینہ نے یزید کی بیعت توڑ دی تھی تو کیا ان میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خاندان کے سارے افراد بھی شامل تھے؟
سائل کا تقاضا ہے کہ کتب تاریخ ہی کے حوالے سے گفتگو کی جائے۔
جواب::::
تاریخ کی کتب کے ذریعے ہی اگر بات کرنا ہو تو آئیے ذرا دیکھ لیں کہ حقائق کیا کہتے ہیں:
حضرت حسین رضی اللہ عنہ جب مقام کربلا پہنچے تو گورنر کوفہ ابن زیاد نے عمر بن سعد کو مجبور کر کے آپ کے مقابلے کے لیے بھیجا۔ عمر بن سعد نے آپ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر جو گفتگو کی ، یہ ریکارڈ تاریخ کی متعدد کتب (اہل سنت مع اہل تشیع) میں موجود ہے۔
حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے عمر بن سعد کے سامنے جو تجویز رکھی تھی ، تاریخی حوالوں سے ذیل میں ملاحظہ فرمائیں۔
فلما رهقه السلاح عرض عليهم الاستسلام والرجوع والمضي إلى يزيد فيضع يده في يده
جب کوئی چارۂ کار باقی نہ رہا تو حضرت حسین (رضی اللہ عنہ) نے انہیں (عمر بن سعد) صلح کی ، واپسی کی اور یزید کے ہاتھ میں ہاتھ دینے کے لیے یزید کے پاس جانے کی پیش کش کی۔
تاریخ الخلفاء للسیوطی ، ج:1 ، ص:134
اختر مني إحدى ثلاث إما أن ألحق بثغر من الثغور وإما أن أرجع إلى المدينة وإما أن أضع يدي في يد يزيد بن معاوية فقبل ذلك عمر منه
(عمر بن سعد کو کہا): تین باتوں میں سے ایک بات مان لو۔ میں یا تو کسی اسلامی سرحد پر چلا جاتا ہوں۔
یا واپس مدینہ منورہ لوٹ جاتا ہوں
یا پھر میں یزید بن معاویہ کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دیتا ہوں۔
عمر بن سعد نے ان کی یہ تجویز قبول کر لی۔
الاصابہ ، ج:2 ، ص:55
تقریباً اسی قسم کے الفاظ تہذیب التہذیب ، تہذیب ابن عساکر ، تاریخ طبری ، کامل ابن اثیر ، البدائیہ و النہائیہ و دیگر کتب میں بھی ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔ اور یہ تمام عربی کتب مکتبہ شاملہ پر موجود ہیں۔
علاوہ ازیں اہل تشیع کی کتب تواریخ میں یہی حقیقت درج ہے سوائے اس کے کہ ان کے الفاظ کچھ مختلف ہیں تاہم نتیجہ و مفہوم میں کوئی خاص فرق نہیں۔
یہ حقیقت ۔۔۔ یعنی کہ صلح کی ، واپس لوٹ جانے کی اور یزید کے پاس جانے اور اس کے ہاتھ میں ہاتھ دینے کا مطلب اور کیا ہوتا ہے؟
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا واپسی کا عزم ۔۔۔۔ صاف ظاہر کرتا ہے کہ آپ باطل کا قلع قمع کرنے کے لیے نہیں نکلے تھے ، کیونکہ باطل کا بطل توڑے بغیر واپسی کی خواہش ظاہر کرنا ۔۔۔۔ اس طرح سوچنے سے تو آپ رضی اللہ عنہ کی عظمت پر حرف آتا ہے۔
صلح کی خواہش سے بھی ظاہر ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کے ذہن میں یزید کے متعلق جو کچھ بھی تحفظات تھے ، تو آپ ان سے دستبرداری کرتے ہوئے یزید کی حکومت کو تسلیم کرنے پر راضی ہو گئے تھے۔
یزید کے ہاتھ میں ہاتھ دینے کی خواہش کے اظہار سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ۔۔۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ ، یزید کو فاسق و فاجر یا حکومت کا نااہل نہیں سمجھتے تھے۔ کیونکہ اگر وہ ایسا سمجھتے تو وہ کسی حالت میں بھی یزید کے ہاتھ میں ہاتھ دینے کے لیے تیار نہ ہوتے۔
حتیٰ کہ یزید کے پاس جانے کے مطالبے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کو یزید سے حسن سلوک ہی کی امید تھی۔ کیونکہ ظالم و سفاک بادشاہ کے پاس جانے کی آرزو تو کوئی بھی نہیں کرتا۔
کتب تواریخ میں یہ بھی موجود ہے کہ ۔۔۔
حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم نے باقاعدہ طور پر یزید کی حکومت کو منظور کر لیا تھا۔
لیکن جب حضرت ابن زبیر اور حضرت حسین رضی اللہ عنہم نے بیعت سے پہلو تہی کی تو حضرت عبداللہ بن عمر نے ان دونوں سے کہا :
اتقيا الله ولا تفرقا بين جماعة المسلمين
اللہ سے ڈرو اور مسلمانوں کی جماعت میں تفرقہ نہ ڈالو۔
البدائیہ والنہائیہ ، ج:8 ، ص:157
واقعۂ حرہ کے بعد اہل مدینہ نے یزید کی بیعت توڑی ہو تو ہو ۔۔۔ سوال یہ ہے کہ کیا خاندانِ حضرت علی رضی اللہ عنہ یا اہل بیت نبوی کے کسی فرد نے بھی یزید کی بیعت کو توڑا تھا؟
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے تو اہل مدینہ کو بدعہدی کرنے والوں سے تعبیر کیا تھا جس کا حوالہ بخاری کی حدیث کے ذریعے یہاں دیا جا چکا ہے۔
اب تاریخ کا حوالہ بھی دیکھ لیں ۔۔۔۔
كان عبد الله بن عمر بن الخطاب وجماعات اهل بيت النبوة ممن لم ينقض العهد، ولا بايع احداً بعد بيعته ليزيد ...
وقال أبو جعفر الباقر: لم يخرج أحد من آل أبي طالب ولا من بني عبد المطلب أيام الحرة
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور اہل بیت نبوی کے کسی گروہ نے نقص عہد نہیں کیا ، نہ یزید کی بیعت کے بعد کسی اور کی بیعت کی۔
ابو جعفر الباقر کہتے ہیں کہ : آل ابوطالب (حضرت علی رضی اللہ عنہ کا خاندان) اور اولاد عبدالمطلب میں سے کسی نے بھی ایامِ حرہ میں (یزید کے خلاف) خروج نہیں کیا۔
البدائیہ والنہائیہ ، ج:8 ، ص:254-256
اسی طرح حضرت حسین کے صاحبزادے حضرت زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ نے بھی یزید کی بیعت کو توڑنے سے گریز کیا تھا۔
البدائیہ والنہائیہ ، ج:8 ، ص:238
واقعۂ حرہ کے بعد یزید کی بیعت کو توڑنے والے اور یزید پر الزامات لگانے والے جب حضرت حسین (رضی اللہ عنہ) کے بھائی محمد بن الحنفیہ رحمۃ اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان سے بھی یزید کی بیعت کو توڑ دینے کہا تو ۔۔۔۔۔
تو تاریخ کی کتاب میں درج مکالمات لفظ نہ لفظ ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔
ولما رجع اهل المدينة من عند يزيد مشى عبد الله بن مطيع واصحابه الى محمد بن الحنفية فارادوه على خلع يزيد فابى عليهم، فقال ابن مطيع: ان يزيد يشرب الخمر، ويترك الصلاة، ويتعدى حكم الكتاب.
فقال لهم: ما رايت منه ما تذكرون، وقد حضرته واقمت عنده فرايته مواظباً على الصلاة، متحرياً للخير، يسال عن الفقه، ملازماً للسنة.
قالوا: فان ذلك كان منه تصنعاً لك.
فقال: وما الذي خاف مني او رجا حتى يظهر اليّ الخشوع؟
افاطلعكم على ما تذكرون من شرب الخمر؟
فلئن كان اطلعكم على ذلك انكم لشركاؤه، وان لم يطلعكم فما يحل لكم ان تشهدوا بما لم تعلموا.
قالوا: انه عندنا لحق وان لم يكن رايناه.
فقال لهم: ابى الله ذلك على اهل الشهادة.
فقال: {اِلَّا مَنْ شَهِدَ بِالْحَقِّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ} [الزخرف: 86]، ولست من امركم في شيء.
قالوا: فلعلك تكره ان يتولى الامر غيرك فنحن نوليك امرنا.
قال: ما استحل القتال على ما تريدونني عليه تابعاً ولا متبوعاً.
قالوا: فقد قاتلت مع ابيك.
قال: جيئوني بمثل ابي اقاتل على مثل ما قاتل عليه.
فقالوا: فمر ابنيك ابا القاسم والقاسم بالقتال معنا.
قال: لو امرتهما قاتلت.
قالوا: فقم معنا مقاماً تحض الناس فيه على القتال.
قال: سبحان الله !! امر الناس بما لا افعله ولا ارضاه اذاً ما نصحت لله في عباده.
قالوا: اذاً نكرهك.
قال: اذاً امر الناس بتقوى الله ولا يرضون المخلوق بسخط الخالق، وخرج الى مكة.
البدائیہ والنہائیہ ، ج:8 ، ص:255
اردو ترجمہ :
عبداللہ بن مطیع اور ان کے رفقائے کار حضرت علی رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے محمد بن الحنفیہ رحمۃ اللہ کے پاس گئے اور انہیں یزید کی بیعت توڑ دینے پر رضامند کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے ایسا کرنے سے صاف انکار کر دیا۔
اس پر ابن مطیع نے کہا:
یزید شراب نوشی ، ترک نماز اور کتاب اللہ کے حکم سے تجاوز کرتا ہے۔
محمد بن الحنفیہ نے کہا:
تم جن باتوں کا ذکر کرتے ہو، میں نے ان میں سے کوئی چیز اس میں نہیں دیکھی۔ میں اس کے پاس گیا ہوں۔ میرا وہاں قیام بھی رہا۔ میں نے اس کو ہمیشہ نماز کا پابند ، خیر کا متلاشی ، علم دین کا طالب ، اور سنت کا ہمیشہ پاسدار پایا۔
وہ لوگ کہنے لگے :
وہ یہ سب کچھ محض تصنع اور آپ کے دکھلاوے کے لیے کرتا ہوگا۔
محمد بن الحنفیہ نے جواباً کہا:
مجھ سے اسے کون سا خوف یا لالچ تھا جس کی بنا پر اس نے میرے سامنے ایسا کیا؟ تم جو اس کی شراب نوشی کا ذکر کرتے ہو ، کیا تم میں سے کسی نے خود اسے ایسا کرتے دیکھا ہے؟ اگر تمہارے سامنے اس نے ایسا کیا ہے تو تم بھی اس کے ساتھ اس کام میں شریک رہے ہو ، اور اگر ایسا نہیں ہے تو تم اس چیز کے متعلق کیا گواہی دے سکتے ہو جس کا تمہیں علم ہی نہیں۔
وہ لوگ کہنے لگے :
یہ بات ہمارے نزدیک سچ ہے اگر چہ ہم میں سے کسی نے اسے ایسا کرتے نہیں دیکھا۔
محمد بن الحنفیہ علیہ الرحمۃ نے فرمایا:
اللہ تو اس بات کو تسلیم نہیں کرتا ، وہ تو فرماتا ہے :
{گواہی انہی لوگوں کی معتبر ہے جن کو اس بات کا ذاتی علم ہو} [الزخرف: 86]
جاؤ ! میں کسی بات میں تمہارا ساتھ نہیں دے سکتا !!
وہ پھر کہنے لگے :
شائد آپ کو یہ بات ناگوار گزرتی ہو کہ یہ معاملہ آپ کے علاوہ کسی اور کے ہاتھ میں رہے۔ اگر ایسا ہے تو قیادت ہم آپ کے سپرد کیے دیتے ہیں۔
برادر حسین رضی اللہ عنہ نے کہا :
تم جس چیز پر قتال و جدال کر رہے ہو ، میں سرے سے اس کو جائز ہی نہیں سمجھتا ، مجھے کسی کے پیچھے لگنے یا لوگوں کو اپنے پیچھے لگانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟
وہ کہنے لگے :
آپ اس سے پہلے اپنے والد کے ساتھ مل کر جو جنگ کر چکے ہیں ۔۔۔
انہوں نے فرمایا :
تم پہلے میرے باپ جیسا آدمی اور انہوں نے جن سے جنگ کی ان جیسے افراد تو لا کر دکھاؤ۔ اس کے بعد میں بھی تمہارے ساتھ مل کر جنگ کر لوں گا۔
وہ کہنے لگے :
آپ اپنے صاحبزادگان ابوالقاسم اور قاسم ہی کو ہمارے حوالے کر دیں۔
انہوں نے فرمایا :
میں ان کو اگر اس طرح کا حکم دوں تو میں خود نہ تمہارے ساتھ اس کام میں شریک ہو جاؤں؟
وہ کہنے لگے :
اچھا آپ صرف ہمارے ساتھ چل کر لوگوں کو آمادۂ قتال کر دیں۔
انہوں نے فرمایا :
سبحان اللہ ! جس کو میں خود ناپسند کرتا ہوں اور اس سے مجتنب ہوں ، لوگوں کو اس کا حکم کیسے دوں؟ اگر میں ایسا کروں تو میں اللہ کے معاملے میں اس کے بندوں کا خیر خواہ نہیں ، بدخواہ ہوں گا۔
وہ کہنے لگے :
ہم پھر آپ کو مجبور کریں گے۔
انہوں نے کہا:
میں اس وقت بھی لوگوں سے یہی کہوں گا کہ اللہ سے ڈرو اور مخلوق کی رضا کی خاطر خالق کو ناراض نہ کرو۔
********
اس تفصیل سے واقعۂ حرہ کی بنیادی حقیقت معلوم ہو سکتی ہے کہ اس "شورش" کو اہل خیر و صلاح نے کس نظر سے دیکھا تھا؟
اس کے علاوہ واقعۂ حرہ کی تفصیلات جو کتب تواریخ میں درج ہیں وہ مبالغہ آمیز اور غیر مستند اس لیے بھی قرار دی جاتی ہیں کہ ان کا راوی "ابومخنف" ہے جو محدثین کے نزدیک بطور کذاب معروف ہے۔
ہاں اس جنگ حرہ میں یزید کی فوج نے حد سے تجاوز کر کے جو بھی کاروائیاں کی تھیں ، ان پر تمام علماء نے نکیر ہی کی ہے ، انہیں مستحسن کسی نے بھی نہیں کہا۔
یہاں یہ بھی یاد رہے کہ ان تاریخی حقائق کے بیان کا یہ مطلب نہیں کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں یزید سے کوئی محبت جتائی جا رہی ہو۔
نہیں ! بلکہ یہاں صرف تاریخی مواقف کا ذکر مقصود ہے۔
اور اس کے علاوہ ۔۔۔۔
یہ بھی یاد رکھا جانا چاہئے کہ کوئی بھی مسلمان چاہے اسے فاسق و فاجر اور قاتل و ظالم ہی کیوں نہ سمجھ لیا جائے اور چاہے اس نے قتل و غارت گری کا میدان ہی کیوں نہ گرم کر رکھا ہو ۔۔۔۔ تب بھی یہ تمام جرائم کبائر ہی شمار ہوں گے۔ اور کبائر کے ارتکاب سے کوئی مسلمان نہ دائرہ اسلام سے خارج ہوتا ہے نہ رحمت و مغفرتِ خداوندی کے امکان سے محروم۔
اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو اس کے تمام گناہ معاف کر سکتا ہے جیسا کہ اس نے کہا ہے کہ شرک کے علاوہ چاہوں گا تو دوسرے گناہ معاف کر دوں گا :
إِنَّ اللّهَ لاَ يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَن يَشَاء
( النساء:4 - آيت:48 )
میں آپکی خدمت میں ایک مضمون پیش کرنے جا رہا ہوں کہ جس میں ایک سوال کا جواب دیا گیا ہے اور یہ حکمرانوں کے فسق و فجور، ظلم کی بنا پر انکے خلاف خروج کرنے کے مسئلے کو خوب نکھارتا ہے..
اللہ ہماری رہنمائی فرمائے.....
آمین!
ہمارے ایک دوست نے سوال کیا ہے کہ ۔۔۔۔
کیا یہ سچ ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے کربلا سے واپسی کی پیشکش کرتے ہوئے یزید کے ہاتھ میں ہاتھ دینے کی خواہش کی تھی؟
واقعۂ حرہ کے بعد یزید پر لعن طعن کرتے ہوئے اہل مدینہ نے یزید کی بیعت توڑ دی تھی تو کیا ان میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خاندان کے سارے افراد بھی شامل تھے؟
سائل کا تقاضا ہے کہ کتب تاریخ ہی کے حوالے سے گفتگو کی جائے۔
جواب::::
تاریخ کی کتب کے ذریعے ہی اگر بات کرنا ہو تو آئیے ذرا دیکھ لیں کہ حقائق کیا کہتے ہیں:
حضرت حسین رضی اللہ عنہ جب مقام کربلا پہنچے تو گورنر کوفہ ابن زیاد نے عمر بن سعد کو مجبور کر کے آپ کے مقابلے کے لیے بھیجا۔ عمر بن سعد نے آپ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر جو گفتگو کی ، یہ ریکارڈ تاریخ کی متعدد کتب (اہل سنت مع اہل تشیع) میں موجود ہے۔
حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے عمر بن سعد کے سامنے جو تجویز رکھی تھی ، تاریخی حوالوں سے ذیل میں ملاحظہ فرمائیں۔
فلما رهقه السلاح عرض عليهم الاستسلام والرجوع والمضي إلى يزيد فيضع يده في يده
جب کوئی چارۂ کار باقی نہ رہا تو حضرت حسین (رضی اللہ عنہ) نے انہیں (عمر بن سعد) صلح کی ، واپسی کی اور یزید کے ہاتھ میں ہاتھ دینے کے لیے یزید کے پاس جانے کی پیش کش کی۔
تاریخ الخلفاء للسیوطی ، ج:1 ، ص:134
اختر مني إحدى ثلاث إما أن ألحق بثغر من الثغور وإما أن أرجع إلى المدينة وإما أن أضع يدي في يد يزيد بن معاوية فقبل ذلك عمر منه
(عمر بن سعد کو کہا): تین باتوں میں سے ایک بات مان لو۔ میں یا تو کسی اسلامی سرحد پر چلا جاتا ہوں۔
یا واپس مدینہ منورہ لوٹ جاتا ہوں
یا پھر میں یزید بن معاویہ کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دیتا ہوں۔
عمر بن سعد نے ان کی یہ تجویز قبول کر لی۔
الاصابہ ، ج:2 ، ص:55
تقریباً اسی قسم کے الفاظ تہذیب التہذیب ، تہذیب ابن عساکر ، تاریخ طبری ، کامل ابن اثیر ، البدائیہ و النہائیہ و دیگر کتب میں بھی ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔ اور یہ تمام عربی کتب مکتبہ شاملہ پر موجود ہیں۔
علاوہ ازیں اہل تشیع کی کتب تواریخ میں یہی حقیقت درج ہے سوائے اس کے کہ ان کے الفاظ کچھ مختلف ہیں تاہم نتیجہ و مفہوم میں کوئی خاص فرق نہیں۔
یہ حقیقت ۔۔۔ یعنی کہ صلح کی ، واپس لوٹ جانے کی اور یزید کے پاس جانے اور اس کے ہاتھ میں ہاتھ دینے کا مطلب اور کیا ہوتا ہے؟
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا واپسی کا عزم ۔۔۔۔ صاف ظاہر کرتا ہے کہ آپ باطل کا قلع قمع کرنے کے لیے نہیں نکلے تھے ، کیونکہ باطل کا بطل توڑے بغیر واپسی کی خواہش ظاہر کرنا ۔۔۔۔ اس طرح سوچنے سے تو آپ رضی اللہ عنہ کی عظمت پر حرف آتا ہے۔
صلح کی خواہش سے بھی ظاہر ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کے ذہن میں یزید کے متعلق جو کچھ بھی تحفظات تھے ، تو آپ ان سے دستبرداری کرتے ہوئے یزید کی حکومت کو تسلیم کرنے پر راضی ہو گئے تھے۔
یزید کے ہاتھ میں ہاتھ دینے کی خواہش کے اظہار سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ۔۔۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ ، یزید کو فاسق و فاجر یا حکومت کا نااہل نہیں سمجھتے تھے۔ کیونکہ اگر وہ ایسا سمجھتے تو وہ کسی حالت میں بھی یزید کے ہاتھ میں ہاتھ دینے کے لیے تیار نہ ہوتے۔
حتیٰ کہ یزید کے پاس جانے کے مطالبے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کو یزید سے حسن سلوک ہی کی امید تھی۔ کیونکہ ظالم و سفاک بادشاہ کے پاس جانے کی آرزو تو کوئی بھی نہیں کرتا۔
کتب تواریخ میں یہ بھی موجود ہے کہ ۔۔۔
حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم نے باقاعدہ طور پر یزید کی حکومت کو منظور کر لیا تھا۔
لیکن جب حضرت ابن زبیر اور حضرت حسین رضی اللہ عنہم نے بیعت سے پہلو تہی کی تو حضرت عبداللہ بن عمر نے ان دونوں سے کہا :
اتقيا الله ولا تفرقا بين جماعة المسلمين
اللہ سے ڈرو اور مسلمانوں کی جماعت میں تفرقہ نہ ڈالو۔
البدائیہ والنہائیہ ، ج:8 ، ص:157
واقعۂ حرہ کے بعد اہل مدینہ نے یزید کی بیعت توڑی ہو تو ہو ۔۔۔ سوال یہ ہے کہ کیا خاندانِ حضرت علی رضی اللہ عنہ یا اہل بیت نبوی کے کسی فرد نے بھی یزید کی بیعت کو توڑا تھا؟
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے تو اہل مدینہ کو بدعہدی کرنے والوں سے تعبیر کیا تھا جس کا حوالہ بخاری کی حدیث کے ذریعے یہاں دیا جا چکا ہے۔
اب تاریخ کا حوالہ بھی دیکھ لیں ۔۔۔۔
كان عبد الله بن عمر بن الخطاب وجماعات اهل بيت النبوة ممن لم ينقض العهد، ولا بايع احداً بعد بيعته ليزيد ...
وقال أبو جعفر الباقر: لم يخرج أحد من آل أبي طالب ولا من بني عبد المطلب أيام الحرة
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور اہل بیت نبوی کے کسی گروہ نے نقص عہد نہیں کیا ، نہ یزید کی بیعت کے بعد کسی اور کی بیعت کی۔
ابو جعفر الباقر کہتے ہیں کہ : آل ابوطالب (حضرت علی رضی اللہ عنہ کا خاندان) اور اولاد عبدالمطلب میں سے کسی نے بھی ایامِ حرہ میں (یزید کے خلاف) خروج نہیں کیا۔
البدائیہ والنہائیہ ، ج:8 ، ص:254-256
اسی طرح حضرت حسین کے صاحبزادے حضرت زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ نے بھی یزید کی بیعت کو توڑنے سے گریز کیا تھا۔
البدائیہ والنہائیہ ، ج:8 ، ص:238
واقعۂ حرہ کے بعد یزید کی بیعت کو توڑنے والے اور یزید پر الزامات لگانے والے جب حضرت حسین (رضی اللہ عنہ) کے بھائی محمد بن الحنفیہ رحمۃ اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان سے بھی یزید کی بیعت کو توڑ دینے کہا تو ۔۔۔۔۔
تو تاریخ کی کتاب میں درج مکالمات لفظ نہ لفظ ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔
ولما رجع اهل المدينة من عند يزيد مشى عبد الله بن مطيع واصحابه الى محمد بن الحنفية فارادوه على خلع يزيد فابى عليهم، فقال ابن مطيع: ان يزيد يشرب الخمر، ويترك الصلاة، ويتعدى حكم الكتاب.
فقال لهم: ما رايت منه ما تذكرون، وقد حضرته واقمت عنده فرايته مواظباً على الصلاة، متحرياً للخير، يسال عن الفقه، ملازماً للسنة.
قالوا: فان ذلك كان منه تصنعاً لك.
فقال: وما الذي خاف مني او رجا حتى يظهر اليّ الخشوع؟
افاطلعكم على ما تذكرون من شرب الخمر؟
فلئن كان اطلعكم على ذلك انكم لشركاؤه، وان لم يطلعكم فما يحل لكم ان تشهدوا بما لم تعلموا.
قالوا: انه عندنا لحق وان لم يكن رايناه.
فقال لهم: ابى الله ذلك على اهل الشهادة.
فقال: {اِلَّا مَنْ شَهِدَ بِالْحَقِّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ} [الزخرف: 86]، ولست من امركم في شيء.
قالوا: فلعلك تكره ان يتولى الامر غيرك فنحن نوليك امرنا.
قال: ما استحل القتال على ما تريدونني عليه تابعاً ولا متبوعاً.
قالوا: فقد قاتلت مع ابيك.
قال: جيئوني بمثل ابي اقاتل على مثل ما قاتل عليه.
فقالوا: فمر ابنيك ابا القاسم والقاسم بالقتال معنا.
قال: لو امرتهما قاتلت.
قالوا: فقم معنا مقاماً تحض الناس فيه على القتال.
قال: سبحان الله !! امر الناس بما لا افعله ولا ارضاه اذاً ما نصحت لله في عباده.
قالوا: اذاً نكرهك.
قال: اذاً امر الناس بتقوى الله ولا يرضون المخلوق بسخط الخالق، وخرج الى مكة.
البدائیہ والنہائیہ ، ج:8 ، ص:255
اردو ترجمہ :
عبداللہ بن مطیع اور ان کے رفقائے کار حضرت علی رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے محمد بن الحنفیہ رحمۃ اللہ کے پاس گئے اور انہیں یزید کی بیعت توڑ دینے پر رضامند کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے ایسا کرنے سے صاف انکار کر دیا۔
اس پر ابن مطیع نے کہا:
یزید شراب نوشی ، ترک نماز اور کتاب اللہ کے حکم سے تجاوز کرتا ہے۔
محمد بن الحنفیہ نے کہا:
تم جن باتوں کا ذکر کرتے ہو، میں نے ان میں سے کوئی چیز اس میں نہیں دیکھی۔ میں اس کے پاس گیا ہوں۔ میرا وہاں قیام بھی رہا۔ میں نے اس کو ہمیشہ نماز کا پابند ، خیر کا متلاشی ، علم دین کا طالب ، اور سنت کا ہمیشہ پاسدار پایا۔
وہ لوگ کہنے لگے :
وہ یہ سب کچھ محض تصنع اور آپ کے دکھلاوے کے لیے کرتا ہوگا۔
محمد بن الحنفیہ نے جواباً کہا:
مجھ سے اسے کون سا خوف یا لالچ تھا جس کی بنا پر اس نے میرے سامنے ایسا کیا؟ تم جو اس کی شراب نوشی کا ذکر کرتے ہو ، کیا تم میں سے کسی نے خود اسے ایسا کرتے دیکھا ہے؟ اگر تمہارے سامنے اس نے ایسا کیا ہے تو تم بھی اس کے ساتھ اس کام میں شریک رہے ہو ، اور اگر ایسا نہیں ہے تو تم اس چیز کے متعلق کیا گواہی دے سکتے ہو جس کا تمہیں علم ہی نہیں۔
وہ لوگ کہنے لگے :
یہ بات ہمارے نزدیک سچ ہے اگر چہ ہم میں سے کسی نے اسے ایسا کرتے نہیں دیکھا۔
محمد بن الحنفیہ علیہ الرحمۃ نے فرمایا:
اللہ تو اس بات کو تسلیم نہیں کرتا ، وہ تو فرماتا ہے :
{گواہی انہی لوگوں کی معتبر ہے جن کو اس بات کا ذاتی علم ہو} [الزخرف: 86]
جاؤ ! میں کسی بات میں تمہارا ساتھ نہیں دے سکتا !!
وہ پھر کہنے لگے :
شائد آپ کو یہ بات ناگوار گزرتی ہو کہ یہ معاملہ آپ کے علاوہ کسی اور کے ہاتھ میں رہے۔ اگر ایسا ہے تو قیادت ہم آپ کے سپرد کیے دیتے ہیں۔
برادر حسین رضی اللہ عنہ نے کہا :
تم جس چیز پر قتال و جدال کر رہے ہو ، میں سرے سے اس کو جائز ہی نہیں سمجھتا ، مجھے کسی کے پیچھے لگنے یا لوگوں کو اپنے پیچھے لگانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟
وہ کہنے لگے :
آپ اس سے پہلے اپنے والد کے ساتھ مل کر جو جنگ کر چکے ہیں ۔۔۔
انہوں نے فرمایا :
تم پہلے میرے باپ جیسا آدمی اور انہوں نے جن سے جنگ کی ان جیسے افراد تو لا کر دکھاؤ۔ اس کے بعد میں بھی تمہارے ساتھ مل کر جنگ کر لوں گا۔
وہ کہنے لگے :
آپ اپنے صاحبزادگان ابوالقاسم اور قاسم ہی کو ہمارے حوالے کر دیں۔
انہوں نے فرمایا :
میں ان کو اگر اس طرح کا حکم دوں تو میں خود نہ تمہارے ساتھ اس کام میں شریک ہو جاؤں؟
وہ کہنے لگے :
اچھا آپ صرف ہمارے ساتھ چل کر لوگوں کو آمادۂ قتال کر دیں۔
انہوں نے فرمایا :
سبحان اللہ ! جس کو میں خود ناپسند کرتا ہوں اور اس سے مجتنب ہوں ، لوگوں کو اس کا حکم کیسے دوں؟ اگر میں ایسا کروں تو میں اللہ کے معاملے میں اس کے بندوں کا خیر خواہ نہیں ، بدخواہ ہوں گا۔
وہ کہنے لگے :
ہم پھر آپ کو مجبور کریں گے۔
انہوں نے کہا:
میں اس وقت بھی لوگوں سے یہی کہوں گا کہ اللہ سے ڈرو اور مخلوق کی رضا کی خاطر خالق کو ناراض نہ کرو۔
********
اس تفصیل سے واقعۂ حرہ کی بنیادی حقیقت معلوم ہو سکتی ہے کہ اس "شورش" کو اہل خیر و صلاح نے کس نظر سے دیکھا تھا؟
اس کے علاوہ واقعۂ حرہ کی تفصیلات جو کتب تواریخ میں درج ہیں وہ مبالغہ آمیز اور غیر مستند اس لیے بھی قرار دی جاتی ہیں کہ ان کا راوی "ابومخنف" ہے جو محدثین کے نزدیک بطور کذاب معروف ہے۔
ہاں اس جنگ حرہ میں یزید کی فوج نے حد سے تجاوز کر کے جو بھی کاروائیاں کی تھیں ، ان پر تمام علماء نے نکیر ہی کی ہے ، انہیں مستحسن کسی نے بھی نہیں کہا۔
یہاں یہ بھی یاد رہے کہ ان تاریخی حقائق کے بیان کا یہ مطلب نہیں کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں یزید سے کوئی محبت جتائی جا رہی ہو۔
نہیں ! بلکہ یہاں صرف تاریخی مواقف کا ذکر مقصود ہے۔
اور اس کے علاوہ ۔۔۔۔
یہ بھی یاد رکھا جانا چاہئے کہ کوئی بھی مسلمان چاہے اسے فاسق و فاجر اور قاتل و ظالم ہی کیوں نہ سمجھ لیا جائے اور چاہے اس نے قتل و غارت گری کا میدان ہی کیوں نہ گرم کر رکھا ہو ۔۔۔۔ تب بھی یہ تمام جرائم کبائر ہی شمار ہوں گے۔ اور کبائر کے ارتکاب سے کوئی مسلمان نہ دائرہ اسلام سے خارج ہوتا ہے نہ رحمت و مغفرتِ خداوندی کے امکان سے محروم۔
اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو اس کے تمام گناہ معاف کر سکتا ہے جیسا کہ اس نے کہا ہے کہ شرک کے علاوہ چاہوں گا تو دوسرے گناہ معاف کر دوں گا :
إِنَّ اللّهَ لاَ يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَن يَشَاء
( النساء:4 - آيت:48 )