محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,785
- پوائنٹ
- 1,069
والدین کا کردار اور بچوں پر اثر انداز
بشریٰ امیر
اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے اس پر احسانات کر کے اپنی ربوبیت کو منوایا ہے۔ اللہ کی ان تمام ان گنت نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت اولاد کی نعمت ہے یہ ایسی نعمت ہے جس کے سامنے دنیا کے تمام مال و اسباب بے قیمت ہیں۔ تمام دنیا کے مال خرج کر کے بھی اولاد جیسی نعمت نہیں خریدی جا سکتی۔ اس نعمت کی قدر ان سے پوچھو جو لوگ اس اولاد جیسی نعمت سے محروم ہیں اور وہ اس نعمت کو پانے کیلئے بے بہا پیسہ لٹا چکے ہیں دن رات اسی لگن میں اپنا قیمتی وقت اور اثاثہ لٹا رہے ہیں اور پھر اللہ جنہیں اولاد جیسی نعمت سے نواز دیتا ہے۔ اسے اس بات کا بھی پابند کر دیتا ہے کہ آیا اس نے اس نعمت کی قدر کی؟
چونکہ اولاد اللہ کی ا مانت ہے اور قیامت کے دن اس امانت کی ذمہ داری کے متعلق اس سے پوچھا جائے گا۔ کیا اس ذمہ داری کو بخوبی سرانجام دیا؟ کیا اس امانت کی حفاظت کی؟ اللہ نے اولاد کو دنیا کی زینت قرار دیا اور آخرت میں نیک اولاد کو صدقہ جاریہ بنا کر والدین کی آخرت سنوارنے کا سبب بنا دیا۔ اس دنیا کی زینت کو اگر اچھے اخلاق نہ دیئے جائیں اپنے غلط رویوں سے والدین ان کی شخصیت مسخ کر دیں تو یہی ننھے پھول اور کونپلیں رونق اور جمال بننے کی بجائے دنیا و آخرت میں وبال جان بن جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں اللہ کے نبی رحمة للعالمین کی ایک حدیث نظر قارئین کرتی ہوں۔
رسول اکرم نے فرمایا! تم میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں باز پرس ہو گی، حاکم ذمہ دار ہے اور اپنی رعایا کے بارے میں اس سے پوچھا جائے گا۔ مرد اپنے گھر کا ذمہ دار ہے اس سے اس کی رعایا کے بارے میں یعنی بیوی بچوں کے بارے میں سوال ہو گا۔ (متفق علیہ)
بچوں کی تربیت میں سب سے زیادہ والدین کا کردار ہے اور خاص طور پر ماں کی گود بچے کی پہلی درسگاہ اور تربیتی ادارہ ہے۔ عربی زبان میں بچہ کو طفل کہتے ہیں اور اس کی جمع اطفال ہے اور یہ معاشرے کے کم سن افراد ہیں جن کی عمریں مختلف ممالک میں ان کے قوانین کے مطابق مختلف ہوتی ہیں۔ مثلاً بعض ممالک میں 16 سال اور بعض ممالک میں 18 سال تک طفل، چائلڈ یا بچے کہا جاتا ہے لیکن اسلام میں طفل کا تصور بلوغت تک ہے چاہے وہ 13 سال کا ہو یا 16 سال کا بچہ کہلاتا ہے۔ بلوغت سے پہلے والی عمر بہت حساس ہوتی ہے، اس لئے والدین کے رویے بچوں پر انتہائی حد تک اثر انداز ہوتے ہیں۔
محترم قاریات! آج ہم اس حوالے سے ان والدین کے بارے میں دیکھتے ہیں جو ہر وقت لڑتے رہتے ہیں گھر میں تناؤ والا ماحول پیدا کئے رکھتے ہیں۔ ان کے اس رویے کے بچوں پر کیا اثرات ہوتے ہیں، ابھی چند دن پہلے کی بات ہے کہ چونگی امرسدھو کے ایک میاں بیوی کے باہمی جھگڑے نے بچوں کو رول کر رکھ دیا۔ پتہ نہیں ایسے والدین کو اس نعمت کی قدر نہیں ہوتی جو ان معصوموں کو اپنی انا اور ضد کی نذر کر دیتے ہیں۔ انہوں نے اپنے بچوں کو فٹ پاتھ پر چھوڑ دیا، بچوں نے رات ٹھنڈ میں بھوکے پیاسے گزاری، مقامی افراد نے جو بیس گھنٹوں بعد انہیں کھانا کھلایا، سڑک کنارے فٹ پاتھ پر بیٹھے ان کم سن ننھی جانوں کے اردگرد اب لوگوں کی بھیڑ جمع تھی۔ انہیں کھانے کو بھی مل رہا تھا لیکن ان ننھی جانوں نے سرد رات میں بھوک اور پیاس اور والدین کے رویے کو کیسے برداشت کیا۔ اس کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا، انہی بچوں میں 5 سالہ حسین بتا رہا تھا کہ امی ابو کی لڑائی ہوئی تو امی ہمیں سڑک پر چھوڑ گئیں، چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی ٹیم نے بچوں کو اپنی تحویل میں لے لیا۔
یہ تو ایک واقعہ ہے اس طرح کے واقعات ہزاروں کی تعداد میں ہوتے ہیں، والدین کے آئے روز کے لڑائی جھگڑے مائیں بچوں کو چھوڑ کر میکے جا بیٹھتی ہیں اور بچے سسرال میں چچا اور پھوپھیوں کے پاس ہوتے ہیں یا پھر وہ ساتھ میکے لے جاتی ہیں جہاں بچے اپ سیٹ ہو جاتے ہیں۔ باپ کو ملنے نہیں دیا جاتا بچے باپ کے لئے تڑپتے ہیں یا پھر صورتحال یہ ہوتی ہے کہ وہ ایک ہی گھر میں روزانہ لڑائی جھگڑا کر کے گھر کو جہنم بنائے رکھتے ہیں اور پھر یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کی اس چخ چخ کو ان کے بچے بھی سن رہے ہیں۔ ننھے معصوم ان کی اس چیخ و پکار تو تڑاخ سے ڈر اور سہم جاتے ہیں اور اندر ہی اندر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ذہنی مریض بن جاتے ہیں، ایک سٹڈی کے مطابق ٹینشن زدہ ماحول میں پیدا ہونے والے ایسے بچوں کی طبیعت میں چڑچڑاپن، غصہ، بدتمیزی اور ضد کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے۔ انہیں نیند کی خرابی اور صحت کے مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ ہر وقت سراور پیٹ درد ہوتا ہے، وہ اکثر بیمار رہتے ہیں اور بہن بھائیوں میں مثالی تعلقات قائم نہیں کر سکتے، ایسے بچے بچپن سے لڑکپن اور پھر جوانی تک کی منزلیں شخصیت کے بگاڑ کے ساتھ طے کرتے ہیں۔ ان کی ذاتی زندگی کی دراڑیں زندگی بھر جوں کی توں رہتی ہیں اس کے برعکس پرامن والدین کے بچے پرامن صحت مند، حاضر دماغ اور کھلے کھلے چہروں کے ساتھ ہنسی مذاق اور خوشگوار زندگی بسر کرتے ہیں۔
دیکھو! میاں بیوی میں جھگڑا ہو جانا کسی بات پر اختلاف ہو جانا فطری بات ہے۔ پڑھے لکھے والدین لڑتے بھی ہیں اور سمجھداری سے اپنے نکتہ نظر کو حق اور مخالفت کی بنا پر حل بھی کر لیتے ہیں۔ وہ زور زور سے توتکار نہیں کرتے تاکہ ان کے بچے متاثر نہ ہوں اور یہی بہترین ماں باپ ہیں۔ ایسے والدین بھی ہیں جو اونچی آواز میں لڑتے بولتے ہیں لیکن فوراً اپنی اپنی غلطی کا جائزہ لیتے ہوئے ایک دوسرے سے معذرت کرنے سے نہیں ہچکچاتے یعنی ان کے اس رویے کو بچے بھی خوب دیکھتے ہیں یعنی لڑنا اور پھر صلح کرنا انا اور ضد کو مار مار کر بھگا دینا ایسے والدین کے بچے بہت ہی تعاون کرنے والے اور صلح کن خوبیوں کے مالک بن جاتے ہیں۔ ایسے بچے معاشرے کیلئے بہترین ثابت ہوتے ہیں، جیسا کہ رسول اکرم کی حدیث ہے کہ جو میں پہلے لکھ چکی ہوں کہ باپ سے اولاد کے بارے پوچھا جائے گا۔ اب اس کے مطابق ماں اور باپ کو کیا کردار ادا کرنا ہے۔ گھر ایسی تربیت گاہ ہے جہاں ننھے منے بچے پرورش پاتے ہیں، ان کے کردار کی نشوونما ہوتی ہے، وہ ننھے وہیں سے سب کچھ سیکھتے ہیں، اس لئے والدین پر فرض ہے کہ وہ اپنی انا اور ضد کو بالائے طاق رکھ کر بچوں کی تربیت کریں۔ بچوں کی تربیت میں کوتاہی یا سستی دراصل اللہ کی دی ہوئی امانت میں خیانت ہے۔ اس نعمت کی قدر دانی کرتے ہوئے اور اپنے فرض کی ادائیگی سمجھتے ہوئے اس ننھے کے کردار کو اپنے اعلیٰ کردار سے خوبصورت بنائیں۔ رسول اکرمﷺ نے فرمایا ایک باپ کا اپنے بیٹے کو اعلیٰ اخلاق سے بہتر کوئی تحفہ نہیں۔ اپنے دنیا کمانے کے قیمتی وقت میں سے مناسب وقت بچوں کو بھی دیں لڑکے اور لڑکی میں فرق نہ کریں، بچوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں، بچوں کو بڑوں کا ادب کرنا سکھائیں، بچوں کے سامنے برے فعل سے احتراز کریں۔ جیسے بیوی پر ہاتھ اٹھانا، بچوں میں شدت پسندی کو رواج دے گا۔ بچے بھی مارکٹائی کریں گے، بچوں کے سامنے تمباکو نوشی گالم گلوچ اور اس طرح کے غیرمعیوب کردار سے بچہ بدکردار ہو جاتا ہے، وہ وہی کرے گا جو اس کا باپ کرتا ہے۔
اس طرح جو والدین اپنے بچے کے سامنے گھر کا ماحول خوشگوار رکھتے ہیں بچہ جب سات سال کا ہو جاتا ہے اسے نماز کی عادت ڈالتے ہیں، سات سے دس سال کی عمر میں تقریباً پانچ ہزار مرتبہ نماز کا وقت آتا ہے۔ جب وہ بچہ پانچ ہزار مرتبہ نماز باپ کے ساتھ پڑھے گا اور بچی ماں کے ساتھ مصلے پر کھڑی ہو کر پڑھے گی تو کیا وہ اسے بعد میں چھوڑ پائے گا۔ اس طرح طفل کے زمانے میں جو کردار بنائے جاتے ہیں وہ تا عمر بچے کے ساتھ رہتے ہیں، اللہ والدین کو حقیقی طور پر باکردار شخصیات کے ساتھ بچوں کی تربیت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
(وماتوفیقی الاباللہ)