• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

والد کا اپنی زندگی میں ’’وراثت‘‘ تقسیم کرنا

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
سوال : كيا كوئى شخص اپنى زندگى ميں ہى اپنے ورثاء كے مابين اپنا مال تقسيم كر سكتا ہے ؟
جوابات :
١۔ جی ہاں! والد اپنی زندگی میں اپنی اولاد میں میراث تقسیم کر سکتا ہے اور اسے ہبہ کہیں گے۔ اگرچہ بہتر یہی ہے کہ زندگی میں تقسیم نہ کرے۔

٢۔ مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں ہے: " ہم آپ كے والد كو نصيحت كرتے ہيں كہ وہ اپنى زندگى ميں اپنا مال تقسيم نہ كرے، ہو سكتا ہے وہ اس كے بعد اس كا محتاج اور ضرورتمند ہو " انتہى.ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 16 / 463 ).

٣۔ اپنی زندگی میں اپنا مال اولاد کو بطور ہبہ دینا (بشرطیکہ وہ کسی کو نقصان نہ پہنچانا چاہے) جائز ہے، لیکن اس کے اصول ہبہ (یعنی اولاد کے مابین تسویہ وغیرہ) کے ہوں گے، تقسیم وراثت کے ہرگز نہ ہوں گے، کیونکہ اپنی زندگی میں اپنی وراثت کی تقسیم جائز نہیں۔

٤۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں اپنی زندگی میں اپنی وراثت اپنی رائے کے مطابق نہیں بلکہ شرعی اصولوں کے مطابق تقسیم کرنا چاہتا ہوں تو پھر بھی یہ جائز نہیں۔ تقسیم وراثت کا تعلق مورث کے فوت کے ساتھ ہے، مرنے کے بعد ہی وراثت کی تقسیم ہو سکتی ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنی اولاد (مثلا دو بیٹوں اور دو بیٹیوں) میں اپنی وراثت شرعی تقسیم کے مطابق تقسیم کر دیتا ہے، اور اس کے فوت ہونے سے پہلے پہلے اس کی اولاد میں سے کوئی فوت ہوجائے یا کوئی نیا وراثت وجود میں آجائے تو ہر چیز تلپٹ ہوجائے گی۔ لہٰذا تقسیم وراثت زندگی میں جائز نہیں۔

میری الجھنیں-
١۔ : میراث تو اس دولت کو کہتے ہیں، جو کوئی شخص مرنے کے بعد چھوڑ جائے۔ اگر کوئی شخص اپنی اپنی زندگی میں اپنی اولاد یا کسی اور کو کچھ (یا سب کچھ) دیتا ہے، تو کیا وہ ایسا کرنے کا مجاز نہیں؟؟؟ یہ واراثت کی تقسیم تو نہیں ہے کہ اس تقسیم پر ’’وراثت کا قانون‘‘ لاگوہو۔ وراثت کے قانون پر ’’عملدر آمد‘‘ کی ذمہ داری تو ورثاء پرعائد ہوتی ہے۔ صاحب مال پرتو یہ ’’ذمہ داری‘‘ عائد ہو نہیں سکتی کہ وہ فوت ہوگا تو اس کا مال ’’مال وراثت‘‘ اور قابل تقسیم بنے گا۔ گویا اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنا مال اولاد یا کسی اور کو دیتا ہے (’’ ہبہ‘‘ کرتا ہے’’تقسیم‘‘ نہیں) تو وہ ’’میراث کی تقسیم‘‘ ہر گز نہیں ہے، جس پر ’’قانون وراثت‘‘ لاگو ہو۔

٢۔ ویسے توکسی کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں ہوتا، لیکن ہر عہد میں انسانوں کی ایک اوسط عمرضرور ہوتی ہے۔ جیسےآج کل انسان کی اوسط عمر ساٹھ ستر سال کے قریب ہے۔ اگر کوئی شخص پچاس سال کی عمر کا ہوجائے تو وہ ایسا سوچنے میں برحق ہوگا کہ اب وہ موت سے زیادہ قریب ہے۔ اوروہ چاہتا ہو کہ مرنے سے قبل اپنی اولادوں میں ان کی ضرورت کے مطابق اپنی جائیداد (کا بیشتر حصہ) اس طرح تقسیم کرجائے یا ہبہ کرجائے کہ کسی کو نقصان پہنچانے کا ارادہ بھی نہ ہواور اپنی بقیہ متوقع زندگی کے لئے کچھ دولت اپنے پاس بھی رہ جائے، تو اس میں کیا مضائقہ ہے؟؟؟ اور ایسا کرنا ’’بہتر‘‘ کیوں نہیں ہے؟؟؟

٣۔ اصول ہبہ (یعنی اولاد کے مابین تسویہ وغیرہ( کیا ہیں؟ اس کا شرعی کلیہ کیا ہے؟؟؟

٤۔ اگر کوئی اپنی زندگی میں اپنا بیشتر مال موجود (اور متوقع ورثاء) اولاد میں تقسیم کردے تو ہر چیز تلپٹ کیسے ہوجائے گی؟؟؟ اگر بالفرض محال جس اولاد کو اس نے کوئی جائیداد دی ہے، وہ خدا نخواستہ انتقال کر بھی جائے تو اس کی چھوڑی ہوئی جائداد ’’وراثت‘‘ بن جائے گی۔ اس میں ’’مسئلہ کیا ہے؟؟ اسی طرح کسی کے مرنے سے پہلے کوئی مزید وارث پیدا ہو بھی جائے تو کیا ہوگا۔ باپ اپنے پاس موجود مال سے اسے کچھ دے سکتا ہے۔ اور مرنے کے بعد اس کے چھوڑے ہوئے ترکہ میں سے سب کو قانون وراثت کے تحت حصہ ملے گا، خواہ زنددگی میں باپ نے کسی کو کچھ دیا ہو یا نہ دیا ہو۔

٥۔ انسان اپنی اولاد یا قریبی ورثاء پر اس کی ضرورت کے مطابق خرچ کرتا ہے، جیسے سب سے زیادہ پہلی اولاد پر اور سب سے کم آخری اولاد پر خرچ ہوتا ہے۔ اسی طرح میڈیسین کی تعلیم حاصل کرنے والے (یا بیرون ملک پڑھنے والے ) پر زیادہ خرچ ہوتا ہے بہ نسبت ان اولادوں کے جو عام تعلیم حاصل کر رہے ہوں۔ کیا یہ ضروری ہے کہ باپ اپنی ہر اولاد مساوی رقم خرچ کرے؟؟؟ انہیں مساوی سہولتیں فراہم کرے۔ یا یہ ضروری ہے کہ ہر ایک کی ’’ضرورت‘‘ کے مطابق اس پر خرچ کرے، کسی کے ساتھ ناانصافی نہ کرے اور کسی کو یکسر محروم نہ کرے۔

٦۔ کوئی اپنی زندگی میں ہی (کم از کم) اپنی ہر اولاد نرینہ کو علیحدہ علیحدہ اور یکساں رہائشی سہولت (ان کے نام کر کے) فراہم کرجائے تو اس سے اس کی اپنی ’’پراپرٹی‘‘ یقینا" سکڑ کر صرف اس کی ’’ذاتی ضرورت‘‘ کے مطابق رہ جائے گی۔ تو کیا ایسا کرنا غلط ہوگا؟؟؟ کیونکہ کوئی اس حال میں مرنا نہیں چاہتا ہو کہ ساری پراپرٹی اس کے نام پر ہو اور اس کے مرنے کے بعد وہ ’’شرعی اصولوں کے مطابق تقسیم" ہونے کی بجائے ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ کے مطابق بٹ جائے۔ آج کل یہ صورتحال عام ہے۔ جائییداد کے بٹوارے میں لڑائیان عام ہیں،ورثاء ایک دوسرے کوہی نہیں بلکہ ’’وراثت‘‘ جلد پانے کے لئے ’’صاحب مال‘‘ کو بھی قتل کر نے سے نہیں چوکتے یا باپ کے جلد مرنے کی ’’تمنا‘‘ کرنے لگتے ہیں۔ کیا اس نفسا نفسی کے دور مین یہ بہتر نہیں کہ جب کوئی صاحب مال پچاس ساٹھ سال کا ہونے لگے تو بتدریج اپنے ’’متوقع وارثوں‘‘ کو اپنی جائداد ہبہ کرتا جائے تاکہ ’’ترکہ‘‘ اتنا نہ چھوڑ سکے کہ اس پر لڑائی جھگڑے کا امکان پیدا ہو۔

اصحاب علم سے اپنی ’’ذاتی رائے‘‘ کے مطابق نہیں بلکہ ’’قانون شریعت‘‘ کے مطابق جواب کی درخواست ہے۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
میری الجھنیں
١۔ : میراث تو اس دولت کو کہتے ہیں، جو کوئی شخص مرنے کے بعد چھوڑ جائے۔ اگر کوئی شخص اپنی اپنی زندگی میں اپنی اولاد یا کسی اور کو کچھ (یا سب کچھ) دیتا ہے، تو کیا وہ ایسا کرنے کا مجاز نہیں؟؟؟ یہ واراثت کی تقسیم تو نہیں ہے کہ اس تقسیم پر ’’وراثت کا قانون‘‘ لاگوہو۔ وراثت کے قانون پر ’’عملدر آمد‘‘ کی ذمہ داری تو ورثاء پرعائد ہوتی ہے۔ صاحب مال پرتو یہ ’’ذمہ داری‘‘ عائد ہو نہیں سکتی کہ وہ فوت ہوگا تو اس کا مال ’’مال وراثت‘‘ اور قابل تقسیم بنے گا۔ گویا اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنا مال اولاد یا کسی اور کو دیتا ہے (’’ ہبہ‘‘ کرتا ہے’’تقسیم‘‘ نہیں) تو وہ ’’میراث کی تقسیم‘‘ ہر گز نہیں ہے، جس پر ’’قانون وراثت‘‘ لاگو ہو۔
وہ ایسا کرنے کا مجاز ہے، بشرطیکہ ہبہ کی شرائط ملحوظِ خاطر رہیں! جیسا کہ ابو الحسن علوی بھائی نے مختلف فتاویٰ یہاں نقل کیے ہیں۔

٢۔ ویسے توکسی کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں ہوتا، لیکن ہر عہد میں انسانوں کی ایک اوسط عمرضرور ہوتی ہے۔ جیسےآج کل انسان کی اوسط عمر ساٹھ ستر سال کے قریب ہے۔ اگر کوئی شخص پچاس سال کی عمر کا ہوجائے تو وہ ایسا سوچنے میں برحق ہوگا کہ اب وہ موت سے زیادہ قریب ہے۔ اوروہ چاہتا ہو کہ مرنے سے قبل اپنی اولادوں میں ان کی ضرورت کے مطابق اپنی جائیداد (کا بیشتر حصہ) اس طرح تقسیم کرجائے یا ہبہ کرجائے کہ کسی کو نقصان پہنچانے کا ارادہ بھی نہ ہواور اپنی بقیہ متوقع زندگی کے لئے کچھ دولت اپنے پاس بھی رہ جائے، تو اس میں کیا مضائقہ ہے؟؟؟ اور ایسا کرنا ’’بہتر‘‘ کیوں نہیں ہے؟؟؟
اپنی جائیداد کا کچھ حصہ اپنی زندگی میں ہبہ کر دینا اور کچھ اپنے پاس رکھ لینا بالکل جائز ہے، اس میں کوئی قباحت نہیں۔
البتہ اپنی مکمل جائیداد اپنی زندگی میں ہبہ کرنا بہتر نہیں، کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ اس کا محتاج اور ضرورت مند ہو۔

٣۔ اصول ہبہ (یعنی اولاد کے مابین تسویہ وغیرہ) کیا ہیں؟ اس کا شرعی کلیہ کیا ہے؟؟؟
اولاد کے درمیان تسویہ سے مراد بیٹے اور بیٹی کو برابر دینا ہے، جبکہ حنابلہ کے نزدیک اس سے مراد میراث کی طرح بیٹے کو بیٹی سے دوگنا دینا ہے۔
اور یہ تسویہ صرف اولاد میں ضروری ہے، دیگر افراد میں نہیں!

٤۔ اگر کوئی اپنی زندگی میں اپنا بیشتر مال موجود (اور متوقع ورثاء) اولاد میں تقسیم کردے تو ہر چیز تلپٹ کیسے ہوجائے گی؟؟؟ اگر بالفرض محال جس اولاد کو اس نے کوئی جائیداد دی ہے، وہ خدا نخواستہ انتقال کر بھی جائے تو اس کی چھوڑی ہوئی جائداد ’’وراثت‘‘ بن جائے گی۔ اس میں ’’مسئلہ کیا ہے؟؟ اسی طرح کسی کے مرنے سے پہلے کوئی مزید وارث پیدا ہو بھی جائے تو کیا ہوگا۔ باپ اپنے پاس موجود مال سے اسے کچھ دے سکتا ہے۔ اور مرنے کے بعد اس کے چھوڑے ہوئے ترکہ میں سے سب کو قانون وراثت کے تحت حصہ ملے گا، خواہ زنددگی میں باپ نے کسی کو کچھ دیا ہو یا نہ دیا ہو۔
عزیز بھائی! زندگی میں کچھ مال بطور ہبہ دینے میں کوئی اشکال نہیں۔ جیسے پہلے وضاحت ہو چکی ہے۔
اشکال تو اپنی زندگی میں اپنا پورا مال بطورِ وراثت تقسیم کرنے میں ہے، کہ پھر مرنے کے بعد تقسیم وراثت نہ ہو۔
میں نے عرض کیا تھا کہ
اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنی اولاد (مثلا دو بیٹوں اور دو بیٹیوں) میں اپنی وراثت شرعی تقسیم کے مطابق تقسیم کر دیتا ہے، اور اس کے فوت ہونے سے پہلے پہلے اس کی اولاد میں سے کوئی فوت ہوجائے یا کوئی نیا وراثت وجود میں آجائے تو ہر چیز تلپٹ ہوجائے گی۔
آپ شائد میری بات کا مطلب نہیں سمجھے اور کہا کہ کیا مسئلہ پیدا ہوگا، اگر کوئی فوت ہو بھی گیا تو اس کی چھوڑی ہوئی جائیداد وراثت بن جائے گی۔
ہرگز نہیں بھائی! یہ آپ سے کس نے کہا؟؟؟

اگر بالفرض کسی آدمی کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہوں اور وہ فوت ہوجائے تو شرعی طور پر جائیداد میں ہر بیٹی کو چھٹا حصہ اور ہر بیٹے کو تیسرا حصہ آتا ہے۔
لیکن اگر اس کی زندگی میں ایک بیٹا (مثلاً) فوت ہوجائے تو ایسا نہیں ہوگا کہ اس آدمی کے مرنے کے بعد اس کی زندگی میں فوت شدہ بیتے کو بھی تیسرا حصہ دیا جائے گا (جو اس کے ورثا یعنی پوتوں وغیرہ میں تقسیم کیا جائے گا)
بلکہ پوری تقسیم تبدیل ہوجائے گی، پہلے فوت شدہ بیٹے کو کچھ نہیں ملے گا، موجودہ ایک بیٹے اور دو بیٹیوں میں جائیداد اس طرح تقسیم ہوگی کہ ہر بیٹی چوتھا حصہ لے گی، جبکہ بیٹا آدھا مال لے جائے گا۔
اور اگر بالفرض اس کے فوت ہونے سے پہلے ایک بیٹے کا مزید اضافہ ہو جاتا ہے تو ایسی صورت میں اس شخص کے فوت ہونے پر تین بیٹوں اور دو بیٹیوں میں مال اس طرح تقسیم ہوگا کہ ہر بیٹی کو آٹھواں حصہ، اور ہر بیٹے کو چوتھا حصہ ملے گا۔
اب آپ ہی بتائیے کہ زندگی میں جائیداد تقسیم کرنے سے بعد میں کسی وارث کے اضافہ یا کمی سے پوری تقسیم درہم برہم ہوئی یا نہیں؟؟؟
یہی میری مراد تھی!

٥۔ انسان اپنی اولاد یا قریبی ورثاء پر اس کی ضرورت کے مطابق خرچ کرتا ہے، جیسے سب سے زیادہ پہلی اولاد پر اور سب سے کم آخری اولاد پر خرچ ہوتا ہے۔ اسی طرح میڈیسین کی تعلیم حاصل کرنے والے (یا بیرون ملک پڑھنے والے ) پر زیادہ خرچ ہوتا ہے بہ نسبت ان اولادوں کے جو عام تعلیم حاصل کر رہے ہوں۔ کیا یہ ضروری ہے کہ باپ اپنی ہر اولاد مساوی رقم خرچ کرے؟؟؟ انہیں مساوی سہولتیں فراہم کرے۔ یا یہ ضروری ہے کہ ہر ایک کی ’’ضرورت‘‘ کے مطابق اس پر خرچ کرے، کسی کے ساتھ ناانصافی نہ کرے اور کسی کو یکسر محروم نہ کرے۔
http://www.saaid.net/Doat/yahia/3.htm

٦۔ کوئی اپنی زندگی میں ہی (کم از کم) اپنی ہر اولاد نرینہ کو علیحدہ علیحدہ اور یکساں رہائشی سہولت (ان کے نام کر کے) فراہم کرجائے تو اس سے اس کی اپنی ’’پراپرٹی‘‘ یقینا" سکڑ کر صرف اس کی ’’ذاتی ضرورت‘‘ کے مطابق رہ جائے گی۔ تو کیا ایسا کرنا غلط ہوگا؟؟؟ کیونکہ کوئی اس حال میں مرنا نہیں چاہتا ہو کہ ساری پراپرٹی اس کے نام پر ہو اور اس کے مرنے کے بعد وہ ’’شرعی اصولوں کے مطابق تقسیم" ہونے کی بجائے ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ کے مطابق بٹ جائے۔ آج کل یہ صورتحال عام ہے۔ جائیداد کے بٹوارے میں لڑائیاں عام ہیں،ورثاء ایک دوسرے کوہی نہیں بلکہ ’’وراثت‘‘ جلد پانے کے لئے ’’صاحب مال‘‘ کو بھی قتل کر نے سے نہیں چوکتے یا باپ کے جلد مرنے کی ’’تمنا‘‘ کرنے لگتے ہیں۔ کیا اس نفسا نفسی کے دور مین یہ بہتر نہیں کہ جب کوئی صاحب مال پچاس ساٹھ سال کا ہونے لگے تو بتدریج اپنے ’’متوقع وارثوں‘‘ کو اپنی جائداد ہبہ کرتا جائے تاکہ ’’ترکہ‘‘ اتنا نہ چھوڑ سکے کہ اس پر لڑائی جھگڑے کا امکان پیدا ہو۔
اپنی زندگی میں کچھ جائیداد اپنی اولاد کو ہبہ کر دینا جائز ہے، اگر شرائط ملحوظ رکھی جائیں، جیسا کہ پیچھے گزر چکا ہے۔

واللہ تعالیٰ اعلم!
 
شمولیت
جون 13، 2018
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
44
زندگی میں ہی وراثت کی تقسیم میں اپنی جائیداد میں سے کچھ حصہ اپنی زندگی میں ہی اپنے ورثاء کے مابین تقسیم کرنا چاہتا ہوں , میرے ورثاء میں دو بیٹے , سات بیٹیاں اور دو یتیم پوتے اور تین پوتیاں ہیں, میری زوجہ بھی بقید حیات ہے ۔ جبکہ والدین اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں ۔ میں ان مذکورہ ا فراد میں اپنا مال کیسے تقسیم کر سکتا ہوں ۔ سائل: محمد سراج دین , کراچی. الجواب بعون الوہاب پہلی بات : اپنی زندگی میں اگر کوئی شخص اپنا مال اپنی اولاد میں تقسیم کرے تو اس پر لازم ہے کہ وہ بیٹوں اور بیٹیوں کو برابر دے۔ بیٹوں اور بیٹیوں میں سے کسی کو دوسرے سے زیادہ نہیں دے سکتا ۔ سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرے والد مجھے نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر آئے اور کہا: إِنِّي نَحَلْتُ ابْنِي هَذَا غُلاَمًا، فَقَالَ: «أَكُلَّ وَلَدِكَ نَحَلْتَ مِثْلَهُ»، قَالَ: لاَ، قَالَ: «فَارْجِعْهُ» میں نے اپنے اس بیٹے کو ایک غلام ہبہ کیا ہے ۔ تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے پوچھا "کیا تو نے اپنی ساری اولاد کو اسی طرح دیا ہے؟" تو انہوں نے عرض کیا "نہیں!" تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "پھر اس سے بھی واپس لے لے" صحیح البخاری : 2586
ایک دوسری روایت میں ہے کہ ا نہیں نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : «فَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْدِلُوا بَيْنَ أَوْلاَدِكُمْ» اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد میں انصاف کرو۔ صحیح البخاری : 2587 اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : «لاَ تُشْهِدْنِي عَلَى جَوْرٍ» , «لاَ أَشْهَدُ عَلَى جَوْرٍ» مجھے ظلم پر گواہ نہ بنا , میں ظلم پر گواہ نہیں بنتا! صحیح البخاری : 2650
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اولاد کو ہبہ کرنے یا تحفہ دینے میں سب کو برابر رکھنا چاہیے , کسی کو دوسرے پر فوقیت نہیں دینی ۔ یاد رہے کہ انسان جو کچھ اپنی زندگی میں اپنی اولاد کو دیتا ہے وہ ہبہ یا عطیہ ہوتا ہے , ترکہ نہیں ! ترکہ تب بنتا ہے جب مالک فوت ہو جائے , مال چھوڑ جائے ۔ ترکہ کا اصول ہے کہ بیٹوں کو بیٹیوں کی نسبت دوگنا ملتا ہے ۔ جبکہ ہبہ یا تحفہ کا اصول ہے کہ ساری اولاد کو برابر رکھا جاتا ہے۔
دوسری بات: انسان کے پوتے , اور پوتیاں, خواہ یتیم ہوں یا انکے والدین زندہ ہوں , جب تک اسکے بیٹوں میں سے کوئی ایک بھی زندہ ہے , وارث نہیں بنتے ۔ ہاں انکے لیے انسان چاہے تو وصیت کر سکتا ہے کہ میرے بعد ان پوتوں , پوتیوں کو میرے مال میں سے اتنا حصہ دے دیا جائے ۔
کیونکہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : «أَلْحِقُوا الفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا، فَمَا بَقِيَ فَهُوَ لِأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ» جنکے حصے کتاب وسنت میں مقرر شدہ ہیں انہیں انکے حصے دو , اور جو مال باقی بچے , وہ قریبی ترین مرد رشتہ دار کا ہے ۔ صحیح البخاری: 6732
اور یہ بات تو معلوم ہے کہ پوتوں کی نسبت بیٹے انسان کے زیادہ قریبی ہوتے ہیں ۔ لہذا ترکہ کے حقدار بیٹے ہیں پوتے نہیں۔ اسی طرح اگر اپنی زندگی میں کوئی اپنے پوتوں , پوتیوں کو کچھ تحفہ دینا چاہے تو بھی دے سکتا ہے۔
تیسری بات: انسان اپنے مال میں سے ایک تہائی سے زیادہ اپنی زندگی میں ہبہ , یا ایک تہائی سے زائد کی وصیت نہیں کرسکتا۔
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : مَرِضْتُ، فَعَادَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ادْعُ اللَّهَ أَنْ لاَ يَرُدَّنِي عَلَى عَقِبِي، قَالَ: «لَعَلَّ اللَّهَ يَرْفَعُكَ وَيَنْفَعُ بِكَ نَاسًا»، قُلْتُ: أُرِيدُ أَنْ أُوصِيَ، وَإِنَّمَا لِي ابْنَةٌ، قُلْتُ: أُوصِي بِالنِّصْفِ؟ قَالَ: «النِّصْفُ كَثِيرٌ»، قُلْتُ: فَالثُّلُثِ؟ قَالَ: «الثُّلُثُ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ أَوْ كَبِيرٌ»، قَالَ: فَأَوْصَى النَّاسُ بِالثُّلُثِ، وَجَازَ ذَلِكَ لَهُمْ میں بیمار ہوا تو نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے میری عیادت کی ۔ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلى اللہ علیہ وسلم ! اللہ سے دعاء فرمائیے کہ اللہ مجھے ایڑی کے بل لوٹا نہ دے (یعنی جس شہر مکہ سے میں نے ہجرت کی تھی اسی شہر میں موت نہ دے) تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " شاید کہ اللہ تعالى تجھے اٹھائے گا اور تجھ سے لوگ فائدہ حاصل کریں گے " میں نے کہا میں چاہتا ہوں کہ وصیت کروں اور میری صرف ایک ہی بیٹی ہے ۔ تو کیا میں اپنے آدھے مال کی وصیت کر دوں ؟ تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "آدھا تو بہت زیادہ ہے" تو میں نے کہا پھر ایک تہائی مال کی وصیت کردوں؟ تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا "ہاں ایک تہائی کی , اور ایک تہائی بھی بہت زیادہ ہے" تو لوگوں نے ایک تہائی کی وصیت کی اور نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم نے اسے جائز قرار دیا ۔ صحیح البخاری : 2744
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : «أَنَّ رَجُلًا أَعْتَقَ سِتَّةَ مَمْلُوكِينَ لَهُ عِنْدَ مَوْتِهِ، لَمْ يَكُنْ لَهُ مَالٌ غَيْرَهُمْ، فَدَعَا بِهِمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَزَّأَهُمْ أَثْلَاثًا، ثُمَّ أَقْرَعَ بَيْنَهُمْ، فَأَعْتَقَ اثْنَيْنِ، وَأَرَقَّ أَرْبَعَةً، وَقَالَ لَهُ قَوْلًا شَدِيدًا» ایک آدمی نے اپنی موت سے پہلے چھ غلام آزاد کیے , جبکہ اسکے پاس انکے سوا اور کوئی مال نہیں تھا۔ تو نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلایا اور انہیں تین حصوں (دو دو کے گروہ) میں تقسیم کیا ۔ پھر انکے درمیان قرعہ اندازی کی, اور ان میں سے دو کو آزاد کر دیا اور باقی چار کو غلام ہی رکھا ۔ اور اس (آزاد کرنے والے ) کے بارہ میں بہت سخت بات کہی۔ صحیح مسلم : 1668

ان مذکورہ بالا دلائل کی روشنی میں آپ اپنی زندگی میں اپنے کل مال میں سے ایک تہائی مال اپنے ورثاء میں تقسیم کرسکتے ہیں ۔ جس میں سے اولاد کو برابر دینا ہوگا , اور زوجہ اور پوتوں, پوتیوں کو اپنی صوابدید کے مطابق جتنا جتنا چاہیں دے سکتے ہیں ۔ ھذا, واللہ تعالى أعلم, وعلمہ أکمل وأتم ورد العلم إلیہ أسلم والشکر والدعاء لمن نبہ وأرشد وقوم , وصلى اللہ على نبینا محمد وآلہ وسلم

وکتبہ: أبو عبد الرحمن محمد رفیق طاہر عفا اللہ عنہ

مصدر: http://www.rafiqtahir.com/ur/play-swal-589.html
 
Top