- شمولیت
- ستمبر 26، 2011
- پیغامات
- 2,767
- ری ایکشن اسکور
- 5,409
- پوائنٹ
- 562
سوال : كيا كوئى شخص اپنى زندگى ميں ہى اپنے ورثاء كے مابين اپنا مال تقسيم كر سكتا ہے ؟
جوابات :
١۔ جی ہاں! والد اپنی زندگی میں اپنی اولاد میں میراث تقسیم کر سکتا ہے اور اسے ہبہ کہیں گے۔ اگرچہ بہتر یہی ہے کہ زندگی میں تقسیم نہ کرے۔
٢۔ مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں ہے: " ہم آپ كے والد كو نصيحت كرتے ہيں كہ وہ اپنى زندگى ميں اپنا مال تقسيم نہ كرے، ہو سكتا ہے وہ اس كے بعد اس كا محتاج اور ضرورتمند ہو " انتہى.ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 16 / 463 ).
٣۔ اپنی زندگی میں اپنا مال اولاد کو بطور ہبہ دینا (بشرطیکہ وہ کسی کو نقصان نہ پہنچانا چاہے) جائز ہے، لیکن اس کے اصول ہبہ (یعنی اولاد کے مابین تسویہ وغیرہ) کے ہوں گے، تقسیم وراثت کے ہرگز نہ ہوں گے، کیونکہ اپنی زندگی میں اپنی وراثت کی تقسیم جائز نہیں۔
٤۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں اپنی زندگی میں اپنی وراثت اپنی رائے کے مطابق نہیں بلکہ شرعی اصولوں کے مطابق تقسیم کرنا چاہتا ہوں تو پھر بھی یہ جائز نہیں۔ تقسیم وراثت کا تعلق مورث کے فوت کے ساتھ ہے، مرنے کے بعد ہی وراثت کی تقسیم ہو سکتی ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنی اولاد (مثلا دو بیٹوں اور دو بیٹیوں) میں اپنی وراثت شرعی تقسیم کے مطابق تقسیم کر دیتا ہے، اور اس کے فوت ہونے سے پہلے پہلے اس کی اولاد میں سے کوئی فوت ہوجائے یا کوئی نیا وراثت وجود میں آجائے تو ہر چیز تلپٹ ہوجائے گی۔ لہٰذا تقسیم وراثت زندگی میں جائز نہیں۔
میری الجھنیں-
١۔ : میراث تو اس دولت کو کہتے ہیں، جو کوئی شخص مرنے کے بعد چھوڑ جائے۔ اگر کوئی شخص اپنی اپنی زندگی میں اپنی اولاد یا کسی اور کو کچھ (یا سب کچھ) دیتا ہے، تو کیا وہ ایسا کرنے کا مجاز نہیں؟؟؟ یہ واراثت کی تقسیم تو نہیں ہے کہ اس تقسیم پر ’’وراثت کا قانون‘‘ لاگوہو۔ وراثت کے قانون پر ’’عملدر آمد‘‘ کی ذمہ داری تو ورثاء پرعائد ہوتی ہے۔ صاحب مال پرتو یہ ’’ذمہ داری‘‘ عائد ہو نہیں سکتی کہ وہ فوت ہوگا تو اس کا مال ’’مال وراثت‘‘ اور قابل تقسیم بنے گا۔ گویا اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنا مال اولاد یا کسی اور کو دیتا ہے (’’ ہبہ‘‘ کرتا ہے’’تقسیم‘‘ نہیں) تو وہ ’’میراث کی تقسیم‘‘ ہر گز نہیں ہے، جس پر ’’قانون وراثت‘‘ لاگو ہو۔
٢۔ ویسے توکسی کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں ہوتا، لیکن ہر عہد میں انسانوں کی ایک اوسط عمرضرور ہوتی ہے۔ جیسےآج کل انسان کی اوسط عمر ساٹھ ستر سال کے قریب ہے۔ اگر کوئی شخص پچاس سال کی عمر کا ہوجائے تو وہ ایسا سوچنے میں برحق ہوگا کہ اب وہ موت سے زیادہ قریب ہے۔ اوروہ چاہتا ہو کہ مرنے سے قبل اپنی اولادوں میں ان کی ضرورت کے مطابق اپنی جائیداد (کا بیشتر حصہ) اس طرح تقسیم کرجائے یا ہبہ کرجائے کہ کسی کو نقصان پہنچانے کا ارادہ بھی نہ ہواور اپنی بقیہ متوقع زندگی کے لئے کچھ دولت اپنے پاس بھی رہ جائے، تو اس میں کیا مضائقہ ہے؟؟؟ اور ایسا کرنا ’’بہتر‘‘ کیوں نہیں ہے؟؟؟
٣۔ اصول ہبہ (یعنی اولاد کے مابین تسویہ وغیرہ( کیا ہیں؟ اس کا شرعی کلیہ کیا ہے؟؟؟
٤۔ اگر کوئی اپنی زندگی میں اپنا بیشتر مال موجود (اور متوقع ورثاء) اولاد میں تقسیم کردے تو ہر چیز تلپٹ کیسے ہوجائے گی؟؟؟ اگر بالفرض محال جس اولاد کو اس نے کوئی جائیداد دی ہے، وہ خدا نخواستہ انتقال کر بھی جائے تو اس کی چھوڑی ہوئی جائداد ’’وراثت‘‘ بن جائے گی۔ اس میں ’’مسئلہ کیا ہے؟؟ اسی طرح کسی کے مرنے سے پہلے کوئی مزید وارث پیدا ہو بھی جائے تو کیا ہوگا۔ باپ اپنے پاس موجود مال سے اسے کچھ دے سکتا ہے۔ اور مرنے کے بعد اس کے چھوڑے ہوئے ترکہ میں سے سب کو قانون وراثت کے تحت حصہ ملے گا، خواہ زنددگی میں باپ نے کسی کو کچھ دیا ہو یا نہ دیا ہو۔
٥۔ انسان اپنی اولاد یا قریبی ورثاء پر اس کی ضرورت کے مطابق خرچ کرتا ہے، جیسے سب سے زیادہ پہلی اولاد پر اور سب سے کم آخری اولاد پر خرچ ہوتا ہے۔ اسی طرح میڈیسین کی تعلیم حاصل کرنے والے (یا بیرون ملک پڑھنے والے ) پر زیادہ خرچ ہوتا ہے بہ نسبت ان اولادوں کے جو عام تعلیم حاصل کر رہے ہوں۔ کیا یہ ضروری ہے کہ باپ اپنی ہر اولاد مساوی رقم خرچ کرے؟؟؟ انہیں مساوی سہولتیں فراہم کرے۔ یا یہ ضروری ہے کہ ہر ایک کی ’’ضرورت‘‘ کے مطابق اس پر خرچ کرے، کسی کے ساتھ ناانصافی نہ کرے اور کسی کو یکسر محروم نہ کرے۔
٦۔ کوئی اپنی زندگی میں ہی (کم از کم) اپنی ہر اولاد نرینہ کو علیحدہ علیحدہ اور یکساں رہائشی سہولت (ان کے نام کر کے) فراہم کرجائے تو اس سے اس کی اپنی ’’پراپرٹی‘‘ یقینا" سکڑ کر صرف اس کی ’’ذاتی ضرورت‘‘ کے مطابق رہ جائے گی۔ تو کیا ایسا کرنا غلط ہوگا؟؟؟ کیونکہ کوئی اس حال میں مرنا نہیں چاہتا ہو کہ ساری پراپرٹی اس کے نام پر ہو اور اس کے مرنے کے بعد وہ ’’شرعی اصولوں کے مطابق تقسیم" ہونے کی بجائے ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ کے مطابق بٹ جائے۔ آج کل یہ صورتحال عام ہے۔ جائییداد کے بٹوارے میں لڑائیان عام ہیں،ورثاء ایک دوسرے کوہی نہیں بلکہ ’’وراثت‘‘ جلد پانے کے لئے ’’صاحب مال‘‘ کو بھی قتل کر نے سے نہیں چوکتے یا باپ کے جلد مرنے کی ’’تمنا‘‘ کرنے لگتے ہیں۔ کیا اس نفسا نفسی کے دور مین یہ بہتر نہیں کہ جب کوئی صاحب مال پچاس ساٹھ سال کا ہونے لگے تو بتدریج اپنے ’’متوقع وارثوں‘‘ کو اپنی جائداد ہبہ کرتا جائے تاکہ ’’ترکہ‘‘ اتنا نہ چھوڑ سکے کہ اس پر لڑائی جھگڑے کا امکان پیدا ہو۔
اصحاب علم سے اپنی ’’ذاتی رائے‘‘ کے مطابق نہیں بلکہ ’’قانون شریعت‘‘ کے مطابق جواب کی درخواست ہے۔
جوابات :
١۔ جی ہاں! والد اپنی زندگی میں اپنی اولاد میں میراث تقسیم کر سکتا ہے اور اسے ہبہ کہیں گے۔ اگرچہ بہتر یہی ہے کہ زندگی میں تقسیم نہ کرے۔
٢۔ مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں ہے: " ہم آپ كے والد كو نصيحت كرتے ہيں كہ وہ اپنى زندگى ميں اپنا مال تقسيم نہ كرے، ہو سكتا ہے وہ اس كے بعد اس كا محتاج اور ضرورتمند ہو " انتہى.ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 16 / 463 ).
٣۔ اپنی زندگی میں اپنا مال اولاد کو بطور ہبہ دینا (بشرطیکہ وہ کسی کو نقصان نہ پہنچانا چاہے) جائز ہے، لیکن اس کے اصول ہبہ (یعنی اولاد کے مابین تسویہ وغیرہ) کے ہوں گے، تقسیم وراثت کے ہرگز نہ ہوں گے، کیونکہ اپنی زندگی میں اپنی وراثت کی تقسیم جائز نہیں۔
٤۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں اپنی زندگی میں اپنی وراثت اپنی رائے کے مطابق نہیں بلکہ شرعی اصولوں کے مطابق تقسیم کرنا چاہتا ہوں تو پھر بھی یہ جائز نہیں۔ تقسیم وراثت کا تعلق مورث کے فوت کے ساتھ ہے، مرنے کے بعد ہی وراثت کی تقسیم ہو سکتی ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنی اولاد (مثلا دو بیٹوں اور دو بیٹیوں) میں اپنی وراثت شرعی تقسیم کے مطابق تقسیم کر دیتا ہے، اور اس کے فوت ہونے سے پہلے پہلے اس کی اولاد میں سے کوئی فوت ہوجائے یا کوئی نیا وراثت وجود میں آجائے تو ہر چیز تلپٹ ہوجائے گی۔ لہٰذا تقسیم وراثت زندگی میں جائز نہیں۔
میری الجھنیں-
١۔ : میراث تو اس دولت کو کہتے ہیں، جو کوئی شخص مرنے کے بعد چھوڑ جائے۔ اگر کوئی شخص اپنی اپنی زندگی میں اپنی اولاد یا کسی اور کو کچھ (یا سب کچھ) دیتا ہے، تو کیا وہ ایسا کرنے کا مجاز نہیں؟؟؟ یہ واراثت کی تقسیم تو نہیں ہے کہ اس تقسیم پر ’’وراثت کا قانون‘‘ لاگوہو۔ وراثت کے قانون پر ’’عملدر آمد‘‘ کی ذمہ داری تو ورثاء پرعائد ہوتی ہے۔ صاحب مال پرتو یہ ’’ذمہ داری‘‘ عائد ہو نہیں سکتی کہ وہ فوت ہوگا تو اس کا مال ’’مال وراثت‘‘ اور قابل تقسیم بنے گا۔ گویا اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنا مال اولاد یا کسی اور کو دیتا ہے (’’ ہبہ‘‘ کرتا ہے’’تقسیم‘‘ نہیں) تو وہ ’’میراث کی تقسیم‘‘ ہر گز نہیں ہے، جس پر ’’قانون وراثت‘‘ لاگو ہو۔
٢۔ ویسے توکسی کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں ہوتا، لیکن ہر عہد میں انسانوں کی ایک اوسط عمرضرور ہوتی ہے۔ جیسےآج کل انسان کی اوسط عمر ساٹھ ستر سال کے قریب ہے۔ اگر کوئی شخص پچاس سال کی عمر کا ہوجائے تو وہ ایسا سوچنے میں برحق ہوگا کہ اب وہ موت سے زیادہ قریب ہے۔ اوروہ چاہتا ہو کہ مرنے سے قبل اپنی اولادوں میں ان کی ضرورت کے مطابق اپنی جائیداد (کا بیشتر حصہ) اس طرح تقسیم کرجائے یا ہبہ کرجائے کہ کسی کو نقصان پہنچانے کا ارادہ بھی نہ ہواور اپنی بقیہ متوقع زندگی کے لئے کچھ دولت اپنے پاس بھی رہ جائے، تو اس میں کیا مضائقہ ہے؟؟؟ اور ایسا کرنا ’’بہتر‘‘ کیوں نہیں ہے؟؟؟
٣۔ اصول ہبہ (یعنی اولاد کے مابین تسویہ وغیرہ( کیا ہیں؟ اس کا شرعی کلیہ کیا ہے؟؟؟
٤۔ اگر کوئی اپنی زندگی میں اپنا بیشتر مال موجود (اور متوقع ورثاء) اولاد میں تقسیم کردے تو ہر چیز تلپٹ کیسے ہوجائے گی؟؟؟ اگر بالفرض محال جس اولاد کو اس نے کوئی جائیداد دی ہے، وہ خدا نخواستہ انتقال کر بھی جائے تو اس کی چھوڑی ہوئی جائداد ’’وراثت‘‘ بن جائے گی۔ اس میں ’’مسئلہ کیا ہے؟؟ اسی طرح کسی کے مرنے سے پہلے کوئی مزید وارث پیدا ہو بھی جائے تو کیا ہوگا۔ باپ اپنے پاس موجود مال سے اسے کچھ دے سکتا ہے۔ اور مرنے کے بعد اس کے چھوڑے ہوئے ترکہ میں سے سب کو قانون وراثت کے تحت حصہ ملے گا، خواہ زنددگی میں باپ نے کسی کو کچھ دیا ہو یا نہ دیا ہو۔
٥۔ انسان اپنی اولاد یا قریبی ورثاء پر اس کی ضرورت کے مطابق خرچ کرتا ہے، جیسے سب سے زیادہ پہلی اولاد پر اور سب سے کم آخری اولاد پر خرچ ہوتا ہے۔ اسی طرح میڈیسین کی تعلیم حاصل کرنے والے (یا بیرون ملک پڑھنے والے ) پر زیادہ خرچ ہوتا ہے بہ نسبت ان اولادوں کے جو عام تعلیم حاصل کر رہے ہوں۔ کیا یہ ضروری ہے کہ باپ اپنی ہر اولاد مساوی رقم خرچ کرے؟؟؟ انہیں مساوی سہولتیں فراہم کرے۔ یا یہ ضروری ہے کہ ہر ایک کی ’’ضرورت‘‘ کے مطابق اس پر خرچ کرے، کسی کے ساتھ ناانصافی نہ کرے اور کسی کو یکسر محروم نہ کرے۔
٦۔ کوئی اپنی زندگی میں ہی (کم از کم) اپنی ہر اولاد نرینہ کو علیحدہ علیحدہ اور یکساں رہائشی سہولت (ان کے نام کر کے) فراہم کرجائے تو اس سے اس کی اپنی ’’پراپرٹی‘‘ یقینا" سکڑ کر صرف اس کی ’’ذاتی ضرورت‘‘ کے مطابق رہ جائے گی۔ تو کیا ایسا کرنا غلط ہوگا؟؟؟ کیونکہ کوئی اس حال میں مرنا نہیں چاہتا ہو کہ ساری پراپرٹی اس کے نام پر ہو اور اس کے مرنے کے بعد وہ ’’شرعی اصولوں کے مطابق تقسیم" ہونے کی بجائے ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ کے مطابق بٹ جائے۔ آج کل یہ صورتحال عام ہے۔ جائییداد کے بٹوارے میں لڑائیان عام ہیں،ورثاء ایک دوسرے کوہی نہیں بلکہ ’’وراثت‘‘ جلد پانے کے لئے ’’صاحب مال‘‘ کو بھی قتل کر نے سے نہیں چوکتے یا باپ کے جلد مرنے کی ’’تمنا‘‘ کرنے لگتے ہیں۔ کیا اس نفسا نفسی کے دور مین یہ بہتر نہیں کہ جب کوئی صاحب مال پچاس ساٹھ سال کا ہونے لگے تو بتدریج اپنے ’’متوقع وارثوں‘‘ کو اپنی جائداد ہبہ کرتا جائے تاکہ ’’ترکہ‘‘ اتنا نہ چھوڑ سکے کہ اس پر لڑائی جھگڑے کا امکان پیدا ہو۔
اصحاب علم سے اپنی ’’ذاتی رائے‘‘ کے مطابق نہیں بلکہ ’’قانون شریعت‘‘ کے مطابق جواب کی درخواست ہے۔