مقبول احمد سلفی
سینئر رکن
- شمولیت
- نومبر 30، 2013
- پیغامات
- 1,400
- ری ایکشن اسکور
- 463
- پوائنٹ
- 209
واٹس ایپ گروپ اسلامیات کے سوال وجواب
جواب از مقبول احمد سلفی
سوال (1): میری امت میں بنو تمیم کے لوگ اہل شرک پر مضبوط اور بھاری ہوں گے اور قیامت تک کعبہ کی چابھی اس کے پاس رہے گی ۔ اس قسم کی حدیث کی صحت درکار ہے۔
جواب : اس میں دوباتیں ہیں دونوں صحیح نہیں ہیں ۔ پہلی بات جو صحیح ہے وہ اس طرح ہے ۔
هم أشدُّ أُمَّتي علَى الدَّجَّالِ(صحيح البخاري:2543)
ترجمہ: یہ لوگ(بنوتمیم والے) دجال کے مقابلے میں امت میں سے سب سے زیادہ سخت مخالف ثابت ہوں گے۔
اور دوسری بات یہ بنوتمیم قیامت تک کعبہ کی کلیدبرداری کریں گے وہ بھی صحیح نہیں ہے ، یہ بات قبیلہ بنوشیبہ کے متعلق نبی ﷺ نے فرمائی تھی جب 8 ہجری میں مکہ فتح ہوا۔حافظ ابن حجر ؒنےتہذیب میں لکھا ہےکہ نبی ﷺ نے شیبہ بن عثمان بن ابی طلحہ اور عثمان بن طلحہ بن ابی طلحہ کو بلایا اور انہیں کعبہ کی چابھی سونپتے ہوئے فرمایاکہ یہ اب ہمیشہ کے لئے تمہارے پاس رہے گی ، تم سے ظالم کے علاوہ کوئی نہیں چھین سکتا ۔ انتہی۔ اور اس وقت سے اب تک بنوشیبہ میں ہی کلید برداری کی خدمت موجود ہے۔ ہاں بنوتمیم کے بڑے فضائل ہیں ان میں سے یہ بھی ہے کہ وہ قریش سے پہلے کلید برداری کرتے رہے ہیں۔
سوال (2) سردی کے موسم میں ایک نمازی کے لئے شریعت کی طرف سے کیا آسانی ہے ؟
جواب : سردی کا موسم مومن کے لئے موسم بہار ہے ، اس میں عبادت کے پہلو سے خیر ہی خیر ہے۔ شعب الایمان اور مسند احمد وغیرہ میں ایک روایت ہے ۔ الشِّتاءُ ربيعُ المؤمنِ ، قصُرَ نهارُهُ فصامَ ، وطالَ ليلُهُ فقامَ۔
ترجمہ:سردی مومن کے لئے موسم بہار ہے اس کے دن چھوٹے ہوتے ہیں تو وہ روزہ رکھ لیتا ہے اور راتیں لمبی ہوتی ہیں تو قیام کرلیتا ہے۔
شیخ البانی نے اس کی سند میں ضعف بتلایا ہے تاہم اسلاف سے موسم سرما میں خوش ہونے اور اس سے بکثرت فائدہ اٹھانے کا ذکر ملتا ہے۔ایک صحیح روایت اس طرح ہے ۔الغَنيمةُ الباردةُ ،الصَّومُ في الشِّتاءِ(صحيح الترمذي:797)
ترجمہ: بڑی غنیمت ٹھنڈی ہے کہ اس میں روزہ رکھا جائے۔
عبادت کے اعتبار سے اس موسم میں بڑی غنیمتیں ہیں البتہ ٹھنڈک میں لوگوں کے لئے ضرر بھی ہے اس لئے زمانے میں ٹھنڈی کے ضرر سے بچنے کی جو بھی سہولت ہے اختیار کرسکتے ہیں ۔ مثلا گرم پانی سے وضو یا غسل کرنا، مسجدوں میں ہیٹر وغیرہ کا انتظام کرنا، وضو کرکےلگائےہوئے موزے پر مسح کرنا، گرم لباس پہن کر عبادت کرنا، قالین پر نماز پڑھنا۔اسی طرح ایک وضو سے دوسرے وقتوں کی نماز ادا کرسکتے ہیں ۔ یہ یاد رکھیں کہ وضو یا غسل طہارت کرنے والے مسلمان ہی صرف ٹھنڈی میں بیمار نہیں پڑتے بلکہ نرم وگرم بستروں میں عیش کرنے والے بھی بیمار پڑتے ہیں ۔ بیماری اور شفا اللہ کی طرف سے ہے ، مومن کے لئے بیماری میں اجر اور کافر کے لئے سراپا تکلیف ہے۔ اس لئے ایک مومن کو اللہ کے احکام کی تعمیل میں ہی آسانی ہے۔
سوال(3): کیا سردی میں ٹوپی پر مسح کرسکتے ہیں جیساکہ رسول اللہ ﷺ نے عمامہ پر مسح کیا ہے ؟
جواب : سردی ہو یا گرمی نبی ﷺ نے عمامہ پر مسح کیا ہے تو عمامہ پر ہی مسح کرنا جائز ہوگا، اس لئے کوئی سردی کے موسم میں ٹوپی پر مسح نہیں کرسکتا۔
سوال(4): حلال جانور کا پاخانہ وضو کی حالت میں لگ جائے تو کیا وضو ٹوٹ جائے گا ؟
جواب : حلال جانور کاپیشاب وپاخانہ دونوں پاک ہیں ، کپڑے میں لگ جانے سے کپڑا ناپاک نہیں ہوتااور وضو ٹوٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ نجاست کے چھونے یا لگنے سے وضو نہیں ٹوٹتا جہاں نجاست لگے وہ جگہ ناپاک ہوگی۔تاہم کپڑے پر ماکول اللحم جانور کا پیشاب یا پاخانہ لگ جائے تو اسے صاف کرلینا چاہئے ۔
سوال (5): تم قیامت کے دن اپنے اور اپنے باپ کے نام کے ساتھ پکارے جاؤگے اس لئے اچھے نام رکھا کرو، ابوداؤد کے حوالے سے کیا یہ حدیث صحیح ہے ؟
جواب : ابوداؤد میں کتاب الادب کے تحت 4948 کی حدیث ان الفاظ کے ساتھ وارد ہے۔
"إنكم تدعون يوم القيامة بأسمائكم وأسماء آبائكم فأحسنوا أسماءكم"
اس حدیث کی سند میں ضعف ہے جیساکہ شیخ البانی اور دیگر محدثین نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ تاہم نصوص سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ قیامت میں باپ کے نام سے پکارا جائے گا۔
سوال(6): کیا وہ شخص لقمہ دے سکتا ہے جوجماعت میں ابھی شامل نہیں ہوا ہو؟
جواب : اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ وہ شخص جو ابھی نماز میں شامل نہیں ہوا ہے اس نے امام سےقرات میں کوئی بھولتے دیکھا تو لقمہ دیدے ۔
سوال (7): فقیر اور مسکین کی صحیح تعریف بتلائیں ۔
جواب : فقیر وہ ہے جواپنی ضروریات پورا کرنے کے قابل نہ ہو اوراس وجہ سے لوگوں سے مانگتا ہو اور مسکین وہ ہے جو محتاج ہو مگر اپنی ضرورتوں کو لوگوں کے سامنے نہ بیان کرتا ہو۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
ليس المسكينُ الذي يطوفُ على الناسِ ، تَرُدُّهُ اللُّقمةُ واللقمتانِ ، والتمرةُ والتمرتانِ ، ولكنَّ المسكينَ : الذي لا يجدُ غِنًى يُغْنِيهِ ، ولا يُفْطَنُ بهِ فيُتَصَدَّقْ عليهِ ، ولا يقومُ فيسألَ الناسَ .( صحيح البخاري:1479)
ترجمہ: مسکین وہ نہیں ہے جو لوگوں کے پاس پھرتا ہے تاکہ اسے ایک دو لقمہ یا ایک دو کھجور مل جائے بلکہ مسکین وہ ہے جس کے پاس اتنا مال نہیں کہ وہ اس کے ذریعہ سے بےپرواہ ہو جائے۔ اس حال میں بھی کسی کو معلوم نہیں کہ کوئی اسے صدقہ ہی دیدے اور نہ وہ خود ہاتھ پھیلانے کے لیے اٹھتا ہے۔
سوال(8): اپنے کسی عزیز کی سخت ضعیفی کی حالت پہ اس قسم کے جملے کہنا کیسا ہے ؟ اللہ ان کے حق میں بہتر کرے، یا اللہ ان کے حق میں آسانی کرے۔
جواب : اس میں کوئی حرج نہیں ، یہ دونوں دعائیہ جملے ہیں ۔
سوال(9): اپنے وطن سے محبت کرنے کا اسلامی نظریہ کیا ہے ؟
جواب : وطن سے محبت کرنافطری امر ہے ، اسلام نے اس سے کسی کو منع نہیں کیا ہے بلکہ وطن کی محبت کا اظہار نبی ﷺ سے اور ہمارے اسلاف سے ملتا ہے ۔ ہاں یہ دھیان رہے کہ وطن کی محبت کو دین وایمان نہ سمجھے اور نہ ہی حب الوطنی میں غلو کرے یعنی وطن کی محبت کو دین کے کسی حکم پر ترجیح دے یا اس کی تعریف میں جھوٹی بات کہے یا حد سے تجاوز کرے۔ محبت اعتدال میں رہے تاکہ غلو اور تجاوز سے بچارہے۔
سوال(10): کیا حائضہ عورت میت کو غسل دے سکتی ہے ؟
جواب : حائضہ ، نفساء اور جنبی عورتوں کا میت کو غسل دینے اور کفن دینے میں کوئی حرج نہیں ہے ، اس سلسلے میں ممانعت پہ کوئی نص وارد نہیں ہے ۔
سوال(11): پنچ وقتہ نمازوں کی وجہ تسمیہ کیا ہے ؟
جواب : ترمذی کی مندرجہ ذیل روایت میں نمازوں کے اسماء اور ان کی وجہ بیان کی گئی ہے۔طوالت کی وجہ سے صرف ترجمہ پیش کرتا ہوں۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جبرئیل علیہ السلام نے خانہ کعبہ کے پاس میری دوبارامامت کی،پہلی بارانہوں نے ظہر اس وقت پڑھی (جب سورج ڈھل گیااور)سایہ جوتے کے تسمہ کے برابرہوگیا، پھرعصراس وقت پڑھی جب ہرچیز کا سایہ اس کے ایک مثل ہوگیا،پھر مغرب اس وقت پڑھی جب سورج ڈوب گیا اورصائم نے افطار کرلیا، پھر عشاء اس وقت پڑھی جب شفق غائب ہوگئی، پھرصلاۃِ فجر اس وقت پڑھی جب فجرروشن ہوگئی اورصائم پرکھاناپینا حرام ہوگیا، دوسری بارظہرکل کی عصرکے وقت پڑھی جب ہرچیز کا سایہ اس کے مثل ہوگیا، پھر عصراس وقت پڑھی جب ہرچیز کا سایہ اس کے دومثل ہوگیا، پھر مغرب اس کے اوّل وقت ہی میں پڑھی (جیسے پہلی بارمیں پڑھی تھی) پھر عشاء اس وقت پڑھی جب ایک تہائی رات گزرگئی، پھرفجراس وقت پڑھی جب اجالا ہوگیا، پھرجبرئیل نے میری طرف متوجہ ہوکر کہا:اے محمد! یہی آپ سے پہلے کے انبیاء کے اوقاتِ صلاۃ تھے، آپ کی صلاتوں کے اوقات بھی انہی دونوں وقتوں کے درمیان ہیں۔( صحيح الترمذي:149)