آج کل اہلحدیثوں کی مسجدوں میں وتروں میں لمبی لمبی دعائیں یہ کہ کر کرواہی جاتی ہیں کہ صحابہ کا عمل تھا...
جبکہ نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ عمل نہی تھا...
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
دعائے قنوت کی بات تو بعد کی ہے ،فرض نماز بھی اتنی طویل نہیں ہونی چاہیئے کہ مقتدیوں کیلئے شاق ہو ،
کیونکہ جماعت میں بیمار اور مصروف لوگ بھی ہوسکتے ہیں ،
اس لئے نبی مکرم ﷺ کی تعلیم یہ ہے کہ ائمہ مساجد کو باجماعت نماز طویل نہیں پڑھانی چاہیئے ؛
یہ حدیث مبارکہ غور سے پڑھیں :
قال: سمعت جابر بن عبد الله الأنصاري، قال: أقبل رجل بناضحين وقد جنح الليل، فوافق معاذا يصلي، فترك ناضحه وأقبل إلى معاذ، فقرأ بسورة البقرة - أو النساء - فانطلق الرجل وبلغه أن معاذا نال منه، فأتى النبي صلى الله عليه وسلم، فشكا إليه معاذا، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «يا معاذ، أفتان أنت» - أو «أفاتن» - ثلاث مرار: «فلولا صليت بسبح اسم ربك، والشمس وضحاها، والليل إذا يغشى، فإنه يصلي وراءك الكبير والضعيف وذو الحاجة»
ترجمہ :
’’ جابر بن عبداللہ انصاری سے سنا ، آپ نے بتلایا کہ ایک شخص پانی اٹھانے والا دو اونٹ لیے ہوئے آیا ، رات تاریک ہو چکی تھی ۔ اس نے معاذ ؓ کو نماز پڑھاتے ہوئے پایا ۔ اس لیے اپنے اونٹوں کو بٹھا کر (نماز میں شریک ہونے کے لیے) معاذ ؓ کی طرف بڑھا ۔ معاذ ؓ نے نماز میں سورۃ البقرہ یا سورۃ نساء شروع کی ۔ چنانچہ وہ شخص نیت توڑ کر چل دیا ۔ پھر اسے معلوم ہوا کہ معاذ ؓ نے مجھ کو برا بھلا کہا ہے ۔ اس لیے وہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور معاذ کی شکایت کی ، نبی کریم ﷺ نے اس سے فرمایا ، معاذ ! کیا تم لوگوں کو فتنہ میں ڈالتے ہو ۔ آپ ﷺ نے تین مرتبہ (« فتان » یا « فاتن ») فرمایا : « سبح اسم ربك ، والشمس وضحاہا ، والليل إذا يغشى » (سورتیں) تم نے کیوں نہ پڑھیں ، کیونکہ تمہارے پیچھے بوڑھے ، کمزور اور حاجت مند نماز پڑھتے ہیں ۔‘‘ (صحیح البخاری حدیث نمبر ۷۰۵ ، اور دیگر بے شمار کتب حدیث )
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور اہل علم بھی دعاء کی بے جا طوالت سے منع کرتے ہیں :
یمن کے مشہور سلفی داعی اور محدث الشیخ مقبل الوداعی رحمہ اللہ کا فتوی ذیل میں عرض ہے
كلام أهل العلم على إطالة دعاء قنوت الوتر
بسم الله والصلاة والسلام على رسول الله صلى الله عليه وسلم....
أولا : الشيخ مقبل رحمه الله :
جاء في كتاب – تحفة المجيب على أسئلة الحاضر والغريب – :
السؤال119: ما حكم الدعاء في صلاة التراويح، وما صحة حديث رفع اليدين في الوتر مع ذكر الأدلة؟
الجواب: أما الدعاء في صلاة التراويح بذلك التطويل فبدعة، بدعة، بدعة، والنبي صلى الله عليه وعلى آله وسلم علّم الحسن أن يقول: ((اللّهمّ اهدني فيمن هديت، وعافني فيمن عافيت، وتولّني فيمن تولّيت، وبارك لي فيما أعطيت، وقني شرّ ما قضيت، إنّك تقضي ولا يقضى عليك، وإنّه لا يذلّ من واليت، ولا يعزّ من عاديت، تباركت ربّنا وتعاليت)). وكذا ما يحدث في الحرمين من ذلك التطويل فليس مشروعًا، وخير الهدي هدي محمد صلى الله عليه وعلى آله وسلم.
ترجمہ :
سوال : نماز تراویح میں دعاء کا شرعی حکم کیا ہے ؟
الجواب : نماز تراویح میں یہ لمبی لمبی دعائیں بدعت ہیں ،بدعت ہیں، بدعت ہیں،
نبی کریم ﷺ نے تو اپنے نواسے جناب حسن رضی اللہ عنہ کو (یہ ایک مختصر ) دعاء سکھلائی تھی ،کہ وہ (نماز وتر میں ) اس کو پڑھا کریں ،
یعنی ’’ اللہم اھدنی ۔۔۔۔۔الخ
اورحرم شریف میں جو طویل دعائیں بنالی گئی ہیں ،تو یہ مشروع نہیں ،( یعنی شرعاً ثابت نہیں ،)
اور اس معاملہ میں بھی بہترین طریقہ پیارے نبی ﷺ کا ہی ہے ( کہ جامع اور مختصر دعاء کی جائے )
(دیکھئے شیخ رحمہ اللہ کی کتاب ’’ تحفة المجيب على أسئلة الحاضر والغريب ‘‘ صفحہ ۱۳۷ )