اوطلحہ محمداصغر
رکن
- شمولیت
- مئی 02، 2012
- پیغامات
- 40
- ری ایکشن اسکور
- 210
- پوائنٹ
- 73
جب اللہ تعالیٰ نے وقت کے سب سے اچھے انسانوں کو سب سے برے انسان کے پاس تبلیغ کیلئے بھیجا تو ان کو فرمایا قولالہ قولا لینااے موسیٰ وہارون!فرعون کونرم بات کرنا۔اور اسی طرح کے احکامات ہمیں بھی غیرمسلموں جیسے لوگوں کیلئے دئیے گئے ہیں۔میرے ایک دوست نے اپنے دوست سے پوچھا تم سعودی عرب میں رہ رہے ہو وہاں کسی مدرسہ میں تعلیم حاصل کیوں نہیں کرلیتے ۔اس نے کہا یار! میں اس غرض کیلئے وہاں ایک مدرسہ میں گیا تھا لیکن وہاں کسی سے ملاقات ہوئی تو وہ باتوں باتوں کے دوران ابوحنیفہ کو کافر کہنے لگے تومیرا دل ایساکھٹا ہوا کہ میں اپنے ارادے اپنے دل میں دفن کرکے واپس چلاآیا۔ اسی طرح میرے ایک دوست نے کہا کہ یارسلفیوں سے بات کرنے کو بھی جی نہیں کرتا کیوں کہ وہ چھوٹتے ہی ابوحنیفہ کو کافر کہنے میں دیر نہیں کرتے۔تبلیغی جماعت انتہاء درجہ بدعات کی مرتکب ہونے اور تحریف دین میں حد درجہ غلو کرنے کے باوجود عوامی سطح پر سب سے زیادہ کامیاب جارہی ہے ، حالآنکہ وہ اپنے سوا کسی کو درست نہیں سمجھتے ، لیکن عقل کی بات یہ ہے کہ وہ اس کو کہتے نہیں۔ جبکہ سلفی جماعت موجودہ دور میں سب سے زیادہ خالص قرآن وسنت کی پابند ہونے کے باوجود پھیلنے میںسب سے زیادہ سست روی کا شکار ہے۔ اور اس کی وجہ صرف اور صرف حکمت عملی ،نرم رویہ اور اکرام مسلم وغیرہ جیسی خصلتوں سے محرومی ہے ۔ میرے عزیز! جو لوگ قرآن وسنت سے میرے لہجے کی وجہ سے دور رہیں گے ان کا بوجھ بھی میرے سر ہوگا۔مجھے یاد ہے کہ میں نے جب بھی علامہ البانیٌ کوپڑھا ہمیشہ ان کو امام ابوحنیفہ سے اختلاف کے باوجو د ان کو دعائیں دیتے پایا، اور مجھے یہ ادا ان کی بھا گئی۔ دیکھیں جو شخص اپنی زندگی بھر ایک شخص کے قصیدے سنتا رہا ، اس کی کرم نوازیاں سنتا رہا، اس کی نکتہ آفرینیاں سنتا رہااور پھر جب آپ اس شخص کوقرآن وسنت کی دعوت دینے کے دوران اس کے عظیم شخص کے خلاف زبان درازیاں کرنے لگیں گے تو وہ یقینا اسی وقت بدک جائے گا۔اگر آپ ذرا صبر سے کام لیں گے تو جب حق اس کی سمجھ میں آجائے گا تو وہ خود ہی آپ کی زبان بن جائے گا۔ میرے عزیز!برصغیر والوں، نہیں بلکہ تمام حق سے کنارہ کش لوگوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ شخصیات پرستی میں گھرے ہوئے ہیں لہذا ان شخصیات کی عیب بینی کے ساتھ کبھی آپ ان کے دل میں اپنی بات نہیں اتار سکتے۔ اور کیا ہمارے ذمہ لازم ہے کہ ہم فلاں اورفلاں کے ذمہ دار بنیں ؟ کیا ہم موسیٰ علیہ السلام کا طریقہ نہیں اپنا سکتے جب انہوں نے فرعون کو جواب دیا تھا کہ پہلے لوگوں کا علم میرے رب کے پاس ہے ، نہ میرارب گمراہ ہوتااور نہ وہ بھولتا!!!اور کیاسعید بن جبیر نے حجاج کو بہترین طریقہ کے ساتھ لاجواب نہیں کیاجب اس نے پوچھا کہ علی وعثمان کے متعلق تمہارا کیاخیال ہےکون جنت میں ہے اور کون جہنم میں؟ تو انہوں نے فرمایا: کہ میں جنت اورجہنم میں جاؤں تو بتا سکتا ہوں۔دیوبندیوں کے ہاں شخصیت پرستی کی ایسی تعلیم ہے کہ جس طریق سے دین مل رہا ہے اگر ان پر آنچ آتی ہے تووہ دین کوخیر آباد کردیں گے ۔ اور تبلیغی جماعت نے جب یہ دیکھا کہ ہماری متنازع شخصیات کی وجہ سے ہماری دعوت میں رکاوٹ پیداہورہی ہے تو انہوں عام پابندی عائد کردی ہے کہ کسی بیان میں کسی شخصیت کانام نہ لیا جائے ۔اسی وجہ سے آپ ان کے اکثربیانوں میں دیکھیں گے کہ شخصیات کا ذکر نہیں ملے گا، صحابہ یا انبیاء ۔ اگرچہ جو آخر میں پہنچتے ہیں وہ صوفیاء سے بیعت بھی ہوتے ہیں اورمنازل تصوف بھی اپناتے ہیں ۔اور اپنی ان ہی مزعومہ حکمتوں کے ساتھ وہ کامیاب جارہے ہیں اور ہم اللہ کے ایسے احکام کوپس پشت ڈالنے کی وجہ سے پیچھے جارہے ہیں:اور اے پیغمبر ان کے ساتھ جدال کر احسن طریقہ کے ساتھ ، نیز :اپنے رب رب کے راستے کی طرف بلاحکمت اورموعظہء حسنہ کے ساتھ،نیز:اور اہل کتاب کے ساتھ جھگڑانہ کرو مگر اس طریقہ کے ساتھ جو سب سے اچھا ہے ۔وغیرہ وغیرہ ۔جبکہ ہمارے مکالموں میں گالم گلوچ تک عام نوبت پائی جاتی ہے اورایسی صورت حال میں کوئی کسی کی مانتا نہیں بلکہ ہر کوئی اپنی جیت ،اپنی فتح اور دوسرے کو مات دینے کی کوشش میں لگا رہتا ہے