کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
وحدت الوجود
وحدت الوجود ایک صوفیانہ عقیدہ ہے جس کی رو سے جو کچھ اس دنیا میں نظر آتا ہے وہ خالق حقیقی کی ہی مختلف شکلیں ہیں اور خالق حقیقی کے وجود کا ایک حصہ ہے۔ اس عقیدے کا اسلام کی اساس سے کوئی تعلق نہیں ، قران و حدیث میں اس کا کوئی حوالہ نہیں ملتا اور اکثر مسلمان علماء اس عقیدے کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ چونکہ اس عقیدے کی ابتدا مسلم صوفیا کے یہاں سے ہوئی اس لیے اسے اسلام سے متعلق سمجھا جاتا ہے۔
مولانا اقبال کیلانی صاحب لکھتے ہیں:
مولانا عبد الرحمن کیلانی لکھتے ہیں:بعض لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ انسان عبادت وریاضت کے ذریعے اس مقام پر پہنچ جاتاہے کہ اسے کائنات کی ہر چیز میں اللہ نظر آنے لگتا ہے یا وہ ہر چیز کو اللہ کی ذات کا جز سمجھنے لگتا ہےاس عقیدے کو وحدت الوجود کہاجاتاہے۔عبادت اور ریاضت میں ترقی کرنے کے بعد انسان اللہ کی ہستی میں مدغم ہوجاتی ہے،اور وہ دونوں(خدا اور انسان) ایک ہوجاتے ہیں،اس عقیدے کو وحدت الشھود یا '''فنا فی اللہ''' کہاجاتاہے،عبادت اور ریاضت میں مزید ترقی سے انسان کا آئینہ دل اس قدر لطیف اور صاف ہوجاتاہے کہ اللہ کی ذات خود اس انسان میں داخل ہوجاتی ہے جسے حلول کہاجاتاہے۔۔۔۔ان تینوں اصطلاحات کے الفاظ میں کچھ نہ کچھ فرق ضرور ہے لیکن نتیجہ کے اعتبار سے ان میں کوئی فرق نہیں اور وہ یہ ہے کہ '''انسان اللہ کی ذات کا جزء اور حصہ ہے''' یہ عقیدہ ہرزمانے میں کسی نہ کسی شکل میں موجود رہا، ہندومت کے عقیدہ اوتار بدھ مت کے عقیدہ نرواں اور جین مت کے ہاں بت پرستی کی بنیاد یہی فلسفہ وحدت الوجود اور حلول ہے۔۔۔۔۔ (یہودی اسی فلسفہ حلول کے تحت عزیر کواور عیسائی عیسی علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا(جزء)قرار دیا دیکھیں سورۃ التوبۃ:30) اہل تصوف کے عقائد کی بنیاد بھی یہی فلسفہ وحدت الوجود اور حلول ہےکتاب التوحید صفحہ70-71 ،مصنف :مولانا اقبال کیلانی ،ناشر:حدیث پبلیکیشنز،2شیش محل روڈ لاہور
شیخ عبد الرحمن عبد الخالق لکھتے ہیں کہ:-انسان چلہ کشی اور ریاضتوں کے ذریعہ اس مقام پر پہنچ جاتاہے کہ اسے کائنات کی ہر چیز میں خدا نظر آنے لگتا ہے، بلکہ وہ ہر چیز کو خدا کی ذات کا حصہ سمجھنے لگتاہے، اس قدر مشترک کے لحاظ سے ایک بدکار انسان اور ایک بزرگ،ایک درخت اور ایک بچھو، لہلہاتے باغ اور ایک غلاظت کا ڈھیر سب برابر ہوتے ہیں،کیونکہ ان سب میں خدا موجود ہے۔ حوالہ :شریعت وطریقت جلد1باب:2۔ دین طریقت کے نظریات وعقائد،صفحہ63-64 ،مصنف=مولانا عبد الرحمن کیلانی،ناشر:مکتبۃ السلام۔سٹریٹ20 وسن پورہ لاہور
اہل سنت والجماعت کا نقطۂ نگاہاللہ کے بارے میں اہل تصوف کے مختلف عقیدے ہیں۔ ایک عقیدہ حلول کا ہے،یعنی اللہ اپنی کسی مخلوق میں اترآتا ہے، یہ حلاج صوفی کا عقیدہ تھا۔ایک عقیدہ وحدت الوجود کا ہے یعنی خالق مخلوق جدا نہیں، یہ عقیدہ تیسری صدی سے لے کر موجودہ زمانہ تک رائج رہا، اور آخر میں اسی پر تمام اہل تصوف کا اتفاق ہوگیا ہے۔ اس عقیدے کے چوٹی کے حضرات میں ابن عربی ، ابن سبعین ، تلمسانی ، عبد الکریم جیلی ، عبد الغنی نابلسی ہیں۔ اور جدید طرق تصوف کے افراد بھی اسی پر کاربند ہیں۔حوالہ کتاب: اہل تصوف کی کارستانیاں،مصنف:شیخ عبد الرحمن عبد الخالق کویت ، مترجم:مولانا صفی الرحمن مبارکپوری ،صفحہ:27،ناشر:مسلم ورلڈ ڈیٹا پروسیسنگ پاکستان
بریلوی نقطۂ نگاہوحدت الوجود اور اللہ تعالی کا کسی مخلوق میں حلول کرنا یا مخلوق اور خالق کے یکجان ہونے کا عقیدہ رکھنا دین سے خارج کردینے والا کفرہے،حوالہ کتاب:اصول اہلسنت والجماعت ،صفحہ:3،مصنف:ناصر بن عبد الکریم العقل
مولوی محمد یار دربار محمدیہ گڑھی شریف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا قرار دیتے ہوے لکھتے ہیں:-
بریلوی علامہ سید احمد سعید کاظمی اس شعر کی تشریح کرتے ہوے لکھتے ہیںگر محمد نے محمد کو خدا مان لیا پھر تو سمجھو کہ مسلمان ہے دغاباز نہیں
دیوبندی نقطۂ نگاہ:کہ ((قبلہ حضرت یار صاحب کا یہ شعر اور اس جیسی دوسری عبارات(جو مسلم بین الفریقین علماء کی کتب میں بکثرت پائی جاتی ہیں) مسئلہ وحدۃ الوجود پر مبنی ہے،جس کا خلاصہ یہ ہے کہ تعینات سے قطع نظر کرکے موجود حقیقی یعنی مابہ الموجودیت حق سبحانہ وتعالی کے سوا کچھ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مولانا یار صاحب کے شعر کا مضمون شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کے کلام میں ہے۔: تم محمد عظیم الشان {{درود}} کو محمد گمان کرتے ہو جیسے تم سراب کو دور سے دیکھ کر پانی سمجھتے ہو،وہ ظاہری نظر میں پانی ہی ہے مگر حقیقتا آب نہیں ہے،بلکہ سراب ہے،جب تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آؤگے تو تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ پاؤگے بلکہ صورت محمدیہ میں اللہ تعالی کو پاؤگے،اور رویت محمدیہ میں اللہ تعالی کو دیکھوگے۔ فتوحات مکیہ جلد ثانی ص:127
نا قابل فہم فلسفہ:اور یہی وہ معنی ہیں جن کو صوفیائے کرام فنا فی اللہ سے تعبیر کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حدیث مذکور(کنت سمعہ) میں وحدۃ الوجود کی طرف چمکتاہوا اشارہ ہے اور ہمارے شاہ عبد العزیز صاحب محدث(رح) دہلوی کے زمانے تک اس مسئلہ وحدۃ الوجود میں بڑے متشدد اور حریص تھے۔میں اس کا قائل تو ہوں لیکن متشدد نہیں ہوں،فیض الباری جلد رابع ص:428دیوبندی علامہ انور شاہ کاشمیری (رح ) اپنی کتاب فیض الباری میں لکھتے ہیں :- (کنت سمعہ الذی) کے یہ معنی بیان کرنا کہ بندہ کہ کان،آنکھ وغیرہ اعضاء حکم الہی کی نافرمانی نہیں کرتے حق الفاظ سے عدول کرنا ہے،اس لیے کہ اللہ تعالی کے قول( کنت سمعہ الذی) میں کنت صیغۂ متکلم اس بات پر دلالت کرتاہے کہ متقرب با النوافل یعنی بندہ میں سوائے جسد وصورت کے کوئی چیز باقی ہی نہیں رہی،اور اس میں صر اللہ تعالی ہی متصرف ہے
ڈاکٹر ابوعدنان سہیل لکھتے ہیں:-قدیم وجدید صوفیاء کرام نے فلسفہ وحدت الوجود اور حلول کو درست ثابت کرنے کے لیے بڑی لمبی بحثیں کی ہیں، آج کے سائنسی دور میں عقل اسے تسلیم کرنے تیار نہیں،جس طرح عیسائیوں کا عقیدہ تثلیث ایک میں سے تین اور تین میں سے ایک عام آدمی کے لیے نافہم ہے اسی طرح صوفیاء کا یہ فلسفہ کہ انسان اللہ میں یا اللہ انسان میں حلول کیے ہوے ہے، ناقابل فہم ہے اگر یہ فلسفہ درست ہے تو اس کا سیدھا سادھا مطلب یہ ہے کہ انسان ہی درحقیقت اللہ ہے اور اللہ ہی درحقیقت انسان ہے، اگر امر واقعہ یہ ہے تو پھر سوال پیدا ہوتاہے کہاس فلسفہ کو تسلیم کرلینے کے بعد انسان کی تخلیق اور آخرت یہ ساری چیزیں کیا ایک معمہ اور چیستاں نہیں بن جاتیں؟ اگر اللہ تعالی کے ہاں یہ عقیدہ قابل ہے تو پھر یہودیوں اور عیسائیوں کا عقیدہ ابن اللہ کیوں قابل قبول نہیں؟ مشرکین کا یہ عقیدہ کہ انسان اللہ کا جزء ہے کیوں قابل قبول نہیں؟ وحدت الوجود کے قائل بت پرستوں کی بت پرستی کیوں قابل قبول نہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ کسی انسان کو اللہ کی ذات کا جزء سمجھنا (یا اللہ کی ذات میں مدغم سمجھنا) یا اللہ تعالی کو کسی انسان میں مدغم سمجھنا ایسا کھلا شرک ہے جس پر اللہ تعالی کا شدید غضب بھڑک سکتاہے۔(وجعلوا لہ جزءا ،سورہ زخرف:15،کتاب التوحید از مولانا اقبال کیلانیعابد کون ہے اور معبود کون؟ ساجد کون ہے اور مسجود کون؟۔۔۔۔مرنے والا کون اور مارنے والا کون؟زندہ ہونے والا کون اور زندہ کرنے والا کون؟ روز جزا حساب لینے والا کون ہے اور دینے والا کون؟اور پھر جزاء یا سزا کے طور پر جنت یا جہنم میں جانے والے کون ہیں اور بھیجنے والا کون؟
مولانا وحید الدین خان کانقطۂ نظرعقیدۂ وحدت الوجود کوئی نیا عقیدہ نہیں ہے بلکہ عقیدۂ تثلیث ہی کی بدلی ہوی شکل ہے۔ عیسائی کہتے ہیں کہ اللہ،روح القدس اور عیسی علیہ السلام ایک ہیں،اور گمراہ مسلمان کہتے ہیں کہ کائنات کی ہر چیز اللہ ہے۔
کم علم زاہدوں اور عبادت گزاروں نے اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر عابد اور معبود، خالق اور مخلوق اور حق اور باطل کے مطلب ہی کو سرے سے بدل دیا، ان کے نزدیک جو کچھ دکھائی دیتا ہے،وہ اللہ تعالی ہی کے مختلف مظاہر ہیں اور دنیا میں پائے جانے والے تمام ادیان ومذاہب رب تک پہنچنے کے مختلف بر حق راستے ہیں،۔ ایسے ہی ایک کم علم زاہد کا قول ہے: چونکہ ہر شئے میں اسی کا جلوہ ہے ، ساری کائنات اسی کی جلوہ گاہ ہے، ہر شئی سے وہی ظاہر ہورہاہے، اس لیے ہر انسان مظہر ذات الہی ہے اور اس کی صفات انسان میں جلوہ گر ہیں ۔ اگر ہندو میں اس کا جلوہ ہے تو مسلمان میں بھی وہی اللہ جلوہ گر ہے، اس لیے صوفی، جملہ انسانی افراد کو مظاہر ذات سمجھ کر سب سے یکساں محبت کرتاہے، اسی لیے مسجد کے علاوہ گرجے، صومعے اور مندر کو بھی عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔حوالہ کتاب:اسلام میں بدعت وضلالت کے محرکات،مصنف: ڈاکٹر ابوعدنان سہیل۔
مولانا اپنی ڈائری یکم اپریل1984 میں رقم طراز ہیں :-خدا کے بارے میں دو الگ تصور (concept) پائے جاتے ہیں ۔توحید (monotheism) یعنی خدا کو ایک شخصی وجود (personal God) کےطور پر ماننا۔ اور دوسرا ہے تصور وحدت وجود (monism) یعنی خدا کو غیر شخصی ہستی (impersonal God) کے طور پر ماننا۔ یہ وہی چیز ہے جس کو کچھ دوسرے لوگ داخل میں بسا ہوا خدا (indwellinggod) کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں۔ وحدت وجود کو سنسکرت میں ادوئت واد کہاجاتاہے۔ اس تصور کے مطابق، خدا صرف ایک اسپرٹ ہے، جس طرح قوت کشش (gravity) ایک اسپرٹ ہے۔ وحدت وجود کو اگرچہ مسلم صوفیوں نے اختیار کرلیاہے، لیکن میرے نزدیک وہ سرتا سر ایک بے اصل (baseless) نظریہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وحدت وجود کوئی مذہبی تصور نہیں ،وہ صرف ایک فلسفیانہ تصور ہے جس کو مذہب میں شامل کرلیا گیاہے۔ اسی بنا پر ہندو مذہب میں اس اعتبار سے سخت تضاد پیدا ہوگیاہے۔ ایک طرف وہ نرا کار خدا (formeless god) کو مانتے ہیں اور دوسری طرف وہ دیوتاؤں کی مورتی بنا کر اس کو آکار (form) کادرجہ دئے ہوئے ہیں۔موجودہ زمانے میں سائنس نے کائنات کا جو مطالعہ کیاہے،اس سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ کائنات کی تخلیق اور اس کے انتظام میں ایک برتر ذہن (superior mind) کام کررہا ہے۔جس کو ایک سائنس داں نے شعوری وجود (conscious being) کا نام دیا ہے، اس طرح سائنس کی دریافتوں نے وحدت وجود کے تحت مفروضہ تصور خدا کی مکمل تردید کردی ہے، جس طرح اس نے زمین مرکزی (geo-centric) شمسی نظام کی تردید کردی تھی۔اس کے برعکس،سائنس کی دریافتیں پورے معنوں میں عقیدۂ توحید کے تحت بیان کردہ تصور خدا کی علمی تصدیق بن گئی ہیں۔ مولانا وحید الدین خان ، الرسالہ آگست 2009 ص:40
یہ موضوع یہاں سے کاپی کیا گیا ہے۔ایک بات جو دوسرے دلائل سے ثابت ہوچکی ہو اس کی مزید وضاحت کے لیے کوئی مثال پیش کرنا درست ہے۔ ایسی مثال اصل دعوی کی دلیل نہیں ہوتی وہ اصل دعوی کی صرف مزید تشریح ہوتی ہے،قدیم لٹریچر تمثیلات سے بھراہوا ہے۔قدیم زمانہ کے علماء اکثر مثالوں کے ذریعہ بات کہا کرتے تھے۔مگر مثال بذات خود دلیل نہیں۔مثال پیش کرنے کی دو صورتیں ہیں۔ایک وضاحت،دوسرے استدلال، پہلی صورت علمی طور پر جائز ہے اور دوسری صورت علمی طور پر جائز نہیں۔
دوسری صورت یہ ہے کہ ایک دعوی کیا جائے اور اس کی دلیل کے طور پر ایک مثال پیش کی جائے۔مثال کے طور پر وحدت الوجود کا نظریہ۔اس نظریہ کے پیش کرنے والے ہمیشہ مثالوں کے ذریعہ اس کو ثابت کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک عام مثال سمندر اور قطرہ کی ہے۔کہاجاتاہے کہ سمندر سمندر ہے اور قطرہ قطرہ۔ مگر قطرہ بھی انتہائی چھوٹی سطح پر سمندر ہی کا ایک حصہ ہے۔
مثال ہمیشہ ایک علیحدہ چیز ہوتی ہے اس کو کسی بھی بات سے جوڑا جاسکتاہے۔ اسی لیے کہاگياہے کہ تمثیل استدلال کا سب سے کمزور طریقہ ہے:(Analogy is the weakest from of argument.)مگر یہ مثال وحدت الوجود کے نظریہ کو ثابت نہیں کرتی۔یہ مثال صرف اس وقت اصل نظریہ کا ثبوت بنےگی جب کہ اسی کے ساتھ یہ بھی ثابت کیاجائے کہ دونوں میں استدلالی ربط ہے۔مثلا کوئی ایسی آیت یا حدیث پیش کی جائے جس میں صراحتا بتایاگیا ہو کہ خالق اور مخلوق کے درمیان وحدت الوجود کا رشتہ ہے اور اس رشتہ کو نظریاتی طور پر قابل فہم بنانے کے لیے اللہ تعالی نے سمندر اور قطرہ کی تمثیل دنیا میں قائم کردی ہے۔ تم سمندر اور قطرہ کو دیکھو اور اس سے وحدت الوجود کے مسئلہ کو سمجھ لو۔
ڈائری،جلد اول(1983-1984) ،ص:249-248