و ما ينطق عن الهوى
وحی کا اقرار صاحب وحی کا انکار
وحی کا اقرار صاحب وحی کا انکار
قرآن کو ماننے اور حدیث کا انکار کرنے والوں کی مثال اس طالبعلم کی سی ہے جو کہتا ہے کہ میں کتاب کو تو مانتا ہوں لیکن استاد اور اس کے بیان کو نہیں۔
جاننا چاہئے کہ نصاب اگر ریاضی ہو تو استاد ریاضی دان ہوتا ہے، نصاب اگر طبیعیات ہو تو استاد ماہر طبیعیات ہوتا ہے۔ نصاب اگر فلسفہ ہو تو استاد فلسفی ہوتا ہے۔ اسی طرح نصاب اگر وحی ہو تو استاد صاحب وحی ہوتا ہے۔ وحی کی تشریح و توضیح تو کر ہی وہی سکتا ہے جس کا عمل وحی ہو، جس کا قول وہی ہو، حتٰی کہ خواب و خیال تک وحی ہوں۔ قرآن نے یہی بات سورة النجم میں ان الفاظ میں ارشاد فرمائی :
وَمَا يَنطِقُ عَنِ ٱلْهَوَىٰٓ
وہ اپنی خواہش نفس سے نہیں بولتا
منکرین حدیث کا معاملہ یہ ہے کہ یہ اپنے نصاب کو تو وحی مانتے ہیں لیکن استاد خود بن جاتے ہیں اور صاحب وحی کا انکار کر دیتے ہیں۔ حالانکہ خالق قرآن نے تبیین و تفصیل اور شرح و بیان کا ذمہ دار صاحب وحی کو ٹھہرایا ہے جیسا کا سورة النحل ميں ارشاد ہوا:
وَأَنزَلْنَآ إِلَيْكَ ٱلذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ
اور اب یہ ذکر تم پر نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے اُس تعلیم کی تشریح و توضیح کرتے جاؤ جو اُن کے لیے اتاری گئی ہے، اور تاکہ لوگ (خود بھی) غور و فکر کریں
قرآن نے صرف اتنے پر ہی اکتفا نہیں کیا كہ صاحب وحی کو کہہ دیا ہو کہ وحی کی توضیح و تفصیل اب آپ کا فرض منصبی ہے بلکہ دوسری طرف انسانیت کو بھی حکم دے دیا کہ صاحب وحی کی اطاعت ان پر لازم ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ ٱللَّهَ فَٱتَّبِعُونِى يُحْبِبْكُمُ ٱللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَٱللَّهُ غَفُورٌۭ رَّحِيمٌۭ
اے نبیؐ! لوگوں سے کہہ دو کہ، "اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو، تو میر ی پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے"
ثابت ہوا قرآن کو ماننے اور حدیث کا انکار کرنے والوں کی مثال اس طالبعلم کی سی ہے جو کہتا ہے کہ میں کتاب کو تو مانتا ہوں لیکن استاد اور اس کے بیان کو نہیں۔
علمكم الله و اياي