• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وراثت کے مسئلے پر رہنمائی فرمائیں

Hina Rafique

رکن
شمولیت
اکتوبر 21، 2017
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
18
پوائنٹ
75
سوال
محمد مالک کی 2 بیویاں تھی پہلی بیوی سے 1 بیٹی اور 2 بیٹے اور دوسری بیوی سے 5 بیٹے اور 3 بیٹیاں
محمد مالک کا انتقال اپنے والد فتح علی کی زندگی میں ہی ہو گیا بچے ابھی چھوٹے ہی تھے
1.فتح علی (بچوں کے دادا) نے اپنی مرضی سے پوتوں کے نام اپنی زمینیں لگوائیں کیا ان زمینوں میں پوتیوں کا کوئی حصہ بنتا ہے؟
2. ایک پوتی کے نام بھی کچھ زمین لگوائی لیکن پھر انگوٹھا لگوا کر وہ بھی پوتے کے نام کر دی، کیا ایسا کرنا صحیح تھا؟ کیا پوتی یہ زمین واپسی کا مطالبہ کر سکتی ہے؟
3. کچھ زمین پوتوں کے نام سانجھی ہے اب اُس زمین میں بڑا بھائی چھوٹے بھائیوں کا حصہ تو مانتا ہے لیکن بہنوں کا حصہ نہیں مانتے، تو سوال یہ ہے کہ جب چھوٹے بھائیوں کا حصہ بنتا ہے تو کیا بہنوں کا حصہ نہیں بنتا؟
4. انتقال کے وقت محمد مالک کے نام پر 24 ایکڑ زمین تھی تو اب جب پوتوں کے نام دادا(فتح علی) تو زمینیں کر چکے تھے تو اب والد والی زمین میں لڑکوں کا حصہ ہوگا یا نہیں؟ اگر ہوگا تو پھر لڑکیوں کا حصہ تو بھائیوں سے بہت کم رہے گا.
(اب دادا کا بھی انتقال ہو چکا ہے اورمحمد مالک کی پہلی بیوی کا بھی انتقال ہو چکا ہے تو اب زمین کے حصے کتنے ہونگے؟
برائے مہربانی تفصیل سے مسائل سمجھا دیں
محترم
@اسحاق سلفی
@مقبول احمد سلفی
@Amirab313
@خضر حیات
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ
شروع از بتاریخ : 28 November 2012 11:27 AM
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
پوتا کو دادا کی وراثت میں سے احناف کے ہاں کچھ نہیں ملتا سوال یہ ہے کہ کسی اور مسلک میں وہ وارث بنتا ہے؟برائے مہربانی جتنی جلدی ہو سکے جواب دے کر مشکور ہوں۔؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

موجودہ دور میں وراثت کے متعلق جس مسئلے کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے وہ میت کی اپنی حقیقی اولاد کے ہوتے ہوئے یتیم پوتے پوتی اور نواسے نواسی کی میراث کا مسئلہ ہے۔ اس کی بے چارگی اور محتاجی کو بنیاد بنا کر اسے بہت اچھالا گیا ہے، حالانکہ اس مسئلے میں رسول اللہﷺ کے عہد مبارک سے لے کر بیسویں صدی تک کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا کہ دادا یا نانا کے انتقال پر اگر اس کا بیٹا موجود ہو تو اس کے دوسرے مرحوم بیٹے یا بیٹی کی اولاد کو کوئی حصہ نہیں ملے گا۔
اس مسئلے میں نہ صرف مشہور فقہی مذاہب، حنفیہ، مالکیہ، شافعیہ اور حنابلہ نیز شیعہ، امامیہ، زیدیہ اور ظاہریہ سب متفق ہیں بلکہ غیر معروف ائمہ و فقہا کا بھی اس کے خلاف کوئی قول منقول نہیں، البتہ حکومت پاکستان نے 1961ء میں مارشل لاء کا ایک آرڈیننس جاری کیا، جس کے تحت یہ قانون نافذ کر دیا گیا کہ اگر کوئی شخص مر جائے اور اپنے پیچھے ایسے لڑکے یا لڑکی کی اولاد چھوڑ جائے جس نے اس کی زندگی میں وفات پائی ہو تو مرحوم یا مرحومہ کی اولاد دیگر بیٹوں کی موجودگی میں اس حصے کو پانے کی حقدار ہو گی جو ان کے باپ یا ماں کو ملتا، اگر وہ اس شخص کی وفات کے وقت زندہ ہوتے۔
پاکستان میں اس قانون کے خلافِ شریعت ہونے کے متعلق عظیم اکثریت نے دو ٹوک فیصلہ کر دیا تھا کہ یہ قانون امت مسلمہ کے اجتماعی نقطہ نظر کے خلاف ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ:
’’اللہ تعالیٰ تمھیں تمھاری اولاد کے متعلق حکم دیتا ہے۔ مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصوں کے برابر ہے۔‘‘النساء 11:4
اس آیتِ کریمہ میں لفظ اولاد، ولد کی جمع ہے جو جنے ہوئے کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ عربی زبان میں لفظ ولد دو طرح سے مستعمل ہے:
1۔حقیقی، جو بلاواسطہ جنا ہوا ہو، یعنی بیٹا اور بیٹی۔
2۔مجازی، جو کسی واسطے سے جنا ہوا ہو، یعنی پوتا اور پوتی۔
بیٹیوں کی اولاد، یعنی نواسی اور نواسے اس لفظ کے مفہوم میں شامل ہی نہیں ہیں کیونکہ نسب باپ سے ملتا ہے۔ اس بنا پر نواسا اور نواسی لفظ ولد کی تعریف میں شامل نہیں ہیں۔ نیز یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جب تک حقیقی معنی کا وجود ہو گا مجازی معنی مراد لینا جائز نہیں ہے، یعنی لفظ ولد کے حقیقی معنی بیٹے اور بیٹی کی موجودگی میں پوتا اور پوتی مراد نہیں لیے جا سکتے، لہٰذا آیتِ کریمہ کا واضح مطلب یہ ہوا کہ حقیقی بیٹے کے ہوتے ہوئے پوتے پوتی کا کوئی حق نہیں ہے، خواہ وہ پوتا پوتی زندہ بیٹے سے ہوں یا مرحوم بیٹے سے۔
اس کے متعلق امام جَصّاص اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’امت کے اہلِ علم کا اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ حق تعالیٰ کے مذکورہ ارشاد میں صرف اولاد مراد ہے اور اس میں بھی کوئی اختلاف نہیں ہے کہ پوتا، حقیقی بیٹے کے ساتھ اس میں شامل نہیں ہے اور نہ اس میں اختلاف ہے کہ اگر حقیقی بیٹا موجود نہ ہو تو اس سے مراد بیٹوں کی اولاد ہے بیٹیوں کی نہیں، لہٰذا یہ لفظ صلبی اولاد کے لیے ہے اور جب صلبی نہ ہو تو بیٹے کی اولاد اس میں شامل ہے۔ أحکام القرآن: 96/2
ا س سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:
ترجمہ:
’’وراثت کے مقررہ حصے ان کے حقداروں کو دو، پھر جو بچ جائے وہ میت کے سب سے زیادہ قریبی مذکر کے لیے ہے۔‘‘صحیح البخاري، الفرائض، باب میراث الولد من أبیہ وأمِّہٖ، حدیث: 6732
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مقررہ حصہ لینے والوں کے بعد وہ وارث ہو گا جو میت سے قریب تر ہو گا، چنانچہ بیٹا، درجے کے اعتبار سے پوتے کی نسبت قریب تر ہے، اس لیے پوتے کے مقابلے میں بیٹا وارث ہو گا۔
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے واضح طور پر فرمایا کہ پوتا بیٹے کی موجودگی میں وارث نہیں ہو گا۔ اس پر امام بخاری نے بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے:
ترجمہ:
’’پوتے کی وراثت جبکہ بیٹا موجود نہ ہو۔‘‘ صحیح البخاري، الفرائض، باب : 7
شریعت نے وراثت کے سلسلے میں الأقرب فالأ قرب کے قانون کو پسند کیا ہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ:
’’ہر ایک کے لیے ہم نے اس ترکے کے وارث بنائے ہیں جسے والدین اور قریب تر رشتہ دار چھوڑ جائیں۔‘‘ النساء 33:4
اس آیتِ کریمہ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ قریبی رشتہ دار کی موجودگی میں دور والا رشتہ دار محروم ہو گا، لہٰذا بیٹے کی موجودگی میں پوتا وراثت سے حصہ نہیں پائے گا۔
یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ اسلام نے وراثت کے سلسلے میں رشتہ داروں کے فقر و احتیاج اور ان کی بے چارگی کو بنیاد نہیں بنایا جیسا کہ یتیم پوتے کے متعلق اس قسم کا تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے بلکہ مستقبل میں مالی معاملات کے متعلق ان کی ذمہ داری کو بنیاد قرار دیا ہے۔ اگر اس سلسلے میں کسی کا محتاج اور بے بس ہونا بنیاد ہوتا تو لڑکی کو لڑکے کے مقابلے میں دوگنا حصہ ملنا چاہیے تھا کیونکہ لڑکے کے مقابلے میں لڑکی مال و دولت کی زیادہ حاجت مند ہے اور اس کی بے چارگی کے سبب میت کے مال میں اسے زیادہ حقدار قرار دیا جانا چاہیے تھا، جبکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ وراثت میں حاجت مندی، عدمِ کسب معاش یا بے چارگی قطعاً ملحوظ نہیں ہے۔
البتہ اسلام نے اس مسئلے کا حل یوں نکالا ہے کہ مرنے والے کو چاہیے کہ وہ اپنے یتیم پوتے، پوتیوں، نواسے، نواسیوں اور دیگر غیر وارث حاجت مند رشتہ داروں کے حق میں مرنے سے پہلے اپنے ترکہ سے کی وصیت کر جائے۔ اگر کوئی یتیم پوتے پوتیوں کے موجود ہوتے ہوئے دیگر غیر وارث افراد یا کسی خیراتی ادارے کے لیے وصیت کرتا ہے تو حاکمِ وقت کو اختیار ہونا چاہیے کہ وہ اسے ان کے حق میں کالعدم قرار دے کر حاجت مند یتیم پوتے، پوتیوں کے حق میں اس وصیت کو نافذ قرار دے۔ ہاں اگر دادا نے اپنی زندگی میں یتیم پوتے پوتیوں کو بذریعہ ہبہ ترکے کا کچھ حصہ پہلے ہی دے دیا ہے تو اس صورت میں وصیت کو کالعدم قرار دینے کے بجائے اسے عملاً نافذ کر دیا جائے۔
هذا ما عندي والله اعلم بالصواب
فتاویٰ علمائے حدیث

 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
پوتا کا جائیداد میں حصہ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہفت روزہ اہل حدیث شمارہ نمبر:24 کے احکام وسائل میں آپ نے لکھا ہے کہ پوتا اپنے دادا کی جائیداد سے محروم رہتا ہے ۔ا ٓپ کا جواب شکوک شبہات کا باعث ہے۔ یعنی آدمی کا بیٹا فوت ہوجائے۔ فوت ہونے والے کی چھوٹی اولاد بھی ہو۔ ایسے حالات میں بیوہ اور یتیم اولاد کو وراثت سے محروم کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ اسلام کی حقانیت سے انکار ممکن نہیں، لیکن یہاں اسلام نے یتیموں اور بیواؤں کے حق کوکیوں ساقط کردیا ہے جبکہ دوسرے مذاہب یتیم پوتوں کو حق دیتے ہیں اور انہیں کسی صورت میں محروم نہیں کرتے۔ مہربانی فرما کر مفصل جواب دیں؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال


وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بندہ مسلم کی شان یہ ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکام بجا لاتا ہے اور سمع و اطاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود کو اسلام کے حوالے کردیتا ہے۔ دین اسلام دیگر ادیان کے مقابلہ میں ، اس لئے بلند و برتر ہے کہ اس میں اعتدال کا حسن ہے۔ درج ذیل سوال میں سطحی جذبات کے پیش نظر اسلام کی حقانیت کو چیلنج کیاگیا ہے، حالانکہ جس قدر یتیموں کے حقوق کا خیال دین اسلام کی تعلیمات میں ہے دیگرادیان میں اس کا عشر عشیر بھی نہیں ہے۔اس تمہیدی گزارش کے بعد واضح ہو کہ اسلام نے میراث کے سلسلے میں اقربا کے فقرواحتیاج اور ان کی بے چارگی کو بنیادنہیں بنایا؟جیسا کہ یتیم پوتے کے متعلق سوال میں یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے بلکہ مستقبل میں مالی معاملات کے متعلق ذمہ داری کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ اگر اس سلسلہ میں کسی کا محتاج اور بے بس ہونا بنیاد ہوتاتو ارشاد باری تعالیٰ بایں الفاظ نہ ہوتا کہ ‘‘مذکر کے لئے دو مونث کے برابر حصہ ہے۔’’بلکہ اس طرح ہوتا کہ مونث کے لئے دو مذکر کے برابر حصہ ہے کیونکہ لڑ کے کےمقابلہ میں لڑکی مال و دولت کی زیادہ حاجت مند ہے اور اس بے چارگی کےسبب میت کےمال سے اسے زیادہ حقدار قرار دیاجانا چاہئےتھا۔ اسی طرح شوہر کو زوجہ کی اولاد نہ ہونے پر نصف جائیداد کا مستحق قرار دیا گیا ہے جبکہ زوجہ کو شوہر کی اولاد نہ ہونے کی صورت میں ایک چوتھائی کا حقدار ٹھہرایا گیا ہے، حالانکہ حاجت مندی ،بے چارگی ،عدم کسب معاش اور نسوانی وصف کا تقاضا تھا کہ شوہر کےلئے ایک چوتھائی اور بیوی کے لئے نصف مقررہوتا ۔ ان حقائق کا واضح مطلب ہے کہ وراثت میں حاجت مند ہونا یا عدم اکتساب یا بے چارگی قطعاً ملحوظ نہیں ہے۔ موجودہ دور میں وراثت کےمتعلق جس مسئلہ کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے وہ میت کی اپنی حقیقی اولاد موجود ہونے کےباوجود یتیم پوتے ،پوتی ،نواسے اور نواسی کی میراث کا مسئلہ ہے،یعنی دادا یا نانا کےانتقال پر اس کےاپنے بیٹے کے موجود ہوتے ہوئے اس کے مرحوم بیٹےیا بیٹی کی اولاد دادا یا نانا کےترکہ سےمیراث پانے کی مستحق ہےیا نہیں، اس مسئلہ کےمتعلق رسول اللہﷺ کے زمانہ سےلےکربیسویں صدی تک کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا کہ دادا یا نانا کے انتقال پر اگر اس کا کوئی بیٹا موجود ہو تو اس کے دوسرے مرحوم بیٹے یا بیٹی کی اولاد کو کوئی حصہ نہیں ملے گا،اس مسئلہ میں نہ صرف اہل سنت کے مشہور فقہی مذاہب ،حنفیہ، مالکیہ،شافعیہ اور حنبلیہ ، نیز شیعہ ، امامیہ و زیدیہ اور ظاہر یہ سب متفق ہیں، بلکہ غیر معروف ائمہ فقہا کا بھی کوئی قول اس کےخلاف منقول نہیں، البتہ حکومت پاکستا ن نے ۱۹۶۱ءمیں مارشل لا کے ذریعے ایک آرڈیننس جاری کیا جس کےتحت یہ قانون نافذ کردیا گیا کہ اگر کوئی شخص مرجائے اور اپنےپیچھے ایسے لڑکے یا لڑکی کی اولاد کو چھوڑ جائے جو اس کی زندگی میں فوت ہوچکا ہوتو مرحوم یا مرحومہ کی اولاد دیگر بیٹوں کی موجودگی میں اس حصے کو پانے کی مستحق ہوگی جو ان کےباپ یا ماں کو ملتا اگر وہ اس شخص کی وفات کےوقت موجود ہوتے ۔ پاکستا ن میں اس قانون کےخلاف شریعت ہونےکےمتعلق عظیم اکثریت نے دو ٹوک فیصلہ کردیا تھاکہ یہ قانون امت مسلمہ کےاجتماعی نقطہ نظر کے خلاف ہے۔ کیونکہ قرآن کریم میں ہے:
‘‘اللہ تعالیٰ تمہیں اولاد کے متعلق حکم دیتا ہے کہ مذکر کےلئے اس کا حصہ دو مونث کےحصہ کےبرابر ہے۔’’ (۴/النساء:۱۱)
اس آیت کریمہ میں اولاد ،ولد کی جمع ہے جس کے معنی جننے کےہیں۔ جو جنے ہوئے معنی میں استعمال ہوا ہےلیکن ولد کے معنی دو طرح مشتمل ہیں
(۱)ایک حقیقی جو بلاواسطہ جنا ہواہو، یعنی بیٹا اور بیٹی۔
(۲)دوسرے مجازی جو کسی واسطہ سےجناہوا ہو، یعنی پوتا اور پوتی۔
بیٹیوں کی اولاد نواسی اور نواسے ا س کےمفہوم میں شامل نہیں ہیں کیونکہ نسب باپ سےچلتا ہے،ا س بنا پر نواسہ اور نواسی لفظ ولد کی تعریف میں شامل نہیں ہیں۔ یہ بھی ایک مسلمہ اصول ہے کہ جب تک حقیقی معنی کا وجود ہوگا مجازی معنی مراد لینا جائز نہیں ہے،یعنی لفظ ولد کے حقیقی معنی بیٹا یا بیٹی کی موجودگی میں پوتا اور پوتی وغیرہ مراد نہیں لیے جاسکیں گے، لہٰذا آیت کریمہ کا مطلب یہ ہوا کہ بیٹے کے ہوتےہوئے پوتے پوتی کا کائی حق نہیں ہے وہ پوتا پوتی زندہ بیٹے سے ہوں یا مرحوم بیٹے سے ،امام جصاص ؒ کہتےہیں:‘‘امت کے اہل علم کا اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ حق تعالیٰ کے مذکورہ ارشاد میں حقیقی اولاد مراد ہے اور نہ اس میں اختلاف ہےکہ پوتاحقیقی بیٹے کے ساتھ اس میں داخل نہیں ہے اور نہ اس میں اختلاف ہےکہ اگر حقیقی بیٹا موجود نہ ہو تو مراد بیٹوں کی اولاد سے بیٹیوں کی نہیں، لہٰذا یہ لفظ صلبی اولاد کےلئے ہے اور جب صلبی نہ ہوتو بیٹے کی اولاد کو شامل ہے۔’’ (احکام القرآن ،ص:۶۹،ج۲)
پھر احادیث میں ہے کہ وراثت کےمقررہ حصے ان کے حقداروں کو دو، پھر جو بچے وہ میت کے سب سے قریبی مذکر رشتہ دار کےلئے ہے۔ (صحیح بخاری، الفرائض:۶۷۳۲)
اس حدیث سےمعلوم ہوتا ہے مقرر حصے لینے والوں کے بعد وہ وارث ہوگا جو میت سے قریب تر ہوگا، چنانچہ بیٹا پوتے سے قریب تر ہے،اس لئے پوتے کےمقابلے میں بیٹا وارث ہوگا۔
شریعت نے وراثت کےسلسلہ میں اقرب فالاقرب کےقانون کوپسند فرمایاہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہےکہ ‘‘ ہر ایک کےلئے ہم نے موالی بنائے ہیں، اس ترکہ کےجسے والدین او ر قریبی رشتہ دار چھوڑجائیں۔’’ (۴/النساء:۳۳)
اس آیت سےیہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قریبی رشتہ دار کی موجودگی میں دور والا رشتہ دار محروم ہوگا، لہٰذا بیٹے کی موجودگی میں پوتا وراثت سے حصہ نہیں پائے گا۔
البتہ اسلا م نے اس مسئلہ کا حل بایں طور پر فرمایا ہے کہ مرنے والے کو چاہیئے کہ وہ اپنے یتیم پوتے، پوتیوں، نواسے ، نواسیوں و دیگر غیر وارث حاجت مند رشتہ داروں کے حق میں مرنےسے پہلے اپنے ترکہ سے 3/1 کی وصیت کرجائے،جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
‘‘ تم پر یہ فرض کردیا گیا ہے کہ اگر کوئی اپنے پیچھے مال چھوڑے جارہا ہے تو موت کے وقت اپنے والدین اور قریبی رشتہ داروں کے لئے وصیت کرے، یہ پرہیزگاروں پر فرض ہے۔’’ (۲/البقرہ:۱۸۰)
چونکہ حدیث کےمطابق وارث رشتہ دار کےلئے وصیت جائز نہیں ہے، اس لئے والدین کے لئے وصیت جائز نہیں ہے، البتہ دیگر رشتہ دار جو محتاج اور لاچار ہیں ان کےلئے وصیت کرنا ضروری ہے اگر کوئی یتیم پوتے، پوتیوں کےموجود ہوتےہوئے دیگر غیر وارث افراد یا کسی خیراتی ادارہ کےلئے وصیت کرتا ہے تو حاکم وقت کو اختیار ہونا چاہیے کہ وہ حاجت مند یتیم پوتے ، پوتیوں کے حق میں اس وصیت کو نافذ قرار دے، ہاں اگر دادا نے اپنی زندگی میں یتیم پوتے، پوتیوں کو بذریعہ ہبہ ترکہ کا کچھ حصہ پہلے ہی دے دیا ہوتو اس کی وصیت کالعدم قرار دینے کےبجائے اس کو نافذ کردیا جائے۔ (واللہ اعلم بالصواب)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب



ج2ص293


محدث فتویٰ
 

Hina Rafique

رکن
شمولیت
اکتوبر 21، 2017
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
18
پوائنٹ
75
جزاک اللہ خیرا فی الدارین محترم بھائی
@اسحاق سلفی
اللہ پاک آپ کے علم و عمل میں برکت عطا فرمائے آمین
 

Hina Rafique

رکن
شمولیت
اکتوبر 21، 2017
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
18
پوائنٹ
75
السلام علیکم ورحمتہ اللہ
محترم @اسحاق سلفی @عدیل سلفی
@مقبول احمد سلفی

سوال اگر ایک شخص کی
صرف بیٹیاں ہیں اور بیٹا نہیں ہے تو کیا اس کا بھتیجا اس کی جائیداد میں حصہ دار ہوگا
اور کیا یہ شخص اپنی زندگی میں حصہ دے سکتا ہے اپنے بھتیجے کو یا نہیں

صحیح رہنمائی فرمائیں
جزاک اللہ خیرا
 
Top