محمد علی جواد
سینئر رکن
- شمولیت
- جولائی 18، 2012
- پیغامات
- 1,986
- ری ایکشن اسکور
- 1,553
- پوائنٹ
- 304
آپ کے جوابات کا شکریہ عبدہ بھائی مگر -محترم بھائی اوپر کی بات میں ہر بھائی آپ کے ساتھ متفق ہے سوائے نشان زدہ الفاظ کے- جن میں میں تو آپ کے ساتھ متفق ہوں مگر جو متفق نہیں ہوتا اس کے کفر پر متفق نہیں ہوں کیونکہ ان کے پاس جائز تاویلات موجود ہیں اگرچہ میرے نزدیک وہ اجتہادی طور پر غلط ہو گا جیسے مبشر ربانی حفظہ اللہ کی کلمہ گو مشرک کتاب میں ابن باز رحمہ اللہ کا فتوی نقل ہے کہ بریلوی مشرک کو مشرک نہ سمجھنے والے بھائیوں کو کافر کہنا ٹھیک نہیں کیونکہ انکے پاس تاویل موجود ہے
محترم بھائی میں نے اوپر کفر میں اختلاف کی وضاحت کر دی ہے پس جب کفر میں ہی اتفاق نہیں تو قتل فرض عین نہیں ہو گا اور دوسرا آپ نے اوپر فاسق حکمرانوں لکھا ہے جس کی مطابقت آپ کی بات سے نہیں لگتی
جہاں تک قتل کا تعلق ہے تو اس میں بھی میں نے اوپر لکھا ہے کہ استطاعت اور سلطہ کو دیکھا جائے گا اور اس کے لئے آپ کے نظریے کے مطابق قابل عمل حل یہ نہیں کہ انکے قتل کے فتوی دینے شروع کر دیں بلکہ پہلے لوگوں کو اس بات پر تو متفق کر لیں یا اکثر کو متفق کر لیں یا اتنے لوگ جتنے کافی ہوں کو دعوت سے متفق کر لیں پھر آپ اپنے نظریے کے مطابق اپنی خواہش کو قابل عمل بنا سکتے ہیں
تحکیم بغیر ما انزل اللہ بھی غیر متفق کفر میں آتی ہے
اس میں اگر آپ کی مراد یہ ہے کہ صحیح مسلمان نہیں ہیں اسلئے ہمارے پاس طاقت نہیں پس ہم ہم سلطہ کے بغیر سزاؤں کو نافذ نہیں کر سکتے تو محترم بھائی میں بھی اوپر یہی کہ رہا ہوں
اگر اس کے مفہوم مخالف سے آپ کچھ اور ثابت کرنا چاہتے ہیں تو محترم بھائی وہ میں نے اوپر وضاحت کر دی ہے
اللہ آپ کا اور میرا حامی و ناصر ہو امین
یہ بات آپ بھی جانتے ہیں اور میں بھی جانتا ہوں کہ کسی بھی اختلاف کی صورت میں رجوع صرف قرآن و سنّت کی طرف ہے - اگر کوئی اپنے کفر سے برأت کے لئے کوئی تاویل پیش کرتا ہے تو اسے پہلے قرانی نص یا صحیح حدیث سے یہ ثابت کرنا ہو گا کہ اس پر کفر کا الزام غلط ہے - ورنہ نص صریح کے بارے میں تو تقریباً ہر کوئی جانتا ہے کہ کیا کفر ہے اور کیا نہیں - یہ الگ بات ہے کہ ہمارے ہاں قرآن کریم اور احدیث کو خود سے ترجمہ کے ساتھ نہیں پڑھا جاتا جس کی بنا پر فرقہ واریت اور بدعات معاشرے میں بڑی سرعت کے ساتھ پھیل رہی ہیں اور جس کی وجہ سے ہم تقریباً ہر دینی معاملے میں چاہے وہ نص صریح سے ثابت ہو یا نہیں - اندھے بہروں کی طرح اپنے نام نہاد علماء پر انحصار کرتے جا رہے ہیں -یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ ان علماء میں سے اکثریت کا مفاد حکومت وقت سے وابستہ ہوتا ہے -کیا ایسی صورت میں ہم ان علماء کی اکثریت کے فتویٰ پر اعتبار کریںنگے- جب کہ وہ خود حکمران طبقے کے حواری بنے ہوے ہوں-
جہاں تک ہمارے وقت کے حکمرانوں کا تعلق ہے- تو ان کے کفر تو کفر بواح ہے - اب اگر یہ کفر بواح ہمارے علماء کو نظر نا آئے تو کیا کہا جا سکتا ہے -ہاں البتہ بغاوت کے لئے ایک لاحے عمل مرتب کرنا ضروری ہے یہ نہیں کہ ہر کوئی بندوق لے کر گھر سے نکل پڑے -ہمارے حکمرانوں کا تو یہ حال ہے کہ اگر کوئی نبی کریم صل الله علیہ وآ لہ وسلم کی شان میں گستاخی کرتا ہے -تو حکمرانوں کی طرف سے عوام کے جذبات اور احتجاج کا ساتھ دینے کے بجاے طاغوتی قوتوں کی ہمنوائی کی جاتی ہے - اب اس سے بڑھ کر کفر بواح کیا ہو گا -اس کے بعد بھی اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ صبر سے کام لیا جائے اور حکمرنوں کی ان کفریہ باتوں کو برداشت کیا جائے تو کیا یہ زیادتی نہیں - کیا ہماری دینی حمیت اس بات کی ہمیں اجازت دیتی ہے - کہ ہم ان حکمرانوں کا صریح کفر برداشت کرتے رہیں (ظلم و ستم تو بعد کی بات ہے)-
اگر کوئی بات بری لگی ہو و معذرت چاہوں گا -الله آپ کو خوش رکھے -
والسلام -