ایک مسلم حکمران جب اپنے منصب پر برجمان ہوتا ہے تو اس پر سب سے پہلی ذمہ داری یہ عائد ہوتی ہے کہ وہ معاشرے میں وہ تمام اسلامی قوانین کا نفاذ بغیر کسی پس و پیش کے قائم کرے جو الله نے اپنے نبی کریم کے ذریے نازل کیے -اور عوام کو یہ باور کرائے کہ جو ان کی پابندی نہیں کرے گا - وہ ان اسلامی قوانین کے تحت مجرم قرار پا ے گا اورسزا کا مستحق ٹہرے گا -نبی کریم صل الله علیہ وسلم کا اسوہ بھی ہمیں یہی بات سکھاتا ہے کہ جب آپ صل الله علیہ وسلم کا ایک حکمران کی حثیت سے عرب پر تسلط قائم ہو گیا تب ہی آپ نے اسلامی سزاؤں کا نفاذ کیا - اور مجرموں کو سزائیں دلوائیں - لیکن ہمارے آج کے دور میں معاملا الٹ ہے - یہاں حکمران از خود کفر اور فساد فل الارض کی موجب بنے ہوے ہیں
محترم بھائی اوپر کی بات میں ہر بھائی آپ کے ساتھ متفق ہے سوائے نشان زدہ الفاظ کے- جن میں میں تو آپ کے ساتھ متفق ہوں مگر جو متفق نہیں ہوتا اس کے کفر پر متفق نہیں ہوں کیونکہ ان کے پاس جائز تاویلات موجود ہیں اگرچہ میرے نزدیک وہ اجتہادی طور پر غلط ہو گا جیسے مبشر ربانی حفظہ اللہ کی کلمہ گو مشرک کتاب میں ابن باز رحمہ اللہ کا فتوی نقل ہے کہ بریلوی مشرک کو مشرک نہ سمجھنے والے بھائیوں کو کافر کہنا ٹھیک نہیں کیونکہ انکے پاس تاویل موجود ہے
اس صورت میں ایک سچے مسلمان کی حثیت سے ان کے خلاف بغاوت کرنا نا صرف جائز ہے بلکہ فرض عین ہے -ہماری اور ہمارے علماء کی یہ ذمہ داری ہے کہ ان فاسق حکمرانوں پر زور ڈالیں کہ وہ اس ملک میں اسلامی قوانین نافذ کروائیں اور یہود و نصاری کی دوستی سے توبہ کریں اور ان کے خلاف اعلا ن جنگ کریں ورنہ دوسری صورت میں ان کو واجب القتل قرار دے کر ان کے خلاف بغاوت کرنا ہم پر فرض عین ہو جاتا ہے -
الله کا قرآن میں واضح ارشاد ہے -
وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ سوره المائدہ ٤٤
جو کوئی اس کے موافق فیصلہ نہ کرے جو الله نے اتارا تو وہی لوگ کافر ہیں -
محترم بھائی میں نے اوپر کفر میں اختلاف کی وضاحت کر دی ہے پس جب کفر میں ہی اتفاق نہیں تو قتل فرض عین نہیں ہو گا اور دوسرا آپ نے اوپر فاسق حکمرانوں لکھا ہے جس کی مطابقت آپ کی بات سے نہیں لگتی
جہاں تک قتل کا تعلق ہے تو اس میں بھی میں نے اوپر لکھا ہے کہ استطاعت اور سلطہ کو دیکھا جائے گا اور اس کے لئے آپ کے نظریے کے مطابق قابل عمل حل یہ نہیں کہ انکے قتل کے فتوی دینے شروع کر دیں بلکہ پہلے لوگوں کو اس بات پر تو متفق کر لیں یا اکثر کو متفق کر لیں یا اتنے لوگ جتنے کافی ہوں کو دعوت سے متفق کر لیں پھر آپ اپنے نظریے کے مطابق اپنی خواہش کو قابل عمل بنا سکتے ہیں
تحکیم بغیر ما انزل اللہ بھی غیر متفق کفر میں آتی ہے
یہ بات ذہن میں رہے کہ مرتد فرقوں اور افراد پر قتل کا اطلاق اسی وقت ممکن ہے جب پہلے حکلمران از خود مسلمان ہو اور اسلامی سزاؤں کا نفاذ ملک میں قائم کرچکا ہو -
والسلام -
اس میں اگر آپ کی مراد یہ ہے کہ صحیح مسلمان نہیں ہیں اسلئے ہمارے پاس طاقت نہیں پس ہم ہم سلطہ کے بغیر سزاؤں کو نافذ نہیں کر سکتے تو محترم بھائی میں بھی اوپر یہی کہ رہا ہوں
اگر اس کے مفہوم مخالف سے آپ کچھ اور ثابت کرنا چاہتے ہیں تو محترم بھائی وہ میں نے اوپر وضاحت کر دی ہے
اللہ آپ کا اور میرا حامی و ناصر ہو امین