- شمولیت
- نومبر 08، 2011
- پیغامات
- 3,416
- ری ایکشن اسکور
- 2,733
- پوائنٹ
- 556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
دوم کہ کسی بھی مسئلہ میں کسی کے اجتہاد کے قبول و رد کا قاعدہ بھی منطبق کیا جاتا ہے ، یہ کوئی خارجی بحث نہیں!
سوم کہ یہ معاملہ اٹھا یا آپ نے ہی تھا، لہٰذا آپ کو کسی کے اجتہاد کے قبول ورد سے متعلق اہل الحدیث کا مؤقف بتلایا بھی ، اور اس کے اثبات پر قرآن و حدیث کے دلائل بھی پیش کئے گئے!
میرے بھائی! آپ کے امام تو امام ابو حنیفہ کے علاوہ تمام اسلاف کے اقوال کو ررد کرنے کا اصول بیان کرتے ہیں، یعنی امام صاحب کے قول کی موجودگی میں تمام اسلاف کے قول کورد فرماتے ہیں! وہ بھی قرآن و حدیث کی دلیل کی بنیاد پر نہیں!
میں اس رسالہ کا اردو ترجمہ بھی پیش کردیتا ہوں تاکہ قارئین کو سمجھنے میں آسانی ہو!
ملاحظہ فرمائیں: أجلى الإعلام أن الفتوى مطلقا على قول الإمام ، اس امر کی تحقیق عظیم کہ فتویٰ ہمیشہ قول امام پر ہے۔ احمد رضا خان بریلوی
جبکہ ہم نے تو کسی کے اجتہاد کے قبول ورد کے لئے اہل الحدیث کا اصول قرآن و سنت کے دلائل سے پیش کیا ہے۔
باقی یہ اعتراض جو اسلاف کی باتوں کو اجتہادی خطاء کہنے پر ہے، تو اس اعتراض کے اول مصداق تو آپ ہی ہیں، کہ آپ حنفی ائمہ کے علاوہ باقی تمام اسلاف کے اجتہاد کو رد کرتے ہیں، اور امام ابو حنیفہ کے قول کے موجودگی میں نہ صرف حنفیوں کے علاوہ باقی تمام اسلاف بلکہ حنفی اسلاف کے اقوال کو بھی رد کرنے کے قائل ہو! خواہ اہ امام محمد بن حسن الشیبانی ہوں، یا قاضی ابو یوسف ہوں، یا امام صاحب کے دیگر شاگرد اور اساتذہ کا اجتہاد بھی امام ابو حنیفہ کے قول کے خلاف ہو تو اسے بھی رد کرنے کا اصول رکھتے ہیں!
باقی رہا ہمارا اصول تو میرے بھائی! کیا اسلاف کے اجتہاد میں خطاء نہیں ہوتی، کہ ہم اسے رد نہیں کیا جاسکتا!
ہاں اسلاف کا کسی اجتہاد پر اتفاق ہو، تو وہ ایک الگ بات ہے، ہم ایسے متفقہ اجتہاد کو رد نہیں کرتے، کہ وہ خطا نہیں صواب ہوتا ہے۔ اور ہم نے قرآن و حدیث سے جو دلائل پیش کئے ہیں، وہ دلیل اسلاف کے اجتہاد کے لئے بھی ہے، اسے خلف کے لئے خاص نہیں کیا جاسکتا۔ فتدبر!
@محمد افضل رضوی بھائی! ایک معذرت میں نجانے کیوں آپ کو پچھلے مراسلوں میں قادری لکھتا رہا، شاید لاشعور میں کسی اور شخص کا نام تھا، اور میں آپ کو قادری لکھتا رہا!
(جاری ہے)
جی جناب! '' وسیلہ اور اسلاف امت کے طریقہ کار ''کے معاملہ میں بھی ہمارے اصول قائم رہتے ہیں، ایسا نہیں جیسا آپ کرتے ہیں کہ ایک ہی مراسلہ میں اپنے امام اعظم کے قول کی وضاحت شاہ عبد العزیز سے پیش کریں، اور امام مرداوی جب امام احمد کے قول کی وضاحت ''تقی الدین'' سے پیش کرتے ہیں، تو اسے آپ یہ کہہ کر رد کردیتے ہو کہ یہ امام احمد بن حنبل کا اپنا کلام نہیں!اب اہل الحدیث کا مؤقف سمجھ لیں: اجتہاد میں کسی مجتہد کو خطا بھی ہو سکتی ہے
جناب کفایت اللہ سنابلی کے دفاع میں یہ بھی بھول گئے کہ یہاں بات ہو رہی ہے
“وسیلہ اور اسلاف امت کا طریقہ کار“
دوم کہ کسی بھی مسئلہ میں کسی کے اجتہاد کے قبول و رد کا قاعدہ بھی منطبق کیا جاتا ہے ، یہ کوئی خارجی بحث نہیں!
سوم کہ یہ معاملہ اٹھا یا آپ نے ہی تھا، لہٰذا آپ کو کسی کے اجتہاد کے قبول ورد سے متعلق اہل الحدیث کا مؤقف بتلایا بھی ، اور اس کے اثبات پر قرآن و حدیث کے دلائل بھی پیش کئے گئے!
محمد افضل رضوی صاحب!آپ کو ہم نے آپ کا اپنا قاعدہ آپ کے امام احمد رضا خان بریلوی کا رسالہ پیش کرکے بتلایا، مگر آپ نے شاید اس پر نظر نہیں کی!مگر جناب نے اسلاف کی باتوں کو اجتہادی خطا کہہ کے ہی بات ختم کرنی ہے تو یہاں پہ صاف لکھ دیں کہ آپ
کے نزدیک س حق وہی جو
آپ کے عقائد کے مطابق باقی سب خطا پہ تھے۔۔
بات ختم ہو جا تی۔۔
میرے بھائی! آپ کے امام تو امام ابو حنیفہ کے علاوہ تمام اسلاف کے اقوال کو ررد کرنے کا اصول بیان کرتے ہیں، یعنی امام صاحب کے قول کی موجودگی میں تمام اسلاف کے قول کورد فرماتے ہیں! وہ بھی قرآن و حدیث کی دلیل کی بنیاد پر نہیں!
میں اس رسالہ کا اردو ترجمہ بھی پیش کردیتا ہوں تاکہ قارئین کو سمجھنے میں آسانی ہو!
ملاحظہ فرمائیں: أجلى الإعلام أن الفتوى مطلقا على قول الإمام ، اس امر کی تحقیق عظیم کہ فتویٰ ہمیشہ قول امام پر ہے۔ احمد رضا خان بریلوی
جبکہ ہم نے تو کسی کے اجتہاد کے قبول ورد کے لئے اہل الحدیث کا اصول قرآن و سنت کے دلائل سے پیش کیا ہے۔
باقی یہ اعتراض جو اسلاف کی باتوں کو اجتہادی خطاء کہنے پر ہے، تو اس اعتراض کے اول مصداق تو آپ ہی ہیں، کہ آپ حنفی ائمہ کے علاوہ باقی تمام اسلاف کے اجتہاد کو رد کرتے ہیں، اور امام ابو حنیفہ کے قول کے موجودگی میں نہ صرف حنفیوں کے علاوہ باقی تمام اسلاف بلکہ حنفی اسلاف کے اقوال کو بھی رد کرنے کے قائل ہو! خواہ اہ امام محمد بن حسن الشیبانی ہوں، یا قاضی ابو یوسف ہوں، یا امام صاحب کے دیگر شاگرد اور اساتذہ کا اجتہاد بھی امام ابو حنیفہ کے قول کے خلاف ہو تو اسے بھی رد کرنے کا اصول رکھتے ہیں!
باقی رہا ہمارا اصول تو میرے بھائی! کیا اسلاف کے اجتہاد میں خطاء نہیں ہوتی، کہ ہم اسے رد نہیں کیا جاسکتا!
ہاں اسلاف کا کسی اجتہاد پر اتفاق ہو، تو وہ ایک الگ بات ہے، ہم ایسے متفقہ اجتہاد کو رد نہیں کرتے، کہ وہ خطا نہیں صواب ہوتا ہے۔ اور ہم نے قرآن و حدیث سے جو دلائل پیش کئے ہیں، وہ دلیل اسلاف کے اجتہاد کے لئے بھی ہے، اسے خلف کے لئے خاص نہیں کیا جاسکتا۔ فتدبر!
@محمد افضل رضوی بھائی! ایک معذرت میں نجانے کیوں آپ کو پچھلے مراسلوں میں قادری لکھتا رہا، شاید لاشعور میں کسی اور شخص کا نام تھا، اور میں آپ کو قادری لکھتا رہا!
(جاری ہے)
Last edited: