• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وسیلہ اور اسلاف امت کا طریقہ کار

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اب اہل الحدیث کا مؤقف سمجھ لیں: اجتہاد میں کسی مجتہد کو خطا بھی ہو سکتی ہے

جناب کفایت اللہ سنابلی کے دفاع میں یہ بھی بھول گئے کہ یہاں بات ہو رہی ہے
“وسیلہ اور اسلاف امت کا طریقہ کار“
جی جناب! '' وسیلہ اور اسلاف امت کے طریقہ کار ''کے معاملہ میں بھی ہمارے اصول قائم رہتے ہیں، ایسا نہیں جیسا آپ کرتے ہیں کہ ایک ہی مراسلہ میں اپنے امام اعظم کے قول کی وضاحت شاہ عبد العزیز سے پیش کریں، اور امام مرداوی جب امام احمد کے قول کی وضاحت ''تقی الدین'' سے پیش کرتے ہیں، تو اسے آپ یہ کہہ کر رد کردیتے ہو کہ یہ امام احمد بن حنبل کا اپنا کلام نہیں!
دوم کہ کسی بھی مسئلہ میں کسی کے اجتہاد کے قبول و رد کا قاعدہ بھی منطبق کیا جاتا ہے ، یہ کوئی خارجی بحث نہیں!
سوم کہ یہ معاملہ اٹھا یا آپ نے ہی تھا، لہٰذا آپ کو کسی کے اجتہاد کے قبول ورد سے متعلق اہل الحدیث کا مؤقف بتلایا بھی ، اور اس کے اثبات پر قرآن و حدیث کے دلائل بھی پیش کئے گئے!
مگر جناب نے اسلاف کی باتوں کو اجتہادی خطا کہہ کے ہی بات ختم کرنی ہے تو یہاں پہ صاف لکھ دیں کہ آپ
کے نزدیک س حق وہی جو
آپ کے عقائد کے مطابق باقی سب خطا پہ تھے۔۔
بات ختم ہو جا تی۔۔
محمد افضل رضوی صاحب!آپ کو ہم نے آپ کا اپنا قاعدہ آپ کے امام احمد رضا خان بریلوی کا رسالہ پیش کرکے بتلایا، مگر آپ نے شاید اس پر نظر نہیں کی!
میرے بھائی! آپ کے امام تو امام ابو حنیفہ کے علاوہ تمام اسلاف کے اقوال کو ررد کرنے کا اصول بیان کرتے ہیں، یعنی امام صاحب کے قول کی موجودگی میں تمام اسلاف کے قول کورد فرماتے ہیں! وہ بھی قرآن و حدیث کی دلیل کی بنیاد پر نہیں!
میں اس رسالہ کا اردو ترجمہ بھی پیش کردیتا ہوں تاکہ قارئین کو سمجھنے میں آسانی ہو!
ملاحظہ فرمائیں: أجلى الإعلام أن الفتوى مطلقا على قول الإمام ، اس امر کی تحقیق عظیم کہ فتویٰ ہمیشہ قول امام پر ہے۔ احمد رضا خان بریلوی

جبکہ ہم نے تو کسی کے اجتہاد کے قبول ورد کے لئے اہل الحدیث کا اصول قرآن و سنت کے دلائل سے پیش کیا ہے۔
باقی یہ اعتراض جو اسلاف کی باتوں کو اجتہادی خطاء کہنے پر ہے، تو اس اعتراض کے اول مصداق تو آپ ہی ہیں، کہ آپ حنفی ائمہ کے علاوہ باقی تمام اسلاف کے اجتہاد کو رد کرتے ہیں، اور امام ابو حنیفہ کے قول کے موجودگی میں نہ صرف حنفیوں کے علاوہ باقی تمام اسلاف بلکہ حنفی اسلاف کے اقوال کو بھی رد کرنے کے قائل ہو! خواہ اہ امام محمد بن حسن الشیبانی ہوں، یا قاضی ابو یوسف ہوں، یا امام صاحب کے دیگر شاگرد اور اساتذہ کا اجتہاد بھی امام ابو حنیفہ کے قول کے خلاف ہو تو اسے بھی رد کرنے کا اصول رکھتے ہیں!
باقی رہا ہمارا اصول تو میرے بھائی! کیا اسلاف کے اجتہاد میں خطاء نہیں ہوتی، کہ ہم اسے رد نہیں کیا جاسکتا!
ہاں اسلاف کا کسی اجتہاد پر اتفاق ہو، تو وہ ایک الگ بات ہے، ہم ایسے متفقہ اجتہاد کو رد نہیں کرتے، کہ وہ خطا نہیں صواب ہوتا ہے۔ اور ہم نے قرآن و حدیث سے جو دلائل پیش کئے ہیں، وہ دلیل اسلاف کے اجتہاد کے لئے بھی ہے، اسے خلف کے لئے خاص نہیں کیا جاسکتا۔ فتدبر!


@محمد افضل رضوی بھائی! ایک معذرت میں نجانے کیوں آپ کو پچھلے مراسلوں میں قادری لکھتا رہا، شاید لاشعور میں کسی اور شخص کا نام تھا، اور میں آپ کو قادری لکھتا رہا!

(جاری ہے)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اب آتے ہیں امام مرداوی کے مؤقف کی طرف:
محمد افضل رضوی صاحب نے سب سے پہلے یہ حوالہ رقم کیا، اور ساتھ اسکین صفحہ بھی:
امام مرداوی نے فرمایا،
يَجُوز التوسُّل بالرجل الصالح ، على الصحيح من المَذْهَب .
وقيل يُسْتَحب قَالَ الْإِمَامُ أَحْمَدُ لِلْمَرُّوذِيِّ : يَتَوَسَّلُ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي دُعَائِهِ وَجَزَمَ بِهِ فِي الْمُسْتَوْعِبِ وَغَيْرِهِ.



الإنصاف (٢ : ٤٥٦)
اس عبارت میں امام مرداوی نے اپنا مؤقف بیان کیا، اور اس پر امام احمد بن حنبل کا قول پیش کیاہے! لیکن صرف اتنا نہیں بلکہ اس کی وضاحت ''تقی الدین'' کے حوالہ سے بھی کی ہے، جسے محمد افضل رضوی صاحب نے نقل نہیں کیا!
پھر محمد افضل رضوی صاحب تحریر فرماتے ہیں:
باقی امام مرداوی کا جناب نے ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا۔۔
اور شاید جناب یہ بھول گئے کہ وہاں امام احمد بن حنبل کا حوالہ بھی ہے۔۔
قَالَ الْإِمَامُ أَحْمَدُ لِلْمَرُّوذِيِّ : يَتَوَسَّلُ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي دُعَائِهِ وَجَزَمَ بِهِ فِي الْمُسْتَوْعِبِ وَغَيْرِهِ.
امام احمد بن حنبل رحمہ الله نے ابو بکر المرزوی سے فرمایا کہ،
وسیلہ پیش کرو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا، اپنی دعاؤں میں.

الإنصاف (٢ : ٤٥٦)
يتوسل بالنبي صلى الله عليه وسلم في دعائه
وسیلہ پیش کرو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا، اپنی دعاؤں میں.

اس کی وضاحت کر دیں۔
یہاں یہ بات کہی گئی کہ مرداوی نے امام احمد بن حنبل کا قول نقل کیا ہے، اس کی وضاحت مطلوب ہے!
جب ایک بھائی نے ''تقی الدین'' کی وضاحت بتلائی، جو امام مرداوی اسی جگہ نقل کی ہے، تو اس بارے میں محمد افضل رضوی صاحب فرماتے ہیں:
جناب یہ اسکی وضاحت کیسے۔۔؟؟؟
دوسری بات جو آپ نے آگے لکھا

"والتوسل بالإيمان به وطاعته ومحبته والصلاة والسلام عليه ، وبدعائه وشفاعته"
کیا یہ امام احمد کا ہی فرمان ہے یا وہ الگ سے ہے جناب خود کتاب کے عکس سے دیکھ لیں۔۔


جہاں تک اگلی عبارت آپ پیش کررہے تو وہ امام احمد کا نہیں امام تقي الدين کا قول ہے۔

الإمام أحمد : المروذي يتوسل بالنبي صلى الله عليه وسلم في دعائه وجزم به في المستوعب وغيره ، وجعله الشيخ تقي الدين كمسألة اليمين به قال : والتوسل بالإيمان به وطاعته ومحبته والصلاة والسلام عليه ، وبدعائه وشفاعته

یہاں محمد افضل رضوی صاحب امام مرداوی کی ہی پیش کردہ ''تقی الدین'' کی وضاحت کو قبول کرنے سے اس لئے انکار کر رہے ہیں کہ وہ امام احمد بن حنبل کا قول نہیں!
یاد رہے کہ یہی محمد افضل قادری صاحب امام ابو حنیفہ کے فتوی پر شاہ عبد العزیز کی وضاحت پیش کرتے ہیں!
خیر امام مرداوی نے تو امام احمد بن حنبل کے قول کی ''تقی الدین'' کی وضاحت کرکے نقل کردیا کہ ان کا یعنی امام مرداوی کا مؤقف کیا ہے!
محمد افضل قادری صاحب امام احمد کا قول پیش کرکے سوال کرتے ہیں:
يتوسل بالنبي صلى الله عليه وسلم في دعائه
وسیلہ پیش کرو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا، اپنی دعاؤں میں.

یہاں توسل بذات کا ذکر ہے کہ نہیں۔۔؟؟
تو جناب نہیں یہاں توسل بذات کا ذکر نہیں ہے، اس کی وضاحت اسی کتاب میں موجود ہے، جس کتاب سے آپ نے یہ حوالہ پیش کیا ہے، اور انہیں صاحب کتاب نے ''تقی الدین'' کی وضاحت پیش کرکے اپنے مؤقف کی بھی وضاحت کردی ہے، انہوں نے یعنی امام مرداوی نے امام احمد بن حنبل کے جس قول کو صیغہ جزم سے بیان کرکے اپنا مؤقف بیان کیا ہے، انہوں نے ہی اس کی وضاحت کردی ہے ، جس کی رو سے امام احمد بن حنبل کے اس قول میں توسل بذات کا ذکر نہیں!
امام مرداوی کی مکمل عبارت یوں ہے:

وَمِنْهَا: يَجُوزُ التَّوَسُّلُ بِالرَّجُلِ الصَّالِحِ، عَلَى الصَّحِيحِ مِنْ الْمَذْهَبِ، وَقِيلَ: يُسْتَحَبُّ. قَالَ الْإِمَامُ أَحْمَدُ: الْمَرُّوذِيُّ يَتَوَسَّلُ بِالنَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فِي دُعَائِهِ وَجَزَمَ بِهِ فِي الْمُسْتَوْعِبِ وَغَيْرِهِ، وَجَعَلَهُ الشَّيْخُ تَقِيُّ الدِّينِ كَمَسْأَلَةِ الْيَمِينِ بِهِ قَالَ: وَالتَّوَسُّلُ بِالْإِيمَانِ بِهِ وَطَاعَتِهِ وَمَحَبَّتِهِ وَالصَّلَاةِ وَالسَّلَامِ عَلَيْهِ، وَبِدُعَائِهِ وَشَفَاعَتِهِ، وَنَحْوِهِ مِمَّا هُوَ مِنْ فِعْلِهِ أَوْ أَفْعَالِ الْعِبَادِ الْمَأْمُورِ بِهَا فِي حَقِّهِ: مَشْرُوعٌ إجْمَاعًا، وَهُوَ مِنْ الْوَسِيلَةِ الْمَأْمُورِ بِهَا فِي قَوْله تَعَالَى {اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ} [المائدة: 35] وَقَالَ الْإِمَامُ أَحْمَدُ وَغَيْرُهُ مِنْ الْعُلَمَاءِ: فِي قَوْلِهِ عَلَيْهِ أَفْضَلُ الصَّلَاةِ وَالسَّلَامِ «أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ» الِاسْتِعَاذَةُ لَا تَكُونُ بِمَخْلُوقٍ.
اور ان (فوائد) میں سے ایک یہ ہے کہ: امام احمد بن حنبل کے مذہب کا درست مؤقف یہ ہے کہ صالح شخص کا توسل کرنا جائز ہے، اور کہا گیا ہے کہ مستحب ہے۔ امام احمد بن حنبل نے المروزی سے کہا: کہ اپنی دعا میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا توسل کرو (کہ یہ جائز ہے)! اور ''المستوعب '' وغیرہ میں اس رائے کو بالجزم بیان کیا گیا ہے، اور شیخ تقی الدین نے اس سےمسئلہ یمین (قسم کے مسئلہ) کی طرح رکھا ہے اور کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت، نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاة وسلام، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت ، اور اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں بندوں کے وہ احکام جوان پر واجب قرار دیئے گئے ہیں، کو وسیلہ بنانے کے مشروع ہونے پر اجماع ہے۔ یہ وسیلہ اللہ تعالی کے فرمان: {اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ} [المائدة: 35] سے واجب ہوتا ہے۔
امام احمد بن حنبل اور دیگر علماء نے کہا: نبی صلاة السلام کے اس قول ««میں اللہ سے اس کے مکمل ترین کلمات کی پناہ طلب کرتا ہوں ہر اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی»»میں ہے کہ پناہ مخلوق میں نہیں ہوتی۔

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 456 جلد 02 الإنصاف في معرفة الراجح من الخلاف - علاء الدين أبو الحسن علي بن سليمان المرداوي الدمشقي الصالحي الحنبلي (المتوفى: 885هـ) - مطبعة السنة المحمدية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 375 الإنصاف في معرفة الراجح من الخلاف - علاء الدين أبو الحسن علي بن سليمان المرداوي الدمشقي الصالحي الحنبلي (المتوفى: 885هـ) - بيت الأفكار الدولية
جس کی کتاب سے آپ نے امام احمد بن حنبل کا یہ حوالہ نقل کیا ہے، اسی مؤلف نے اسی جگہ اس کی جو وضاحت بیان کی ہے، اسے تسلیم کرنے میں کوئی چیز مانع نہیں، اور نہ ہی اس سے امام احمد بن حنبل قول کی نفی نہیں ہوتی۔ فتدبر!
یاد رہے کہ امام مرداوی نے تو امام احمد کا قول انہیں معنی میں بیان کیا ہے! لہٰذا امام مرداوی کا تو وہی مؤقف ثابت ہو چکا ہے، جو ہمارا ہے!
اب بات رہ گئی ہے کہ امام احمد بن حنبل کے مؤقف کی!
ہاں اگر آپ اس وضاحت پر کوئی نقد کرنا چاہتے ہیں، تو یا تو آپ امام احمد بن حنبل سے اس کی وضاحت نقل کریں، یا اس وضاحت پر کوئی معقول اعتراض پیش کریں!
یاد رہے کہ ہمارا مؤقف کیا ہے اور ہم کس توسل کے قائل ہیں، اور کس توسل کے نہیں!
کسی نیک شخص کے وسیلے کی کئی صورتیں ہیں۔ بعض جائز ہیں اور بعض ناجائز۔ ان میں سے جس صورت کی تائید سلف صالحین سے ہوتی ہے، وہ ہی جائز اور مشروع ہو گی۔ آئیے صحابہ و تابعین کے دور میں چلتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ وہ نیک لوگوں کے وسیلے کا کیا مفہوم سمجھتے تھے، نیز ان کا وسیلہ بالذات والاموات کے بارے میں کیا نظریہ تھا۔۔۔
معلوم ہوا کہ صحیح احادیث اور اسلاف امت سے وسیلہ بالذات والاموات ثابت نہیں۔
جبکہ ہم نے اس کی وضاحت کر دی ہے کہ امام احمد بن حنبل کے اس قول میں توسل بالذات والاموات کا ذکر نہیں!
(جاری ہے)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اب آتے ہیں امام ابو حنیفہ کے فتوی اور اس سے متعلق قادری رانا اور محمد افضل رضوی کی جانب سے پیش کی گئی اس کی وضاحت کی جانب!
پہلے ہم وہ سیاق پیش کرتے ہیں، کہ کس تناظر میں امام ابو حنیفہ کا مذکورہ فتوی ہم نے پیش کیا تھا:
***** ***** ***** *****
اب آتے ہیں تقی الدین سبکی کے اس دعوی کی طرف کہ ؛

''اِس کا جائز اور مستحسن ہونا ہر دین دار کے لئے ایک بدیہی امر ہے جو انبیاء، رسولوں اور سلفِ صالحین اور علماء سے ثابت ہے اور کسی مذہب والے نے اِن باتوں کا انکار نہیں کیا اور نہ کسی زمانہ میں اِن چیزوں کی بُرائی کی بات کہی گئی۔ حتیٰ کہ ابن تیمیّہ پیدا ہوئے اور اِن چیزوں کا اُنھوں نے انکار شروع کردیا''
اور مزید فرماتے ہیں کہ؛
'' ابنِ تیمیّہ کے اس فعل کی برائی اِسی سے سمجھ لیجئے کہ اِس طرح کی بات اِس سے پہلے کسی عالم نے نہیں کہی تھی۔''
اپنی دلیل کے لئے فرماتے ہیں:
''لیکن ہم نے حاکم کی روایت اور اُس پر حاکم کی تصحیح کی وجہ سے اِسی روایت پر اکتفا کیا ہے۔''
ہم اس حدیث کا کچھ حصہ دوبارہ نقل کرتے ہیں، پوری حدیث اوپر دیکھی جا سکتی ہے؛
عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: (لما اقترف آدم عليه السلام الخطيئة قال: يا رب أسألك بحق محمد لما غفرت لي.
حضرتِ عمر سے نقل کیا ہے کہ آنحضرت نے ارشاد فرمایا کہ ''حضرت آدم نے جب اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا تو دربارِ خداوندی میں عرض کیا اے خدا میں بحقِّ محمد درخواست کرتا ہوں کہ مجھے معاف کردے۔
ویسے ایک ضمی سوال یہاں پیدا ہوتا ہے، کہ کیا مسلک بریلویہ اس بات کا قائل ہے کہ آدم علیہ السلام اور انبیاء سے خطاء ہوسکتی ہیں؟
تقی الدین سبکی کا دعوی ہے کہ اس طرح کے وسیلہ کا انکار شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے قبل کسی نے نہیں کیا!
آئیے اب ہم آپ کو تقی الدین سبکی کے دعوی کا بطلان ثابت کرتے ہیں، اور وہ بھی فقہ حنفیہ سے؛


ويكره أن يقول الرجل في دعائه: أسألك بمعقد العز من عرشك ويكره أن يقول الرجل في دعائه بحق فلان أو بحق أنبياؤك ورسلك

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 235 بداية المبتدي في الفقه على مذهب الإمام أبي حنيفة النعمان - علي بن أبي بكر بن عبد الجليل الفرغاني المرغيناني، أبو الحسن برهان الدين (المتوفى: 593هـ) - بمطبعة الفتوح، بمصر
اور معلوم ہونا چاہئے کہ فقہ حنفی میں جب ''مکروہ'' مطلق آئے تو مراد مکروہ تحریمی ہوتا ہے!
علي بن أبي بكر بن عبد الجليل الفرغاني المرغيناني، أبو الحسن برهان الدين کی وفات 593 ہجری کی ہے جبکہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی پیدائش 661 ہجری کی ہے، یعنی کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی پیدائش سے قبل صاحب الهداية نے اس وسیلہ کو مکروہ ، تحریمی یعنی ناجائز قرار دیا ہے۔
أن يقول الرجل في دعائه: أسألك بمعقد العز من عرشك" وللمسألة عبارتان: هذه، ومقعد العز، ولا ريب في كراهة الثانية؛ لأنه من القعود، وكذا الأولى؛ لأنه يوهم تعلق عزه بالعرش وهو محدث والله تعالى بجميع صفاته قديم. وعن أبي يوسف رحمه الله أنه لا بأس به. وبه أخذ الفقيه أبو الليث رحمه الله لأنه مأثور عن النبي عليه الصلاة والسلام. روي أنه كان من دعائه "اللهم إني أسألك بمعقد العز من عرشك؛ ومنتهى الرحمة من كتابك، وباسمك الأعظم وجدك الأعلى وكلماتك التامة" ولكنا نقول: هذا خبر واحد فكان الاحتياط في الامتناع "ويكره أن يقول الرجل في دعائه بحق فلان أو بحق أنبياؤك ورسلك"؛ لأنه لا حق للمخلوق على الخالق.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 265 جلد 07 الهداية شرح بداية المبتدي مع شرح العلامة عبد الحي اللكنوي - علي بن أبي بكر بن عبد الجليل الفرغاني المرغيناني، أبو الحسن برهان الدين (المتوفى: 593هـ) - إدارة القرآن والعلوم الإسلامية، باكستان
یہ عبارت فقہ حنفی کی معتبر کتاب الهداية کی ہے۔
اور یہ بات انہوں نے اپنے اجتہاد سے نہیں کہی، بلکہ یہ تو ائمہ احناف سے منقول فتاوی ہیں!


مسائل الدعاء
روي
عن أبي حنيفة رضي الله عنه أنه قال: يكره للرجل أن يقول في دعائه: اللهم إني أسألك بمقعد العز من عرشك يروى هذا اللفظ بروايتين: بمقعد العز من عرشك عن العقد، وبمقعد العز من عرشك من القعود، فبالرواية الثانية لا شك في الكراهة؛ لأنه وصف الله تعالى بما لا يليق به، وهو القعود والتمكن على العرش، وهو قول المجسمة. وأما في اللفظ الأول؛ فلأنه يوهم تعلق عزه بالعرش، وأن عزه حادث إذا تعلق بالحادث، والله تعالى متعالٍ عن صفة الحدث، وعن أبي يوسف أنه لا يكره؛ قال الفقيه أبو الليث رحمه الله: وبه نأخذ، فقد جاء في الحديث عن رسول الله عليه السلام أنه كان يقول: «اللهم إني أسألك بمعقد العز من عرشك ومنتهى الرحمة من كتابك، واسمك الأعظم وجدك الأعلى، وكلماتك التامة».
ويكره أيضاً: أن يقول الرجل في دعائه: اللهم إني أسألك بحق أنبيائك ورسلك؛ لأنه لا حق لأحد من المخلوقين على الله تعالى. وفي «المنتقى»: عن أبي يوسف عن أبي حنيفة: لا ينبغي لأحد أن يدعو الله إلا به. ويكره أن يقول: أدعوك بمقعد العز من
عرشك قال ثمة: والدعاء المأذون فيه، والمأثور به ما استفيد من قوله تعالى: {ولله الأسماء الحسنى فادعوه بها} (الأعراف: 10)، وإنما كره بمقعد العز من عرشك؛ لأنه لا يدعوه به.
قال ثمة أيضاً: وقال أبو حنيفة رضي الله عنه: لا يصلي أحد على أحد إلا على النبي، وهو قول محمد رحمه الله، وقال أبو يوسف رحمه الله: لا بأس به، وإن ذكر غير النبي على أثر النبي في الصلاة، فلا بأس به بلا خلاف، ويكره الدعاء عند ختم القرآن في شهر رمضان، وعند ختم القرآن بجماعة؛ لأن هذا لم ينقل عن النبي عليه السلام وأصحابه؛ قال الفقيه أبو القاسم الصفار: لولا أن أهل هذه البلدة قالوا: إنه يمنعنا من الدعاء، وإلا لمنعتهم عنه.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 312 – 312 جلد 05 المحيط البرهاني في الفقه النعماني فقه الإمام أبي حنيفة رضي الله عنه - أبو المعالي برهان الدين محمود بن أحمد بن عبد العزيز بن عمر بن مَازَةَ البخاري الحنفي (المتوفى: 616هـ) - دار الكتب العلمية، بيروت


لیں جناب ! شیخ الاسلام کی پیدائش سے پہلے کی کتاب میں، اور وہ بھی فقہ حنفیہ کی کتاب میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا فتوی موجود ہے!
اب آپ پر منحصر ہے، کہ آپ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے فتوی کو درست مانتے ہوئے، تقی الدین سبکی کے مؤقف کا انکار کریں ، یا چاہیں تو آپ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے عقیدہ کو غلط قرار دیتے ہوئے تقی الدین سبکی کے مؤقف کو اختیار کریں!
بہرصورت تقی الدین سبکی کے دعوی کا بطلان ثابت کیا جا چکا ہے۔
یوں تو فقہ حنفیہ کی متعدد کتب سے یہ حوالے پیش کیئے جاسکتے ہیں، فی الوقت ہم اس پر ہی اکتفاء کرتے ہیں۔
***** ***** ***** *****

یہاں یہ بات بالکل ثابت ہو جاتی ہے، کہ تقی الدین سبکی جن الفاظ اور جس توسل کا اثبات کررہے ہیں، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی پیدائش سے صدیوں پہلے ان الفاظ اور اس توسل کو مکروہ، یعنی مکروہ تحریمی یعنی ناجائز قرار دے رہے ہیں! لہٰذا تقی الدین سبکی کا دعوی بلکل باطل ثابت ہوجاتا ہے!
اس پر قادری رانا اور محمد افضل رضوی دونوں نے شاہ عبدلعزیز کے حوالہ سے ایک توضیح پیش کرکے یہ باور کروانا چاہا ہے کہ امام صاحب کا فتوی ان الفاظ کے ساتھ توسل اختیار کرنے کے کو جائز قرار دینےکا ہے:
ہم ان کے متعلقہ اقتباسات پیش کرتے ہیں:
اس عبارت میں معتزلہ کا رد ہے اس کا جواب شاہ عبد العزیز نے دیا ہے ملاحظہ ہو
اور اسی وضاحت کو محمد افضل رضوی صاحب نے بھی پیش کیا:
امام ابو حنیفہ کے موقف کو سمجھنے میں آپکو غلطی لگی ہے۔۔ اسکا جواب اسی عبارت میں موجود ہے۔
ان شاءالله اس کا تفصیل سے جواب ملے گا آپ کو۔
محدث شاہ عبدالعزیز تفسیر عزیزی میں
سورة البقرہ میں آیت
وَلَكُمْ فِي الأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَى حِينٍ

کے تحت لکھتے ہیں۔
فقہاء کرام نے بحق فلاں کہہ کر دعا کرنے کو مکروہ لکھا ہے۔اس کے بعد شاہ عبدالعزیز لکھتے ہیں۔
کہ معتزلہ کے مذہب میں بندہ کا عمل بندہ کی پیداوار ہے۔الله تعالی نے اس کے عمل کا اجر مقرر کیا ہے۔یہ اجر بندے کا حق ہے،ایسا حق کہ جو حقیقی ہے۔
یہ مذہب معتزلیوں کا ہے لہذا فقہاء کرام نے اس کے استعمال سے منع کیا۔
تفصیل کے لیے دیکھیں کتاب کا عکس۔۔




گو کہ محمد افضل رضوی صاحب اس بات کا اعتراف کرتے بھی ہیں کہ ائمہ احناف نے ''بحق فلاں''کہہ کر دعا کرنے کو مکروہ کہا ہے (یاد رہے کہ جب ائمہ احناف مکروہ مطلقاً کہیں، تو یہ مکروہ تحریمی یعنی ناجائز ہوتا ہے)
لہٰذا اسی بات سے تقی الدین سبکی کا دعوی باطل ثابت ہوجاتا ہے کہ جس توسل کا اثبات تقی الدین سبکی کرنا چاہتے ہیں، اور دعوی کرتے ہیں کہ اس شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے پہلے کسی عالم نے اس کا انکار نہیں کیا، یہ دعوی باطل ثابت ہوجاتا ہے، کیونکہ امام ابوحنیفہ نے بھی اس توسل کے جائز ہونے کا انکار کیا ہے اور اسے ناجائز قرار دیا ہے، کہ کوئی بحق فلاں، یا بحق انبیاء ،یا بحق رسول وغیرہ کہہ کر دعا کرے!
آئمہ احناف نے بحق فلاں کہہ کر دعا کرنے کو مکروہ لکھا ہے۔۔
جسکا جواب اوپرمحدث شاہ عبدالعزیز سے دیا ہے شاید جناب نے پڑھنے کی زحمت نہیں کی۔
رہی بات یہ کہ شاہ عبد العزیز نے اس کا جواب دیا ہے، تو جناب یہ بات تو آپ کو یہ تو آپ کا اختیار ہے کہ آپ امام ابو حنیفہ کے فتوی کو اختیار کریں، یا شاہ عبدالعزیز کا جواب قبول کرتے ہوئے امام ابو حنیفہ کے فتوی کو رد کردیں!
کیونکہ امام ابو حنیفہ تو بحق فلاں، یا بحق انبیاء، یا بحق رسول وغیرہ کہہ کر دعا کرنے کو ناجائز قرار دیتے ہیں، اور شاہ عبدالعزیز اس کو جائز قرار دیتے ہیں! آ پ جسے چاہے اختیار کریں، لیکن تقی الدین سبکی کے دعوی کا بطلان بہر حال ثابت ہو جاتا ہے! اور یہ اس تحریر کا اصل محرک تھا!
علماء نے بحق فلاں کہنے کو مکروہ لکھا ہے نہ کہ توسل کو ہی مکروہ لکھ دیا۔۔
جی جناب! متفق! ہم اس بات سے بلکل متفق ہیں!
دو وضاحتوں کے ساتھ کہ علماء نے بحق فلاں، میں بحق انبیاء اور بحق رسول کو بھی شامل رکھا ہے، اور اسے مکروہ، یعنی مکروہ تحریمی یعنی ناجائز لکھا ہے، اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی پیدائش سے پہلے سے لکھا ہے!
دوم کہ ہم بھی جائز توسل کے قائل ہیں، بلکہ اس کا حکم تو قرآن دیا گیا ہے! مزید نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث سے بھی ثابت ہے، مگر ہم اس توسل کے انکاری ہیں، جو تقی الدین سبکی یہاں جائز باور کروانا چاہتے تھے، اور جس کا انکار امام ابو حنیفہ سے بھی پیش کیا گیا، اور آپ نے بھی تسلیم کیا کہ علماء نے بحق فلاں کہنے کو مکروہ (یعنی مکروہ تحریمی یعنی ناجائز) لکھا ہے!

ہم شاہ عبدالعزیز کی عبارت مکلمل عبارت تحریر کرتے ہیں، پھر اس کا جائزہ پیش کریں گے:
وطبرانی در معجم صغیر وحاکم وابو نعیم و بیہقی از حضرت امیر المومنین عمر بن الخطاب ﷛روایت آروردہ اند کہ آنحضرت ﷺفرمودند کہ چوں حضرت آدم ﷤ ارتکاب گناہ کردند ومعاتب شد ندور قبول توبہ خود حیران بودند ایشان را یاد آمد کہ مرا ہر گاہ حق تعالیٰ پیدا کردہ بود وروح خاص درمن دسیں من در آن وقت سرخودرائے بسو عرش را داشتم ودیدم کہ اینجا نوشتہ اند
لا اله الا الله محمد رسول الله از ینجا معلوم میشود کہ قدر ہیچکس نزد خدا برابر این شیخص نیست کہ نام او را نام خود برابر کردہ است تدبیر اینست کہ بحق ہمیں شخص سوال مغدرت نیمایم پس دعای خود گفتند اسئلك بحق محمد لاغفرت لي حق تعالیٰ ایشان را آزمرزش کردد وحی فرستاد کہ محمد از کجا دانستی ایشان تمام ماجرا را عرض کردند فرمان رسید کہ ای آدم محمد آخر پیغمبران است از ذریت تو ﷤ واگر او نمی بود ترا پیدا نمی کردم و درینجا باید دانست کہ در کُتب فقہ مذکور است کہ دعا کردن بحق کسی مکروہ است زیرا کہ کسی را خدا حقی نمی باشد تفصیل مقام آن است کہ نزد معتزلہ کہ افعال را مخلوق عبادی دانند جزای آن افعال حق حقیقی بندگان است در مذہب اہل سنت وجماعت افعال عباد مخلوق خدا اند پس عباد را بسبب آن افعال حقی ثابت نیست حقیقۃ بلکہ وعداو جعلا چنانچہ در حدیث صیح آن است کہ من امن بالله ورسوله اقام الصلوة وصام رمضان كان حقا علی الله ان يدخله الجنة هاجر في سبيل الله او جلس في ارضه التي ولد فيها ونیر در حدیث صحیح از معاذ بن جبل آن هل تدري ماحق العباد علی الله الی اخره پس انچہ در روایت توبہ حضرت آدم علیہ السلام آمد است محمول برزبان حق جعلی و تفصیلی ست و انچہ در کتب فقہ ممنوع ست و از بسکہ در زمان سابق مذہب معتزلہ رواج بسیار داشت اوستعمال این لفظ موہم مذہب ایشان فقہا مطلقا از استعمال ایں لفظ منع نمودہ اند تا خیال کسی بآن مذہب نرودانیست انچہ دریں مقام موافق قرارداد علمای ظاہر ست واہل تحقیق چنین گفتہ اند کہ ہر یک از اکمل بنی آدم را باعتبار صورت کمالیہ اوسم است از اسمای آلٰہی کہ تربیت او میفرماید پس سوال بحق کاملی از کاملان اشارہ بآن اسم ست اگر شخصی در وقت استعمال این لفظ ملاحظہ این نماید قطعا ملام و معاتب نیست۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 125 – 126 جلد 01 تفسیر فتح العزیز معروف به تفسیر عزیزی – شاہ عبد العزیز – مطبعہ محمدیہ

ترجمہ اسی مترجم کا جو قادری رانا اور محمد افضل قادری صاحب نے پیش کیا؛ ملاحظہ فرمائیں:

طبرانی نے معجم صغیر میں اور حاکم اور ابو نعیم اور بیہقی نے حضرت امیر المومنین عمر ابن خطاب سے روایت کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب حضرت آدم سے یہ گناہ سرزد ہوا ہے اور ان پر عتاب الہٰی نازل ہوا توبہ قبول ہونے میں حیران تھے کہ اتنے میں اُن کو یاد آیا کہ مجھ کو جس وقت خدائے تعالیٰ نے پیدا کیا تھا اور رُوح خاص میرے اندر پھونکی تھی اُس وقت میں نے اپنے سر کو عرش کی طرف اٹھایا تھا اُس جگہ لکھا دیکھا لا الٰه الا الله محمّد رسول الله یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ قدر کسی شخص کی اللہ کے نزدیک برابر قدر اس شخص کے نہیں کہ نام اُس کا اپنے نام کے ساتھ برابر لکھا ہے تدبیر یہ ہے کہ بحق اُسی شخص کے سوال مگفرت کا کروں میں پس دُعا میں کہا اسئلك بحق محمّد ان نغفرلی۔۔ حق تعالی نے اُن کی بخشش کی اور وحی بھیجی کہ محمّد کو کہاں سے جانا تونے انُھوں نے تمام ماجرا عرض کیا حکم پہنچا کہ اے محمّد سب پیغمبروں سے پچھلا پیغمبر ہے اولاد تیری میں سے
بیان لفظ بحق فلاں کا (یہاں یہ ہیڈینگ اشاعت میں ڈالی گئی ہے)
اور اگر وہ نہ ہوتا تجھ کو پیدا نہ کرتا میں اس جگہ سے جاننا چاہئے کہ فقہ کی کتابوں میں مذکور ہے کہ دُعا کرنے میں لفظ بحق فلاں کا لانا مکروہ ہے اس واسطے کہ کسی کا اوپر خدا کے حق نہیں ہوتا ہے اور تفصیل مقام کہ یہ ہے کہ معتزلیوں کے نزدیک کہ بندوں کو ان کے فعلوں میں خالق سمجھتے ہیں جزا اُن فعلوں کی حقیقۃ حق بندوں کا ہے اور اوپر مذہب اہل سنّت وجماعت کے افعال بندوں کے مخلوق خدا کے ہیں پس بندوں کو بسبب ان فعلوں کے کوئی حق حقیقۃ ثابت نہیں بلکہ باعتبار وعدہ اور رحمت کے اپنی طرف سے مقرر کیا کہ حدیث میں آیا ہے کہ
مَنْ اٰمَنَ بالله ورسوله واقام الصّلوٰة وصام رمضان كان حقا علی الله ان يدخله الجنّة هاجر في سبيل الله او جلس في ارضه الّتي وليد فيها.
یعنی جو شخص ایمان لایا ساتھ اللہ کے اور رسول اُس کے اور ادا کیا اُس نے نماز کو اور روزے رمضان کے ہوگیا حق اُس کا اللہ کے اوپر یہ کہ داخل کرے اُس کو بہشت میں خواہ ہجرت کرکے اللہ کے راستے میں یا بیٹھ رہے بیچ زمین میں اپنی کے جس پر پیدا ہوا ہے اور بھی حدیث صحیح میں معاذ بن جبل سے آیا ہے هل تدري ماحق العباد علی الله الی اخره۔۔ پس جو روایت حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ میں لفظ حق کا آیا ہے محمول اُوپر اُسی حق جعلی اور تفصِیلی کے ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے تقرر کردیا نہ کہ حقیقۃً حق ہے اور وہ کہ فقہ کی کتابوں میں جس سے منع کیا گیا ہے وہم اُن کے مذہب کا جاتا تھا فقہا نے مطلقاً استعمال اس لفظ سے منع فرمایا ہے تاکہ خیال کَسی کا اُس مذہب کی طرف نجاوے یہ تقریر موافق قرارداد علماء ظاہر کے ہے اور اہل تحقیق نے ایسا کہا ہے کہ ہر ایک کے واسطے کاملین بنی آدم سے ایک اسم ہے اسماء الہٰی سے کہ تربیت اُس کی فرماتا ہے پس سوال کرنا ساتھ حق کامل کے اشارہ اُسی اسم کی طرف ہے اگر کوئی شخص وقت استعمال اس لفظ کے اس معنی کا لحاظ کرے لائق ملامت اور عتاب کے نہیں۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 125 - 126 جلد 01 تفسیر فتح العزیز معروف به تفسیر عزیزی (مترجم اردو) – شاہ عبد العزیز – ایچ، ایم سعید کمپنی

ایک ضمنی سوال کہ یہاں تو شاہ عبد العزیزنے اس روایت سے یہ بھی لکھا ہے کہ آدم ﷤ سے گناہ کا ارتکاب ہوا، تو کیا مسلک بریلویہ اس بات کی قائل ہے کہ آدم ﷤ سے گناہ کا ارتکاب ہوا، اور انبیاء علیہ السلام سے گناہ کا ارتکاب ہوسکتا ہے؟
شاہ عبد العزیز کی وضاحت کئی وجوہات کی بناء پر درست اور قابل قبول نہیں؛
اول: جس روایت کی بناء پر شاہوعبد العزیز بحق فلاں، یا بحق انبیاء، یا بحق رسول کے الفاظ کے ساتھ دعا کرنے کو جائز قرار دے رہے ہیں، وہ روایت ہی ضعیف ومردود ہے! اور اس روایت کا ضعیف ومردود ہونا ہم پہلے تفصیل کے ساتھ ثابت کر چکے ہیں، اسے اقتباس میں پیش کردیتے ہیں:

تقی الدین سبکی نے اس حدیث کو صحیح ثابت کرنے کے لئے صرف امام حاکم کی تصحیح کا سہارا لیا ہے،اوہ یہ سہارا یہاں اس قدر کمزور ہے کہ اس پر تو ''ڈوبتے کو تنکہ کا سہارا '' کا محاورہ بھی درست نہ ہوگا!
تقی الدین سبکی نے اس روایت کے لئے
دلائل النبوة للبيهقي کا حوالہ بھی دیا ہے ، اور اتنا لکھا ہے :
ورواه البيهقي أيضا في (دلائل النبوة)، وقال: تفرد به عبد الرحمن.
حالانکہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے صرف اتنا نہیں کہا کہ اس روایت میں عبد الرحمن بن زید بن اسلم کا تفرد ہے، بلکہ وہ اس سے زیادہ بیان کرتے ہیں، جسے تقی الدین سبکی نے ذکرنہیں کیا، کیونکہ اگر وہ اسے ذکر کرتے تو تقی الدین سبکی کا بطلان ظاہر ہو جاتا؛ وہ بات ہم یہاں نقل کردیتے ہیں پوری روایت کے ساتھ:
حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، إِمْلَاءً وَقِرَاءَةً، حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مَنْصُورٍ الْعَدْلُ إِمْلَاءً، حَدَّثَنَا أَبُو الْحَسَنِ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو الْحَارِثِ عَبْدُ اللهِ بْنُ مُسْلِمٍ الْفِهْرِيُّ، بِمِصْرَ، قَالَ أَبُو الْحَسَنِ هَذَا مِنْ رَهْطِ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ، أَنْبَأَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْلَمَةَ، أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَمَّا اقْتَرَفَ آدَمُ الْخَطِيئَةَ، قَالَ: يَا رَبِّ أَسْأَلُكَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ لَمَا غَفَرْتَ لِي، فَقَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: يَا آدَمُ وَكَيْفَ عَرَفْتَ مُحَمَّدًا وَلَمْ أَخْلُقْهُ قَالَ: لِأَنَّكَ يَا رَبِّ لَمَّا خَلَقْتَنِي بِيَدِكَ وَنَفَخْتَ فِيَّ مِنْ رُوحِكِ رَفَعَتُ رَأْسِي فَرَأَيْتُ عَلَى قَوَائِمِ الْعَرْشِ مَكْتُوبًا: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ، فَعَلِمْتُ أَنَّكَ لَمْ تُضِفْ إِلَى اسْمِكَ إِلَّا أَحَبَّ الْخَلْقِ إِلَيْكَ، فَقَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: صَدَقْتَ يَا آدَمُ، إِنَّهُ لَأُحِبُّ الْخَلْقِ إِلَيَّ وَإِذْ سَأَلْتَنِي بِحَقِّهِ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكَ، وَلَوْلَا مُحَمَّدٌ مَا خَلَقْتُكَ " تَفَرَّدَ بِهِ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ مِنَ هَذَا الْوَجْهِ عَنْهُ، وَهُوَ ضَعِيفٌ، وَاللهُ أَعْلَمُ.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 488 – 489 جلد 05 دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعة - أحمد بن الحسين بن علي بن موسى الخُسْرَوْجِردي الخراساني، أبو بكر البيهقي (المتوفى: 458هـ) - دار الكتب العلمية، دار الريان للتراث

امام بیہقی رحمہ اللہ نے عبد الرحمن بن زید بن اسلم کو صراحتاً ضعیف قرار دے کر اس روایت کی تضعیف کردی ہے، جبکہ تقی الدین سبکی کا مدعا ہے کہ '' اگر یہ تسلیم بھی کرلیا جاتا کہ اُن میں ضُعف ہے تو وہ ضُعف اِس درجہ کا تو نہیں ہے کہ اَس کی بنیاد پر اِس روایت کو ساقط الاعتبار قرار دے'' تقی الدین سبکی کو یہ معلوم نہ ہوا کہ امام حاکم کے شاگرد ، امام بیہقی شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی پیدائش سے بھی قبل اس راوی کو اسی راویت کے بیان کرنے کے بعد ضعیف قرار دیتے ہیں، اور یاد رہے کہ امام بیہقی نے یہ نہیں کہا کہ عبد الرحمن بن زید بن اسلم میں ''ضعف'' ہے بلکہ اسے ''ضعیف قرار دیا ہے! امام بیہقی کیا امام بیہقی سے قبل بھی ائمہ اس راوی پر شدید جرح کرتے ہوئے ناقابل اعتبار اور مردود قرار دے چکے ہیں! اور تو اور خود امام حاکم نے بھی عبد الرحمن بن زید بن اسلم کو متہم قرار دیا ہے! امام حاکم کا کلام آگے آئے گا ۔ ان شاء الله!

یاد رہے کہ امام بیہقی امام حاکم کے شاگرد ہیں ، امام حاکم کی وفات 405 ہجری کی ہے اور امام بیہقی کی وفات 458 ہجری کی، اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی وفات 728 ہجری کی ہے!
لہذا اس روایت کو تو شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ کی پیدائش سے بھی صدیوں قبل امام بیہقی ضعیف قرار دے چکے ہیں!
عبد الرحمن بن زید بن اسلم کے متعلق دیگر ائمہ حدیث کے اقوال کو تو بعد میں دکھتے ہیں، پہلے اسی نکتہ کو مدنظر رکھیں کہ امام حاکم رحمہ اللہ کی تصحیح کے متعلق خود بریلویہ کا کیا مؤقف ہے، اور اس بات کو بھی مد نظر رکھا جائے کہ اس روایت کو امام بیہقی ضعیف قرار دیتے ہیں؛ دیکھیں مسلک بریلویہ کا اس میں کیا مؤقف ہے:

سابعاً طرفہ تر یہ کہ شاہ صاحب نے تصانیف حاکم کو بھی طبقہ رابعہ میں گنا حالانکہ بلاشُبہ مستدرک حاکم کی اکثر احادیث اعلٰی درجہ کی صحاح وحسان ہیں بلکہ اُس میں صدہا حدیثیں برشرطِ بخاری ومسلم صحیح ہیں قطع نظر اس کہ تصانیف شاہ صاحب میں کتب حاکم سے کتنے اسناد ہیں اور بڑے شاہ صاحب کی ازالۃ الخفاء وقرۃ العینین تو مستدرک سے تو وہ تودہ احادیث نہ صرف فضائل بلکہ خود احکام میں مذکورکمالایخفی علی من طالعھما(جیسے کہ اس پر مخفی نہیں جس نے ان دونوں کتابوں کا مطالعہ کیا ہے۔ ت) لطیف ترید ہے کہ خود ہی بستان المحدثین میں امام الشان ابوعبداللہ ذہبی سے نقل فرماتے ہیں :

انصاف آنست کہ درمستدرک قدرے بسیار شرط ایں ہردو بزرگ یافتہ میشودیا بشرط یکے از زینہا بلکہ ظن غالب آنست کہ بقدر نصف کتاب ازیں قبیل باشد، وبقدر ربع کتاب از آں جنس است کہ بظاہرعہ اسناد او صحیح ست لیکن بشرط ایں ہردونیست وبقدر ربع باقی واہیات ومناکیر بلکہ بعضے موضوعات نیزہست چنانچہ من دراختصار آں کتاب کہ مشہور بتلخیص ذہبی است خبردار کردہ ام ۱؎انتہی ۔

انصاف یہ ہے کہ مستدرک میں اکثر احادیث ان دونوں بزرگوں (بخاری ومسلم) یا ان میں سے کسی ایک کے شرائط پر ہیں بلکہ ظنِ غالب یہ ہے کہ تقریباً نصف کتاب اس قبیل سے ہے اور تقریباً اس کا چوتھائی ایسا ہے کہ بظاہر ان کی اسناد صحیح ہیں لیکن ان دو (بخاری ومسلم) کی شرائط پر نہیں اور باقی چوتھائی واہیات اور مناکیر بلکہ بعض موضوعات بھی ہیں اس لئے میں نے اس کے خلاصہ جوکہ تلخیص ذہبی سے مشہور ہے، میں اس بارے میں خبردار کیا ہے، انتہٰی (ت)


عہ: لفظ بظاہر درآنچہ امام خاتم الحفاظ درتدریب ازذہبی آور دنیست لفظش ہمین است کہ فیہ جملۃ وافرۃ علی شرطھما وجملۃ کثیرۃ علی شرط احدھما، لعل مجموع ذلک نحونصف الکتاب وفیہ نحو الربع مماصح سندہ، وفیہ بعض الشیئ، اولہ علۃ ومابقی وھونحو الربع فھو مناکیر اوواھیات لایصح وفی بعض ذلک موضوعات ۲؎ ۱۲ منہ (م)

لفظ ''بظاہر'' وہ جو امام خاتم الحفاظ نے تدریب میں امام ذہبی سے نقل کیا ہے اس میں نہیں ہے اس کے الفاظ یہ ہیں کہ اس میں بہت سی احادیث شیخین کی شرائط پر ہیں اور بہت سی ان دونوں میں سے کسی ایک کی شرط پر ہیں، شاید اس کا مجموعہ تقریباً آدھی کتاب ہو اور اس میں چوتھائی ایسی احادیث ہیں جن کی سند صحیح ہے، بعض ایسی ہیں جن میں کوئی شیئ یا علت ہے اور جو بقیہ چوتھائی ہے وہ مناکیر یا واہیات ہیں جو صحیح نہیں، اور بعض اس میں موضوع بھی ہیں ۱۲ منہ (ت)


(۱؎ بستان المحدثین مع اردو ترجمہ مستدرک میں احادیث موضوع کا اندراج مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص ۱۱۳)
(۲؎ تدریب الرادی عدد احادیث مسلم وتساہل الحاکم فی المستدرک دارنشر الکتب الاسلامیہ لاہور ۱/ ۱۰۶)

تنبیہ : بحمداللہ ان بیانات سے واضح ہوگیا کہ اس طبقہ والوں کی احادیث متروکہ سلف کو جمع کرنے کے معنی اسی قدر ہیں کہ جن احادیث کے ایراد سے اُنہوں نے احتراز کیا انہوں نے درج کیں نہ یہ کہ انہوں نے جو کچھ لکھا سب متروک سلف ہے مجرد عدم ذکر کو اس معنے پر محمول کرنا کہ ناقص سمجھ کر بالقصد ترک کیا ہے محض جہالت ورنہ افراد بخاری متروکات مسلم ہوں اور افراد مسلم متروکات بخاری اور ہر کتاب متاخر کی وہ حدیث کو تصانیف سابقہ میں نہ پائی گئی تمام سلف کی متروک مانی جائے، مصنفین میں کسی کو دعوائے استیعاب نہ تھا۔ امام بخاری کو ایک لاکھ احادیث صحیحہ حفظ تھیں صحیح بخاری میں کُل چار ہزار بلکہ اس سے بھی کم ہیں


کمابینہ شیخ الاسلام فی فتح الباری شرح صحیح البخاری (جیسا کہ شیخ الاسلام نے فتح الباری شرح صحیح البخاری میں بیان کیا ہے۔ ت)

ثامناً شاہ صاحب اس کلام امام ذہبی کو نقل کرکے فرماتے ہیں:
ولہذا علمائے حدیث قراردادہ اندکہ برمستدرک حاکم اعتماد نباید کردمگر از دیدن تلخیص ذہبی ۱؎۔اسی لئے محدثین نے یہ ضابطہ مقرر کردیا ہے کہ مستدرک حاکم پر ذہبی کی تلخیص دیکھنے کے بعد اعتماد کیا جائے گا۔ (ت)


(۱؎ بستان المحدثین مع اردوترجمہ مستدرک میں احادیث موضوعہ کا اندراج مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص ۱۱۳)

اور اس سے پہلے لکھا: ذہبی گفتہ است کہ حلال نیست کسے راکہ برتصحیح حاکم غرہ شودتا وقتیکہ تعقبات وتلخیصات مرانہ بیند ونیز گفتہ است احادیث بسیار درمستدرک کہ برشرط صحت نیست بلکہ بعضے از احادیچ موضوعہ نیز ست کہ تمام مستدرک بآنہا معیوب گشتہ ۲؎۔

امام ذہبی نے کہا ہے کہ امام حاکم کی تصحیح پر کوئی کفایت نہ کرے تاوقتیکہ اس پر میری تعقبات وتلخیصات کا مطالعہ نہ کرلے، اور یہ بھی کہا ہے کہ بہت سی احادیث مستدرک میں شرطِ صحت پر موجود نہیں بلکہ بعض اس میں موضوعات بھی ہیں جس کی وجہ سے تمام مستدرک معیوب ہوگئی ہے۔ (ت)


(۲؎بستان المحدثین مع اردوترجمہ مستدرک میں احادیث موضوعہ کا اندراج مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص ۱۰۹)

ان عبارات سے ظاہر ہوا کہ وجہ بے اعتماد یہی اختلاط صحیح وضعیف ہے اگرچہ اکثر عہ صحیح ہی ہوں جیسے مستدرک میں تین ربع کتاب کی قدر احادیث صحیحہ ہیں نہ کہ سب کا ضعیف ہونا چہ جائے ضعف شدید یا بطلان محض کہ کوئی جاہل بھی اس کا اعاد نہ کرے گا اور اس بے اعتمادی کے یہی معنی اگر خود لیاقت نقد رکھتا ہو آپ پرکھے ورنہ کلام ناقدین کی طرف رجوع کرے بے اس کے حجت نہ سمجھ لے ۔

ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 545 - 547 جلد 05 العطايا النبوية في الفتاوی الرضویة معروف بہ فتاوی رضویہ - احمد رضا بریلوی - رضا فاؤنڈیشن، جامع نظامیہ رضویہ۔لاہور
احمد رضا خان بریلوی صاحب نے بھی بڑی صراحت کے ساتھ امام حاکم کو متساہل قرار دیتے ہوئے، ان کی تصحیح کو معتبر قرار نہیں دیا!
اور احمد رضا خان بریلوی سے قبل بھی احناف کا بھی یہی مؤقف رہا ہے، اس کا ایک ثبوت ملاحظہ فرمائیں:

وَتَصْحِيحُ الْحَاكِمِ لَا يُعْتَدُّ بِهِ، سِيَّمَا فِي هَذَا الْمَوْضِعِ، فَقَدْ عُرِفَ تَسَاهُلُهُ فِي ذَلِكَ
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 344 جلد 01 نصب الراية لأحاديث الهداية مع حاشيته بغية الألمعي في تخريج الزيلعي - جمال الدين أبو محمد عبد الله بن يوسف بن محمد الزيلعي (المتوفى: 762هـ) - مؤسسة الريان للطباعة والنشر، بيروت - دار القبلة للثقافة الإسلامية، جدة

یہی نہیں بلکہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ سے قبل امام النووی بھی امام حاکم کو متساہل قرار دے چکے ہیں:
واعتنى الحاكم بضبط الزائد عليهما، وهو متساهل، فما صححه ولم نجد فيه لغيره من المعتمدين تصحيحاً ولا تضعيفاً حكمنا بأنه حسن إلا أن يظهر فيه علة توجب ضعفه، ويقاربه في حكمه صحيح أبي حاتم بن حبان، والله أعلم.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 26 – 27 - التقريب والتيسير لمعرفة سنن البشير النذير في أصول الحديث - أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف النووي (المتوفى: 676هـ) - دار الكتاب العربي، بيروت

اس کی شرح میں امام سیوطی نے مزید وضاحت کرتے ہوئے ابن حجر العسقلانی کا قول بھی نقل کیا ہے:
وَاعْتَنَى الْحَافِظُ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ (الْحَاكِمُ) فِي الْمُسْتَدْرَكِ (بِضَبْطِ الزَّائِدِ عَلَيْهِمَا) مِمَّا هُوَ عَلَى شَرْطِهِمَا أَوْ شَرْطِ أَحَدِهِمَا، أَوْ صَحِيحٌ، وَإِنْ لَمْ يُوجَدْ شَرْطُ أَحَدِهِمَا، مُعَبِّرًا عَنِ الْأَوَّلِ بِقَوْلِهِ: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ، أَوْ عَلَى شَرْطِ الْبُخَارِيِّ أَوْ مُسْلِمٍ، وَعَنِ الثَّانِي بِقَوْلِهِ: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ، وَرُبَّمَا أَوْرَدَ فِيهِ مَا هُوَ فِي الصَّحِيحَيْنِ، وَرُبَّمَا أَوْرَدَ فِيهِ مَا لَمْ يَصِحَّ عِنْدَهُ مُنَبِّهًا عَلَى ذَلِكَ، (وَهُوَ مُتَسَاهِلٌ) فِي التَّصْحِيحِ.

قَالَ الْمُصَنِّفُ فِي شَرْحِ الْمُهَذَّبِ: اتَّفَقَ الْحُفَّاظُ عَلَى أَنَّ تِلْمِيذَهُ الْبَيْهَقِيَّ أَشَدُّ تَحَرِّيًا مِنْهُ، وَقَدْ لَخَّصَ الذَّهَبِيُّ مُسْتَدْرَكَهُ، وَتَعَقَّبَ كَثِيرًا مِنْهُ بِالضَّعْفِ وَالنَّكَارَةِ، وَجَمَعَ جُزْءًا فِيهِ الْأَحَادِيثُ الَّتِي فِيهِ وَهِيَ مَوْضُوعَةٌ، فَذَكَرَ نَحْوَ مِائَةِ حَدِيثٍ.
وَقَالَ أَبُو سَعِيدٍ الْمَالِينِيُّ: طَالَعْتُ الْمُسْتَدْرَكَ الَّذِي صَنَّفَهُ الْحَاكِمُ مِنْ أَوَّلِهِ إِلَى آخِرِهِ، فَلَمْ أَرَ فِيهِ حَدِيثًا عَلَى شَرْطِهِمَا. قَالَ الذَّهَبِيُّ: وَهَذَا إِسْرَافٌ وَغُلُوٌّ مِنَ الْمَالِينِيِّ، وَإِلَّا فَفِيهِ جُمْلَةٌ وَافِرَةٌ عَلَى شَرْطِهِمَا، وَجُمْلَةٌ كَثِيرَةٌ عَلَى شَرْطِ أَحَدِهِمَا، لَعَلَّ مَجْمُوعَ ذَلِكَ نَحْوُ نِصْفِ الْكِتَابِ، وَفِيهِ نَحْوُ الرُّبْعِ مِمَّا صَحَّ سَنَدُهُ، وَفِيهِ بَعْضُ الشَّيْءِ، أَوْ لَهُ عِلَّةٌ، وَمَا بَقِيَ وَهُوَ نَحْوُ الرُّبْعِ فَهُوَ مَنَاكِيرُ أَوْ وَاهِيَاتٌ لَا تَصِحُّ، وَفِي بَعْضِ ذَلِكَ مَوْضُوعَاتٌ.
قَالَ شَيْخُ الْإِسْلَامِ: وَإِنَّمَا وَقَعَ لِلْحَاكِمِ التَّسَاهُلُ لِأَنَّهُ سَوَّدَ الْكِتَابَ لِيُنَقِّحَهُ فَأَعْجَلَتْهُ الْمَنِيَّةُ،

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 112 – 113 تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي - عبد الرحمن بن أبي بكر، جلال الدين السيوطي (المتوفى: 911هـ) - مكتبة الكوثر، الرياض
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 49 – 50 تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي - عبد الرحمن بن أبي بكر، جلال الدين السيوطي (المتوفى: 911هـ) - دار الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 143 – 145 تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي - عبد الرحمن بن أبي بكر، جلال الدين السيوطي (المتوفى: 911هـ) - دار العاصمة، الرياض
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 180 – 182 تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي - عبد الرحمن بن أبي بكر، جلال الدين السيوطي (المتوفى: 911هـ) - دار ابن الجوزي، الدمام


اس روایت میں امام حاکم کا تساہل تو خود ان کے کلام سے ثابت ہے کہ اس روایت کے راوی عبدالرحمن بن زید بن اسلم کے متعلق امام حاکم خود فرماتے ہیں :
عبد الرَّحْمَن بن زيد بن أسلم روى عَن أَبِيه أَحَادِيث مَوْضُوعَة لَا يخفى على من تأملها من أهل الصَّنْعَة أَن الْحمل فِيهَا عَلَيْهِ
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 154 المدخل إلى الصحيح - أبو عبد الله الحاكم محمد بن عبد الله بن محمد بن حمدويه بن نُعيم بن الحكم الضبي الطهماني النيسابوري المعروف بابن البيع (المتوفى: 405هـ) - مؤسسة الرسالة، بيروت
لہٰذا امام حاکم کی اس روایت کی تصحیح کا باطل ہونا ثابت ہو جاتا ہے!
دوم: امام ابو حنیفہ کا فتوی ہے: ويكره أن يقول الرجل في دعائه: اللهم إني أسألك بحق أنبيائك ورسلك؛ یعنی یہ مکروہ (یعنی مکروہ تحریمی یعنی ناجائز) ہے کہ کوئی شخص اپنی دعا میں یوں کہے کہ اے میرےے پروردگار میں تجھ سے تیرے انبیاء اور رسولوں کے حق سے سوال کرتا ہوں،
اور شاہ عبد العزیز ان الفاظ میں دعا کرنے کو جائز کہتے ہیں!
یعنی کہ شاہ عبد العزیز نے جومؤقف اختیار کیا ہے وہ امام ابو حنیفہ کے فتوی کے خلاف، متضاد اور منافی ہے، اور جب کوئی ''وضاحت وشرح '' متن کے خلاف، متضاد ومنافی ہو تو یہ شارح کا مؤقف تو ہو سکتا ہے، لیکن ماتن کا مؤقف قرار نہیں پاتا۔ فتدبر!
سوم: امام ابوحنیفہ کا فتوی یہ ہے کہ ان الفاظ کے کہنے سے جو حق لازم آتا ہے وہ حق مخلوق کا خالق پر نہیں!
جبکہ شاہ عبد العزیز کہتے ہیں کہ اگر حقیقی حق کا گمان نہ ہو، بلکہ جعلی حق کا خیال ہو تو ان الفاظ میں دعا کرنا جائز ہے، لیکن امام صاحب نے ان الفاظ سے جس حق کا لازم آنا قرار دیا ہے، وہ حق مخلوق کا خالق پر نہیں!
اب یا تو امام ابو حنیفہ کی بات درست ہے کہ ان الفاظ سے حق حقیقی کا ماننا لازم آتا ہے، یا شاہ عبدالعزیز کی بات کہ اس سے ان الفاظ سے حق حقیقی لازم نہیں آتا!
چہارم: شاہ عبدالعزیز کی توضیح سے یہ بات بھی لازم آتی ہے، کہ امام صاحب معتزلہ کے رد میں قرآن وحدیث سے ثابت شدہ اعمال کو بھی ناجائز قرار دیا کرتے تھے!
جبکہ یہ کوئی معقول بات بھی نہیں، کہ اس طرح تو کوئی شخص امام مہدی ہونے کے دعوی داروں کے رد میں امام مہدی کی پیشن گوئیوں کا بھی انکار کردینا، اما ابو حنیفہ کہ طریقہ سے ثابت کردے گا۔ فتدبر!

(جواب مکمل ہوا)
 
Last edited:

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
یہاں یہ بات بالکل ثابت ہو جاتی ہے، کہ تقی الدین سبکی جن الفاظ اور جس توسل کا اثبات کررہے ہیں، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ شیخ الاسلام ابو حنیفہ کی پیدائش سے صدیوں پہلے ان الفاظ اور اس توسل کو مکروہ، یعنی مکروہ تحریمی یعنی ناجائز قرار دے رہے ہیں!
 
شمولیت
جنوری 13، 2017
پیغامات
51
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
63
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!



محمد افضل رضوی صاحب! آپ عجیب بات کر رہے ہیں؟ آپ کے نزدیک ہر مجتہد کا اجتہاد کیونکر حجت ہو گیا؟
آپ کے نزدیک امام مالک ، امام شافعی، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ علیہم مجتہد مطلق ہیں، اور آپ کے ہاں ان کے اجتہاد بھی بالکل حجت نہیں!
محمد افضل رضوی بھائی! آپ کو غالباً یہ بھی نہیں معلوم کہ آپ کے امام احمد رضا خان بریلوی کے نزدیک تو صرف امام ابو حنیفہ کا اجتہاد ہی حجت ہے، اور اس کے برخلاف امام محمد الشیبانی، اور قاضی ابو یوسف اور باقی تمام شاگرد بھی اگر ساتھ ہوں، تب بھی امام صاحب کا اجتہاد ہی حجت ہے!
احمد رضا خان بریلوی کا رسالہ
''اجلي الاعلام ان الفتوي مطلقا علي قول الامام ''مطالعہ فرمائیں!

اب اہل الحدیث کا مؤقف سمجھ لیں: اجتہاد میں کسی مجتہد کو خطا بھی ہو سکتی ہے اور وہ حق بھی پا سکتے ہے، لہٰذا کسی مجتہد کے اسی اجتہاد کو اختیار کیا جائے گا، جس کے اجتہاد کو حق پر سمجھا جائے گا، اور جس اجتہاد کو خطا سمجھا جائے گا، اسے ترک کردیا جائے گا، وہ حجت نہیں! اور مجتہد کو اس کے اجتہاد کا ایک اجر ملے گا۔ لیکن جب کسی پر اس کے اجتہاد کا خطا ہونا ظاہر ہو، تو اسے یہ جائز نہیں کہ اس اجتہاد کو اختیار کرے!
اب اہل الحدیث کے مؤقف پر دلیل بھی دیکھ لیں:

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ المُقْرِئُ المَكِّيُّ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الهَادِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الحَارِثِ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي قَيْسٍ، مَوْلَى عَمْرِو بْنِ العَاصِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ العَاصِ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِذَا حَكَمَ الحَاكِمُ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَصَابَ فَلَهُ أَجْرَانِ، وَإِذَا حَكَمَ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَخْطَأَ فَلَهُ أَجْرٌ»، قَالَ: فَحَدَّثْتُ بِهَذَا الحَدِيثِ أَبَا بَكْرِ بْنَ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، فَقَالَ: هَكَذَا حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَقَالَ عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ المُطَّلِبِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ.
ہم سے عبد اللہ بن یزید مقری مکی نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے حیوہ بن شریح نے بیان کیا ‘ انہوں نے مجھ سے یزید بن عبد اللہ بن الہاد نے بیان کیا ‘ ان سے محمد بن ابراہیم بن الحارث نے ‘ ان سے بسر بن سعید نے ‘ ان سے عمر بن العاص کے مولیٰ ابو قیس نے ‘ ان سے عمر بن العاص رضی اللہ عنہ نے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا ‘ آپ نے فرمایا کہ جب حاکم کوئی فیصلہ اپنے اجتہاد سے کرے اور فیصلہ صحیح ہوتو اسے دہرا ثواب ملتا ہے اور جب کسی فیصلہ میں اجتہاد کرے اور غلطی کر جائے تو اسے اکہرا ثواب ملتا ہے ( اجتہاد کا ) بیان کیا کہ پھر میں نے یہ حدیث ابو بکر بن عمر وبن حزم سے بیان کی تو انہوں نے بیاا کیا کہ مجھ سے ابو سلمہ بن عبد الرحمن نے اسی طرح بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ عنہ نے بیان کیا ۔ اور عبد العزیز بن المطلب نے بیان کیا ‘ ان سے عبد اللہ بن ابی ابکر نے بیان کیا ‘ ان سے ابو سلمہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح بیان فرمایا ۔
صحيح البخاري »» كِتَابُ الِاعْتِصَامِ بِالكِتَابِ وَالسُّنَّةِ »» بَابُ أَجْرِ الحَاكِمِ إِذَا اجْتَهَدَ فَأَصَابَ أَوْ أَخْطَأَ

حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي التَّمِيمِيُّ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُسَامَةَ بْنِ الْهَادِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْراهِيمَ ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي قَيْسٍ مَوْلَى عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِذَا حَكَمَ الْحَاكِمُ فَاجْتَهَدَ، ثُمَّ أَصَابَ فَلَهُ أَجْرَانِ، وَإِذَا حَكَمَ فَاجْتَهَدَ، ثُمَّ أَخْطَأَ فَلَهُ أَجْرٌ"، وحَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ كِلَاهُمَا، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ مُحَمَّدٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ، وَزَادَ فِي عَقِبِ الْحَدِيثِ، قَالَ يَزِيدُ: فَحَدَّثْتُ هَذَا الْحَدِيثَ أَبَا بَكْرِ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، فَقَالَ: هَكَذَا حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وحَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدَّارِمِيُّ، أَخْبَرَنَا مَرْوَانُ يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ الدِّمَشْقِيَّ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُسَامَةَ بْنِ الْهَادِ اللَّيْثِيُّ، بِهَذَا الْحَدِيثِ مِثْلَ رِوَايَةِ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ مُحَمَّدٍ بِالْإِسْنَادَيْنِ جَمِيعًا.

مجھے یحییٰ بن یحییٰ تمیمی نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں عبدالعزیز بن محمد نے یزید بن عبداللہ بن اسامہ بن ہاد سے خبر دی، انہوں نے محمد بن ابراہیم سے، انہوں نے بسر بن سعید سے، انہوں نے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے مولیٰ ابوقیس سے اور انہوں نے حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے فرمایا: "جب کوئی حاکم فیصلہ کرے اور اجتہاد (ھقیقت کو سمجھنے کی بھرپور کوشش) کرے، پھر وہ حق بجانب ہو تو اس کے لیے دو اجر ہیں اور جب وہ فیصلہ کرے اور اجتہاد کرے، پھر وہ (فیصلے میں) غلطی کر جائے تو اس کے لیے ایک اجر ہے۔
اسحاق بن ابراہیم اور محمد بن ابی عمر دونوں نے عبدالعزیز بن محمد سے اسی سند کے ساتھ اسی کے مانند حدیث بیان کی اور حدیث کے آخر میں اضافہ کیا: "یزید نے کہا: میں نے یہ حدیث ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم کو سنائی تو انہوں نے کہا: مجھے ابوسلمہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اسی طرح حدیث بیان کی تھی۔
لیث بن سعد نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: مجھے یزید بن عبداللہ بن اسامہ بن ہاد لیث نے (اپنی) دونوں سندوں سے یہی حدیث عبدالعزیز بن محمد کی روایت کے مانند بیان کی

صحيح مسلم »» كِتَابُ الْأَقْضِيَةِ »» بَابُ بَيَانِ أَجْرِ الْحَاكِمِ إِذَا اجْتَهَدَ فَأَصَابَ، أَوْ أَخْطَأَ

دیکھ لیں متفق علیہ حدیث ہے۔

وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا (سورة النساء 115)
اور جو رسول کا خلاف کرے بعد اس کے کہ حق راستہ اس پر کھل چکا اور مسلمانوں کی راہ سے جدا راہ چلے ہم اُسے اُس کے حال پر چھوڑ دیں گے اور اسے دوزخ میں داخل کریں گے اور کیا ہی بری جگہ پلٹنے کی۔ (ترجمہ احمد رضا خان بریلوی)


شیخ کفایت اللہ سنابلی کے تحریر کو آپ کا قیاسی گھوڑے قرار دینا آپ کی اپنی اٹکل کے گھوڑے ثابت ہوئے ہیں!

(جاری ہے)
آپ کے سنابلی صاحب نے امام ابن حبان رحمہ اللہ کے قول وعمل کو ان کا اپنا ذاتی اجتہاد کہا۔۔
اورآپ نے انکے دفاع میں صحيح البخاری کی یہ حدیث پیش کی
جب حاکم کوئی فیصلہ اپنے اجتہاد سے کرے اور فیصلہ صحیح ہوتو اسے دہرا ثواب ملتا ہے اور جب کسی فیصلہ میں اجتہاد کرے اور غلطی کر جائے تو اسے اکہرا ثواب ملتا ہے ( اجتہاد کا )

تو جناب اگر قبر سے توسل یا فیوض وبرکت امام ابن حبان رحمہ اللہ کا اپنا ذاتی اجتہاد اور اس میں غلطی پہ بھی انہیں ثواب ۔۔

تو سنی بریلوی لوگوں پرہی اس بات کی وجہ سے شرک کے فتوے کیوں۔؟؟؟
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
@محمد افضل رضوی بھائی! میں آپ کی جانب سے جواب مکمل ہونے تک انتظار کرتا ہوں، آپ مراسلہ کے آخر میں جواب کے جاری ہونی کی نشاندہی کردیا کیجئے!
 
شمولیت
جنوری 13، 2017
پیغامات
51
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
63
ویسے تو ہر مراسلہ میں بے شمار ایسی باتیں جن پر کافی زیادہ بحث کی جا سکتی ہے۔ مگر میں انہی باتوں کو لے کر چل رہا جو موضوع کے زیادہ قریب ہیں تا کہ بات کسی اور طرف نہ چلی جائے اور قارئین بھی ساری بحث کو آسانی سے سمجھ سکیں۔
 
شمولیت
جنوری 13، 2017
پیغامات
51
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
63
١-ہم نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی اس بات کا رد یا انکار کہاں کیا ہے؟؟
جیسا کہ جناب نے اکثر جگہ اپنے مراسلات میں لکھا۔۔

٢- جناب کا یہ کہنا کہ میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے قول کولے کرامام مرداوی رحمہ اللہ کی وضاحت کو نہیں مان رہا جبکہ شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ کی وضاحت کومان رہا ہوں۔۔
تو جناب آگر آپ خود انصاف کریں تو شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ نے باقاعدہ فقہاء کا اور ان الفاظ کا ذکر کر کے اسکی وضاحت کی ہے۔
جبکہ امام مرداوی رحمہ اللہ نے پہلے اپنے مذہب‘ پھر امام احمد بن حنبل کا اور اسکے بعد شیخ تقی الدین کا ذکر کیا وہاں کہیں بھی ذکرنہیں کہ یہ امام احمد بن حنبل کے قول کی وضاحت ہے۔ انہوں نے بس ان دونوں کی رائے کو پیش کیا ہے۔



فلحال جناب انکی وضاحت کردیں باقی باتیں بعد میں ان شاء الله
 
شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
79
يتوسل بالنبي صلى الله عليه وسلم في دعائه
وسیلہ پیش کرو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا، اپنی دعاؤں میں.

اس کی وضاحت کر دیں۔
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ۔
السلام علیکم! میں اجازت طلب کرتا اپنے رب سے یہاں کچھ کہنے کے لئے ۔۔۔۔۔

وسیلہ۔۔۔۔
اس بحث کو دیکھ کر حیران ہوگیا یہ دیکھ کرکیسے قرآن مجید کی توہین ہو رہی ہے ۔ بعض لوگوں کو قرآن مجید کی آیات اور مفہوم سے سمجھایا جا رہالیکن قرآن مجید کا واضح انکار کر کے اپنے مطلب کے مفہوم کی طرف چھکتے جا رہے ۔۔۔۔۔۔

وسیلہ ۔۔۔۔نیک انسان کے پاس جا کر جو زندہ ہو ۔۔۔۔صرف دعا کروانا جائز وہ بھی ایسا شخص جو کفر و شرک نہ کرتا ہو،،،،اس کے عمل بھی اچھے ہوں صرف دعا کروانا اور اس کا ایمان ہو کہ معلوم نہیں میری دعا قبول ہو یا نہ ہو ۔۔۔یہ ہے درست طریقہ۔۔۔۔

وفات شدہ کسی کا بھی نام لے کر دعا کرنا ناجائز ہے ۔ حرام ہے ۔ کفر ہے شرک ہے ۔۔۔قرآن کے خلاف ہے ۔۔۔تہمت ہے اللہ پر ، فرشتوں پر ،،،،پیغمبروں پر۔۔۔۔۔

ایک وسیلہ ہے ۔۔۔اللہ کے قریب آنے کے لئے ۔۔۔نماز پڑھو، زکٰوۃ دو،روزے رکھو،نیک کام کرو، برائی سے بچو،گالی نہ دو،حج کی توفیق ہے تو حج کرو، کفر و شرک سے بچو یہ وہ کام ہیں جن سے اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہے اور یہ ہے ذریع اور یہ ہے وسیلہ۔۔۔شکریہ

جو قرآن مجید سے فیصلہ نہیں لیتا واضح جواب ملے کے باوجود غور نہیں کرتا اور اس کی تعید میں احادیث پر بھی غور نہیں کرتا وہ کافر ہے ۔۔۔۔۔اور کفر میں بڑھتا چلا جائے توبہ نہ کرے آیات کا انکار کرتا چلا جائے صرف ایک فلاں عالم ، نے فلاں بات کی لیکن قرآن سے جواب اس کے مخالف ملے اور مختلف آیات اس کی دلیل دیں کہ یہ فلاں بات جھوٹی ہے ۔۔۔۔تب بھی غور نہ کرتے اور بحث کرتا چلا جائے ۔۔۔۔وہ کفر کے ساتھ ساتھ شرک بھی کر ڈالتا ہے ۔۔۔اللہ کی بات کو اہمیت نہی دیتا اور اپنے علما کی بات مانتا چلا جاتا ہے ۔۔۔۔استغفراللہ۔۔۔۔۔

اللہ سے دعا ایسا علم اعطائ فرمائ جس پر عمل بھی ہو ۔۔۔آمین۔۔شکریہ
 
Top