• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وسیلہ اور اسلاف امت کا طریقہ کار

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
لنک حذف کرنے کے حوالے سے یہ بھی ملاحظہ ہو
18758 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
قادری رانا بھائی! بندے کو اللہ کا خوف کرنا چاہئے!
آپ کو کہا تھا کہ آپ جماعت قادیانیہ کی کتب کا لنک دیتے ہوئے لازماً یہ لکھیں کہ یہ ''جماعت قادیانیہ کہ کتب ہیں،
مگر آپ نے یہ نہیں کیا، لہٰذا آکا یہ مراسلہ حذف کر دیا جائے گا ۔
یہ وجہ بھی تھی، اور ان صاحب سے آپ کی بھی گفتگو ہوئی تھی!
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
جناب امام ابن حبان کے عمل کے بارے میں آپ کے سنابلی صاحب نے بس قیاس کے گھوڑے دوڑائے ہے۔
یہ اس لیے کہا تھا کیونکہ آپ کے سنابلی صاحب نے کچھ اس طرح لکھا۔۔

"لیکن چونکہ کتاب وسنت میں اس موقع کو دعا کی قبولیت کا موقع نہیں کہا گیا ہے۔اس لئے ہم اس موقع کو دعاء کی قبولیت کا موقع نہیں کہہ سکتے اور نہ ہی اس موقع پر دعا کی خاص فضیلت مان سکتے ہیں ۔رہاامام ابن حبان رحمہ اللہ کا قول وعمل تو یہ محض ان کا اپنا ذاتی اجتہاد ہے ۔جو ہمارے لئے حجت نہیں ہے۔"
بے شک اس طرح کے جوابات کہ فلاں کا یہ عمل حجت نہیں وغیرہ۔۔
قارئین کے لئے ایک نکتہ ہیں
محمد افضل رضوی صاحب! آپ عجیب بات کر رہے ہیں؟ آپ کے نزدیک ہر مجتہد کا اجتہاد کیونکر حجت ہو گیا؟
آپ کے نزدیک امام مالک ، امام شافعی، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ علیہم مجتہد مطلق ہیں، اور آپ کے ہاں ان کے اجتہاد بھی بالکل حجت نہیں!
محمد افضل رضوی بھائی! آپ کو غالباً یہ بھی نہیں معلوم کہ آپ کے امام احمد رضا خان بریلوی کے نزدیک تو صرف امام ابو حنیفہ کا اجتہاد ہی حجت ہے، اور اس کے برخلاف امام محمد الشیبانی، اور قاضی ابو یوسف اور باقی تمام شاگرد بھی اگر ساتھ ہوں، تب بھی امام صاحب کا اجتہاد ہی حجت ہے!
احمد رضا خان بریلوی کا رسالہ
''اجلي الاعلام ان الفتوي مطلقا علي قول الامام ''مطالعہ فرمائیں!

اب اہل الحدیث کا مؤقف سمجھ لیں: اجتہاد میں کسی مجتہد کو خطا بھی ہو سکتی ہے اور وہ حق بھی پا سکتے ہے، لہٰذا کسی مجتہد کے اسی اجتہاد کو اختیار کیا جائے گا، جس کے اجتہاد کو حق پر سمجھا جائے گا، اور جس اجتہاد کو خطا سمجھا جائے گا، اسے ترک کردیا جائے گا، وہ حجت نہیں! اور مجتہد کو اس کے اجتہاد کا ایک اجر ملے گا۔ لیکن جب کسی پر اس کے اجتہاد کا خطا ہونا ظاہر ہو، تو اسے یہ جائز نہیں کہ اس اجتہاد کو اختیار کرے!
اب اہل الحدیث کے مؤقف پر دلیل بھی دیکھ لیں:

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ المُقْرِئُ المَكِّيُّ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الهَادِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الحَارِثِ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي قَيْسٍ، مَوْلَى عَمْرِو بْنِ العَاصِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ العَاصِ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِذَا حَكَمَ الحَاكِمُ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَصَابَ فَلَهُ أَجْرَانِ، وَإِذَا حَكَمَ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَخْطَأَ فَلَهُ أَجْرٌ»، قَالَ: فَحَدَّثْتُ بِهَذَا الحَدِيثِ أَبَا بَكْرِ بْنَ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، فَقَالَ: هَكَذَا حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَقَالَ عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ المُطَّلِبِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ.
ہم سے عبد اللہ بن یزید مقری مکی نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے حیوہ بن شریح نے بیان کیا ‘ انہوں نے مجھ سے یزید بن عبد اللہ بن الہاد نے بیان کیا ‘ ان سے محمد بن ابراہیم بن الحارث نے ‘ ان سے بسر بن سعید نے ‘ ان سے عمر بن العاص کے مولیٰ ابو قیس نے ‘ ان سے عمر بن العاص رضی اللہ عنہ نے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا ‘ آپ نے فرمایا کہ جب حاکم کوئی فیصلہ اپنے اجتہاد سے کرے اور فیصلہ صحیح ہوتو اسے دہرا ثواب ملتا ہے اور جب کسی فیصلہ میں اجتہاد کرے اور غلطی کر جائے تو اسے اکہرا ثواب ملتا ہے ( اجتہاد کا ) بیان کیا کہ پھر میں نے یہ حدیث ابو بکر بن عمر وبن حزم سے بیان کی تو انہوں نے بیاا کیا کہ مجھ سے ابو سلمہ بن عبد الرحمن نے اسی طرح بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ عنہ نے بیان کیا ۔ اور عبد العزیز بن المطلب نے بیان کیا ‘ ان سے عبد اللہ بن ابی ابکر نے بیان کیا ‘ ان سے ابو سلمہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح بیان فرمایا ۔
صحيح البخاري »» كِتَابُ الِاعْتِصَامِ بِالكِتَابِ وَالسُّنَّةِ »» بَابُ أَجْرِ الحَاكِمِ إِذَا اجْتَهَدَ فَأَصَابَ أَوْ أَخْطَأَ

حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي التَّمِيمِيُّ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُسَامَةَ بْنِ الْهَادِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْراهِيمَ ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي قَيْسٍ مَوْلَى عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِذَا حَكَمَ الْحَاكِمُ فَاجْتَهَدَ، ثُمَّ أَصَابَ فَلَهُ أَجْرَانِ، وَإِذَا حَكَمَ فَاجْتَهَدَ، ثُمَّ أَخْطَأَ فَلَهُ أَجْرٌ"، وحَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ كِلَاهُمَا، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ مُحَمَّدٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ، وَزَادَ فِي عَقِبِ الْحَدِيثِ، قَالَ يَزِيدُ: فَحَدَّثْتُ هَذَا الْحَدِيثَ أَبَا بَكْرِ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، فَقَالَ: هَكَذَا حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وحَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدَّارِمِيُّ، أَخْبَرَنَا مَرْوَانُ يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ الدِّمَشْقِيَّ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُسَامَةَ بْنِ الْهَادِ اللَّيْثِيُّ، بِهَذَا الْحَدِيثِ مِثْلَ رِوَايَةِ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ مُحَمَّدٍ بِالْإِسْنَادَيْنِ جَمِيعًا.

مجھے یحییٰ بن یحییٰ تمیمی نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں عبدالعزیز بن محمد نے یزید بن عبداللہ بن اسامہ بن ہاد سے خبر دی، انہوں نے محمد بن ابراہیم سے، انہوں نے بسر بن سعید سے، انہوں نے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے مولیٰ ابوقیس سے اور انہوں نے حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے فرمایا: "جب کوئی حاکم فیصلہ کرے اور اجتہاد (ھقیقت کو سمجھنے کی بھرپور کوشش) کرے، پھر وہ حق بجانب ہو تو اس کے لیے دو اجر ہیں اور جب وہ فیصلہ کرے اور اجتہاد کرے، پھر وہ (فیصلے میں) غلطی کر جائے تو اس کے لیے ایک اجر ہے۔
اسحاق بن ابراہیم اور محمد بن ابی عمر دونوں نے عبدالعزیز بن محمد سے اسی سند کے ساتھ اسی کے مانند حدیث بیان کی اور حدیث کے آخر میں اضافہ کیا: "یزید نے کہا: میں نے یہ حدیث ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم کو سنائی تو انہوں نے کہا: مجھے ابوسلمہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اسی طرح حدیث بیان کی تھی۔
لیث بن سعد نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: مجھے یزید بن عبداللہ بن اسامہ بن ہاد لیث نے (اپنی) دونوں سندوں سے یہی حدیث عبدالعزیز بن محمد کی روایت کے مانند بیان کی

صحيح مسلم »» كِتَابُ الْأَقْضِيَةِ »» بَابُ بَيَانِ أَجْرِ الْحَاكِمِ إِذَا اجْتَهَدَ فَأَصَابَ، أَوْ أَخْطَأَ

دیکھ لیں متفق علیہ حدیث ہے۔

وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا (سورة النساء 115)
اور جو رسول کا خلاف کرے بعد اس کے کہ حق راستہ اس پر کھل چکا اور مسلمانوں کی راہ سے جدا راہ چلے ہم اُسے اُس کے حال پر چھوڑ دیں گے اور اسے دوزخ میں داخل کریں گے اور کیا ہی بری جگہ پلٹنے کی۔ (ترجمہ احمد رضا خان بریلوی)


شیخ کفایت اللہ سنابلی کے تحریر کو آپ کا قیاسی گھوڑے قرار دینا آپ کی اپنی اٹکل کے گھوڑے ثابت ہوئے ہیں!

(جاری ہے)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
باقی امام مرداوی کا جناب نے ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا۔۔
اور شاید جناب یہ بھول گئے کہ وہاں امام احمد بن حنبل کا حوالہ بھی ہے۔۔
قَالَ الْإِمَامُ أَحْمَدُ لِلْمَرُّوذِيِّ : يَتَوَسَّلُ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي دُعَائِهِ وَجَزَمَ بِهِ فِي الْمُسْتَوْعِبِ وَغَيْرِهِ.
امام احمد بن حنبل رحمہ الله نے ابو بکر المرزوی سے فرمایا کہ،
وسیلہ پیش کرو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا، اپنی دعاؤں میں.

الإنصاف (٢ : ٤٥٦)
ایک بار پھر فرماتے ہیں:
يتوسل بالنبي صلى الله عليه وسلم في دعائه
وسیلہ پیش کرو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا، اپنی دعاؤں میں.

اس کی وضاحت کر دیں۔

حالانکہ جب محمد افضل رضوی صاحب نے اس کا اسکین پیش کیا تھا اسی صفحہ پر اس کی وضاحت بھی موجود ہے۔
اور اس عبارت کو
@difa-e- hadis بھائی نے مکمل پیش بھی کیا:
پوری عبارت پیش کرتا ہوں پڑھ لیں اس میں توسل بذات کا کہیں ذکر نہیں ہیں جو اپ سمجھتے ہیں
الإمام أحمد : المروذي يتوسل بالنبي صلى الله عليه وسلم في دعائه وجزم به في المستوعب وغيره ، وجعله الشيخ تقي الدين كمسألة اليمين به قال : والتوسل بالإيمان به وطاعته ومحبته والصلاة والسلام عليه ، وبدعائه وشفاعته ، ونحوه مما هو من فعله أو أفعال العباد المأمور بها في حقه : مشروع إجماعا ، وهو من الوسيلة المأمور بها في قوله تعالى { اتقوا الله وابتغوا إليه الوسيلة }

اس کے جواب میں افضل رضوی صاحب فرماتے ہیں:
جناب یہ اسکی وضاحت کیسے۔۔؟؟؟
دوسری بات جو آپ نے آگے لکھا

"والتوسل بالإيمان به وطاعته ومحبته والصلاة والسلام عليه ، وبدعائه وشفاعته"
کیا یہ امام احمد کا ہی فرمان ہے یا وہ الگ سے ہے جناب خود کتاب کے عکس سے دیکھ لیں۔۔


اور مزید فرماتے ہیں:
جہاں تک اگلی عبارت آپ پیش کررہے تو وہ امام احمد کا نہیں امام تقي الدين کا قول ہے۔

الإمام أحمد : المروذي يتوسل بالنبي صلى الله عليه وسلم في دعائه وجزم به في المستوعب وغيره ، وجعله الشيخ تقي الدين كمسألة اليمين به قال : والتوسل بالإيمان به وطاعته ومحبته والصلاة والسلام عليه ، وبدعائه وشفاعته
جبکہ یہی افضل رضوی صاحب امام ابو حنیفہ کے فتوی کی وضاحت شاہ عبد العزیز کی تحریر سے پیش کرتے ہیں:
محدث شاہ عبدالعزیز تفسیر عزیزی میں
سورة البقرہ میں آیت
وَلَكُمْ فِي الأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَى حِينٍ

کے تحت لکھتے ہیں۔
فقہاء کرام نے بحق فلاں کہہ کر دعا کرنے کو مکروہ لکھا ہے۔اس کے بعد شاہ عبدالعزیز لکھتے ہیں۔
کہ معتزلہ کے مذہب میں بندہ کا عمل بندہ کی پیداوار ہے۔الله تعالی نے اس کے عمل کا اجر مقرر کیا ہے۔یہ اجر بندے کا حق ہے،ایسا حق کہ جو حقیقی ہے۔
یہ مذہب معتزلیوں کا ہے لہذا فقہاء کرام نے اس کے استعمال سے منع کیا۔
تفصیل کے لیے دیکھیں کتاب کا عکس۔۔



اتنا ہی نہیں بلکہ یہ طعن بھی کرتے ہیں:
آئمہ احناف نے بحق فلاں کہہ کر دعا کرنے کو مکروہ لکھا ہے۔۔
جسکا جواب اوپرمحدث شاہ عبدالعزیز سے دیا ہے شاید جناب نے پڑھنے کی زحمت نہیں کی۔
اب علاء الدين أبو الحسن علي بن سليمان بن أحمد المَرْداوي (المتوفى: 885 هـ) کی جس کتاب سے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا قول پیش کیا ہے، اسی کتاب میں اسی صفحہ پر اسی قول سے آگے انہیں مصنف نے جو اس کی شرح ، تفصیل و وضاحت لکھی ہے، محمد افضل قادری صاحب اسے قبول کرنے کے انکاری یوں ہیں کہ یہ شرح ،تفصیل و وضاحت امام احمد کا قول نہیں،بلکہ کسی دوسرے کا ہے!
امام احمد بن حنبل کے قول کا یہی معنی ہے، جو مرداوی نے نقل کیا ہے، لیکن یہ بات تو ہم بعد میں کریں گے!
لیکن فی الوقت یہ دیکھیں کہ امام ابو حنیفہ کے فتوی کی توضیح پیش کرنے کے لئے ہمارے محمد افضلرضوی صاحب شاہ عبد العزیز (المتوفی 1239ہجری) کی شرح، تفصیل و وضاحت قبول کرنے کا ہم سے مطالبہ ہے!
حد تو یہ ہے کہ ہمارے محمد افضل رضوی بھائی نے ایک ہی مراسلہ میں یہ دو متضاد طرز اختیار کیا ہے:
يتوسل بالنبي صلى الله عليه وسلم في دعائه
وسیلہ پیش کرو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا، اپنی دعاؤں میں.

یہاں توسل بذات کا ذکر ہے کہ نہیں۔۔؟؟

جہاں تک اگلی عبارت آپ پیش کررہے تو وہ امام احمد کا نہیں امام تقي الدين کا قول ہے۔


الإمام أحمد : المروذي يتوسل بالنبي صلى الله عليه وسلم في دعائه وجزم به في المستوعب وغيره ، وجعله الشيخ تقي الدين كمسألة اليمين به قال : والتوسل بالإيمان به وطاعته ومحبته والصلاة والسلام عليه ، وبدعائه وشفاعته

آئمہ احناف نے بحق فلاں کہہ کر دعا کرنے کو مکروہ لکھا ہے۔۔
جسکا جواب اوپرمحدث شاہ عبدالعزیز سے دیا ہے شاید جناب نے پڑھنے کی زحمت نہیں کی۔

بہر حال امام مرداوی نے امام احمد بن حنبل کے قول کا کو معنی نقل ہے،اور جو ان کا مؤقف ہے، درست ہے، اگلی تحریر میں ہم اس کا اثبات کریں گے، اور شاہ عبد العزیز کی امام ابو حنیفہ کے فتوی کی توضیح درست نہیں، اور اس کے درست نہ ہونے کی دلیل بھی آگے بیان کی جائے گی ان شاء اللہ!


(جاری ہے)
 
Last edited:
شمولیت
جنوری 13، 2017
پیغامات
51
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
63
[FONT=jameel noori nastaleeq, alvi lahori nastaleeq, alvi nastaleeq, urdu naskh asiatype, nafees pakistani naskh, nafees web naskh, nafees pakistani web naskh, tahoma, arial unicode ms, times new roman, arial, times, serif, lucida grande, sans-serif]اگر اپ کی بات مان بھی لی جائے تو بھی امام ابوحنیفہ کا اس سے انکار کی بنیاد [/FONT]معتزلہ نہیں تھے شرح کرخی میں اس کی وضاحت موجود ہے

امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں لا ینبغی لاَحدِ اَنْ یدعوا اللہ الا بہ(شرح الکرخی باب الکراہت) '' کسی شخص کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ اللہ کی ذات کے سوا کسی کا واسطہ دے کر اللہ کو پکارے''

اور اس کی وجہ اسی میں یہ بیان کی ہے کہ مخلوق کا الله پر کوئی حق نہیں ہے
آخری بات اگر علماء اس سے معتزلہ کے عقائد کی وجہ سے منع کرتے ہیں تو کیا اپ معتزلہ کے عقائد اپنانا چاہتے ہیں
اور اس کی وجہ اسی میں یہ بیان کی ہے کہ مخلوق کا الله پر کوئی حق نہیں ہے

تو کیا آپ کے نزدیک مخلوق کا الله پر حق ہے؟؟؟
ہے تو وضاحت کریں۔۔


 
شمولیت
جنوری 13، 2017
پیغامات
51
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
63
[FONT=jameel noori nastaleeq, alvi lahori nastaleeq, alvi nastaleeq, urdu naskh asiatype, nafees pakistani naskh, nafees web naskh, nafees pakistani web naskh, tahoma, arial unicode ms, times new roman, arial, times, serif, lucida grande, sans-serif]اگر اپ کی بات مان بھی لی جائے تو بھی امام ابوحنیفہ کا اس سے انکار کی بنیاد [/FONT]معتزلہ نہیں تھے شرح کرخی میں اس کی وضاحت موجود ہے

امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں لا ینبغی لاَحدِ اَنْ یدعوا اللہ الا بہ(شرح الکرخی باب الکراہت) '' کسی شخص کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ اللہ کی ذات کے سوا کسی کا واسطہ دے کر اللہ کو پکارے''

اور اس کی وجہ اسی میں یہ بیان کی ہے کہ مخلوق کا الله پر کوئی حق نہیں ہے
آخری بات اگر علماء اس سے معتزلہ کے عقائد کی وجہ سے منع کرتے ہیں تو کیا اپ معتزلہ کے عقائد اپنانا چاہتے ہیں
آخری بات اگر علماء اس سے معتزلہ کے عقائد کی وجہ سے منع کرتے ہیں تو کیا اپ معتزلہ کے عقائد اپنانا چاہتے ہیں
میں نے پہلے ہی کہا تھا۔
جناب اتنا وقت نہیں ہے کہ پہلے آپ کو سمجھاؤں کہ بات کیا چل رہی ‘ آپ کو جواب کیا دینا جبکہ آپ جواب کیا دے رہے ہیں۔
بہتر ہوگا کہ آپ پہلے اپنے کسی سنئیر دوست سے ساری اس گفتگو کو سمجھ لیں پھر یہاں بات کریں

علماء نے بحق فلاں کہنے کو مکروہ لکھا ہے نہ کہ توسل کو ہی مکروہ لکھ دیا۔۔
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
71
اور اس کی وجہ اسی میں یہ بیان کی ہے کہ مخلوق کا الله پر کوئی حق نہیں ہے

تو کیا آپ کے نزدیک مخلوق کا الله پر حق ہے؟؟؟
ہے تو وضاحت کریں۔۔

میں شرح کرخی کے حوالے سے بات کر رہا ہوں کہ اس عبارت کے بعد یہ لکھا ہے یہ امام طحاوی کا قول بیان کر رہا ہوں جو انہوں نے امام ابو حنیفہ کی وضاحت میں لکھا ہے
تو یہ اپ کے امام کا قول ہے اور وضاحت اپ مجھ سے مانگ رہے ہے بلکہ اپ کا اسلوب تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ اس قول پر اس عقیدہ سے رجوع کرتے
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
71
آخری بات اگر علماء اس سے معتزلہ کے عقائد کی وجہ سے منع کرتے ہیں تو کیا اپ معتزلہ کے عقائد اپنانا چاہتے ہیں
میں نے پہلے ہی کہا تھا۔
جناب اتنا وقت نہیں ہے کہ پہلے آپ کو سمجھاؤں کہ بات کیا چل رہی ‘ آپ کو جواب کیا دینا جبکہ آپ جواب کیا دے رہے ہیں۔
بہتر ہوگا کہ آپ پہلے اپنے کسی سنئیر دوست سے ساری اس گفتگو کو سمجھ لیں پھر یہاں بات کریں


علماء نے بحق فلاں کہنے کو مکروہ لکھا ہے نہ کہ توسل کو ہی مکروہ لکھ دیا۔۔

اوپر کی عبارت میں یہی مفہوم ہے کہ توسل بجاہ مکروہ ہے امام طحاوی نے جو اس کی وضاحت کی ہے کے مخلوق کا کوئی حق نہیں ہے یہ جملہ امام ابو حنیفہ کی اس عبارت کہ الله کے سوا کس کے وسیلہ سے نہیں مانگا جائے بحق فلاں والے وسیلہ کا ہی رد ہے
اور اس کا مکروہ کیا بدعت ہونا میں شرح عقیدہ طحاویہ کے حوالے سے بیان کر آیا ہوں جس میں اپ کے امام عز ابن حنفی نے شرح عقیدہ طحاویہ میں نقل کیا ہے کہ صحابہ کرام میں سے کسی کا بھی اس طرح دعا مانگنا ثابت نہیں ہے اپ شاید صرف بحث برائے بحث کے عادی معلوم ہوتے ہے وگرنہ فقہ حنفی کی معتبر ترین کتاب کے حوالے کے بعد اس طرح کا رویہ صرف بحث برائے بحث کے حامل افراد کا معلوم ہوتا ہے . معذرت


 
شمولیت
جنوری 13، 2017
پیغامات
51
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
63
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!



محمد افضل قادری صاحب! آپ عجیب بات کر رہے ہیں؟ آپ کے نزدیک ہر مجتہد کا اجتہاد کیونکر حجت ہو گیا؟
آپ کے نزدیک امام مالک ، امام شافعی، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ علیہم مجتہد مطلق ہیں، اور آپ کے ہاں ان کے اجتہاد بھی بالکل حجت نہیں!
محمد افضل قادری بھائی! آپ کو غالباً یہ بھی نہیں معلوم کہ آپ کے امام احمد رضا خان بریلوی کے نزدیک تو صرف امام ابو حنیفہ کا اجتہاد ہی حجت ہے، اور اس کے برخلاف امام محمد الشیبانی، اور قاضی ابو یوسف اور باقی تمام شاگرد بھی اگر ساتھ ہوں، تب بھی امام صاحب کا اجتہاد ہی حجت ہے!
احمد رضا خان بریلوی کا رسالہ
''اجلي الاعلام ان الفتوي مطلقا علي قول الامام ''مطالعہ فرمائیں!

اب اہل الحدیث کا مؤقف سمجھ لیں: اجتہاد میں کسی مجتہد کو خطا بھی ہو سکتی ہے اور وہ حق بھی پا سکتے ہے، لہٰذا کسی مجتہد کے اسی اجتہاد کو اختیار کیا جائے گا، جس کے اجتہاد کو حق پر سمجھا جائے گا، اور جس اجتہاد کو خطا سمجھا جائے گا، اسے ترک کردیا جائے گا، وہ حجت نہیں! اور مجتہد کو اس کے اجتہاد کا ایک اجر ملے گا۔ لیکن جب کسی پر اس کے اجتہاد کا خطا ہونا ظاہر ہو، تو اسے یہ جائز نہیں کہ اس اجتہاد کو اختیار کرے!
اب اہل الحدیث کے مؤقف پر دلیل بھی دیکھ لیں:

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ المُقْرِئُ المَكِّيُّ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الهَادِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الحَارِثِ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي قَيْسٍ، مَوْلَى عَمْرِو بْنِ العَاصِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ العَاصِ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِذَا حَكَمَ الحَاكِمُ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَصَابَ فَلَهُ أَجْرَانِ، وَإِذَا حَكَمَ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَخْطَأَ فَلَهُ أَجْرٌ»، قَالَ: فَحَدَّثْتُ بِهَذَا الحَدِيثِ أَبَا بَكْرِ بْنَ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، فَقَالَ: هَكَذَا حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَقَالَ عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ المُطَّلِبِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ.
ہم سے عبد اللہ بن یزید مقری مکی نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے حیوہ بن شریح نے بیان کیا ‘ انہوں نے مجھ سے یزید بن عبد اللہ بن الہاد نے بیان کیا ‘ ان سے محمد بن ابراہیم بن الحارث نے ‘ ان سے بسر بن سعید نے ‘ ان سے عمر بن العاص کے مولیٰ ابو قیس نے ‘ ان سے عمر بن العاص رضی اللہ عنہ نے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا ‘ آپ نے فرمایا کہ جب حاکم کوئی فیصلہ اپنے اجتہاد سے کرے اور فیصلہ صحیح ہوتو اسے دہرا ثواب ملتا ہے اور جب کسی فیصلہ میں اجتہاد کرے اور غلطی کر جائے تو اسے اکہرا ثواب ملتا ہے ( اجتہاد کا ) بیان کیا کہ پھر میں نے یہ حدیث ابو بکر بن عمر وبن حزم سے بیان کی تو انہوں نے بیاا کیا کہ مجھ سے ابو سلمہ بن عبد الرحمن نے اسی طرح بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ عنہ نے بیان کیا ۔ اور عبد العزیز بن المطلب نے بیان کیا ‘ ان سے عبد اللہ بن ابی ابکر نے بیان کیا ‘ ان سے ابو سلمہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح بیان فرمایا ۔
صحيح البخاري »» كِتَابُ الِاعْتِصَامِ بِالكِتَابِ وَالسُّنَّةِ »» بَابُ أَجْرِ الحَاكِمِ إِذَا اجْتَهَدَ فَأَصَابَ أَوْ أَخْطَأَ

حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي التَّمِيمِيُّ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُسَامَةَ بْنِ الْهَادِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْراهِيمَ ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي قَيْسٍ مَوْلَى عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِذَا حَكَمَ الْحَاكِمُ فَاجْتَهَدَ، ثُمَّ أَصَابَ فَلَهُ أَجْرَانِ، وَإِذَا حَكَمَ فَاجْتَهَدَ، ثُمَّ أَخْطَأَ فَلَهُ أَجْرٌ"، وحَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ كِلَاهُمَا، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ مُحَمَّدٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ، وَزَادَ فِي عَقِبِ الْحَدِيثِ، قَالَ يَزِيدُ: فَحَدَّثْتُ هَذَا الْحَدِيثَ أَبَا بَكْرِ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، فَقَالَ: هَكَذَا حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وحَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدَّارِمِيُّ، أَخْبَرَنَا مَرْوَانُ يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ الدِّمَشْقِيَّ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُسَامَةَ بْنِ الْهَادِ اللَّيْثِيُّ، بِهَذَا الْحَدِيثِ مِثْلَ رِوَايَةِ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ مُحَمَّدٍ بِالْإِسْنَادَيْنِ جَمِيعًا.

مجھے یحییٰ بن یحییٰ تمیمی نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں عبدالعزیز بن محمد نے یزید بن عبداللہ بن اسامہ بن ہاد سے خبر دی، انہوں نے محمد بن ابراہیم سے، انہوں نے بسر بن سعید سے، انہوں نے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے مولیٰ ابوقیس سے اور انہوں نے حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے فرمایا: "جب کوئی حاکم فیصلہ کرے اور اجتہاد (ھقیقت کو سمجھنے کی بھرپور کوشش) کرے، پھر وہ حق بجانب ہو تو اس کے لیے دو اجر ہیں اور جب وہ فیصلہ کرے اور اجتہاد کرے، پھر وہ (فیصلے میں) غلطی کر جائے تو اس کے لیے ایک اجر ہے۔
اسحاق بن ابراہیم اور محمد بن ابی عمر دونوں نے عبدالعزیز بن محمد سے اسی سند کے ساتھ اسی کے مانند حدیث بیان کی اور حدیث کے آخر میں اضافہ کیا: "یزید نے کہا: میں نے یہ حدیث ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم کو سنائی تو انہوں نے کہا: مجھے ابوسلمہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اسی طرح حدیث بیان کی تھی۔
لیث بن سعد نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: مجھے یزید بن عبداللہ بن اسامہ بن ہاد لیث نے (اپنی) دونوں سندوں سے یہی حدیث عبدالعزیز بن محمد کی روایت کے مانند بیان کی

صحيح مسلم »» كِتَابُ الْأَقْضِيَةِ »» بَابُ بَيَانِ أَجْرِ الْحَاكِمِ إِذَا اجْتَهَدَ فَأَصَابَ، أَوْ أَخْطَأَ

دیکھ لیں متفق علیہ حدیث ہے۔

وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا (سورة النساء 115)
اور جو رسول کا خلاف کرے بعد اس کے کہ حق راستہ اس پر کھل چکا اور مسلمانوں کی راہ سے جدا راہ چلے ہم اُسے اُس کے حال پر چھوڑ دیں گے اور اسے دوزخ میں داخل کریں گے اور کیا ہی بری جگہ پلٹنے کی۔ (ترجمہ احمد رضا خان بریلوی)


شیخ کفایت اللہ سنابلی کے تحریر کو آپ کا قیاسی گھوڑے قرار دینا آپ کی اپنی اٹکل کے گھوڑے ثابت ہوئے ہیں!

(جاری ہے)
اب اہل الحدیث کا مؤقف سمجھ لیں: اجتہاد میں کسی مجتہد کو خطا بھی ہو سکتی ہے

جناب کفایت اللہ سنابلی کے دفاع میں یہ بھی بھول گئے کہ یہاں بات ہو رہی ہے
“وسیلہ اور اسلاف امت کا طریقہ کار“
مگر جناب نے اسلاف کی باتوں کو اجتہادی خطا کہہ کے ہی بات ختم کرنی ہے تو یہاں پہ صاف لکھ دیں کہ آپ
کے نزدیک س حق وہی جو
آپ کے عقائد کے مطابق باقی سب خطا پہ تھے۔۔
بات ختم ہو جا تی۔۔
 
شمولیت
جنوری 13، 2017
پیغامات
51
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
63
اوپر کی عبارت میں یہی مفہوم ہے کہ توسل بجاہ مکروہ ہے امام طحاوی نے جو اس کی وضاحت کی ہے کے مخلوق کا کوئی حق نہیں ہے یہ جملہ امام ابو حنیفہ کی اس عبارت کہ الله کے سوا کس کے وسیلہ سے نہیں مانگا جائے بحق فلاں والے وسیلہ کا ہی رد ہے
اور اس کا مکروہ کیا بدعت ہونا میں شرح عقیدہ طحاویہ کے حوالے سے بیان کر آیا ہوں جس میں اپ کے امام عز ابن حنفی نے شرح عقیدہ طحاویہ میں نقل کیا ہے کہ صحابہ کرام میں سے کسی کا بھی اس طرح دعا مانگنا ثابت نہیں ہے اپ شاید صرف بحث برائے بحث کے عادی معلوم ہوتے ہے وگرنہ فقہ حنفی کی معتبر ترین کتاب کے حوالے کے بعد اس طرح کا رویہ صرف بحث برائے بحث کے حامل افراد کا معلوم ہوتا ہے . معذرت

شرح عقیدہ طحاویہ کا آپ کو تفصیل سے جواب مل جاتا ہے۔۔

مگر آپ باقی باتوں کو خود ایک بار پڑھ کر جواب لکھیں تو شاید بات مناسب رہے

باقی آپ جواب اور وضاحت بھی خود کر دیتے ہو۔۔


امام طحاوی نے جو اس کی وضاحت کی ہے کے مخلوق کا کوئی حق نہیں ہے یہ جملہ امام ابو حنیفہ کی اس عبارت کہ الله کے سوا کس کے وسیلہ سے نہیں مانگا جائے بحق فلاں والے وسیلہ کا ہی رد ہے


اس سے یہی پتہ چل رہا کہ آپ بغیر کچھ پڑھے اور سمجھے بات کر رہے ہیں۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
@محمد افضل رضوی بھائی! میرے جواب کو مکمل ہونے دیں! میں نے (جاری ہے) لکھا ہوا ہے!
آپ جواب مکمل ہونے پر جو نقد چاہیں کیجیئے گا!
 
Top