• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وقت کی قدر وقیمت اور نیا سال

شمولیت
اگست 28، 2019
پیغامات
49
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
35
بسم اللہ الرحمن الرحیم

وقت کی قدر وقیمت اور نیا سال



اک سال گیا اک سال نیا ہے آنے کو

پر وقت کا اب بھی ہوش نہیں دیوانے کو​



ابومعاویہ شارب بن شاکرالسفی

الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی رسولہ الکریم۔اما بعد:

برادران اسلام!

یوں تو اللہ تبار کوتعالی کی ہم پر بے شمار نعمتیں ہیں جنہیں اگر ہم تاعمر شمارکرنا بھی چاہیں تو شمار نہیں کرسکتےہیں جیسا کہ فرمان باری تعالی ہےکہ اےلوگو! ’’ وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا ‘‘ اگر تم اللہ کے احسانوں کو گننا چاہو تو انہیں پورے گن بھی نہیں سکتےہو۔(ابراھیم:34) اللہ کی انہیں ان گنت اور بے شمار نعمتوں میں سے ایک نعمت وقت بھی ہے جسے رب العزت نے اس کائنات میں سب کو یکساں طور پرعطا کیاہےنیک ہویا بد،نمازی ہو یا بے نمازی ،امیر ہو یاغریب،عالم ہو یاجاہل ،چالاک ہو یابیوقوف ، بچہ ہو یا جوان،مرد ہو یاعورت سب کو دن ورات میں یکساں طورپر 24 گھنٹے عطا کئے جاتے ہیں،ایسا نہیں ہے کہ جو نمازی ہے اسے24 گھنٹے اور جو بے نمازی اور فاسق وفاجر ہے اسے 20 گھنٹے ہی دئے جاتے ہیں،نہیں بالکل نہیں!رب العزت نے وقت جیسی عظیم نعمت کو اس دنیا میں سب کو یکساں طور پرعطا کرکے یہ پیغام دے دیا ہے کہ اے لوگو!آج تمہارے پاس وقت ہے،موقع ہے،زندگی ہے، اپنی آخرت کے لئے کچھ فکر کرلو کہیں ایسا نہ ہو کہ تم میں سے کوئی موت كے وقت یہ نہ کہنے لگے کہ اے الہ العالمین تو ہمیں ایک اور موقع دے دے تاکہ ہم نیک بن جائیں،انسان کے اسی آرزو اورامیدوں کا ذکر کرتے ہوئے قرآن کہہ رہا ہےکہ ’’ حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ،لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ كَلَّا إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا وَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ ‘‘ یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آنے لگتی ہے تو کہتا ہے اے میرے رب مجھے واپس لوٹا دے کہ میں اپنی چھوڑی ہوئی دنیا میں جاکر نیک اعمال کرلوں ،ہرگز ایسا نہیں ہوگا یہ تو صرف ایک قول ہے جس کا یہ قائل ہے،بلکہ ان کے پیچھے تو برزخ کی زندگی ہے جہاں وہ قیامت کے دن تک رہیں گے۔ (المومنون:99-100) اس آیت کی تفسیرمیں امام قتادہؒ کہتے ہیں کہ کافر کی اس آرزو میں ہمارے لئے بہت بڑا سبق ہے کہ کافر دنیا میں اپنے خاندان اور قبیلے کے پاس جانے کی آرزو نہیں کرے گا بلکہ عمل صالح کےلئے دنیا میں آنے کی آرزو کرےگا،اسی لئے میرے دوستو! زندگی کے لمحات کو غنیمت جانواور زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کرلو تاکہ اخروی زندگی میں اس طرح کی آرزو وامیدیں کرنے کی نوبت ہی نہ آئے،اللہ کا کتنا بڑا احسان وکرم ہے کہ اللہ نے ہم کو اور آپ کو اب تک زندہ رکھا ہے ورنہ ذرا یاد کیجئے کہ 2022 کے شروع میں جو ہمارے رشتے دار زندہ تھے اور ہمارے ساتھ تھے اب 2022 کے ختم ہوتے ہوتے وہ ہمارے ساتھ نہیں ہیں بلکہ وہ سب قبرستان میں مدفون ہوچکے ہیں انہیں اب نیک اعمال کا موقع تاقیامت نہیں ملے گا مگر ہم سب کو رب العزت نے ابھی بھی موقع دے رکھا ہے اسی لئے نیکیاں کرلواور اس بات پر خوشی نہ مناؤ کہ 2023 سال آگیاہے اورہم نے ایک اور سال کو پالیا ہے،یہ نہ سوچو کہ ہماری زندگی میں ایک سال کا اضافہ ہوگیا ہے بلکہ یہ سوچو کہ ہماری زندگی سے ایک سال اور کم ہوگئے،بڑے نادان ہیں وہ لوگ جونئے سال کی آمدپر جشن مناتے ہیں انہیں اس بات کی فکر نہیں ہے کہ جیسے جیسے وقت گذرتا جارہا ہے ویسے ویسے وہ اپنی موت وقبر کے اور زیادہ قریب ہوتے جارہے ہیں مگر وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں سچ فرمایا ہے رب ذوالجلال والاکرام نے کہ ’’ اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ مُعْرِضُونَ ‘‘ لوگوں کے حساب کا وقت قریب آگیا ہے پھر بھی وہ بے خبری میں منہ پھیرے ہوئے ہیں۔(الانبیاء:1)رب کے اس فرمان پر ذرا غور کیجئے کہ جس چیزکے گذرجانے پر ہم خوشیاں مناتے ہیں،جشن مناتے ہیں اور ایک دوسرے کو نئے سال کی مبارکبادی دیتے تھکتے نہیں ہیں اور خوشی سے پھولے نہیں سماتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری زندگی بڑھ گئی ہے اسی طرح سے اگرکسی کے جنم دن کا تاریخ آتا ہے تو وہ بھی اور اس کے گھروالے بھی پھولے نہیں سماتے ہیں اورخوشیاں مناتےہیں،چاکلیٹ بانٹتے ہیں ،اپنی اولادکونئے نئے کپڑے پہنواتےہیں ،گھروں میں بریانی اور پلاؤ پکاتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری عمر بڑھ گئی ہے،ہمارے بچے اور بچی کی عمر میں اضافہ ہوگیا ہے،رب اس بارے میں یہ اعلان کررہاہے کہ اے لوگوں!تم سال کے ختم ہونے پر جشن مناتے ہو،اپنے جنم دن پر بہت خوش ہوتے ہو اور یہ سمجھتے ہو کہ میری عمرمیں اضافہ ہوگیا ہےتو سن لوایک سال کے گذرجاتے ہی تم اپنی موت وقبر کے اور قریب ہوچکے ہو،تم جسے دورسمجھ رہے ہو وہ تو نزدیک سے نزدیک تر ہے بلکہ وہ تمہارے سرپرکھڑی ہے مگر تم غفلت میں ہوکسی شاعر نے کیا ہی خوب کہا ہے:

ایک اور اینٹ گرگئی دیوار حیات سے

نادان کہہ رہے ہیں نیا سال مبارک​

میرے دوستو!وقت بہت تیزی کے ساتھ گذرتاجارہاہے دن ،ہفتے،مہینے وسال کیسے گذرجاتے ہیں پتہ ہی نہیں چل رہا ہے اور وقت کا اس طرح تیزی سے گذرجانا یہ اس بات کے طرف اشارہ ہے کہ اب بس قیامت آنے والی ہے جیسا کہ حبیب کائناتﷺ نے اس بات کی خبر دیتے ہوئے فرمایا تھاکہ : ’’ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَتَقَارَبَ الزَّمَانُ فَتَكُونُ السَّنَةُ كَالشَّهْرِ وَالشَّهْرُ كَالْجُمُعَةِ وَتَكُونُ الْجُمُعَةُ كَالْيَوْمِ وَيَكُونُ الْيَوْمُ كَالسَّاعَةِ وَتَكُونُ السَّاعَةُ كَالضَّرَمَةِ بِالنَّارِ ‘‘ قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک کہ زمانہ قریب نہ ہوجائے، سال مہینے کی طرح،مہینہ جمعہ کی طرح،جمعہ ایک دن کی طرح،دن ایک گھنٹے کی طرح اور ایک گھنٹہ آگ سے داغ دینے کے وقت کے برابر ہوگا۔(ترمذی:2332 وصححہ الالبانیؒ)بے شک آج وقت اتنی تیزی کے ساتھ گذررہاہے کہ کب سال ومہینہ اور ہفتہ گذرجاتاہے پتہ ہی نہیں چلتاہے،بچے کب جوان ہوجاتے ہیں اور جوان کب بوڑھے ہوجاتے ہیں احساس ہی نہیں ہوتا ہے بس:

صبح ہوتی ہے ،شام ہوتی ہے

عمریوں ہی تمام ہوتی ہے​

برادران اسلام!

اس وقت کی ہمارے زندگی میں کتنی اہمیت ہے اگر آپ کو اس بات کا اندازہ لگانا ہو تو پھر قرآن مجید اٹھالیجئے اور دیکھئے کہ رب العالمین نے اپنے کلام پاک میں وقت کی کتنی جگہ قسم کھائی ہے،کہیں پر اللہ نے رات کی قسم کھائی تو کہیں پر دن کی قسم کھائی اور کہا کہ ’’ وَاللَّيْلِ إِذا يَغْشى،وَالنَّهارِ إِذا تَجَلَّى ‘‘ قسم ہے رات کی جب وہ چھا جائے اور قسم ہے دن کی جب وہ روشن ہوجائے۔(اللیل:1-2)کہیں پر رب العزت نے چاشت کے وقت کی قسم کھائی اور کہا کہ ’’ وَالضُّحَى ‘‘ قسم ہے چاشت کے وقت کی ۔(الضحی:1) کہیں پر رب العزت نے فجر کے وقت کی قسم کھائی اور کہا کہ ’’ وَالْفَجْرِ ‘‘ قسم ہے فجر کے وقت کی۔(الفجر:1)اور کہیں پر رب العزت نے صبح کے وقت کی قسم کھائی اور کہا کہ ’’ وَالصُّبْحِ إِذَا تَنَفَّسَ ‘‘ اور قسم ہے صبح کے وقت کی جب وہ چمکنے لگے۔(التکویر:18)اور کہیں پر رب العزت نے پورے زمانے کی قسم کھائی اورکہا ’’ وَالْعَصْرِ ‘‘ قسم ہے زمانے کی۔(الفجر:1)میرے دوستو! رب العزت نے اوقات کی قسم کھاکر ہمیں یہ متنبہ کردیا ہے کہ اے لوگویاد رکھنا یہ وقت بہت قیمتی چیز ہے،وقت رہتے کچھ کرلوکیونکہ

گیاوقت پھرہاتھ آتا نہیں اور مرا بیل گھاس کھاتا نہیں۔​

وقت کی اہمیت کا اندازہ آپ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ اسلام کی تمام عبادتیں نمازوروزہ،حج وزکاۃ،عید وبقرعید سب وقت کے ساتھ مربوط ہیں اور ان سب عبادتوں کو وقت پر ادا کرنا ہی مطلوب ومقصود ہےجیسے کہ نماز کے بارے میں رب العزت نے فرمایا ’’ إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَوْقُوتًا ‘‘ يقينا نماز مومنوں پر مقررہ وقتوں پر فرض ہے۔(النساء:103)گویا کہ وقت پر ادا کی گئی نماز ہی قابل قبول ہے اور بے وقت ادا کی گئی نماز مردود ونامقبول ہے یہی وجہ ہے رب العزت نے قرآن مجید کے اندر ایسے نمازیوں کو جہنم کی وعید سنائی ہے جو بے وقت نماز ادا کرتے رہتے ہیں فرمان باری تعالی ہے’’ فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ،الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ ‘‘ ان نمازيوں کے لئے افسوس اور ویل نامی جہنم کی جگہ ہے جو اپنی نماز سے غافل ہیں۔(الماعون:4-5)پتہ یہ چلا کہ جس طرح سے بے وقت نماز قابل قبول نہیں،جس طرح سےآپ بےوقت حج نہیں کرسکتے ،جس طرح سےآپ بے وقت افطار وسحرنہیں کرسکتے اسی طرح سے آپ وقت کی ناقدری کرکے نہ تو دنیامیں کامیاب ہوسکتے ہیں اور نہ ہی آخرت میں اس لئے ہر وہ انسان جو دنیا وآخرت میں کامیاب ہونےکا ارادہ رکھتا ہواس کو چاہئے کہ وہ وقت کی حفاظت کرے۔

برادران اسلام!

ایک انسان کی زندگی میں وقت کی کیا قدر قیمت ہےاور وقت کی کتنی اہمیت ہےاگرآپ اس کا اندازہ لگانا چاہتے ہیں تو پھر یاد کیجئے اپنے نبیٔ اکرم ومکرم ﷺ کے اس دعا کو جسے آپ بیت الخلاء سے نکلتے وقت پڑھا کرتے تھے،ہم اور آپ جانتے ہیں کہ جب آپﷺ قضائے حاجت سے فارغ ہوجاتے تو ’’ غُفْرَانَکَ ‘‘ کہتے تھے(ابوداؤد:30) یعنی کہ اے اللہ میں تیری مغفرت چاہتاہوں ،تو مجھے معاف کردے،کیاکبھی آپ نے سوچا کہ آخر آپﷺ قضائے حاجت پوری کرنے پر یہ دعا کیوں پڑھاکرتے تھے؟اب آپ یہ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ آخراس میں کون سی ایسی بات ہے جو وقت کی اہمیت بتاتی ہو؟ تو دیکھئے میرے دوستو!ہم اور آپ اس بات سے اچھی طرح سے واقف ہیں کہ قضائے حاجت کے دوران ایک انسان بات نہیں کرسکتاہےاورنہ ہی اپنی زبان سے ذکرواذکار کے کچھ کلمات بھی اداکرسکتا ہےایسی صورت میں اب زندگی کا جو بھی حصہ قضائے حاجت پوری کرنے میں گذرا وہ ذکرالٰہی سے خالی گذرا اوریہی وجہ ہے کہ آپﷺ قضائے حاجت سے فارغ ہونے کے بعد اللہ سے بخشش ومغفرت کی دعامانگتے ہوئے گویا یہ کہتے تھے کہ اے اللہ جتنی دیر میں نےقضائے حاجت کی اتنی دیر تک میں نے تیرا ذکر نہیں کیا اور میرے زندگی کا وہ وقت ولمحہ ایسے ہی برباد ہوگیااسی لئے اے میرے رب تو مجھے معاف کردے۔

میرے دوستو!ذرا اپنے دماغ پرزور دے کر سوچئے کہ جو انسان کی ضرورت ومجبوری ہےاور جس کوپورا کئے بغیر ایک انسان زندہ بھی نہیں رہ سکتا ہے اگر اس کا م میں گذارے ہوئے وقتوں اور لمحوں پر اللہ سے مغفرت وبخشش مانگنی چاہئے تو جو وقتوں اور لمحوں کو ہم نےموبائل میں، ٹی وی میں،کرکٹ دیکھنے میں ،فلم دیکھنے میں،یوٹوب دیکھنے میں،فیس بک وواٹساپ اور ٹوئٹر جیسےشوشل میڈیا کا غلط استعمال کرنے میں،ریلس وشارٹ ویڈیواور دوسروں کا اسٹیٹس دیکھنے میں، لوڈو ودیگر موبائل گیم کھیلنے میں، دوستوں اور یاروں کے ساتھ وقت بربادکرنے میں ،کھیل کوداورہنسی مذاق میں برباد کیا ہے اس کے لئے ہمیں کتنی مرتبہ مغفرت وبخشش مانگنی چاہئے، مذکورہ وضاحتوں سے آپ اس بات کا بخوبی اندازہ لگالئے ہوں گے کہ ہماری زندگی میں وقت کی کیا قدر وقیمت ہے اسی لئے اللہ کا واسطہ دے کر میں کہتا ہوں کہ اے لوگوں! اپنے اپنے وقتوں کو ضائع وبرباد نہ کرو کیونکہ کل بروز قیامت ایک انسان اپنی زندگی کے برباد کئے ہوئے وقتوں اور لمحوں کو یادکرکے کہے گاکہ ’’ يَقُولُ يَالَيْتَنِي قَدَّمْتُ لِحَيَاتِي ‘‘ کاش! میں نے اپنی اس زندگی کے لئے کچھ کیا ہوتا۔(الفجر:24) لہذا پتہ یہ چلا کہ ایک انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی عطا کی ہوئی اس چھوٹی زندگی کے اندر وقت سے فائدہ اٹھالیں اور اپنی ناختم ہونے والی زندگی کے لئے کچھ تیاری کرلیں تاکہ وہ وہاں پر عیش وآرام کی زندگی گذارسکے۔

میرے پیارے پیارے اسلامی بھائیو اور بہنو!

آپ یہ بات یاد رکھ لیں کہ وقت یا تو آپ کا بہترین دوست ہے یا پھر آپ کا بدترین دشمن ہے اب آپ کے ہاتھ میں ہے کہ آپ اس وقت کو اپنا دوست بناتے ہیں یا پھر اپنا دشمن،امام ابن قیمؒ نے اس وقت کے بارے میں کیا ہی خوب کہا ہے کہ سال ایک درخت کے مانند ہےاور مہینے اس درخت کی شاخیں ہیں،دن اس درخت کی ڈالیاں اور گھنٹے اس کے پتے اور لمحات اس کے پھل ہیں ،اب اس دنیا میں جس انسان کے لمحات اللہ کی اطاعت وبندگی میں گذریں گےتو اس کے درخت کا پھل میٹھا ہوگا اور جس انسان کے زندگی کے لمحات اللہ کی نافرمانی میں گذریں گے تو اس کے درخت کا پھل کڑوا اور کسیلا ہوگا اور اس پھل کے کاٹنے اور توڑنے کا دن قیامت کا دن ہوگا اور پھر اس دن سب کو پتہ چل جائے گا کس کا پھل میٹھا ہے اور کس کا کڑاوکسیلا ہے۔(الفوائد لابن القیمؒ:1/164)اسی لئے آج وقت کی قدرکرلوکسی عقلمند نے کیا ہی خوب کہا ہے کہ:وقت کی قدر کرو اس لئے کہ گذرا ہوا وقت لحد میں پڑے ہوئے ایک مردے کی طرح ہے جسے رونے دھونے سے کبھی بھی زندہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔(تحفۂ وقت:55)

میرے دوستو !

وقت ایک ایسی قیمتی چیز ہے کہ آپ دنیا کی ہرچیز روپئے پیسے دے کر خرید سکتے ہیں مگر وقت نہیں اسی لئے یہ بات کہی جاتی ہے کہ ” اَلْوَقْتُ اَثْمَنُ مِنَ الذَّھَبِ “ وقت سونے وچاندی اور تمام ہیرے وجواہرات سے زیادہ قیمتی ہے کیونکہ اس کی ایک ایک گھڑی ،ہرسکنڈ اور ہرمنٹ اتنا قیمتی ہے کہ ساری دنیا کی دولت بھی اس کی قیمت ادا نہیں کرسکتی ہے،یہ وقت اتنا قیمتی ہےمگر افسوس کہ ہم سب اپنی زندگی کے قیمتی اوقات کو ضائع وبرباد کرنے میں لگے ہوئے ہیں ،دن پر دن ،مہینہ پر مہینہ اورسال پر سال گذرتا جارہاہےمگر ہم غفلت ولاپرواہی کے شکار ہیں،ابن انشا نے کیا ہی خوب کہا ہے:

اک سال گیا اک سال نیا ہے آنے کو

پر وقت کا اب بھی ہوش نہیں دیوانے کو​

بہت سارے لوگوں کو دیکھا جاتا ہےکہ جب انہیں نماز ودیگر عبادات کے لئے تلقین کی جاتی ہے تو یہ جواب دیتے نظرآتے ہیں کہ کیاکرے وقت ہی نہیں ملتا ہے حضرت،افسوس صد افسوس ہمارے پاس ہرچیز کو انجام دینے کے لئے وقت ہے اوراگر وقت نہیں ہے تو نماز وعبادات کے لئے نہیں ہے!کتنے ایسے لوگ ہیں جو اپنے وقت کو اپنے موبائل کے ذریعے برباد کررہے ہیں،صبح وشام،رات ودن اپنے موبائل میں گھسے رہتے ہیں تب انہیں وقت ملتا ہے،ہم اور آپ گھنٹوں اپنے موبائل میں یوٹوب،فیس بک ،واٹساپ،انسٹا گرام وغیرہ شوشل نیٹ ورک پر بیہودہ ویڈیو اور ریلس وغیرہ دیکھتے ہیں ،موبائل میں لوڈو گیم ،کینڈی کریش گیم وغیرہ کھیلتے ہوئے اپنی زندگی کے قیمتی لمحوں کو بربادکرتے ہیں اسی طرح سے کرکٹ ودیگر ٹی وی پروگرام کو دیکھتے ہوئے گھنٹوں ہم ٹی وی کے سامنے بیٹھے رہتے ہیں تب ہمارے پاس وقت ہوتاہےاور اگر وقت نہیں ہوتا ہے تو صرف نماز ودیگر عبادات کے لئے وقت نہیں ہوتا ہے اورہم یہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس وقت نہیں ہے ،کیا ہی خوب کہا ہے امام ابن قیم الجوزیؒ نے کہ ’’ إِضَاعَة الْوَقْت أَشد من الْمَوْت لِأَن إِضَاعَة الْوَقْت تقطعك عَن الله وَالدَّار الْآخِرَة وَالْمَوْت يقطعك عَن الدُّنْيَا وَأَهْلهَا الدُّنْيَا ‘‘ وقت کو ضائع وبرباد کرنا یہ موت سے زیادہ خطرناک ہے کیونکہ وقت کی بربادی سے ایک انسان اللہ اور یوم آخرت سے غافل ہوجاتاہے اور موت تو ایک انسان کو صرف دنیا اور اہل دنیا سے جداکرتی ہے۔( الفوائد لابن القیم:1/31) اسی وقت کےبارے میں امام شافعیؒ کہتے ہیں کہ میں صوفیا کے ساتھ رہاہوں اور ان کی دو ہی باتوں سے فائدہ اٹھایا ہے میں نے ان کو کہتے ہوئے سنا کہ وقت تلوار کے مانند ہےیا تو تم اس ےکاٹ دو یا وہ تجھے کاٹ دے گی اور اپنے نفس کو حق میں مشغول رکھو ورنہ وہ تجھے باطل میں مشغول کردے گا۔(تحفۂ وقت:47)یقینا وقت کی بربادی ایک انسان کی مکمل ہلاکت وبربادی کی علامت ہے، بعض سلف صالحین نے کیا ہی خوب کہا ہے کہ’’ مِنْ عَلَامَۃِ الْمَقْتِ اِضَاعَۃُ الْوَقْتِ ‘‘وقتوں کو ضائع وبرباد کرنا اللہ کی ناراضگی کی علامت وپہچان ہے۔(زندگی اور وقت:ص:106)اور یہی وجہ ہے کہ اسلاف کرام وقت کو ضائع وبرباد کرنے سےلوگوں کو باربارمتنبہ کیا کرتے تھے اور خود اپنے آپ کو بھی ہر اس کام سے دوررکھتے تھے جس سے ان کا وقت ضائع وبرباد ہوتا ہو ،مثال کے طور پرآٹھویں صدی کے مشہورمحدث امام شمس الدین اصبہانیؒ کے بارے میں حافظ ابن حجر ؒ اپنی کتاب الدرر الکامنۃ میں لکھتے ہیں کہ امام اصبہانیؒ اس ڈرسےکھانا بہت کم کھایا کرتے تھے کہ زیادہ کھانے سے پیشاب وپاخانے کی زیادہ ضرورت پڑے گی اور اس طرح سے باربار جانے سے وقت بہت ضائع ہوگا۔(الدرر الکامنۃ:4/328)اسے کہتے ہیں وقت کی قدروقیمت کو جاننا اور سمجھنا۔

میرے دوستو!آپ وقت کا جتنا صحیح استعمال کریں گے اتنا ہی وقت میں آپ کے لئے برکت رکھ دی جائے گی اور جتنازیادہ آپ وقت کو برباد کریں گے اتنا ہی آپ سے خیروبرکت کو چھین لی جائے گی،محمداسماعیل میرٹھی نے کیا ہی خوب کہا ہے:

وقت میں تنگی فراخی دونوں ہیں جیسے ربڑ

کھینچنے سے بڑھتی ہے اور چھوڑنے سے جاتی ہے سکڑ​

اسی لئے وقت کی قلت کی شکایت نہ کیاکریں اور یہ نہ کہا کریں کہ ہمارے پاس وقت نہیں ہےبلکہ یہ سوچو کہ ہم کتنے بدنصیب اور کتنے نکمے اور گئے گذرے ہوچکےہیں کہ رب نے ہمیں اپنے آگے جھکنے اور مسجد میں آنےکی توفیق ہی چھین لی ،اس بارے میں امام حسن بصریؒ نےکیا ہی خوب کہا کہ ’’ مِنْ عَلَامَۃِ إعْرَا ضِ اللہِ عَنِ الْعَبْدِ أَنْ یَجْعَلَ شُغْلَہُ فِیْمَا لَا یَعْنِیْہِ خُذْلَاناً مِنَ اللہِ ‘‘ اللہ کا اپنے بندے سے اعراض کرنے کی نشانی وعلامت میں سے ایک علامت یہ بھی ہے کہ بندے کو رسوا وذلیل کرنے کےلئے اسے بیکار کے کاموں میں مصروف کردے۔( جامع الحکوم والحکم،ص:139 بحوالہ:زندگی اور وقت،ص:19)

یادرکھ لو!آج جو لوگ وقت کا بہانہ بنا کر نماز وعبادات کی پابندی نہیں کرتے ہیں کل ایسے ہی لوگ یہ آرزو اور یہ تمنا کریں گے اور کہیں گے کہ اے ہمارے رب تو ہمیں ایک اور موقع دے دے تاکہ ہم نیک بن جائیں،رب نے کیا ہی پیارا نقشہ کھینچ کرکہا کہ اے لوگو! آج تمہارے پاس موقع ہے اپنے رب کی عبادت وبندگی کرنے کا،آج تمہارے پاس وقت ہے قرآن کے مطابق زندگی گذارنے کاکہیں ایسا نہ ہو کہ عذاب کو دیکھنے کے بعد تم میں سے کوئی یہ کہنے لگے’’ أَنْ تَقُولَ نَفْسٌ يَاحَسْرَتَا عَلَى مَا فَرَّطْتُ فِي جَنْبِ اللَّهِ وَإِنْ كُنْتُ لَمِنَ السَّاخِرِينَ ‘‘ ہائے افسوس!( مجھ سے بہت بڑی غلطی ہوگئی )میں نے تو اللہ تعالی کے حق میں بہت کوتاہیاں کی ہیں بلکہ میں تو مذاق اڑانے والوں میں ہی رہا ’’ أَوْ تَقُولَ لَوْ أَنَّ اللَّهَ هَدَانِي لَكُنْتُ مِنَ الْمُتَّقِينَ ‘‘ یا یہ کہنے لگے کہ اگر اللہ مجھے ہدایت دیتا تو میں بھی نیک لوگوں میں سے ہوتا ’’ أَوْ تَقُولَ حِينَ تَرَى الْعَذَابَ لَوْ أَنَّ لِي كَرَّةً فَأَكُونَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ ‘‘ یا عذاب کو دیکھ کر کہنے لگے کہ کاش! کہ کسی طرح میرا دنیا میں لوٹ جانا ہوتا تو میں بھی نیک لوگوں میں سے ہوجاتا۔(الزمر:54-58)

برادران اسلام!

قرآن کے مطالعے سے ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ایک انسان کے سامنے میں دولمحے اور دو پَل ایسے آتے ہیں جب ایک انسان کو وقت کی قدر وقیمت کا اندازہ ہوتا ہے اور تب وہ اس وقت پچھتائے گا ،روئے گا اور چلائے گا اور افسوس کرے گا مگر تب تک بہت دیر ہوچکی ہوگی،اس وقت انسان کے رونے دھونے اور چلانے سے کچھ فائدہ نہ ہوگا،پہلا وہ لمحہ جب ایک انسان کے پاس اس کی روح کو لے جانےموت کا فرشتہ ملک الموت آئے گاتو اس وقت ایک انسان کیا آرزو اور کیا تمنا کرے گا ذرا قرآن کا اعلان سن لے ’’ وَأَنْفِقُوا مِنْ مَا رَزَقْنَاكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ فَيَقُولَ رَبِّ لَوْلَا أَخَّرْتَنِي إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ فَأَصَّدَّقَ وَأَكُنْ مِنَ الصَّالِحِينَ ‘‘ اور جو کچھ ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے اللہ کی راہ میں اس سے پہلے پہلے خرچ کر لو کہ تم میں سے کسی کو موت آ جائے تو کہنے لگے کہ اے میرے پروردگار! تو مجھے بس تھوڑی دیر کے لئے مہلت دے دے تاکہ میں صدقہ کرلوں او رنیک لوگوں میں سے ہوجاؤں۔ (المنافقون:10)اور دوسرا وہ لمحہ ہوگا جب ایک انسان اپنے کرتوتوں کی وجہ سے جہنم کے حوالے کردیاجائے گا تو وہاں پر ایک انسان کو وقت کی قدروقیمت کا اندازہ ہوگاپھر وہاں پر چیخے گا ،چلائے گا اور روئے گا ،قرآن گواہی دے رہا ہے ’’ وَهُمْ يَصْطَرِخُونَ فِيهَا رَبَّنَا أَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَيْرَ الَّذِي كُنَّا نَعْمَلُ ‘‘ اور وہ لوگ جہنم میں چلائیں گے اور کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار !ہم کو اس جہنم کی عذاب سے نکال دے اب ہم سارے برے کام چھوڑکرصرف اور صرف اچھے اچھے اور نیک کام ہی کریں گے،اللہ کہے گا کہ اے انسان بھلا یہ بتلا ’’ أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ مَا يَتَذَكَّرُ فِيهِ مَنْ تَذَكَّرَ وَجَاءَكُمُ النَّذِيرُ فَذُوقُوا فَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ نَصِيرٍ ‘‘ کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہ دی تھی کہ جس کو سمجھنا ہوتا وہ سمجھ سکتا تھا اور تمہارے پاس ڈرانے والا بھی پہنچاتھا اسی لئے اب عذاب کا مزہ چکھو ایسے ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔(فاطر:37)دیکھا اور سنا آ پ نے کہ انسان وہاں پر ہربہانہ بھول جائے گا،اللہ کی پناہ! کیابتاؤں لوگ کیسے کیسے بہانے بازیاں کرتے ہیں کوئی کہتا ہے کہ میرے پاس وقت نہیں ہے، کوئی کہتا ہے کہ میرا گھرمسجد سے بہت دور ہے،کوئی کہتا ہے کہ میں دوکان میں اکیلا ہوں،کوئی کہتا ہے کہ مجھے نماز پڑھنے نہیں آتی ہے،کوئی کہتا ہے کہ مجھے نماز کی دعائیں یاد نہیں ہے،کوئی کہتا ہے کہ ابھی میری عمر ہی کیا ہے نماز پڑھنے کی،ابھی میں جوان ہوں بڑھاپے میں پڑھوں گاالغرض لوگوں کے پاس ہزاروں حیلےو بہانے ہیں مگر یاد رکھ لیں یہ سب حیلے وبہانے رب کے پاس چلنے والے نہیں ہے،جیسا کہ محبوب خداﷺ نے فرمایا ’’ أَعْذَرَ اللَّهُ إِلَى امْرِئٍ أَخَّرَ أَجَلَهُ حَتَّى بَلَّغَهُ سِتِّينَ سَنَةً ‘‘ یعنی کہ اس آدمی کا کوئی عذر اوربہانہ نہیں چلے گا جس کی عمر ساٹھ سال ہوگئی ہو(بخاری:6419)

میرے دوستو! 2022 کے گذرتے ہی اب ہم میں سے بہت سارے ایسے لوگ ہوجائیں گے جن کی عمر چالیس سال ہوجائے گی یا پھر چالیس سال سے زیادہ ہوجائے گی تو سن لیجئے جس انسان کی بھی چالیس سال عمر ہوجائے تووہ انسان نیکیوں کو زیادہ انجام دے اور برائیوں سے باز آجائے کیونکہ چالیس سال کی عمر کے بعد ایک انسان کی حالت ٹھیک ویسے ہی ہوجاتی ہے جیسے کہ کوئی عورت نوماہ کی حاملہ ہواور وہ بچہ اب جنے اورتب جنے کی حالت میں ہواسی لئے قرآن مجید کے اندر رب العزت نے خاص طور سے چالیس سال کے ہوجانے پر یہ تعلیم دی کہ جس انسان کی عمر چالیس سال ہوجائے وہ انسان یہ دعا بکثرت کرے’’ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلى والِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صالِحاً تَرْضاهُ وَأَصْلِحْ لِي فِي ذُرِّيَّتِي إِنِّي تُبْتُ إِلَيْكَ وَإِنِّي مِنَ الْمُسْلِمِينَ ‘‘ کہ اے میرے پروردگار!تو مجھے اس بات کی توفیق دی کہ میں تیری اس نعمت پر شکر بجالاؤں جو تونے مجھ پر اور میرے والدین پر انعام کی ہےاور یہ کہ میں ایسے نیک عمل کروں جن سے تو خوش ہوجائے اور تومیری اولاد کو بھی نیک بنا،میں تیری طرف رجوع کرتاہوں اور میں مسلمانوں میں سے ہوں۔(الاحقاف:15)

اسی لئے میرے دوستو !آج سے ہیہرطرح کے حیلے وبہانےکو چھوڑدو اور نیک اعمال کے لئے کمر کس لو کیونکہ وہاں تو ہرانسان وہی کاٹے گا جو آج بوئے گا،یہ زندگی اللہ نےہم کو اور آپ کو جوعطا کی ہے وہ صرف اور صرف اس لئے تاکہ ہم اپنی آخرت کے لئے تیاری کرلیں،ہماری زندگی کے ہرلمحے کا ہم سے سوال کیا جائے گا2022 کے جانے اور 2023 کے آنے پر خوشی اورجشن نہ مناؤ ، بلکہ یہ سوچو کہ2022 کے 365 دنوں اور راتوں کےایک ایک پل اور ایک ایک لمحےکاہم سے حساب لیا جائے گا ’’ فَوَ رَبِّكَ لَنَسْئَلَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ،عَمَّا كانُوا يَعْمَلُونَ ‘‘ قسم ہے تیرے پروردگارکی!ہم ان سب سے ضرور سوال کریں گے ہراس چیز کی جووہ کیا کرتے تھے۔(الحجر:92-93)ہماری زندگی کےایک ایک لمحوں میں کی گئی ہماری کرتوتوں کو حاضر کیا جائےگا،فرمان باری تعالی ہے’’ يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ مَا عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَرًا وَمَا عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ تَوَدُّ لَوْ أَنَّ بَيْنَهَا وَبَيْنَهُ أَمَدًا بَعِيدًا وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ وَاللَّهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ ‘‘ جس دن هرشخص اپنی کی ہوئی نیکیوں کو اوراپنی کی ہوئی برائیوں کو موجود پالے گااور پھر یہ آرزو کرے گا کہ کاش!اس کے اور برائیوں کے درمیان بہت دوری ہوتی،اللہ تعالی تمہیں اپنی ذات سے ڈرا رہاہے اور اللہ تعالی اپنے بندوں پر بڑاہی مہربان ہے۔(آل عمران:30)دیکھا اورسنا آپ نے کہ کس طرح سے ایک انسان یہ آرزو اور یہ تمنا کرے گا کہ کاش اس کی برائیوں کو اس سے دورکردیا جائےاسی لئے اب بھی وقت ہے اپنی آخرت کے لئے کچھ نیکیاں جمع کرلوکیونکہ عنقریب وہ دن آنے والا ہے جب ہم سب اپنے رب کے حضوراس طرح سے پیش کئے جائیں گے کہ ہمارے دائیں اور بائیں طرف ہمارے اعمال وکرتوت ہوں گے اورسامنے جہنم کی آگ ہوگی جیسا کہ حبیب کائنات محبوب خداﷺ نے فرمایا ’’ مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا سَيُكَلِّمُهُ رَبُّهُ لَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ تُرْجُمَانٌ وَلاَ حِجَابٌ يَحْجُبُهُ ‘‘ کہ تم میں سے ہرایک سے اللہ اس طرح سے بات کرے گا کہ بیچ میں کوئی ترجمان نہ ہوگا اور نہ ہی کوئی پردہ وحجاب ہوگا جو اسے چھپا دے اور پھر’’فَيَنْظُرُ مِنْ عَنْ أَيْمَنَ مِنْهُ فَلَا يَرَى إِلَّا شَيْئًا قَدَّمَهُ، ثُمَّ يَنْظُرُ مِنْ عَنْ أَيْسَرَ مِنْهُ فَلَا يَرَى إِلَّا شَيْئًا قَدَّمَهُ ‘‘ جب وہ انسان اپنی دائیں اور بائیں جانب نظر دوڑائے گا تو اسے اپنے آگے بھیجے ہوئے اچھے اور برے اعمال ہی نظر آئیں گے اور ساتھ میں ہولناک منظر تو یہ بھی ہوگا کہ ’’ ثُمَّ يَنْظُرُ أَمَامَهُ فَتَسْتَقْبِلُهُ النَّارُ ‘ ‘ انسان دیکھے گا کہ جہنم کی آگ اس کا استقبال کرنے تیار ہے اسی لئے اے لوگوں سن لو!’’ فَمَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ أَنْ يَتَّقِيَ النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ فَلْيَفْعَلْ ‘ ‘ تم میں سےجو کوئی بھی جہنم کی آگ سے بچنے کا سامان تیار کرسکتا ہے وہ آج ہی کرلے خواہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی صدقہ کرکے کیوں نہ ہو۔ (بخاری:7443،مسلم:1016،ابن ماجہ:185،ترمذی:2415)

برادران اسلام!

ذرا سوچو !اس وقت ہماری کیا حالت ہوگی جب ہمارے آنکھوں کے سامنے میں جہنم کی آگ منہ کھولے کھڑی ہوگی اور ہمارے دائیں وبائیں ہمارے کرتوت ہوں گے اور پھرہم سےہمارا رب یہ پوچھےگا کہ اے انسان بتا تو نے اپنی زندگی میں کیا کیا؟میں نے تجھے اتنی اوراتنی عمر دی تھی بتا تونے کیا کیا؟میں نے تجھے جوانی دی تھی بتاتونے کیاکیا؟اس حالت کی خبردیتے ہوئے حبیب کائناتﷺ نے بیان کیا کہ اے لوگوں سن لو! ’’ لاَ تَزُولُ قَدَمُ ابْنِ آدَمَ يَوْمَ القِيَامَةِ مِنْ عِنْدِ رَبِّهِ حَتَّى يُسْأَلَ عَنْ خَمْسٍ ‘‘ قیامت کے دن جب کوئی انسان رب کے حضورکھڑا ہوگا تو اس کے قدم رب العالمین کےپاس سے اس وقت تک اٹھ نہیں سکیں گے جب تک کہ وہ پانچ سوالوں کا جواب نہ دے دے!سب سے پہلا سوال کیا جائے گا کہ اے انسان ذرا یہ تو بتا کہ ’’ عَنْ عُمُرِهِ فِيمَ أَفْنَاهُ ‘‘ تو نے اپنی عمر کو کس کام میں ختم کیا؟پھر دوسرا سوال ہوگا کہ اے انسان یہ بھی تو بتاؤ کہ ’’ وَعَنْ شَبَابِهِ فِيمَ أَبْلَاهُ ‘‘ تونے اپنی جوانی کو کس کام میں خراب کیا؟پھر تیسرا سوال ہرانسان سے ہوگا ’’ وَمَالِهِ مِنْ أَيْنَ اكْتَسَبَهُ ‘‘ کہ اے انسان یہ بھی تو بتاکہ تونے دنیا میں مال کہاں سے کمایا؟اور پھر لگے ہاتھوں یہ بھی چوتھا سوال ہوگا کہ اے انسان ذرا یہ توبتا کہ تو نے جو مال کمائے تھے’’ وَفِيمَ أَنْفَقَهُ ‘‘ اس کو کہاں کہاں خرچ کئے ؟اور پھر پانچواں اور آخری سوال ہر انسان سے یہ کیا جائے گا کہ اے انسان یہ بتاؤ ’’ وَمَاذَا عَمِلَ فِيمَا عَلِمَ ‘‘ تم نے کتنا علم حاصل کیا تھا اور اس پر کتنا عمل کیا؟(ترمذی:2416وحسنہ الالبانیؒ)میرے دوستو!ذرا سوچئے کہ کیا ہمارے پاس ان سوالوں کے جوابات ہیں؟کتنی افسوس کی بات ہے قیامت کے دن کے سوالات بھی آؤٹ کردئے گئے ہیں اور جوابات بھی حل کرکے دےدئے گئے ہیں مگر پھر بھی ہم سب اس امتحان کے لئے تیاری نہیں کرتے ہیں اوریہ کہتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ جو ہوگا دیکھا جائے گا ،جیسا سب کے ساتھ ہوگا ویسا میرے ساتھ بھی ہوگا! بھلابتلائیے کہ ہم سے بڑا نادان و بیوقوف اور کون ہوسکتا ہے کہ ہمیں سب کچھ معلوم ہیں مگر پھر بھی ہم غفلت میں پڑے ہوئے ہیں،لمحہ لمحہ اور دن بدن برف کی مانند ہماری زندگی ختم ہورہی ہے اور ہم بس یہی کہتے رہتے ہیں کہ بس یہ جمعہ سے میں نمازی بن جاؤں گا،اب رمضان آنے میں کچھ ہی مہینہ ہے بس اس رمضان سے میں اللہ والا بن جاؤں گا وغیرہ وغیرہ ۔

میرے پیارےپیارے اسلامی بھائیو!

ہرطرح کے حیلے وبہانے چھوڑ دو اور نیک کاموں میں لگ جاؤ ،اپنی زندگی اور صحت وتندرستی کو غنیمت جانوکیونکہ آج ہمارے پاس صحت وتندرستی ہے کیا پتہ کل ہونہ ہو،آج ہمارے پاس زندگی ہے کیا پتہ کل ہماری زندگی کا آخری دن ہو،کیا آپ نے اللہ کا یہ فرمان نہیں سنا کہ ’’ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا ‘‘ كوئی شخص یہ نہیں جانتا ہے کہ وہ کل کیا کرے گا۔(لقمان:34)اسی لئے اپنی زندگی اور صحت وتندرستی کو غنیمت جانواور اپنی آخرت کے لئے کچھ نیکیاں جمع کرلوانہیں باتوں کی نصیحت کرتے ہوئے حبیب کائناتﷺ نے ایک آدمی سے فرمایا کہ ’’ اِغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ ‘‘ اے انسان!پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت سمجھو اور جانو،نمبر ایک ’’ شَبَابَكَ قَبْلَ هَرَمِكَ ‘‘ اپنی جوانی کو اپنے بڑھاپے سے پہلے غنیمت جانو،نمبر دو’’وَصِحَّتَكَ قَبْلَ سَقَمِكَ ‘‘ اور اپنی صحت وتندرستی کو بیماری سے پہلے غنیمت جانو،نمبرتین ’’ وَغِنَاكَ قَبْلَ فَقْرِكَ ‘‘ اور اپنی مالداری کو اپنی غربت سے پہلے غنیمت جانو، نمبر چار’’ وَفَرَاغَكَ قَبْلَ شُغْلِكَ ‘‘ اور اپنی فرصت اور فری ٹائم کو اپنی مشغولیت ومصروفیت یعنی بزی ہوجانے سے پہلے پہلے غنیمت جانو ،نمبر پانچ ’’ وَحَيَاتَكَ قَبْلَ مَوْتِكَ ‘‘ اور اپنی زندگی کو موت آنے سے پہلے غنیمت جانو۔ (صحیح الجامع للألبانیؒ:1077،صحیح الترغیب والترھیب للألبانیؒ:3355)

سنا میرے دوستو!آپ نے کہ کس طرح سےہمارے نبیﷺ ہمیں اس بات کی تلقین کررہے ہیں کہ نیکیاں جمع کرلوابھی تمہارے پاس وقت ہے،زندگی ہے،صحت ہےاور فرصت ہے کیا پتہ کل تمہارے پاس یہ ساری چیزیں نہ ہوں ،آج ہمارے پاس یہ ساری نعمتیں ہیں مگر ہمیں اس کی قدر نہیں ہےاور نہ ہی ہمیں اس کی اہمیت کااندازہ ہے کیا ہی خوب اور سچ فرمایاہے مدینے والے نےکہ ’’ نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فِيهِمَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ: الصِّحَّةُ وَالفَرَاغُ ‘‘ دو نعمتیں ایسی ہیں جن کو پاکرکے بھی بہت سارے لوگ فائدہ نہیں اٹھاتے ہیں بلکہ انہیں ضائع وبرباد کرکے گھاٹے میں رہتے ہیں ایک ہے صحت وتندرستی اور دوسری ہے فرصت کے اوقات۔(بخاری:6412)بالکل سچ فرمایا ہے ہمارے اور آپ کے نبیﷺ نے کہ ہم اور آپ بھی ایسا ہی کرتے ہیں جب ہمارے پاس صحت وتندرستی ہوتی ہے تب ہم نماز وعبادات سے دوررہتے ہیں اور جب بیماری آجاتی ہے تب ہم نماز وغیرہ پڑھنا چاہتے ہیں،جب ہمارے پاس فرصت کے اوقات ہوتے ہے تب ہم انجوائے کرتے ہیں اور جب مصروف ہوجاتے ہیں تب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس وقت ہی نہیں ہے،اے لوگو!اللہ کے واسطے ایسا نہ کیا کرو،بڑھاپے کا انتظار نہ کیا کرو،ریٹائرمینٹ کا انتظار نہ کیا کرواور نیکیوں کے معاملے میں یہ نہ کہا کرو کہ جو ہوگا دیکھا جائے گا بلکہ ابھی سے اللہ کی عبادت وبندگی میں لگ جاؤ اور یہ فرمان مصطفیﷺ یاد رکھوکہ’’ تَعَرَّفْ إِلَيْهِ فِي الرَّخَاءِ يَعْرِفْكَ فِي الشِّدَّةِ ‘‘ اگر تم خوشحالی میں اللہ کو یاد رکھوگے تو بدحالی میں اللہ تمہیں یاد رکھے گا ،صحتمندی میں اگر تم اللہ کو یادرکھوگے تو بیماری کے دنوں میں اللہ تمہیں یاد رکھے گا۔(مسنداحمد:2803) اور ہاں یہ بھی یاد رکھو کہ جو انسان یہ چاہتا ہے کہ اس کی پریشانی کے وقت میں اللہ اس کی مدد کرے ،بدحالی اور غم وفکر کے وقت میں اللہ اس کا حامی وناصر ہو تو وہ انسان اپنی خوشی کے دنوں میں اللہ کو نہ بھولے جیسا کہ فرمان مصطفیﷺ ہے ’’ مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَسْتَجِيبَ اللَّهُ لَهُ عِنْدَ الشَّدَائِدِ وَالكَرْبِ فَلْيُكْثِرِ الدُّعَاءَ فِي الرَّخَاءِ ‘‘ کہ جس انسان کی یہ خواہش ہو کہ پریشانی اور سختی کے دنوں میں اللہ اس کی مدد کرے اور اس کی دعاؤں قبول کرلے تو اس انسان کو چاہئے کہ وہ خوشحالی کے دنوں میں اللہ سے قریب رہ کر زیادہ دعائیں کیا کرے۔(ترمذی:3382 وحسنہ الالبانیؒ)

میرے پیارے پیارے اسلامی بھائیو!

غافل تجھے گھڑیا ل یہ دیتاہے منادی

گردوں نے گھڑی عمر کی ایک اور گھٹادی​

یادرکھ لو!آج اس دنیاوی زندگی میں جو ہم بوئیں گے کل بروزقیامت وہی کاٹیں گےاگر ہم نے وقت رہتے اپنے لئے کچھ نیکیاں جمع نہ کی اور اسی طرح سے موج ومستی اور من مانی زندگی گذارتے رہے تو کل ہم سے یہ کہا جائےگا کہ دنیا میں تو تم نے بہت مزے کرلئے اور اب ’’ فَذُوقُوا بِمَا نَسِيتُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ هَذَا إِنَّا نَسِينَاكُمْ وَذُوقُوا عَذَابَ الْخُلْدِ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ ‘‘ تم اپنے اس دن کے ملاقات کو بھلادئے جانے کا مزہ چکھو،جس طرح سے تم نے مجھے دنیا میں بھلادیا تھا اسی طرح سے آج ہم تمہیں بھلادیں گےاور اپنے کئے ہوئے اعمال کی وجہ سے ہمیشگی کے عذاب کا مزہ چکھتے رہو۔(السجدہ:14)اسی کے برعکس اگرآج ہم نےاس دنیا میں اللہ کی اطاعت وفرمانبرداری کرتے ہوئے زندگی کو گذاراتو کل بروز قیامت ہم سے کہا جائے گا کہ’’ أُدْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ ‘‘ جاؤ اب تم جنت کے اندر داخل ہوجاؤاپنےان اعمال کے بدلے جوتم دنیا کے اندر کیا کرتے تھے۔(النحل:32)اور پھر جنت میں اہل جنت سے کہا جائے گا کہ اے لوگو!تم اب جنت میں عیش وآرام سے رہو اور ’’ كُلُوا وَاشْرَبُوا هَنِيئًا بِمَا أَسْلَفْتُمْ فِي الْأَيَّامِ الْخَالِيَةِ ‘‘ مزے سے کھاؤ پیو اپنے ان اعمال کے بدلے جو تم نے گزشتہ زمانے میں کئے تھے۔(الحاقۃ:25)اب فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم کیا چاہتے ہیں؟اللہ کی رحمت ونعمت یا پھر جہنم کی آگ وعذاب؟؟



اب آخر میں رب العالمین سے دعاگو ہوں کہ اے الہ العالمین تو ہمارے وقتوں میں برکت عطا فرما اور ہم سب کو اس دنیا میں زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرما۔آمین یا رب العالمین۔



……………………………………………………..………………..ختم شد………………………………………………………………..……..





ابومعاویہ شارب بن شاکرالسلفی

امام وخطیب مرکزی مسجد اہل حدیث۔فتح دروازہ۔آدونی

ناظم جامعہ ام القری للبنین والبنات۔آدونی۔کرنول ضلع۔آندھراپردیش






 
Top