• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ولی کے بغیر شادی

شمولیت
نومبر 21، 2013
پیغامات
60
ری ایکشن اسکور
38
پوائنٹ
37
کیا اگر لڑکی کے والدین لڑکی کی شادی کسی خراب انسان سے کرنا چا ہتے ہیں تو لڑکی والدین کی پسند سے انکارکرکے اپنی پسند کی شادی کا حق رکھتی ہے۔ جبکےلڑکی کو اس صورت میں گھر سے بھا گنا بھی پڑےگا۔؟؟؟؟؟
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
جب عورت كو اس كا ولى شادى نہ كرنے دے اور اسے علم ہو كہ قاضى بھى اس كے معاملہ عضل كا حكم جارى نہيں كريگا ؟
ميرى عمر پچيس برس ہونے كو ہے، اور ميرى خوبصورتى بھى كوئى اتنى زيادہ نہيں، ميرے ليے اب تك كسى بھى ايسے شخص كا رشتہ نہيں آيا جس كے متعلق ميں اپنے ليے دين اور اخلاق ميں كفؤ ہونے كى اميد ركھوں، ايك اٹھائيس برس كے نوجوان كا رشتہ آيا جو دين اور اخلاق كا مالك تھا، جو علمى اور معاشرتى طور پر ميرے ليےكفؤ تھا، ليكن ميرے گھر والوں نے اس رشتہ سے انكار كر ديا، يہ انكار اس ميں كسى عيب كى بنا پر نہيں تھا، بلكہ اس ليے كہ اس كى شہريت كسى اور ملك كى تھى.

ميرے گھر والوں نے مجھے شادى كرنے سے روك ديا ہے اور ميں اس انسان كو چاہتى ہوں، اس سے مجھے محبت ہوگئى ہے، ميرے خيال ميں مجھے وہ حفاظت دےگا، اور اس پرفتن دور ميں ميرے دين كى بھى حفاظت كرےگا.

يہاں ميرے ملك ميں عضل كے معاملات قبول نہيں كيے جاتے، اور اگر قاضى اسے قبول بھى كر لے تو وہ لڑكى كے حق ميں فيصلہ نہيں ديتا، تا كہ مشكلات سے دور رہے، اور يہ چيز قضاء ميں كام كرنے والوں كے علم ميں ہے.

اس رشتہ كے متعلق صرف ميرى والدہ اور بہن اور چار ميں سے دو بھائيوں كو علم ہے، ان ميں سے ايك بھائى نے مجھے مارا پيٹا اور ميرى اہانت بھى كى كيونكہ ميں نے اس سے شادى كرنے كا مطالبہ كيا تھا، وہ مجھے مجبور كرتے ہيں كہ ميں لوگوں كے سامنے طبعى اور صحيح حالت ميں ہى آيا كروں وگرنہ مجھے دوبارہ مارا پيٹا جائيگا اور تذليل كى جائيگى.

وہ مجھ سے ايسا مطالبہ كرتے ہيں جس كى مجھ ميں استطاعت نہيں، ميں بہت پريشانى اورتكليف و اذيت سے دوچار ہوں، ميرے والد فوت ہو چكے ہيں، ميرا ايك چچا اور اس كے دو بيٹے ہيں اور وہ بھى ميرے گھر والوں جيسى سوچ كے مالك ہيں، بلكہ ان كى سوچ تو اس سے بھى سخت ہے، انہيں بھى اس رشتہ كے متعلق كوئى علم نہيں.

مجھے يقين ہے كہ اگر انہيں بھى اس رشتہ كاعلم ہوا تو وہ بھى مجھے شادى كرنے سے روك ديں گے، ميرا ان تك پہنچنا اور انہيں اس معاملہ كے متعلق بتانا بھى انتہائى مشكل ہے، خاص كر خاص كر چچا كے بيٹوں كو، ميرا ان كے ساتھ كوئى تعلق تك نہيں ہے، اور ميرے ساتھ بھائيوں كے شديد ظلم اور بائيكاٹ اور ان كى جانب سے حاصل ہونے والى اذيت كى وجہ سے مجھے ان تك پہنچنے كى كيفيت كا بھى علم نہيں.

تو كيا ميرے بھائيوں كا مجھے شادى سے روكنا، اور پہلے سے ہى علم ہونا كہ چچا اور اس كے بيٹے بھى مجھے يہ شادى نہيں كرنے ديں گے، اور اگر انہيں علم ہو جائے كہ ان كى ولايت ساقط ہو جائيگى تو ممكن ہے بہت عظيم ضرر اور نقصان ہو جائے اس خدشہ كے ہوتے ہوئے كيا ميں كسى نيك و صالح شخص كو ولى اختيار كر سكتى ہوں جو ميرى شادى كر دے كيونكہ ميں عدالت اور قضاء كى طرف رجوع كرنے كى استطاعت نہيں ركھتى، كيونكہ وہ شرعى فيصلہ نہيں كرتے ؟ اور اگر ميں ايسا كروں تو كيا ميں اپنى والدہ اور گھر والوں كى نافرمان شمار كى جاؤنگى جنہوں نے اسى سبب كى بنا پر ميرى شادى كرنے سے انكار كر ديا ہے، يہ علم ميں رہے كہ ميرى والدہ كى شہريب بھى وہى ہے جو رشتہ آنے والے نوجوان كى ہے.

الحمد للہ:

اول:

ابو موسى اشعرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ولى كے بغير نكاح نہيں ہے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2085 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1101 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1881 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں سے صحيح قرار ديا ہے.
اور ايك حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس عورت نے بھى اپنے والى كى اجازت كے بغير نكاح اس كا نكاح باطل ہے، اس كا نكاح باطل ہے، اس كا نكاح باطل ہے اور اگر جھگڑا كريں تو جس كا ولى نہ ہو اس كا حاكم ولى ہے "
مسند احمد حديث نمبر ( 24417 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 2083 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1102 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 2709 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
دوم:

جب ولى اپنى ولايت ميں موجود عورت كو مناسب اور برابر كے رشتہ آنے پر اس كى شادى نہ كرے جس سے وہ شادى كرنے پر راضى ہو تو اس نے اسے شادى كرنے سے روك ديا، اس طرح اس كى ولايت منتقل ہو كر بعد والے عصبہ مرد كو حاصل ہو جائيگى، اور پھر قاضى كو.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

عضل كا معنى يہ ہے كہ عورت كو اس كے مطالبہ پر مناسب اور كفؤ كے رشتہ سے شادى كرنےسے منع كر دينا، جبكہ دونوں ميں سے ہر ايك دوسرے كى رغبت ركھتے ہوں.

معقل بن يسار رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے اپنى بہن كى ايك شخص سے شادى كر دى تو اس شخص نے ميرى بہن كو طلاق دے دى، اور جب اس كى عدت گزر گئى تو وہ اس سے دوبارہ شادى كرنے كے ليے آيا تو ميں نے اسے كہا:

ميں نے اس سے تيرى شادى كى، اور تيرا بستر بنايا اور تيرى عزت و احترام كيا تو نے اسے طلاق دے دى اور اب اس كا دوبارہ رشتہ طلب كر رہے ہو! اللہ كى قسم وہ تيرے پاس دوبارہ كبھى نہيں لوٹ سكتى، اور اس شخص ميں كوئى حرج بھى نہ تھا اور عورت بھى اس كے پا سواپس جانا چاہتى تھى.

تو اللہ عزوجل نے يہ آيت نازل فرما دى:

" تم انہيں مت روكو "

تو ميں نے عرض كيا: اے اللہ كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم اب ميں كرتا ہوں، تو انہوں نے اپنى بہن كى شادى اس سے كر دى " اسے بخارى نے روايت كيا ہے.

چاہے مہر مثل يا اس سے كم ميں شادى كرنے كا مطالبہ كرے، امام شافعى اور ابو يوسف اور محمد رحمہم اللہ كا يہى كہنا ہے.

چنانچہ اگر عورت كسى بعينہ كفؤ رشتہ سے شادى كرنے كى رغبت ركھتى ہو اور ولى كسى اور كفؤ والے رشتہ سے اس كى شادى كرنا چاہتا ہو، اور جس شخص سے وہ عورت شادى كرنا چاہتى ہے اس سے شادى نہ كرے تو وہ اس كو شادى سے روكنے والا يعنى عاضل شمار ہوگا.

ليكن اگر وہ عورت كفؤ كے بغير كسى اور شخص سے شادى كرنا چاہتى ہے تو ولى اسے اس سے منع كر سكتا ہے، تو اس صورت ميں وہ عاضل شمار نہيں ہو گا.
ديكھيں: المغنى ( 9 / 383 ).

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جب ولى عورت كو كسى ايسے شخص سے شادى كرنے سے منع كر دے جو دين اور اخلاق ميں اس كا كفؤ ہو تو ولايت اس كے بعد والے عصبہ مرد ولى ميں منتقل ہو جائيگى، اور اگر وہ سب اس كى شادى كرنے سے انكار كريں جيسا كہ غالب ميں ہے تو يہ ولايت شرعى حاكم ميں منتقل ہو جائيگى، اور شرعى حاكم اس عورت كى شادى كريگا.

اور اگر اس تك معاملہ اور مقدمہ پہنچتا ہے اور اسے علم ہو جائے كہ اس كے اولياء نے شادى كرنے سے منع كر ديا ہے تو اس پر اس كى شادى كرنا واجب ہے، كيونكہ جب خاص ولايت حاصل نہ ہو تو حاكم كو عام ولايت حاصل ہے.

فقھاء رحمہ اللہ نے بيان كيا ہے كہ جب ولى آنے والے رشتہ كو بار بار رد كر دے اور وہ رشتہ كفؤ بھى ہو تو اس طرح وہ فاسق بن جائيگا، اور اس كى عدالت اور ولايت ساقط ہو جائيگى، بلكہ امام احمد كے مسلك ميں مشہور يہ ہے كہ اس كى امامت بھى ساقط ہو جائيگى، اس ليے وہ مسلمانوں كو نماز بھى نہيں پڑھا سكتا، اور يہ معاملہ بہت خطرناك ہے.

جيسا كہ ہم اوپر اشارہ كر چكے ہيں كہ بعض لوگ اپنى ولايت ميں موجود عورت كا مناسب اور كفؤ رشتہ آنے پر رد كر ديتے ہيں، ليكن لڑكى قاضى كے پاس آ كر شادى كا مطالبہ كرنے سے شرماتى رہتى ہے، يہ فى الواقع اور حقيقت ہے، ليكن اس لڑكى كو مصلحت اور خرابى ميں موازنہ كرنا چاہيے كہ كس چيز ميں زيادہ خرابى پائى جاتى ہے:

كہ وہ اس طرح شادى كے بغير رہے اور اس كا ولى اس پر كنٹرول كرے اور اپنى مرضى اور خواہش و مزاج كے مطابق حكم چلائے اگر وہ بڑى ہو جائے اور نكاح كرنا چاہے تو اس كى شادى كر دے يا پھر وہ قاضى كے پاس جا كر شادى كا مطالبہ كرے حالانكہ يہ اس كا شرعى حق بھى ہے ؟

بلاشك دوسرا بدل پہلے سے بہتر ہے، وہ يہ كہ لڑكى قاضى كے پاس جا كر شادى كا مطالبہ كرے كيونكہ يہ اس كا حق ہے؛ اور اس ليے بھى كہ ا سكا قاضى كے پاس جانا اور قاضى كا اس كى شادى كر دينے ميں دوسرے كى بھى خير اور بھلائى اور مصلحت پائى جاتى ہے.

كيونكہ اس كے علاوہ ہو سكتا ہے دوسرى عورت بھى اسى طرح قاضى كے پاس آ جائے جيسے وہ آئى ہے، اور اس ليے بھى اس كا قاضى كے پاس آنے ميں اس طرح كے لوگوں كے ليے ڈر اور روكنے كا بھى باعث ہے جو اپنى ولايت ميں موجود عورتوں پر ظلم كرتے ہوئے ان كى مناسب رشتہ آنے پر شادى نہيں كرتے يعنى اس ميں تين مصلحتيں پائى جاتى ہے:

پہلى مصلحت:

اس عورت كے ليے ہے جو يہ مقدمہ قاضى كے پاس لے جائے تا كہ وہ شادى كے بغير نہ رہے.

اور دوسرى مصلحت:

اس كے علاوہ دوسرى عورت كے ليے دروازہ كھلے گا جو اسى انتظار ميں ہے كہ كوئى مقدمہ پيش كرے اور ہم بھى جائيں.

اور تيسرى مصلحت:

ان اولياء كو روكا جاسكےگا جو اپنى بيٹيوں يا اپنى ولايت ميں موجود عورتوں پر اپنى مرضى ٹھونستے ہيں اور جو چاہتے ہيں كرتے ہيں.

اور اس ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے حكم پر عمل كى بھى مصلحت پائى جاتى ہے كہ آپ نے فرمايا:
" جب تمہارے پاس كوئى ايسا شخص آئے جس كا دين اور اخلاق تمہيں پسند ہو تو اس كا نكاح كر دو، اگر ايسا نہيں كرو گے تو زمين ميں بہت زيادہ فتنہ و فساد ہو گا "
اور اسى طرح اس ميں خاص مصلحت پائى جاتى ہے وہ يہ كہ اس طرح ان لوگوں كى ضرورت پورى ہوگى جو دين اور اخلاق ميں كفؤ عورتوں سے رشتہ كرنا چاہتے ہيں " انتہى
ماخوذ از: فتاوى اسلاميۃ ( 3 / 148 ).
سوم:

آپ كےسوال سے يہى ظاہر ہوتا ہے كہ آپ كے بھائيوں نے آپ كو دوسرے كفؤ رشتہ سے نہيں روكا، اس ليے آپ اس معاملہ ميں جلدى مت كريں، ہو سكتا ہے اللہ تعالى آپ كے ليے كوئى ايسا رشتہ بھيج دے جس كے دين اور اخلاق سے آپ راضى ہوں اور آپ كے بھائيوں كو بھى اس سے اللہ خوش كر دے.

اور يہ بھى ہو سكتا ہے كہ اس رشتہ سے انكار ميں آپ كے بھائى معذور ہوں، كيونكہ وہ آپ كے ملك كى شہريت نہيں ركھتا، اور يہ چيز واقع سے ثابت ہے كہ اس طرح كى شاديوں ميں بہت سارى مشكلات پيدا ہوتى ہيں.

جب وہ كفؤ اور مناسب رشتہ آنے كے باوجود بار بار آپ كى شادى كرنے سے انكار كريں، تو آپ كو عدالت جانے كا حق حاصل ہے، اور اگر قاضى بزدل ہو اور آپ كے اولياء كے خوف سے آپ كى شادى نہ كرے تو آپ كے سامنے يہى حل رہ جائيگا كہ آپ اسلامك سينٹر يا امام مسجد كو اپنا ولى بنا كر اسے كہيں كہ وہ آپ كى شادى كرے، كيونہ يہ ضرورت ہے.

يہى بہتر ہے كہ آپ كسى نيك و صالح قسم كےامام مسلمان كو عقد نكاح ميں اپنا ولى مقرر كريں.

اس طرح كى حالت ميں يہى حكم ہے.

ليكن ہم يہاں آپ كو يہى مشورہ ديں گے كہ آپ اپنے خاندان اور گھر والوں كى رضامندى سے ہى شادى كريں، كيونكہ ـ غالب ميں ـ جو كوئى بھى اپنے گھر والوں كى رضامندى كے بغير يہ كام كرتا ہے تو وہ ہميشہ كے ليے اپنے گھر اور خاندان والوں كا خسارہ برداشت كرتا ہے، اس بنا پر اسے اختيار كرنے سے قبل آپ موازنہ كريں كہ:

آيا اس طريقہ سے آپ كا شادى كر كے اپنے گھر والوں كا خسارہ برداشت كرنا بہتر ہے، يا كہ آپ صبر اور انتظار كريں ہو سكتا ہے آپ كے گھر والوں كے پاس كوئى ايسا رشتہ آ جائے جسے آپ بھى پسند كريں اور وہ بھى پسند كرتے ہوں.

ان دونوں ميں مقارنہ اور موازنہ حالات كے اعتبار سے مختلف بھى ہو سكتا ہے كہ جيسى حالت ہو ويسا ہى موازنہ، بعض اوقات پہلا اختيار اس كے ليے بہتر ہوتا ہے جس كى عمر زيادہ ہوچكى ہو، اور شادى كى فرصت اور مواقع نہ رہے ہوں، اور دوسرا اختيار ايسى عورت كے ہاں مقبول ہوتا ہے جو ابھى كم عمر ہو اور اميد ركھتى ہو كہ ايك يا دو برس انتظار كرنے سے اللہ اس كے ليے نيك و صالح خاوند مہيا كر دےگا، اور اس كى شكايت ختم ہو جائيگى.

آخر ميں ہم يہ كہيں گے كہ سارا معاملہ اللہ كے ہاتھ ميں ہے اس ليے آپ كو اللہ عزوجل سے رجوع كرنا اور اس سے دعا كرنى چاہيے كہ وہ آپ كے گھر والوں كو ہدايت نصيب فرمائے، اور آپ كو نيك و صالح خاوند اور اولاد نصيب كرے جس سے آپ كى آنكھيں ٹھنڈى ہوں.

اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كے معاملہ كو آسان فرمائے اور آپ كى پريشانى اور غم دور كرے.

واللہ اعلم .
الاسلام سوال و جواب
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم

کیا اگر لڑکی کے والدین لڑکی کی شادی کسی خراب انسان سے کرنا چا ہتے ہیں تو لڑکی والدین کی پسند سے انکارکرکے اپنی پسند کی شادی کا حق رکھتی ہے۔ جبکےلڑکی کو اس صورت میں گھر سے بھا گنا بھی پڑےگا۔؟؟؟؟؟
یعنی لڑکی کورٹ میرج کر سکتی ہے۔؟
لڑکی کو کیسے معلوم ہوا کہ جس سے گھر والے شادی کروا رہے ہیں وہ لڑکا خراب ھے؟ آپ کے سوال سے یہ کنفرم ہو رہا ھے کہ لڑکی اپنی پسند کی شادی کرنا چاہتی ھے جس پر اس کے گھر والے نہیں مان رہے۔

اگر اس مسئلہ پر شریعت سے جواب چاہئے تو کسی صاحب علم کے جواب کا انتظار فرمائیں، لڑکی کورٹ میرج نہیں کر سکتی اس سے اس کے لئے اور والدین کے لئے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں، یہ ایک جنون ہوتا ھے جو کچھ عرصہ بعد اتر جاتا ھے اور بندہ نہ ادھر کا اور نہ ادھر کا۔

والسلام
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
جب عورت كو اس كا ولى شادى نہ كرنے دے اور اسے علم ہو كہ قاضى بھى اس كے معاملہ عضل كا حكم جارى نہيں كريگا ؟
ميرى عمر پچيس برس ہونے كو ہے، اور ميرى خوبصورتى بھى كوئى اتنى زيادہ نہيں، ميرے ليے اب تك كسى بھى ايسے شخص كا رشتہ نہيں آيا جس كے متعلق ميں اپنے ليے دين اور اخلاق ميں كفؤ ہونے كى اميد ركھوں، ايك اٹھائيس برس كے نوجوان كا رشتہ آيا جو دين اور اخلاق كا مالك تھا، جو علمى اور معاشرتى طور پر ميرے ليےكفؤ تھا، ليكن ميرے گھر والوں نے اس رشتہ سے انكار كر ديا، يہ انكار اس ميں كسى عيب كى بنا پر نہيں تھا، بلكہ اس ليے كہ اس كى شہريت كسى اور ملك كى تھى.

ميرے گھر والوں نے مجھے شادى كرنے سے روك ديا ہے اور ميں اس انسان كو چاہتى ہوں، اس سے مجھے محبت ہوگئى ہے، ميرے خيال ميں مجھے وہ حفاظت دےگا، اور اس پرفتن دور ميں ميرے دين كى بھى حفاظت كرےگا.

يہاں ميرے ملك ميں عضل كے معاملات قبول نہيں كيے جاتے، اور اگر قاضى اسے قبول بھى كر لے تو وہ لڑكى كے حق ميں فيصلہ نہيں ديتا، تا كہ مشكلات سے دور رہے، اور يہ چيز قضاء ميں كام كرنے والوں كے علم ميں ہے.

اس رشتہ كے متعلق صرف ميرى والدہ اور بہن اور چار ميں سے دو بھائيوں كو علم ہے، ان ميں سے ايك بھائى نے مجھے مارا پيٹا اور ميرى اہانت بھى كى كيونكہ ميں نے اس سے شادى كرنے كا مطالبہ كيا تھا، وہ مجھے مجبور كرتے ہيں كہ ميں لوگوں كے سامنے طبعى اور صحيح حالت ميں ہى آيا كروں وگرنہ مجھے دوبارہ مارا پيٹا جائيگا اور تذليل كى جائيگى.

وہ مجھ سے ايسا مطالبہ كرتے ہيں جس كى مجھ ميں استطاعت نہيں، ميں بہت پريشانى اورتكليف و اذيت سے دوچار ہوں، ميرے والد فوت ہو چكے ہيں، ميرا ايك چچا اور اس كے دو بيٹے ہيں اور وہ بھى ميرے گھر والوں جيسى سوچ كے مالك ہيں، بلكہ ان كى سوچ تو اس سے بھى سخت ہے، انہيں بھى اس رشتہ كے متعلق كوئى علم نہيں.

مجھے يقين ہے كہ اگر انہيں بھى اس رشتہ كاعلم ہوا تو وہ بھى مجھے شادى كرنے سے روك ديں گے، ميرا ان تك پہنچنا اور انہيں اس معاملہ كے متعلق بتانا بھى انتہائى مشكل ہے، خاص كر خاص كر چچا كے بيٹوں كو، ميرا ان كے ساتھ كوئى تعلق تك نہيں ہے، اور ميرے ساتھ بھائيوں كے شديد ظلم اور بائيكاٹ اور ان كى جانب سے حاصل ہونے والى اذيت كى وجہ سے مجھے ان تك پہنچنے كى كيفيت كا بھى علم نہيں.

تو كيا ميرے بھائيوں كا مجھے شادى سے روكنا، اور پہلے سے ہى علم ہونا كہ چچا اور اس كے بيٹے بھى مجھے يہ شادى نہيں كرنے ديں گے، اور اگر انہيں علم ہو جائے كہ ان كى ولايت ساقط ہو جائيگى تو ممكن ہے بہت عظيم ضرر اور نقصان ہو جائے اس خدشہ كے ہوتے ہوئے كيا ميں كسى نيك و صالح شخص كو ولى اختيار كر سكتى ہوں جو ميرى شادى كر دے كيونكہ ميں عدالت اور قضاء كى طرف رجوع كرنے كى استطاعت نہيں ركھتى، كيونكہ وہ شرعى فيصلہ نہيں كرتے ؟ اور اگر ميں ايسا كروں تو كيا ميں اپنى والدہ اور گھر والوں كى نافرمان شمار كى جاؤنگى جنہوں نے اسى سبب كى بنا پر ميرى شادى كرنے سے انكار كر ديا ہے، يہ علم ميں رہے كہ ميرى والدہ كى شہريب بھى وہى ہے جو رشتہ آنے والے نوجوان كى ہے.

الحمد للہ:

اول:

ابو موسى اشعرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:



اور ايك حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:



دوم:

جب ولى اپنى ولايت ميں موجود عورت كو مناسب اور برابر كے رشتہ آنے پر اس كى شادى نہ كرے جس سے وہ شادى كرنے پر راضى ہو تو اس نے اسے شادى كرنے سے روك ديا، اس طرح اس كى ولايت منتقل ہو كر بعد والے عصبہ مرد كو حاصل ہو جائيگى، اور پھر قاضى كو.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

عضل كا معنى يہ ہے كہ عورت كو اس كے مطالبہ پر مناسب اور كفؤ كے رشتہ سے شادى كرنےسے منع كر دينا، جبكہ دونوں ميں سے ہر ايك دوسرے كى رغبت ركھتے ہوں.

معقل بن يسار رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے اپنى بہن كى ايك شخص سے شادى كر دى تو اس شخص نے ميرى بہن كو طلاق دے دى، اور جب اس كى عدت گزر گئى تو وہ اس سے دوبارہ شادى كرنے كے ليے آيا تو ميں نے اسے كہا:

ميں نے اس سے تيرى شادى كى، اور تيرا بستر بنايا اور تيرى عزت و احترام كيا تو نے اسے طلاق دے دى اور اب اس كا دوبارہ رشتہ طلب كر رہے ہو! اللہ كى قسم وہ تيرے پاس دوبارہ كبھى نہيں لوٹ سكتى، اور اس شخص ميں كوئى حرج بھى نہ تھا اور عورت بھى اس كے پا سواپس جانا چاہتى تھى.

تو اللہ عزوجل نے يہ آيت نازل فرما دى:

" تم انہيں مت روكو "

تو ميں نے عرض كيا: اے اللہ كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم اب ميں كرتا ہوں، تو انہوں نے اپنى بہن كى شادى اس سے كر دى " اسے بخارى نے روايت كيا ہے.

چاہے مہر مثل يا اس سے كم ميں شادى كرنے كا مطالبہ كرے، امام شافعى اور ابو يوسف اور محمد رحمہم اللہ كا يہى كہنا ہے.

چنانچہ اگر عورت كسى بعينہ كفؤ رشتہ سے شادى كرنے كى رغبت ركھتى ہو اور ولى كسى اور كفؤ والے رشتہ سے اس كى شادى كرنا چاہتا ہو، اور جس شخص سے وہ عورت شادى كرنا چاہتى ہے اس سے شادى نہ كرے تو وہ اس كو شادى سے روكنے والا يعنى عاضل شمار ہوگا.

ليكن اگر وہ عورت كفؤ كے بغير كسى اور شخص سے شادى كرنا چاہتى ہے تو ولى اسے اس سے منع كر سكتا ہے، تو اس صورت ميں وہ عاضل شمار نہيں ہو گا.
ديكھيں: المغنى ( 9 / 383 ).

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جب ولى عورت كو كسى ايسے شخص سے شادى كرنے سے منع كر دے جو دين اور اخلاق ميں اس كا كفؤ ہو تو ولايت اس كے بعد والے عصبہ مرد ولى ميں منتقل ہو جائيگى، اور اگر وہ سب اس كى شادى كرنے سے انكار كريں جيسا كہ غالب ميں ہے تو يہ ولايت شرعى حاكم ميں منتقل ہو جائيگى، اور شرعى حاكم اس عورت كى شادى كريگا.

اور اگر اس تك معاملہ اور مقدمہ پہنچتا ہے اور اسے علم ہو جائے كہ اس كے اولياء نے شادى كرنے سے منع كر ديا ہے تو اس پر اس كى شادى كرنا واجب ہے، كيونكہ جب خاص ولايت حاصل نہ ہو تو حاكم كو عام ولايت حاصل ہے.

فقھاء رحمہ اللہ نے بيان كيا ہے كہ جب ولى آنے والے رشتہ كو بار بار رد كر دے اور وہ رشتہ كفؤ بھى ہو تو اس طرح وہ فاسق بن جائيگا، اور اس كى عدالت اور ولايت ساقط ہو جائيگى، بلكہ امام احمد كے مسلك ميں مشہور يہ ہے كہ اس كى امامت بھى ساقط ہو جائيگى، اس ليے وہ مسلمانوں كو نماز بھى نہيں پڑھا سكتا، اور يہ معاملہ بہت خطرناك ہے.

جيسا كہ ہم اوپر اشارہ كر چكے ہيں كہ بعض لوگ اپنى ولايت ميں موجود عورت كا مناسب اور كفؤ رشتہ آنے پر رد كر ديتے ہيں، ليكن لڑكى قاضى كے پاس آ كر شادى كا مطالبہ كرنے سے شرماتى رہتى ہے، يہ فى الواقع اور حقيقت ہے، ليكن اس لڑكى كو مصلحت اور خرابى ميں موازنہ كرنا چاہيے كہ كس چيز ميں زيادہ خرابى پائى جاتى ہے:

كہ وہ اس طرح شادى كے بغير رہے اور اس كا ولى اس پر كنٹرول كرے اور اپنى مرضى اور خواہش و مزاج كے مطابق حكم چلائے اگر وہ بڑى ہو جائے اور نكاح كرنا چاہے تو اس كى شادى كر دے يا پھر وہ قاضى كے پاس جا كر شادى كا مطالبہ كرے حالانكہ يہ اس كا شرعى حق بھى ہے ؟

بلاشك دوسرا بدل پہلے سے بہتر ہے، وہ يہ كہ لڑكى قاضى كے پاس جا كر شادى كا مطالبہ كرے كيونكہ يہ اس كا حق ہے؛ اور اس ليے بھى كہ ا سكا قاضى كے پاس جانا اور قاضى كا اس كى شادى كر دينے ميں دوسرے كى بھى خير اور بھلائى اور مصلحت پائى جاتى ہے.

كيونكہ اس كے علاوہ ہو سكتا ہے دوسرى عورت بھى اسى طرح قاضى كے پاس آ جائے جيسے وہ آئى ہے، اور اس ليے بھى اس كا قاضى كے پاس آنے ميں اس طرح كے لوگوں كے ليے ڈر اور روكنے كا بھى باعث ہے جو اپنى ولايت ميں موجود عورتوں پر ظلم كرتے ہوئے ان كى مناسب رشتہ آنے پر شادى نہيں كرتے يعنى اس ميں تين مصلحتيں پائى جاتى ہے:

پہلى مصلحت:

اس عورت كے ليے ہے جو يہ مقدمہ قاضى كے پاس لے جائے تا كہ وہ شادى كے بغير نہ رہے.

اور دوسرى مصلحت:

اس كے علاوہ دوسرى عورت كے ليے دروازہ كھلے گا جو اسى انتظار ميں ہے كہ كوئى مقدمہ پيش كرے اور ہم بھى جائيں.

اور تيسرى مصلحت:

ان اولياء كو روكا جاسكےگا جو اپنى بيٹيوں يا اپنى ولايت ميں موجود عورتوں پر اپنى مرضى ٹھونستے ہيں اور جو چاہتے ہيں كرتے ہيں.

اور اس ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے حكم پر عمل كى بھى مصلحت پائى جاتى ہے كہ آپ نے فرمايا:


سوم:

آپ كےسوال سے يہى ظاہر ہوتا ہے كہ آپ كے بھائيوں نے آپ كو دوسرے كفؤ رشتہ سے نہيں روكا، اس ليے آپ اس معاملہ ميں جلدى مت كريں، ہو سكتا ہے اللہ تعالى آپ كے ليے كوئى ايسا رشتہ بھيج دے جس كے دين اور اخلاق سے آپ راضى ہوں اور آپ كے بھائيوں كو بھى اس سے اللہ خوش كر دے.

اور يہ بھى ہو سكتا ہے كہ اس رشتہ سے انكار ميں آپ كے بھائى معذور ہوں، كيونكہ وہ آپ كے ملك كى شہريت نہيں ركھتا، اور يہ چيز واقع سے ثابت ہے كہ اس طرح كى شاديوں ميں بہت سارى مشكلات پيدا ہوتى ہيں.

جب وہ كفؤ اور مناسب رشتہ آنے كے باوجود بار بار آپ كى شادى كرنے سے انكار كريں، تو آپ كو عدالت جانے كا حق حاصل ہے، اور اگر قاضى بزدل ہو اور آپ كے اولياء كے خوف سے آپ كى شادى نہ كرے تو آپ كے سامنے يہى حل رہ جائيگا كہ آپ اسلامك سينٹر يا امام مسجد كو اپنا ولى بنا كر اسے كہيں كہ وہ آپ كى شادى كرے، كيونہ يہ ضرورت ہے.

يہى بہتر ہے كہ آپ كسى نيك و صالح قسم كےامام مسلمان كو عقد نكاح ميں اپنا ولى مقرر كريں.

اس طرح كى حالت ميں يہى حكم ہے.

ليكن ہم يہاں آپ كو يہى مشورہ ديں گے كہ آپ اپنے خاندان اور گھر والوں كى رضامندى سے ہى شادى كريں، كيونكہ ـ غالب ميں ـ جو كوئى بھى اپنے گھر والوں كى رضامندى كے بغير يہ كام كرتا ہے تو وہ ہميشہ كے ليے اپنے گھر اور خاندان والوں كا خسارہ برداشت كرتا ہے، اس بنا پر اسے اختيار كرنے سے قبل آپ موازنہ كريں كہ:

آيا اس طريقہ سے آپ كا شادى كر كے اپنے گھر والوں كا خسارہ برداشت كرنا بہتر ہے، يا كہ آپ صبر اور انتظار كريں ہو سكتا ہے آپ كے گھر والوں كے پاس كوئى ايسا رشتہ آ جائے جسے آپ بھى پسند كريں اور وہ بھى پسند كرتے ہوں.

ان دونوں ميں مقارنہ اور موازنہ حالات كے اعتبار سے مختلف بھى ہو سكتا ہے كہ جيسى حالت ہو ويسا ہى موازنہ، بعض اوقات پہلا اختيار اس كے ليے بہتر ہوتا ہے جس كى عمر زيادہ ہوچكى ہو، اور شادى كى فرصت اور مواقع نہ رہے ہوں، اور دوسرا اختيار ايسى عورت كے ہاں مقبول ہوتا ہے جو ابھى كم عمر ہو اور اميد ركھتى ہو كہ ايك يا دو برس انتظار كرنے سے اللہ اس كے ليے نيك و صالح خاوند مہيا كر دےگا، اور اس كى شكايت ختم ہو جائيگى.

آخر ميں ہم يہ كہيں گے كہ سارا معاملہ اللہ كے ہاتھ ميں ہے اس ليے آپ كو اللہ عزوجل سے رجوع كرنا اور اس سے دعا كرنى چاہيے كہ وہ آپ كے گھر والوں كو ہدايت نصيب فرمائے، اور آپ كو نيك و صالح خاوند اور اولاد نصيب كرے جس سے آپ كى آنكھيں ٹھنڈى ہوں.

اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كے معاملہ كو آسان فرمائے اور آپ كى پريشانى اور غم دور كرے.

واللہ اعلم .
الاسلام سوال و جواب
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
کورٹ میرج کی شرعی حیثیت !!!

شروع از عبد الوحید ساجد بتاریخ : 29 August 2012 04:23 PM

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

تین چار سال قبل ایک لڑکے اور لڑکی کے آپس میں تعلقات ہو گئے اب اسی دوران لڑکی نے اپنی والدہ کو کہا تو وہ یہاں رشتہ کرنے پر رضا مند ہو گئی۔ بات طے ہو گئی۔ نکاح کی تاریخ بھی طے ہو گئی ۔ عین نکاح کے دن (چونکہ لڑکی کا والد سادہ آدمی تھا اس لیے اسے اس کے بھائیوں نے مجبور کیا کہ وہاں رشتہ نہیں دینا)۔پیغام ملا کہ آپ نکاح نہ لینےآئیں۔ لڑکی کی والدہ بھی جواب دے کر چلی گئی ۔ چند دنوں کے بعد لڑکی وہاں سے لڑکے کے پاس آ گئی۔ اور انہوں نے عدالت میں رجوع کر کے نکاح کر لیا۔ اس نکاح سے قبل دونوں زنا کے مرتکب بھی ہوئے ۔ اور عین نکاح کے وقت (بقول لڑکے کے) لڑکی کو حمل بھی تھا۔

کچھ عرصہ کے بعد لڑکی کی والدہ رات اس لڑکی کو واپس لے کے چلی گئی ۔ اور پھر عدالت میں کیس چلتا رہا آخر فیصلہ لڑکے کے حق میں ہو گیا ۔ اور وہ لڑکی کو اپنے گھر لے آیا ۔ چند ہی دنوں بعد اس لڑکے کو احساس ہوا کہ نکاح کے وقت تو حمل تھا لہٰذا نکاح نہیں ہوا ۔ اب اس نے ایک مولوی صاحب سے رجوع کیا اور اس مولوی صاحب نے مسجد کے ایک کونے میں بیٹھ کر کچھ حق مہر کے تحت اس لڑکے کا نکاح پڑھ دیا ۔ جبکہ وہ گواہوں والے معاملے سے لاعلم تھا ۔ اور اب اسے اس بات کا بڑا افسوس ہے۔

لڑکی کی والدہ فوت ہو چکی ہے اور لڑکی کا والد اس اہل نہیں کہ وہ ولی بن سکے (وہ لائی لگ ہے) ان دونوں کی اولاد بھی ہو چکی ہے۔ لڑکی کا کوئی بھائی نہیں ہے۔ کتاب وسنت کی روشنی میں واضح فرمائیں کہ انہیں کیا کرنا چاہیے۔ جزاکم اللہ احسن الجزاء۔لڑکا اور لڑکی کہتے ہیں کہ اب ہم نے سچے دل سے توبہ بھی کر لی ہے۔ باوضاحت جواب لکھیں؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صورت مسئولہ میں نکاح درست نہیں کیونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَآءَ ذَٰلِكُمۡ أَن تَبۡتَغُواْ بِأَمۡوَٰلِكُم مُّحۡصِنِينَ غَيۡرَ مُسَٰفِحِينَۚ﴾--النساء24

''اور حلال کیا گیا واسطے تمہارے جو کچھ سوائے اسی کے ہے یہ کہ طلب کرو تم بدلے مالوں اپنے کے قید میں رکھنے والے نہ پانی ڈالنے والے یعنی بدکار'' اس آیت کریمہ سے ثابت ہوا کہ حلت نکاح کے لیے مرد کا محصن عفیف اور غیر زانی ہونا ضروری ہے
اللہ تعالیٰ کا ہی فرمان ہے :
﴿ٱلۡيَوۡمَ أُحِلَّ لَكُمُ ٱلطَّيِّبَٰتُۖ وَطَعَامُ ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلۡكِتَٰبَ حِلّٞ لَّكُمۡ وَطَعَامُكُمۡ حِلّٞ لَّهُمۡۖ وَٱلۡمُحۡصَنَٰتُ مِنَ ٱلۡمُؤۡمِنَٰتِ وَٱلۡمُحۡصَنَٰتُ مِنَ ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلۡكِتَٰبَ مِن قَبۡلِكُمۡ إِذَآ ءَاتَيۡتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ مُحۡصِنِينَ غَيۡرَ مُسَٰفِحِينَ وَلَا مُتَّخِذِيٓ أَخۡدَانٖۗ﴾--مائدة5
''آج کے دن حلال کی گئیں واسطے تمہارے پاکیزہ چیزیں اور کھانا ان لوگوں کا کہ دیئے گئے ہیں کتاب حلال ہے واسطے تمہارے اور کھاناتمہارا حلال ہے واسطے ان کے اور پاکدامنیں مسلمانوں میں سے اور پاک دامنیں ان لوگوں میں کہ دئیے گئے ہیں کتاب پہلے تم سے جب دو تم ان کو مہر ان کے نکاح میں لانے والے نہ بدکاری کرنے والے اور نہ پکڑنے والے چھپے آشنا''
اس آیت مبارکہ سے ثابت ہوا کہ حلت نکاح کے لیے عورت کا محصنہ عفیفہ غیر زانیہ ہونا ضروری ہے پھر یہ آیت کریمہ حلت نکاح میں مرد کے محصن عفیف غیر زانی ہونے پر بھی دلالت کر رہی ہے تو ان آیتوں کو ملانے سے ثابت ہوا کہ جس جوڑے کا آپس میں نکاح ہونا طے پایا ہے دونوں محصن عفیف ہیں تو نکاح حلال ورنہ نکاح حلال نہیں خواہ دونوں ہی غیر محصن وغیر عفیف ہوں خواہ ایک غیر محصن وغیر عفیف ہو خواہ مرد غیر محصن وغیر عفیف ہو خواہ عورت غیر محصنہ وغیر عفیفہ ہو ۔ تو ان تینوں صورتوں میں نکاح حلال نہیں۔

پھر صورت مسئولہ میں نکاح اذن ولی کے بغیر ہے اور اذن ولی کے بغیر نکاح درست نہیں قبل از اسلام زمانہ جاہلیت میں لوگ اذن ولی کے بغیر نکاح کر لیا کرتے تھے اسلام نے اسلامی نکاح کے علاوہ جاہلیت کے تمام نکاح ختم کر دئیے-

صحیح بخاری میں ہے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
«فَلَمَّا بُعِثَ مُحَمَّدٌ ﷺ بِالْحَقِّ هَدَمَ نِکَاحَ الْجَاهِلِيَّةِ کُلَّهُ إِلاَّ نِکَاحَ النَّاسِ الْيَوْمَ»
''پس جب نبیﷺکو بھیجا گیا ساتھ حق کے تو آپ نے جاہلیت کے تمام نکاح ختم کر دئیے مگر وہ نکاح جو آج لوگ کرتے ہیں''
اور ''نِکَاحُ النَّاسِ الْیَوْمَ'' کی وضاحت اسی حدیث میں پہلے آ چکی ہے

چنانچہ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہی فرماتی ہیں :
«فَنِکَاحٌ مِنْهَا نِکَاحُ النَّاسِ الْيَوْمَ يَخْطُبُ الرَّجُلُ إِلَی الرَّجُلِ وَلِيَّتَهُ أَوِ ابْنَتَهُ ، فَيُصْدِقُهَا ، ثُمَّ يَنْکِحُهَا»جلد دوم كتاب النكاح باب من قال لا نكاح الا بولى ص769 و ص770
''پس ان نکاحوں میں سے ایک نکاح وہ ہے جو آج لوگ کرتے ہیں کہ آدمی دوسرے آدمی کو پیغام دیتا اس لڑکی کے متعلق جو اسکی سرپرستی میں ہوتی یا اس کی بیٹی کے متعلق پس وہ اس لڑکی کا حق مہر مقرر کرتا پھر اس سے نکاح کرتا''
عدالت نے صرف لڑکی کے بیان پرکاروائی کی ہے اس لیے اس کا کوئی اعتبار نہیں فریقین کے بیان سنے بغیر فیصلہ کرنے سے شریعت نے منع فرمایا ہے چنانچہ ملاحظہ فرمائیں۔
ارواء الغليل حديث نمبر2600

ہاں اگر دونوں تائب ہو جائیں اور توبہ واقعتا درست ہو حقیقت پر مبنی ہو اور گواہوں کی موجودگی میں ولی کے اذن سے اسلامی اصولوں کے مطابق شروط نکاح کی پابندی میں ان کا نیا نکاح ہو تو آئندہ گناہ سے محفوظ ہو جائیں گے۔
وباللہ التوفیق
احکام و مسائل
نکاح کے مسائل ج1ص 304
محدث فتویٰ
 
Top