السلام علیکم ورحمۃ اللہ برکاتہ!
فقہ حنفیہ کا اصول ہے کہ خبر واحد سے قرآن کی آیت کی تخصیص و تقید خبر واحد سے نہیں کی جائے گے!
اور اس اصول کے تحت وہ نکاح میں ولی کی شرط کے قائل نہیں!
باقی بزعم خویش دیگر دلائل کو اس مسئلہ میں پیش کرنا، ان کی جانب سے حجت بازی ہے! اصل یہی بنیاد ہے!
جبکہ حدیث سے ولی کی اجازت شرط ثابت ہوتی ہے!
اب اگر حدیث کی اس شرط کو یہ کہہ کر نہیں مانا جائے، کہ ''خبر واحد'' ہے!
یہ انکار حدیث کا ایک رخ ہے!
اسے کہتے ہیں غلط ترجمانی!
یاتو ابن داؤد دیدۂ ودانستہ غلط بیانی کررہے ہیں یاپھر انہوں نے خود ہی اس مسئلہ کو غلط سمجھاہے
احناف کے یہاں خبرواحد سے قرآن کی کسی آیت کی تخصیص یاتقیید کا نہ ہونا رکن کے درجہ میں ہے،وجوب،سنیت، استحباب وغیرہ کے درجہ میں خبر واحد سے اضافہ کیاجاسکتاہے،آسان لفظوں میں کہیں تو قرآن سے یاقرآن کے مثل سے جوچیز ثابت ہوگی وہ فرض کے درجہ میں ہوگی اوراس سے کم تر سے جوچیز ثابت ہوگی وہ وجوب کے درجہ میں سنیت کے درجہ میں اوراستحباب یاجواز کے درجہ میں ثابت ہوگی۔
نماز میں طمانینت کی ہی مثال لیتے ہیں۔
احناف کے یہاں نماز مین طمانینت فرض اس لئے نہیں ہے کہ کیونکہ اس کا ذکر نہ قرآن میں ہے اورنہ ہی خبر مشہور میں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ طمانینت کاان کے یہاں کوئی مقام نہیں یاوہ سرے سے اس حدیث کو رد کردیتے ہیں، وہ نماز میں طمانینت کوواجب کہتے ہیں، آپ فقہ حنفی کی کسی بھی کتاب کو اٹھاکر دیکھ لیں،اس میں طمانینت کو واجب لکھاگیاہوگا،لیکن وہ غیرمقلد کیا جو تقلید کے خلاف ہنگامہ کرے اور خود کسی دوسرے کی تقلید سے بازآجائے، بس یار لوگوں نے جوکچھ طمانینت کی مثال لکھ دی ہے،اسی کو بھی دوہراتے چلے آرہے ہیں، یہ توفیق نہیں ہوتی کہ خودکبھی احناف کے موقف کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
ابن دائود بڑے اطمینان سے کہتے ہیں کہ یہ انکار حدیث کا ایک رخ ہے،صراحتاًمنکر حدیث کہنے کی ہمت نہیں ہوئی توتعبیر بدل دیا،اب وہ ذرا یہ بتائیں کہ حدیث سے اگرکسی چیز کو واجب قراردیاجائے توکیا یہ اس کا انکار ہے یااس کو مانناہے؟کیا حدیث پر عمل تبھی مکمل ہوگاجب اس کو فرض قراردیاجائے،واجب قراردینے کی صورت میں انکارہوجائے گا؟
مثلارکوع کا مسئلہ ہے، قرآن مین آیاہے کہ رکوع کرو ،ہم نے اس بنیاد پر رکوع کو فرض مانا،اب رہ گئی یہ بات کہ رکوع میں اطمینان بھی کیافرض ہے، ہم نے حدیث کی بناء پر اس کو واجب قراردیاکہ قرآن کا بھی لحاظ رکھا اور حدیث کابھی پورا لحاظ اورخیال رکھا۔
قرآن نے کہاکہ رکوع کرو، وارکعوا رکوع کے معنی جھکنے کے ہیں اورایک خاص کیفیت میں جھکناتواتر کے ساتھ ثابت ہے تو ہم نے اتنے کو فرض کہا،اب رہی یہ بات کہ رکوع اطمینان کے ساتھ کیاجائے، ہم نے حدیث کی وجہ سے اس کو واجب اورضروری قراردیا،توکیاکسی چیز کو واجب اورضروری قراردینا انکار حدیث کا ایک رخ ہے۔
غیرمقلدوں کی نئی پود سے اللہ بچائے،ان کی سب سے نمایاں خصوصیت خود رائی ہے، جو دماغ میں آیا فوراًتحریر وتقریر کی صورت مین ڈھال دیا، نہ اس پر غورکرنے کی ضرورت ،نہ اس کو مزید سمجھنے کی کوشش کچھ نہیں، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کبھی ان میں یہ احساس تک نہیں جاگتاکہ ایک مرتبہ کسی موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے سوچیں کہ شاید ہم غلط ہوں یاہم نے غلط سمجھاہو،جب انسان کسی درجہ میں خود کوعقل کل نہیں سمجھتا تواس کےانداز میں افہام وتفہیم کی جھلک ہوتی ہے لیکن جب کوئی خود کوعقل کل سمجھے اوراپنی بات کو قطعی اوریقینی باور کرے توپھر انداز میں قطعیت کاآنالازمی ہے اوریہ وہی خارجیوں والی قطعیت ہے کہ اپنی رائے سب سے بالاتر اوراس میں کسی شک وشبہ کو اورخود کے غلط ہونے کا ذرہ برابر بھی احساس نہیں۔