• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وَصَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
یہ جھوٹ ہے۔ سنت رفع الیدین کے تمام اہل سنت والجمات قاعل فاعل ہیں۔ غیر مقلدین مسلم امہ سے وہ رفع الیدین کروانا چاہتے ہیں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف چھوڑا بلکہ اس کا اعادہ کرنے والے صحابہ کرام کو سختی سے ڈانٹا۔
سنن النسائي (3 / 4):
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْثَرٌ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ الْمُسَيَّبِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ تَمِيمِ بْنِ طَرَفَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ رَافِعُو أَيْدِينَا فِي الصَّلَاةِ فَقَالَ: «مَا بَالُهُمْ رَافِعِينَ أَيْدِيَهُمْ فِي الصَّلَاةِ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ، اسْكُنُوا فِي الصَّلَاةِ»
[حكم الألباني] صحيح
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (مسجد میں) آئے اور ہم لوگ نماز میں رفع الیدین کر رہے تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا ہے کہ میں تمہیں نماز میں شریر گھوڑوں کی دموں کی طرح رفع الیدین کرتے دیکھ رہا ہوں۔ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا کہ)نماز میں سکون سے رہو۔
یہ حدیث صحیح مسلم میں بھی ہے۔
جاہل
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
نماز میں چارمقامات پررفع الیدین ثابت ہے لیکن بعض حضرات صحیح‌ مسلم کی ایک غیرمتعلق حدیث پیش کرکے عوام کو یہ مغالطہ دیتے ہیں کہ اس میں مسنون رفع الیدیں سے منع کردیا گیا ہے:
سب سے پہلے صحیح‌ مسلم کی یہ حدیث‌ ملاحظہ ہو:



حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَأَبُو كُرَيْبٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنِ الْمُسَيَّبِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ تَمِيمِ بْنِ طَرَفَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «مَا لِي أَرَاكُمْ رَافِعِي أَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ؟ اسْكُنُوا فِي الصَّلَاةِ» قَالَ: ثُمَّ خَرَجَ عَلَيْنَا فَرَآنَا حَلَقًا فَقَالَ: «مَالِي أَرَاكُمْ عِزِينَ» قَالَ: ثُمَّ خَرَجَ عَلَيْنَا فَقَالَ: «أَلَا تَصُفُّونَ كَمَا تَصُفُّ الْمَلَائِكَةُ عِنْدَ رَبِّهَا؟» فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللهِ، وَكَيْفَ تَصُفُّ الْمَلَائِكَةُ عِنْدَ رَبِّهَا؟ قَالَ: «يُتِمُّونَ الصُّفُوفَ الْأُوَلَ وَيَتَرَاصُّونَ فِي الصَّفِّ» [صحيح مسلم (1/ 322) رقم 430]
جابر بن سمرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کیا وجہ ہے کہ میں تم کو ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھتا ہوں جیسا کہ سرکش گھوڑوں کی دمیں ہیں، نماز میں سکون رکھا کرو فرماتے ہیں دوبارہ ایک دن تشریف لائے تو ہم کو حلقوں میں بیٹھے ہوئے دیکھا تو فرمایا کیا وجہ ہے کہ میں تم کو متفرق طور پر بیٹھے ہوئے دیکھتا ہوں پھر ایک مرتبہ ہمارے پاس تشریف لائے تو فرمایا کیا تم صفیں نہیں بناتے جیسا کہ فرشتے اپنے رب کے پاس صفیں بناتے ہیں فرمایا کہ پہلی صف کو مکمل کیا کرو اور صف میں مل مل کر کھڑے ہوا کرو۔

مذکورہ حدیث کا مسنون رفع الیدین سے کوئی تعلق نہیں ہے اس کے کئی دلائل ہیں ۔



پہلی دلیل:


اس میں ہاتھ اٹھانے کا موقع ومحل ذکرنہیں ہے۔
یعنی یہ صراحت نہیں ہے کہ اس حدیث میں‌ قبل الرکوع وبعدہ یا بعدالقیام من الرکعتین والے رفع الیدین سے روکا جارہا ہے جبکہ ان مواقع پررفع الیدین صراحتا ثابت ہے، لہٰذا یہ روایت ان مواقع کے علاوہ دیگرمواقع کے لئے ہے اوران مواقع پرہم بھی کسی طرح کا رفع الیدین نہیں‌ کرتے۔


دوسری دلیل:


رفع الیدین (ہاتھ اٹھانے) کی کیفیت مبہم ہے۔
اورہاتھ اٹھا نا کئی طرح کا ہوتا ہے، مثلا:
الف: دعاء کے لئے رفع الیدین یعنی ہاتھ اٹھانا، چنانچہ امام بخاری فرماتے ہیں:
وَقَالَ أَبُو مُوسَى الأَشْعَرِيُّ: «دَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ، وَرَأَيْتُ بَيَاضَ إِبْطَيْهِ» وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: رَفَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَيْهِ وَقَالَ: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَبْرَأُ إِلَيْكَ مِمَّا صَنَعَ خَالِدٌ» صحيح البخاري ( 8/ 74)
نیزصحیح بخاری حدیث نمبر4323 کے تحت ایک ایک روایت کا ٹکڑا ہے:
فَدَعَا بِمَاءٍ فَتَوَضَّأَ، ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ فَقَالَ: «اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِعُبَيْدٍ أَبِي عَامِرٍ
(صحيح البخاري 5/ 156 رقم 4323 )

ب: سلام کے لئے ہاتھ اٹھانا ، امام طبرانی فرماتے ہیں :
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ثنا أَبُو نُعَيْمٍ، ثنا مِسْعَرٌ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ الْقِبْطِيَّةِ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ، يَقُولُ: كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْنَا: السَّلَامُ عَلَيْكُمِ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَأَشَارَ مِسْعَرٌ بِيَدِهِ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ، فَقَالَ: «مَا بَالُ هَؤُلَاءِ يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ، أَمَا يَكْفِي أَحَدَكُمْ، أَوْ أَحَدَهُمْ، أَنْ يَضَعَ يَدَهُ عَلَى فَخِذِهِ، ثُمَّ يُسَلِّمُ عَلَى أَخِيهِ مِنْ عَنْ يَمِينِهِ وَشِمَالِهِ» (المعجم الكبير للطبراني :2/ 205 رقم 1836 واسنادہ صحیح)
جابر بن سمرہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کرتے تھے ہم السَّلَامُ عَلَيْکُمْ ور السَّلَامُ عَلَيْکُمْاورمسعر نے اپنے ہاتھ کودائیں بائیں اشارہ کرکے بتایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا یہ لوگ اپنے ہاتھوں کواس طرح کیوں اٹھاتے ہیں جیسا کہ سرکش گھوڑے کی دم تم میں سے ہر ایک کے لئے کافی ہے کہ وہ اپنی ران پر ہاتھ رکھے پھر اپنے بھائی پر اپنے دائیں طرف اور بائیں طرف سلام کرے۔

اس حدیث سے معلوم ہوا بوقت سلام ہاتھ اٹھانے پر بھی رفع الیدین کے الفاظ حدیث میں‌ مستعمل ہیں ۔


تیسری دلیل:

قران قران کی تفسیر ہے اسی طرح حدیث حدیث‌ کی تفسیرہے ۔
اورصحیح مسلم کی زیربحث راویت کی تشریح درج ذیل روایت سے ہوجاتی ہے کہ اس کا تعلق بوقت سلام والے رفع الیدین سے ہے:

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ثنا أَبُو نُعَيْمٍ، ثنا مِسْعَرٌ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ الْقِبْطِيَّةِ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ، يَقُولُ: كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْنَا: السَّلَامُ عَلَيْكُمِ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَأَشَارَ مِسْعَرٌ بِيَدِهِ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ، فَقَالَ: «مَا بَالُ هَؤُلَاءِ يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ، أَمَا يَكْفِي أَحَدَكُمْ، أَوْ أَحَدَهُمْ، أَنْ يَضَعَ يَدَهُ عَلَى فَخِذِهِ، ثُمَّ يُسَلِّمُ عَلَى أَخِيهِ مِنْ عَنْ يَمِينِهِ وَشِمَالِهِ» (المعجم الكبير للطبراني :2/ 205 رقم 1836 واسنادہ صحیح)
جابر بن سمرہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کرتے تھے ہم السَّلَامُ عَلَيْکُمْ ور السَّلَامُ عَلَيْکُمْاورمسعر نے اپنے ہاتھ کودائیں بائیں اشارہ کرکے بتایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا یہ لوگ اپنے ہاتھوں کواس طرح کیوں اٹھاتے ہیں جیسا کہ سرکش گھوڑے کی دم تم میں سے ہر ایک کے لئے کافی ہے کہ وہ اپنی ران پر ہاتھ رکھے پھر اپنے بھائی پر اپنے دائیں طرف اور بائیں طرف سلام کرے۔

تنبیہ بلیغ:

یہی حدیث صحیح مسلم میں اسی سند متن کے ساتھ ہیں لیکن اس میں ’’مَا بَالُ هَؤُلَاءِ يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ‘‘ کی جگہ ’’«عَلَامَ تُومِئُونَ بِأَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ؟‘‘ کے الفاظ ہیں اورجب ہم زیربحث روایت کی تشریح میں مسلم کی اس دوسری روایت کو پیش کرکے کہتے ہیں کہ دیکھو صحیح مسلم ہی میں اس دوسری حدیث کی تشریح‌ موجود ہے کہ اس سے مراد بوقت سلام والا رفع الیدین ہے۔
تو حنفی حضرات چیخنے لگتے ہیں کہ نہیں مسلم کی اس اگلی حدیث میں تو’’«عَلَامَ تُومِئُونَ بِأَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ؟‘‘ کے الفاظ ہیں اورپہلی حدیث میں ’’«مَا بَالُ هَؤُلَاءِ يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ،‘‘ کے الفاظ ہیں، یہ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ پہلی روایت میں رفع الیدین کی بات ہے اوردوسری روایت میں اشارہ کی بات ہے۔
اسی لئے ہم نے مسلم والی دوسری حدیث کے الفاظ نہ نقل کرکے طبرانی کے الفاظ نقل کئے ہیں جسم میں رفع الیدین(يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ ) کی صراحت ہے اوریہ روایت بعینہ اس سند متن سے ہے جو مسلم میں آگے موجودہے۔

اورطبرانی کی یہ روایت اس بات کی زبردست دلیل ہے کہ مسلم کی اگلی روایت میں ’’«عَلَامَ تُومِئُونَ بِأَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ؟‘‘کے الفاظ اورپہلی روایت میں‌’’«مَا بَالُ هَؤُلَاءِ يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ،‘‘ کے الفاظ میں‌کوئی فرق نہیں ہے۔
طبرانی کی اس روایت اورمسلم میں اگلی والی روایت دونوں کی سند یکساں ہے:

مسلم کی اگلی والی روایت کی سند یہ ہے:
وَحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، وَاللَّفْظُ لَهُ قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ مِسْعَرٍ، حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللهِ بْنُ الْقِبْطِيَّةِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا۔۔۔۔۔۔۔الخ
اورطبرانی والی روایت کی سند یہ ہے:
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ثنا أَبُو نُعَيْمٍ، ثنا مِسْعَرٌ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ الْقِبْطِيَّةِ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ، يَقُولُ: كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا ۔۔۔۔۔الخ


چوتھی دلیل :


الفاظ حدیث ’’ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ؟‘‘کی دلالت:
اس حدیث میں جس رفع الیدین کا ذکرہے اسے سرکش گھوڑوں کی دموں سے تشبیہ دی گئی ہے ، اوریہ مسنون رفع الیدین سے ایک الگ شکل ہے کیونکہ اس صورت میں ہاتھ دائیں بائیں ہلے گا جساکہ درج ذیل حدیث اس کی دلیل ہے:
عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ الْقِبْطِيَّةِ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ، يَقُولُ: كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْنَا: السَّلَامُ عَلَيْكُمِ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَأَشَارَ مِسْعَرٌ بِيَدِهِ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ، فَقَالَ: «مَا بَالُ هَؤُلَاءِ يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ، أَمَا يَكْفِي أَحَدَكُمْ، أَوْ أَحَدَهُمْ، أَنْ يَضَعَ يَدَهُ عَلَى فَخِذِهِ، ثُمَّ يُسَلِّمُ عَلَى أَخِيهِ مِنْ عَنْ يَمِينِهِ وَشِمَالِهِ» (المعجم الكبير للطبراني :2/ 205 رقم 1836 واسنادہ صحیح)
جابر بن سمرہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کرتے تھے ہم السَّلَامُ عَلَيْکُمْ ور السَّلَامُ عَلَيْکُمْاورمسعر نے اپنے ہاتھ کودائیں بائیں اشارہ کرکے بتایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا یہ لوگ اپنے ہاتھوں کواس طرح کیوں اٹھاتے ہیں جیسا کہ سرکش گھوڑے کی دم تم میں سے ہر ایک کے لئے کافی ہے کہ وہ اپنی ران پر ہاتھ رکھے پھر اپنے بھائی پر اپنے دائیں طرف اور بائیں طرف سلام کرے۔
اس حدیث‌ میں غورکریں یہاں یہ بات مسلم ہے کہ اس میں بوقت سلام والے رفع الیدین کا تذکرہ ہے ، اورہاتھ کو دائیں بائیں اٹھانے کی بھی صراحت ہے ، اوریہاں اس صورت کو ’’كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ‘‘ کہا گیا ہے۔
اس سے ثابت ہواکہ ’’كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ؟‘‘ کی صورت جس رفع الیدین میں پائے جاتی ہے اس کا مسنون رفع الیدین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔



پانچویں دلیل:


یہ ممنوع عمل صرف صحابہ کی طرف منسوب ہواہے۔
مسلم کی زیربحث حدیث میں ’’ «مَا لِي أَرَاكُمْ رَافِعِي أَيْدِيكُمْ‘‘ کے الفاظ پرغور کریں اس میں جس رفع الیدین پرعمل سے روکا گیا ہے اس عمل کو صرف صحابہ کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔
یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کا تعلق مسنون رفع الیدین سے نہیں ہے، کیونکہ ایسا ہوتا تویہ عمل صرف صحابہ کی طرف منسوب نہ کیا جاتا اس لئے کہ یہ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی عمل تھا جیسا کہ فریق دوم کو بھی یہ بات تسلیم ہے۔
ایسی صورت میں جمع متکم کا صیغہ استعمال ہونا چاہئے یعنی اس طرح ’’مالنا نرفع ایدینا‘‘ ۔ اورحدیث میں ایسا نہیں لہٰذا ثابت ہوا کہ ممنوعہ رفع الیدین صرف صحابہ کا اپنا عمل تھا اورمسنون رفع الیدین جس پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام سب عمل کرتے تھے اس کا اس حدیث سے کوئی تعلق نہیں ہے۔


چھٹی دلیل:


نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ٹوکنے پرصحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حوالہ نہ دیا:
زیربحث مسلم کی حدیث میں جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے رفع الیدین کی وجہ پوچھی تو صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حوالہ نہ دیا ، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کا تعلق مسنون رفع الیدین سے نہ تھا کیونکہ ایسا ہوتا تو یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی عمل تھا اورایسی صورت میں صحابہ آپ کا حوالہ فورا دیتے کے اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے آپ کو رفع الیدین کرتے ہوئے دیکھا اس لئے ہم نے بھی کیا ، جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتاہے:

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: بَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي بِأَصْحَابِهِ إِذْ خَلَعَ نَعْلَيْهِ فَوَضَعَهُمَا عَنْ يَسَارِهِ، فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ الْقَوْمُ أَلْقَوْا نِعَالَهُمْ، فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاتَهُ، قَالَ: «مَا حَمَلَكُمْ عَلَى إِلْقَاءِ نِعَالِكُمْ» ، قَالُوا: رَأَيْنَاكَ أَلْقَيْتَ نَعْلَيْكَ فَأَلْقَيْنَا نِعَالَنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ جِبْرِيلَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَانِي فَأَخْبَرَنِي أَنَّ فِيهِمَا قَذَرًا - أَوْ قَالَ: أَذًى - " وَقَالَ: " إِذَا جَاءَ أَحَدُكُمْ إِلَى الْمَسْجِدِ فَلْيَنْظُرْ: فَإِنْ رَأَى فِي نَعْلَيْهِ قَذَرًا أَوْ أَذًى فَلْيَمْسَحْهُ وَلْيُصَلِّ فِيهِمَا "، سنن أبي داود (1/ 175 رقم 650)
صحابی رسول ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اصحاب کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے جوتے اتارے اور اپنی بائیں طرف رکھ لیے جب لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایسا کرتے ہوئے دیکھا تو انھوں نے بھی اپنے جوتے نکال ڈالے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز پڑھ چکے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا تم نے اپنے جوتے کیوں اتارے؟ لوگوں نے جواب دیا ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جوتے اتارتے ہوئے دیکھا تو ہم نے بھی اتار دیئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جبرائیل میرے پاس آئے اور بتایا کہ تمھارے جوتوں میں نجاست لگی ہے اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی مسجد میں آئے تو دیکھ لے۔ اگر جوتوں میں گندگی یا نجاست لگی ہو تو ان کو زمین پر رگڑ دے اس کے بعد (ان کو پہن کر) نماز پڑھے۔

اس حدیث میں‌ غورکریں کہ صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کو دیکھ کر عمل کیا اورجب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹوکا توفورا‌آپ کا حوالہ دے دیا کہ آپ نے ایسا کیا اس لئے ہم نے بھی ایسا کیا۔
معلوم ہوا کہ اگرزیربحث حدیث میں مسنون رفع الیدین پر صحابہ کرام کو ٹوکا گیا ہوتا تو صحابہ یہاں بھی فورآ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حوالہ دیتے ، اس سے ثابت ہوا کہ اس حدیث‌ میں مسنون رفع الیدین سے نہین روکا گیا ہے۔


ساتویں دلیل:


اس عمل کو سرکش گھوڑوں کی دم کی حرکت سے تشبہ دینا:
اس حدیث میں ممنوعہ رفع الیدین کوسرکش گھوڑوں کی دم کی حرکت سے تشبہ دی گئی ہے ، یہ اس بات کا ثبوت ہے کا اس کا تعلق ایسے عمل سے نہیں ہوسکتا جسے آپ نے کبھی بھی انجام دیاہو، اورمسنون رفع الیدین تو آپ کا عمل رہا ہے ، کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک پل کے لئے بھی ایسے عمل کوانجام دے سکتے جس کی اتنی بری مثال ہو؟؟؟



آٹھویں دلیل:


محدثین کا اجماع۔
محدثین کا اس بات پراجماع ہے کہ زیربحث روایت میں ممنوعہ رفع الیدین کا تعلق تشہد کے وقت ہے۔

1: امام نووی نے باب قائم کیا:
بَابُ الْأَمْرِ بِالسُّكُونِ فِي الصَّلَاةِ، وَالنَّهْيِ عَنِ الْإِشَارَةِ بِالْيَدِ، وَرَفْعِهَا عِنْدَ السَّلَامِ، وَإتْمَامِ الصُّفُوفِ الْأُوَلِ وَالتَّرَاصِّ فِيهَا وَالْأَمْرِ بِالِاجْتِمَاعِ صحيح مسلم (1/ 322)

2: امام ابوداؤد نے باب قائم کیا:
بَابٌ فِي السَّلَامِ سنن أبي داود (1/ 261)

3: امام نسائی نے باب قائم کیا:
بَابُ السَّلَامِ بِالْأَيْدِي فِي الصَّلَاةِ سنن النسائي (3/ 4)

4 :امام ابونعیم نے باب قائم کیا:
بَابُ الْكَرَاهِيَةِ أَنْ يَضْرِبَ الرَّجُلُ بِيَدَيْهِ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ فِي الصَّلاةِ المسند المستخرج على صحيح مسلم لأبي نعيم (2/ 53)

5: امام ابن حبان نے باب قائم کیا:
ذِكْرُ الْخَبَرِ الْمُقْتَضِي لِلَّفْظَةِ الْمُخْتَصَرَةِ الَّتِي تَقَدَّمَ ذِكْرُنَا لَهَا بِأَنَّ الْقَوْمَ إِنَّمَا أُمِرُوا بِالسُّكُونِ فِي الصَّلَاةِ عِنْدَ الْإِشَارَةِ بِالتَّسْلِيمِ دُونَ رَفْعِ الْيَدَيْنِ عِنْدَ الرُّكُوعِ صحيح ابن حبان (5/ 199)

6:امام ابن ابی شیبہ نے باب قائم کیا:
مَنْ كَرِهَ رَفْعَ الْيَدَيْنِ فِي الدُّعَاءِ مصنف ابن أبي شيبة (2/ 230)

7: امام ابن حجرنے فرمایا:
وَلَا دَلِيلَ فِيهِ عَلَى مَنْعِ الرَّفْعِ عَلَى الْهَيْئَةِ الْمَخْصُوصَةِ فِي الْمَوْضِعِ الْمَخْصُوصِ وَهُوَ الرُّكُوعُ وَالرَّفْعُ مِنْهُ لِأَنَّهُ مُخْتَصَرٌ مِنْ حَدِيثٍ طَوِيلٍ وَبَيَانُ ذَلِكَ أَنَّ مُسْلِمًا رَوَاهُ أَيْضًا مِنْ حَدِيثِ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ التلخيص الحبير ط العلمية (1/ 544)

8: امام نووی نے فرمایا:
وَأَمَّا حَدِيثُ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ فَاحْتِجَاجُهُمْ بِهِ مِنْ أَعْجَبِ الْأَشْيَاءِ وَأَقْبَحِ أَنْوَاعِ الْجَهَالَةِ بِالسُّنَّةِ لِأَنَّ الْحَدِيثَ لَمْ يَرِدْ فِي رَفْعِ الْأَيْدِي في الركوع والرفع منه لكنهم كَانُوا يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ فِي حَالَةِ السَّلَامِ مِنْ الصلاة ويشيرون بها الي الجانبين ويريدون بِذَلِكَ السَّلَامَ عَلَى مَنْ عَنْ الْجَانِبَيْنِ وَهَذَا لَا خِلَافَ فِيهِ بَيْنَ أَهْلِ الْحَدِيثِ وَمَنْ لَهُ أَدْنَى اخْتِلَاطٍ بِأَهْلِ الْحَدِيثِ وَيُبَيِّنُهُ أَنَّ مُسْلِمَ بْنَ الْحَجَّاجِ رَوَاهُ فِي صَحِيحِهِ مِنْ طَرِيقِينَ المجموع شرح المهذب (3/ 403)

9 : امام بخاری نے فرمایا:
وَأَمَّا احْتِجَاجُ بَعْضِ مَنْ لَا يَعْلَمُ بِحَدِيثِ وَكِيعٍ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنِ الْمُسَيَّبِ بْنِ رَافِعٍ عَنْ تَمِيمِ بْنِ طَرَفَةَ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: دَخَلَ عَلَيْنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَنَحْنُ رَافِعِي أَيْدِينَا فِي الصَّلَاةِ فَقَالَ: «مَا لِي أَرَاكُمْ رَافِعِي أَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمُسٍ؟ اسْكُنُوا فِي الصَّلَاةِ، فَإِنَّمَا كَانَ هَذَا فِي التَّشَهُّدِ لَا فِي الْقِيَامِ» كَانَ يُسَلِّمُ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ فَنَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ رَفْعِ الْأَيْدِي فِي التَّشَهُّدِ , وَلَا يَحْتَجُّ بِمِثْلِ هَذَا مَنْ لَهُ حَظٌّ مِنَ الْعِلْمِ، هَذَا مَعْرُوفٌ مَشْهُورٌ لَا اخْتِلَافَ فِيهِ , وَلَوْ كَانَ كَمَا ذَهَبَ إِلَيْهِ لَكَانَ رَفْعُ الْأَيْدِي فِي أَوَّلِ التَّكْبِيرَةِ , وَأَيْضًا تَكْبِيرَاتُ صَلَاةِ الْعِيدِ مَنْهِيًّا عَنْهَا؛ لِأَنَّهُ لَمْ يَسْتَثْنِ رَفْعًا دُونَ رَفْعٍ قرة العينين برفع اليدين في الصلاة (ص: 31)

10: امام ابن الملقن نے فرمایا:
(أما) الحَدِيث الأول، وَهُوَ حَدِيث (جَابر بن) سَمُرَة فجعْله مُعَارضا لما قدمْنَاهُ من أقبح الجهالات لسنة سيدنَا رَسُول الله - صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسلم -؛ لِأَنَّهُ لم يرد فِي رفع الْأَيْدِي فِي الرُّكُوع وَالرَّفْع مِنْهُ، وَإِنَّمَا كَانُوا يرفعون أَيْديهم فِي حَالَة السَّلَام من الصَّلَاة، ويشيرون بهَا إِلَى (الْجَانِبَيْنِ) يُرِيدُونَ بذلك السَّلَام عَلَى من (عَلَى) الْجَانِبَيْنِ، وَهَذَا لَا (اخْتِلَاف) فِيهِ بَين أهل الحَدِيث وَمن لَهُ أدنَى اخْتِلَاط بأَهْله، البدر المنير (3/ 485)

تلک عشرۃ کاملہ۔ مؤخرالذکرحوالوں میں عدم اختلاف یعنی اجماع کی صراحت ہے۔



نویں دلیل:


عموم مان لیں تو مسنون رفع الیدین کا استثناء ثابت ہے:
جس طرح اس حدیث‌ کے ہوتے ہوئے احناف تکبیرات عیدین میں اوروترمیں اورتکبیرتحریمہ میں دیگردلائل کی بنا پررفع الیدین کرتے ہیں اسی طرح مسنون رفع الیدین کے بھی دلائل موجود ہیں۔
امام بخاری فرماتے ہیں:
وَلَا يَحْتَجُّ بِمِثْلِ هَذَا مَنْ لَهُ حَظٌّ مِنَ الْعِلْمِ، هَذَا مَعْرُوفٌ مَشْهُورٌ لَا اخْتِلَافَ فِيهِ , وَلَوْ كَانَ كَمَا ذَهَبَ إِلَيْهِ لَكَانَ رَفْعُ الْأَيْدِي فِي أَوَّلِ التَّكْبِيرَةِ , وَأَيْضًا تَكْبِيرَاتُ صَلَاةِ الْعِيدِ مَنْهِيًّا عَنْهَا؛ لِأَنَّهُ لَمْ يَسْتَثْنِ رَفْعًا دُونَ رَفْعٍ قرة العينين برفع اليدين في الصلاة (ص: 31)



دسویں دلیل:


خود علمائے احناف کا اعتراف:

محمود حسن دیوبندی فرماتے ہیں:
’’باقی رہا اذناب خیل کی روایت سے جواب دینا بروئے انصاف درست نہیں ، کیونکہ وہ سلام کے بارے میں ہے، کہ صحابہ کرام فرماتے ہیں کہ ہم بوقت سلام نماز اشارہ بالید کرتے تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کومنع فرمادیا (الورد الشذی :ص: 65)

محمد تقی عثمانی فرماتے ہیں:
’’لیکن انصاف کی بات یہ ہے کہ اس حدیث سے حنفیہ کا استدلال مشتبہ اورکمزورہے۔۔۔(درس ترمذی: ج
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
تقلید اجتہادی امورمیں کی جاتی ہے اور جائز ہے ۔ عقائد میں تقلید ہے ہی نہیں۔
اعتراف سے کترانا کب تک!؟
آپ صاحبان سے اہل حدیث کا تضاد عقیدہ اور اصول پر هے ۔ یہی برصغیر کے احناف اور اہل حدیث کے درمیان حقیقی مسئلہ هے ۔
آپ کو واقعی یہ ثابت کرنا پڑیگا کہ اہل حدیث یا آپکے الفاظ میں لا مذہب یا انگریزوں کے بنائے هوئے فرقہ سے آپ احناف کا اختلاف هوا هے ان دو ڈهائی سو سالہ تاریخ میں اس برصغیر میں ۔ آپ کو اپنا یہ قول بهی ثابت کرنا هے کے دو ڈهائی سو سالہ تاریخ سے قبل نماز کی ادائیگی کے طریقے بالخصوص شافعیہ کے معمول کے مطابق رفع یدین اور بلند آمین سے احناف نے قتل نہیں کیئے ہیں ؟
جن باتوں پر قتل هوئے اگر اتنی معمولی هوتیں تو قتل هوتے ہی نا یہ رفع یدین اور آمین سے چڑنا چیز ہی ایسی هے کیونکہ ان سنتوں کی ادائیگی سے آج بهی شدید ترین چڑ هے !
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
مسنون طریقہ دعاء مانگنے کا نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر ہے جس سے غیر مقلدین کی اکثریت محروم کر دی گئی ہے۔
اجتماعی دعاء مسنون ہے اور اس کا ثبوت قرآن و حدیث میں موجود ہے۔
فرائض و سنن نماز کے بعد اجتماعی دعاء پر اختلاف موجود ہے اور میں اکیلے دعاء مانگنے کے حق میں ہوں اور ایسا ہی کرتا ہوں۔
میں کون!؟
آپ اس تهریڈ میں کیا خود کی ترجمانی کر رہے ہیں ؟
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
اجتہادی مسائل میں کسی کے بھی صحیح یا غلط ہونے کا امکان ہوتا ہے۔
فقہ حنفی ماہرین کی مشاورت سے مدون ہوئی اور بقیہ فقہاء کی انفرادی کوشش ہے۔ خطا کا امکان گو دونوں طرف ہے مگر شوریٰ میں اس کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔
اس قول کی سند درکار هے
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
یہ جھوٹ ہے۔ سنت رفع الیدین کے تمام اہل سنت والجمات قاعل فاعل ہیں۔ غیر مقلدین مسلم امہ سے وہ رفع الیدین کروانا چاہتے ہیں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف چھوڑا بلکہ اس کا اعادہ کرنے والے صحابہ کرام کو سختی سے ڈانٹا۔
سنن النسائي (3 / 4):
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْثَرٌ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ الْمُسَيَّبِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ تَمِيمِ بْنِ طَرَفَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ رَافِعُو أَيْدِينَا فِي الصَّلَاةِ فَقَالَ: «مَا بَالُهُمْ رَافِعِينَ أَيْدِيَهُمْ فِي الصَّلَاةِ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ، اسْكُنُوا فِي الصَّلَاةِ»
[حكم الألباني] صحيح
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (مسجد میں) آئے اور ہم لوگ نماز میں رفع الیدین کر رہے تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا ہے کہ میں تمہیں نماز میں شریر گھوڑوں کی دموں کی طرح رفع الیدین کرتے دیکھ رہا ہوں۔ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا کہ)نماز میں سکون سے رہو۔
یہ حدیث صحیح مسلم میں بھی ہے۔
اس پر آپ کو جوابات دلائل سے دئیے جاچکے ہیں ۔ غالبا آپ اس وقت عبدالرحمن بهٹی والی آئی ڈی یوز کرتے تهے ۔لنک دے دیا کریں ۔ کاپی پیسٹ سے بہتر هے تاکہ "قارئین" کو مکمل تهریڈ تک رہنمائی مل سکے !
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
یہ اتلاف صرف عصر کے وقت کی ابتدا میں ہے جو زمین کی ساخت کے سبب ہے۔
جہاں سورج بالکل سر پر سے گزرتا ہے وہاں یہ اختلاف ہے ہی نہیں بلکہ ہو ہی نہیں سکتا۔ اختلاف وہاں پیدا ہوتا ہے جہاں سورج جب ڈھلنا شروع ہوتا ہے تو اشیاء کچھ نہ کچھ سایہ رکھتی ہیں۔
ایک طبقہ اس سائے کے علاوہ کو شمار کرتا ہے دوسرا اس سمیت اختلاف کا سبب یہ ہے۔
ایسا بالکل نہیں هے ۔ توقیت میں فرق هے ۔ دراصل آپ صرف اپنی گلیوں چوباروں تک ہی واقفیت رکهتے ہیں ۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
ﺍﻋﺘﺮﺍﻑ ﺳﮯ ﮐﺘﺮﺍﻧﺎ ﮐﺐ ﺗﮏ!؟ﺁﭖ ﺻﺎﺣﺒﺎﻥ ﺳﮯ ﺍﮨﻞ ﺣﺪﯾﺚ ﮐﺎ ﺗﻀﺎﺩ ﻋﻘﯿﺪﮦ ﺍﻭﺭ ﺍﺻﻮﻝ ﭘﺮ ﻫﮯ - ﯾﮩﯽ ﺑﺮﺻﻐﯿﺮ ﮐﮯ ﺍﺣﻨﺎﻑ ﺍﻭﺭ ﺍﮨﻞ ﺣﺪﯾﺚ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﺣﻘﯿﻘﯽ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﻫﮯ - ﺁﭖ ﮐﻮ ﻭﺍﻗﻌﯽ ﯾﮧ ﺛﺎﺑﺖ ﮐﺮﻧﺎ ﭘﮍﯾﮕﺎ ﮐﮧ ﺍﮨﻞ ﺣﺪﯾﺚ ﯾﺎ ﺁﭘﮑﮯ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﻣﯿﮟ ﻻ‌ ﻣﺬﮨﺐ ﯾﺎ ﺍﻧﮕﺮﯾﺰﻭﮞ ﮐﮯ ﺑﻨﺎﺋﮯ ﻫﻮﺋﮯ ﻓﺮﻗﮧ ﺳﮯ ﺁﭖ ﺍﺣﻨﺎﻑ ﮐﺎ. نماز کی ادائیگی کے طریقوں پر ﺍﺧﺘﻼ‌ﻑ ﻫﻮﺍ ﻫﮯ ﺍﻥ ﺩﻭ ﮈﻫﺎﺋﯽ ﺳﻮ ﺳﺎﻟﮧ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺑﺮﺻﻐﯿﺮ ﻣﯿﮟ - ﺁﭖ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﯾﮧ ﻗﻮﻝ ﺑﻬﯽ ﺛﺎﺑﺖ ﮐﺮﻧﺎ ﻫﮯ ﮐﮯ ﺩﻭ ﮈﻫﺎﺋﯽ ﺳﻮ ﺳﺎﻟﮧ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺳﮯ ﻗﺒﻞ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﯽ ﺍﺩﺍﺋﯿﮕﯽ ﮐﮯ ﻃﺮﯾﻘﮯ ﺑﺎﻟﺨﺼﻮﺹ ﺷﺎﻓﻌﯿﮧ ﮐﮯ ﻣﻌﻤﻮﻝ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺭﻓﻊ ﯾﺪﯾﻦ ﺍﻭﺭ ﺑﻠﻨﺪ ﺁﻣﯿﻦ ﺳﮯ ﺍﺣﻨﺎﻑ ﻧﮯ ﻗﺘﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺌﮯ ﮨﯿﮟ ؟ﺟﻦ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﭘﺮ ﻗﺘﻞ ﻫﻮﺋﮯ ﺍﮔﺮ ﺍﺗﻨﯽ ﻣﻌﻤﻮﻟﯽ ﻫﻮﺗﯿﮟ ﺗﻮ ﻗﺘﻞ ﻫﻮﺗﮯ ﮨﯽ ﻧﺎ ﯾﮧ ﺭﻓﻊ ﯾﺪﯾﻦ ﺍﻭﺭ ﺁﻣﯿﻦ ﺳﮯ ﭼﮍﻧﺎ ﭼﯿﺰ ﮨﯽ ﺍﯾﺴﯽ ﻫﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﻥ ﺳﻨﺘﻮﮞ ﮐﯽ ﺍﺩﺍﺋﯿﮕﯽ ﺳﮯ ﺁﺝ ﺑﻬﯽ ﺷﺪﯾﺪ ﺗﺮﯾﻦ ﭼﮍ ﻫﮯ !

نوٹ: یہ مراسلہ تکرار نہیں بلکہ ایک جملہ میں جو بات لکهتے وقت غلطی سے چهوٹ گئی تهی اس کی تصحیح هے ۔
معذرت
 
Top