ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,378
- پوائنٹ
- 635
2۔ دوسرا یہاں ایک اہم نکتہ قابل وضاحت یہ ہے کہ وحی کے آنے کے بعد مذکورہ تین افراد کو قتل نہ کیا گیا اور ان پر محض قذف کی حد ہی نافذ کیوں کی گئی۔ اس سلسلے میں عرض ہے کہ تکنیکی اعتبار سے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر مذکورہ الزام براہ راست دین پر طعن و تشنیع یا خود رسالتمآب1 کی ذاتِ مبارکہ (جو منصب رسالت کی اَمین تھی) پر براہِ راست اِلزام نہ تھا۔ ہاں البتہ یہ بالواسطہ ضرور تھا۔ اَصل میں یہ معاملہ توہین عائشہ رضی اللہ عنہا کا تھا۔ وہ ایک عظیم صحابیہ اور اُم المومنین تھیں۔ مگر قتل کی سزا صرف توہین رسول پر ہے توہین صحابہ یا صحابیات کے معاملے میں تعزیر کا حکم ہے۔ سنن نسائی میں ابو برزہ الاسلمی کی روایت مذکور ہے کہ ایک شخص نے خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیق کو زبان سے اَذیت پہنچائی۔ حضرت ابوبکر صدیقاس شخص پر ناراض ہو رہے تھے۔ میں نے عرض کیاکہ کیا میں اس کی گردن ماروں؟ یہ سنتے ہی آپﷺ کا غصہ دور ہوگیا، آپﷺ نے فرمایا: نبیﷺکے بعد کسی شخص کا یہ مقام نہیں کہ اس کو گالیاں دینے والے کو قتل کیاجائے۔‘‘