• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وکیل شاتم رسو لﷺ

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس کے علاوہ چند اور وجوہات بھی تھیں جن کی بنا پر عکرمہ کو معافی کا مستحق ٹھہرایا گیا اور ان کا ذکر خود وحید الدین خان کی کتاب میں موجود ہے۔ وہ یہ تھیں:
1۔ عکرمہ کی بیوی ایمان لے آئی تھیں اور بحیثیت ِمسلمان کے انہوں نے اپنے کافر شوہر کی امان طلب کی تھی، جو عام اصول کے تحت انہیں دے دی گئی۔
2۔ عکرمہ نے سخت شرمساری کااظہا رکیا۔ان کے رویہ سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ خالص توبہ کرکے اسلام میں داخل ہو رہے ہیں۔ وحید الدین خان کی کتاب کا درج ذیل اقتباس ملاحظہ ہو:
’’اسلام قبول کرنے کے بعد عکرمہ نے رسول اللہﷺسے کہا: ’’میں آپ سے ایک چیز طلب کرنا چاہتا ہوں۔ آپﷺنے فرمایا تم طلب کرومیں تمہیں ضرور وہ چیز دوں گا۔ عکرمہ نے کہا: میری آپ سے درخواست ہے کہ ہر دشمنی جو میں نے آپ کے ساتھ کی ہے یا پھر وہ رکاوٹ جو میں نے آپ کے راستہ میں ڈالی ہے، ہر وہ لڑائی جو میں نے آپ کے خلاف لڑی ہے، ہر وہ بدکلامی جو میں نے آپ کے منہ پر کی ہے، آپ کے پس ِپشت کی ہے، ان سب کو آپ معاف کردیں اور ان کے بارے میں اللہ سے میرے لئے استغفار فرمائیں۔ رسول اللہﷺنے فوراً ہی ان کے حق میں یہ دعا فرمائی کہ اے اللہ !ہر وہ عداوت جو عکرمہ نے میرے ساتھ کی، ہر وہ سرگرمی جو انہوں نے اس ارادہ سے کی کہ تیرے نور کو بجھا دیں، ان سب کو تو ان کے لئے معاف کردے اور وہ سب کچھ جو انہوں نے میری بے آبروئی کے لئے کیا، خواہ میرے سامنے کیا ہو یا میرے پس پشت، ان سب کو تو ان سے معاف کردے۔‘‘ (ص:۱۵۹)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اب بتائیے اس طرح کی شرمساری اور ندامت کے ساتھ پیش ہونے والے ایک نوجوان بہادر سردار عکرمہ اور ملعون رُشدی میں کیا مماثلت ہے۔ جو اپنی حرامزدگی اور دریدہ دہنی پر شرمسار تو کجا، الٹا نخوت، ڈھٹائی اور سرکشی میں مبتلا ہے۔ دس سال گزرنے کے بعد آج تک اس نے ایک بھی حرف ِندامت اَدا نہیں کیا۔ عکرمہ تو خوش قسمت تھے کہ رسول اللہﷺ کی زندگی میں ان کو معافی مل گئی تھی۔ اگر وہ ایک دو سال اور معافی نہ طلب کرتے تو رسول اللہﷺ کے وِصال کے بعد حضرت ابوبکر صدیق﷜ یا کسی اورمسلمان نے انہیں ہر گز معافی نہیں دینی تھی۔ ملعون رُشدی جناب رسول اللہﷺ کا شاتم اور مجرم ہے اسے مسلمان معافی کیسے دے سکتے ہیں۔ وہ ایک بزدل، کمینہ، گھٹیا اور پوچ اِنسان ہے، اس کا موازنہ عکرمہ جیسے عسکری سپہ سالار سے کرنا وحید الدین خان کا حوصلہ ہی ہوسکتا ہے۔ جو ہر معاملے میں عقل پر مبنی و استدلال طلب کرنے کے عادی ہیں۔ عکرمہ کے واقعات سے جو انہوں نے نتیجہ اخذ کیا ہے اس پر خود علومِ منطق کو نوحہ خواں ہونا چاہئے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
5۔ طائف کے سفر کے دوران آپﷺ کو ملنے والی اذیت
وحید الدین خان نے رسول اکرمﷺکے طائف کے سفر کا ذکر تین صفحات میں پھیلایا ہے اور طائف کے سرداروں نے جو آپﷺکے ساتھ برا سلوک اور گستاخی کی اس کا مفصل تذکرہ کیا ہے اور پھر بتایا ہے کہ طائف کے قبیلہ بنو ثقیف سے ہی بعد میں لوگ اسلام لائے۔ بالخصوص محمد بن قاسم﷫ جس نے سندھ فتح کیا، و ہ بھی اسی قبیلہ سے تھا۔ اگر طائف کے روز آپﷺفرشتے کی پیش کش کو قبول کر لیتے تو اہل طائف کا نام و نشان مٹ جاتا۔ یہاں وحید الدین خان ’اگلی نسلوں تک انتظار‘ کی سرخی جماتے ہیں۔ (ص: ۱۵۶تا۱۵۸)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
طائف کا اَذیت ناک واقعہ آپﷺ کو اس وقت پیش آیا جب اسلام میں ابھی چند لوگ ہی داخل ہوئے تھے۔ یہ طائف کے لوگوں کی طرف سے اجتماعی گستاخی تھی۔ اگر آپ پسند کرتے تو فرشتہ کو اس قوم کو تباہ کرنے کی اِجازت دے کر ان کی گستاخی پر سبق سکھا سکتے تھے مگر اس میں یہ خدشہ تھا کہ مجرموں کے ساتھ بے قصور لو گ بھی پس جاتے۔ اجتماعی گستاخی اوراِنفرادی سب وشتم میں بہت فرق ہے۔ حضوراکرمﷺ کی حیات ِمبارکہ میں کسی بھی قوم یا قبیلے کو اجتماعی مخالفت، جارحیت یا گستاخی پر سزا نہیں دی گئی۔ جن جن واقعات میں گستاخانِ رسول کو قتل کیا گیا وہ انفرادی سب و شتم کے واقعات تھے۔ اور ایسے افراد مسلسل اس سب و شتم کا اِرتکاب کرتے رہے۔ طائف کے واقعہ اور رُشدی کے ہفوات میں قطعاً کوئی مماثلت نہیں ہے۔ رشدی اِنفرادی گستاخی کا مرتکب ہوا ہے اور اس کی کتاب کے مسلسل ایڈیشن کا چھپنا اسکی گستاخانہ حرکت کے تسلسل کو ظاہر کرتا ہے وہ ہر اعتبار سے شتم رسول کی سزا میں مو ت کا مستحق ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
6۔ رسول اکرم ﷺ کو اَبتر کہنا
العاص بن وائل قدیم مکہ کا ایک مشرک سردار تھا، وہ آپﷺ کو اَبتر یعنی لاوارث ہونے کا طعنہ دیتا تھا، کیونکہ آپﷺ کی نرینہ اَولاد کوئی نہیں تھی۔ وہ لوگوں سے کہتا کہ انہیں چھوڑو وہ تو ایک اَبترشخص ہیں ان کے بعد ان کا کوئی وارث نہیں۔ جب وہ ختم ہوں گے تو ان کا ذکر بھی ختم ہوجائے گا۔وحید الدین خان اس پر تبصرہ کرتے ہیں:
’’یہ واضح طور پر شتم رسول کا واقعہ تھا۔ اب اس کا جواب یہ نہیں تھا کہ عاص بن وائل اور اسی طرح کے دوسرے لوگوں کو قتل کر دیا جائے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
عاص بن وائل ایک کافر شخص تھا اور اس نے جس وقت یہ بات کی تھی وہ رسول اکرمﷺکی زندگی کا مکی دور تھا۔ ابھی اسلامی نظام قائم نہیں ہوا تھا۔ لوگوں پر اسلام کی تعلیمات کی عظمت بھی واضح نہیں ہوئی تھی۔ بھلا چودہ سو سال کے بعد کے رشدانی ہفوات اور حضور اکرمﷺ کی نبوت کے پہلے چند سال کے واقعات کو برابر قرار دے کر شتمِ رسول کی سزا کی مخالفت کرنا پرلے درجہ کی مضحکہ خیز منطق نہیں تو اور کیاہے۔ پھر اَبتر اور رُشدی کی ہفوات کا موازنہ کیسے کیا جاسکتاہے۔معلوم ہوتا ہے کہ وحید الدین خان کو یا تو مسئلہ زیر ِ غور کی سنگینی اور شدت کا احساس نہیں یا پھر جان بوجھ کر وہ سوئے تاویل سے کام لے کر اس معاملے میں گمراہ کرنے کے مشن پر نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ انہوں نے فرض کر رکھا ہے کہ وہ لو گ جو سلمان رُشدی کے قتل کا مطالبہ کر رہے ہیں، وہ رسول اکرمﷺ کی شخصیت کی رحم دلی اور عفو و درگزر پر یقین نہیں رکھتے۔ اسی لئے وہ ایسے واقعات کا انبوہِ کثیر جمع کرچکے ہیں جن کا رُشدی کے معاملہ سے قطعاً کوئی تعلق نہیں ہے۔ اب وہ معمولی معمولی باتیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر بے حد وَاہیات طریقے سے استدلال کرتے ہیں کہ دیکھیں کہ فلاں نے یہ کہا، فلاں نے یہ کہا مگر اس کو قتل نہیں کیا گیا۔ ہم ایک بار پھر دہراتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے اپنی حکمت ِبالغہ کے پیش نظر بعض اَفراد کو معاف کردیا تھا اور بعض کو معاف نہ کیا۔ جن کومعاف کیا، ان میں سے ایک کی بھی گستاخی اس درجہ میں نہیں تھی جیسا کہ سلمان رُشدی کی ہفواتی گستاخیاں، لیکن جنہیں قتل کی سزا دی گئی وہ تمام کے تمام اس قبیل کے گستاخ تھے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حضور اکرمﷺکی معاف کر دینے کی مصلحت
رسول اللہﷺنے فتح مکہ کے موقع پر عام معافی کے باوجود پندرہ اَشخاص کو اس معافی سے مستثنیٰ فرمایا۔ ان میں سے بعض کو معافی عطا کی گئی اور وہ اسلام لے آئے۔ ان کی اکثریت ایسے لوگوں کی تھی جو سنگین توہین رسالت کے مرتکب ہوئے تھے۔ ان بدبخت لوگوں میں ایک عبداللہ ابن خطل تھا جسے حرمِ مکہ میں حجراَسود اور مقامِ ابراہیم کے درمیان قتل کیا گیا۔ کعب بن زہیر، عبداللہ بن الزبعریٰ اور ہبیرہ بن اَبی وَہب مکہ سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ یہ تمام گستاخ شعراء تھے جو حضور اکرمﷺکی ہجو میں شعر کہا کرتے تھے۔ ان میں کعب بن زہیر کچھ عرصہ بعد مدینہ آئے اور آپؐ سے معافی کی درخواست کی جو قبول کر لی گئی اور وہ اسلام لے آیا۔ حضورِ اکرمﷺکے پیش نظر اپنی ذات کے متعلق گستاخی کا اِرتکاب کرنے والوں کو معاف کر دینے کی مصلحت یا اصول کیا تھا۔اس پر امام ابن تیمیہ﷫ کا یہ تجزیہ راہنمائی فراہم کرتا ہے:
’’جب آپﷺ کا حق درمیان میں حائل ہوتا تو آپﷺ کو اختیار ہوتا کہ معاف فرما دیں یا بدلہ لیں۔ ایسے حالات میں آپﷺعموماً معاف فرما دیتے۔ اگر مصلحت قتل میں دیکھتے تو مجرم کو قتل کرنے کا حکم دیتے۔ جن اُمور میں آپﷺ کاکوئی حق نہ ہوتا، زنا، چوری یا کسی اور ظلم کا معاملہ، تو اس کی سزا دینا آپ پر واجب ہوتا۔ صحابہ کرام﷢ جب دیکھتے کہ کوئی شخص آپﷺ کو اِیذا دے رہا ہے تو اس کو قتل کرنے کاارادہ کرتے، اس لئے کہ وہ جانتے تھے کہ یہ قتل کا مستحق ہے مگر آپﷺ اسے معاف فرما دیتے اور صحابہ﷢ کو بتاتے کہ اسے معاف کر دینا ہی قرین مصلحت ہے۔ ساتھ ہی اسے یہ بھی واضح کرتے کہ اسے قتل کرنا بھی جائز ہے۔ اور آپﷺ کے معاف کرنے سے قبل کوئی شخص اسے قتل کر ڈالتا تو آپﷺ اسے تعرض نہ فرماتے ،یہ جانتے ہوئے کہ اس نے یہ انتقام اللہ اور اس کے رسولﷺ کے لئے لیا ہے۔ لہٰذا اس کی مدح و ستائش فرماتے جس طرح حضرت عمر﷜ نے اس شخص کو قتل کردیا تھا جو آپﷺکے فیصلے پر راضی نہ تھا۔ جب رسول کریمﷺ کی وفات کی وجہ سے مجرم کو معاف کرنے کا امکان باقی نہ رہا تو پھر یہ اللہ کے رسولﷺ اور مؤمنین کا حق ہوگا اور کوئی اسے معاف نہ کر سکے گا لہٰذا اس کو نافذ کرنا واجب ہوگا۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
پوائنٹس
1۔ معروف فقہا اور محدثین نے سنت کی تعریف میں ’تقریر‘ کو بھی شامل فرمایاہے۔ ’تقریر‘ کا عام مفہوم یہ ہے کہ رسول اکرمﷺنے کوئی عمل دیکھا یا کوئی بات ان کے نوٹس میں لائی گئی اور آپﷺنے اس پر سکوت فرمایا۔ گویا آپﷺکاسکوت فرمانا ہی آپ کی طرف سے اس عمل کی بالواسطہ منظوری اور تائید تھی۔ شتمِ رسول کے متعدد واقعات میں گستاخانِ رسول کو آپ کی موجودگی میں قتل کیا گیا۔ آپﷺنے ان کے قتل کو ’مباح الدم ‘ قرار دیا اور ایسے اَفراد کو دیت یا قصاص کامستوجب قرار نہیں دیا۔ جو ایک اسلام کا عام ضابطہ ہے۔ آپﷺ کا ان واقعات میں ’مباح الدم‘ قرار دینا ہی کیا شاتم رسول کے قتل کا جواز مہیا نہیں کرتا؟ اگر قرآن و حدیث میں واضح طور پر ’اس کو قتل کرنے دو‘ کے الفاظ نہیں ہیں تو اس سے یہ نتیجہ عقلی استدلال کے زور پر نکالنا کہ شتم رسول کے لئے قطعاً موت کی سزانہیں ایک انتہائی غیر عقلی بات ہوگی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
2۔ شاتم رسول کی سزائے موت سے اِنکار براہ ِراست توہین رسالت پر بھی منتج ہوگا۔ وہ اس لئے کہ اگر اسلام میں اس جرم کی سزا موت نہیں تھی تو حضورِ اکرمﷺنے نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ۔ ایسے واقعات کے مقتولین کو مباح الدم قرار دے کر گویا عدل کے تقاضوں کوپورا نہیں فرمایا۔ اور آپؐ کی حیثیت نعوذ باللہ ایک ’غیر عادل‘ نبی کی تھی کہ جس نے اپنے رفقا کو ایک ناجائز قتل پر سزا دینے کی بجائے اُلٹا ان کی تائید کی اور سکوت فرمایا، کیا کوئی شخص جو رسول اکرمﷺ کے متعلق یہ تصور رکھتا ہو وہ مسلمان اور مؤمن کہلاسکتاہے؟ یقینا نہیں۔ مولانا وحید الدین خان شاتم رسول کی سزا سے قطعی انکار کرنے کے بعد مذکورہ توہین رسالت کے مرتکب بھی ہوتے ہیں۔ علماء کرام کووحید الدین خان کے مسلمان رہنے یا نہ رہنے کے بارے میں عوام الناس کو شریعت کی روشنی میں ضرور راہنمائی کرنی چاہئے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
5۔ وحید الدین خان نے سیرت ِنبویﷺسے ایسے واقعات ڈھونڈ نکالنے پر سارا زور ِتحقیق صرف کیاہے جن میں بوجوہ گستاخانِ رسول کو قتل نہیں کیا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عبداللہ ابن اُبی جیسے بعض گستاخانِ رسول جو قتل کئے جانے کے مستحق تھے، ان کی گستاخیاں اس سزا کے جواز کو کافی تھیں، مگر ان افراد کو ملنے والی معافی شتم رسول کی سزائے موت سے قطعی اِنکار کے لئے جواز نہیں بنائی جاسکتی۔ اس کے لئے دلائل درج ذیل ہیں:
(i) اِزالہ ٔ حیثیت ِعرفی کے مقدمات میں آج بھی یورپ کی عدالتیں کروڑوں روپے کے معاوضے مدعی کو دلاتی ہیں۔ اگر مدعی خود ہی اس جرمانے کو معاف کر دے تو اس کا ایک مقدمہ میں یہ جرمانہ معاف کردینا دوسرے مقدمات کے لئے ’عام معافی‘ کے جواز کے طور پر پیش نہیں کیا جاسکتا۔ رسول اکرمﷺنے بعض اجتماعی اور عظیم مصلحتوں کی بناپر اگر چند ایک ایسے گستاخان کو معاف کردیا تو یہ ان کا ذاتی استحقاق تھا۔ جو انہوں نے منتخب طور پر استعمال کیا۔ یہ ’عامی معافی‘ کاپروانہ ہرگز نہیں تھا ورنہ وہ خود اپنی موجودگی اپنے گستاخان کے قتل کی تائید نہ فرماتے۔اور ایک دفعہ تو انہوں نے سخت ذہنی کرب سے دو چار ہو کر خود ہی ارشاد فرمایا: ’’کوئی ہے جو مجھے میرے دشمن سے بچائے‘‘ تو اسی وقت ایک صحابی نے آگے بڑھ کر آپﷺ کی توہین کرنے والے کی گردن اُڑا دی۔ گویا یہ آپﷺکے حکم کی تعمیل تھی۔
 
Top