• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وکیل شاتم رسو لﷺ

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
یہاں مولانا وحید الدین خان کے فکری تضادات اور دوہرے معیارات کاپول کھولنا بھی مفید معلوم ہوتا ہے۔ موصوف ’شتم رسول کا مسئلہ‘ میں لکھتے ہیں: ’’ناگوار باتوں پر مشتعل ہوجانے کی اس فہرست میں سب سے نمایاں چیز وہ ہے جس کو ’ناموسِ رسول پر حملہ‘ یا رسول کی شان میں گستاخی جیسے جذباتی الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے‘‘۔ اور کہتے ہیں اس کا ’’اسلام تو درکنار عقل و ہوش سے بھی دور کا تعلق نہیں ہے‘‘ مگر اپنے ماہنامہ الرسالۃ کے جون ۱۹۹۹ء کے شمارے میں جماعت اسلامی ہندوستان کے سینئر رکن مولانا جمیل احمد صاحب کے خط کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’آپ نے میرے بارے میں غضب (غصہ) کی شکایت کی ہے اور یہ اشارہ فرمایا ہے کہ آپ اپنی تحریروں میں سکینت اور روحانیت کا اظہار کرتے ہیں مگر آپ کے اندر میں نے غضب کاجذبہ پایاہے اور غضب اور روحانیت کا ایک ساتھ جمع ہونا ممکن نہیں ہے۔ میں عرض کروں گا کہ آپ کی یہ بات درست نہیں ہے۔حقیقت یہ ہے کہ روحانی آدمی کے اندر غضب نہ ہونے کا تصور ایک غیر اسلامی تصور ہے وہ کوئی اسلامی تصور نہیں۔ اس معاملہ میں صحیح اسلامی تصور یہ ہے کہ آدمی کا غضب صرف حق کے لئے ہو وہ اپنی ذات کے لئے نہ ہو، ا س کی تائید میں یہاں میں چند حوالے نقل کرتا ہوں:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
’’حضرت موسیٰ خدا کے پیغمبر تھے مگر قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان پر غضب کی حالت طاری ہوئی (الأعراف :۱۵۰) اسی طرح اگر آپ حدیث کی کتابوں کو دیکھیں تو اس میں کثرت سے رسولﷺ اور اصحاب ِرسول کے غضب کاذکر ملے گا۔ اس سلسلہ میں بطور ِنمونہ صرف چند مثالیں یہاں نقل کی جاتی ہیں:
’’فَغَضِبَ رسول اﷲ حتی عرف الغضب فی وجھہ‘‘…(صحیح مسلم،کتاب الفضائل)
’’فغضب رسول اﷲ غضبا شدیدا‘‘…(صحیح البخاری،کتاب الاذان)
’’فغضب أبوبکر‘‘…(صحیح البخاری،کتاب الادب)
’’فغضب عمر ‘‘ …(صحیح البخاری،کتاب الادب)
’’فغضب علیّ حتی أحمر وجھہ ‘‘… (النسائي،کتاب الضحایا)
’’فقالت عائشۃ و غضبت‘‘… (مسند أحمد،ص،۳۷،۳۸)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
کوئی صاحب ِعقل و دانش یقین نہیں کرے گا کہ یہ دو اقتباسات کسی ایک مصنف کے ہیں۔ مگر جو وحید الدین خان کے فکری انتشار، ذہنی خلفشار اور دوہرے معیارات سے بخوبی واقف ہیں، انہیں اس پر کوئی حیرت نہیں ہوگی۔ وحید الدین خان صاحب سوئے تاویل کے فن میں یکتا ہیں وہ ایک اونچے درجے کے گھاڑو ہیں۔ اپنی ذات میں غضب کی صفت کے دفاع کے لئے کس طرح قرآن و کتب ِ احادیث سے دلائل کے اَنبار لگا دیتے ہیں۔ یہاں بتا رہے ہیں کہ ایک روحانی آدمی کے اندر غضب نہ ہونے کا تصور ایک غیر اسلامی تصور ہے۔ مگر اس کائنات کی عظیم ترین ہستی کی توہین پر اگر ایک مسلمان غضب کا مظاہرہ کرتا ہے تو یہی سوئے تاویل کا بادشاہ مصنف اسے ’ناگوار باتوں کی فہرست میں سب سے نمایاں چیز‘ بناکر دکھاتا ہے۔ مولانا وحید الدین خان جو اپنے آپ کو ’عقل مجسم‘ اور اپنی ہر تاویل کو ایک ’علمی دلیل‘ کہنے پر اصرار کرتے ہیں، وہ اس فکری تضاد کے متعلق کیا ارشاد فرمائیں گے؟ ان کی دونوں باتوں میں سے ایک بات تو یقیناغلط ہے۔ اب وہ خود ہی بتائیں کہ اول الذکر بات درست ہے یا مؤخر الذکر۔ ان کے اپنے فکری تضادات نے انہیں برصغیر پاک و ہند کا سب سے بڑا متنازعہ فیہ اور تناقض فکر میں مبتلا ’اسلامی سکالر‘ بنا دیا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
6۔ مولانا وحید الدین خان مسلمانوں کو جس ’صبر اور اعراض‘ کی تلقین فرما رہے ہیں وہ بے غیرتی اور بے حمیتی کے زمرے میں آتی ہے۔ اگر وہ ہندوستان میں مسلمانوں کی کمزور پوزیشن کے نتیجہ میں اس اخلاقی بزدلی کا شکار ہوگئے ہیں تو انہیں اس بزدلی میں مسلمانوں کو شریک ہونے کی دعوت نہیں دینی چاہئے۔ یہ ان کے ارادہ کی پستی ہے جو انہیں دوسری اقوام سے متحارب ہونے نہیں دیتیـ۔ اور وہ بے حد بے شرمی سے اسے ’رسولؐ اور اصحاب ِرسول کا طریقہ‘ بھی بتلاتے ہیں۔ یہ محض ان پر الزام تراشی ہے۔ رسولِ اکرمؐ کے صحابہ کایہ طرز ِعمل ہرگز نہیں تھا۔ یہ جو انہوں نے مسلمانوں اور غیر اقوام میں ’داعی اور مدعو‘ کا تصور پیش کیا ہے یہ ان کا خانہ زاد تصور ہے۔ اسلام کے تصور ِدعوت میں ’جہاد‘بھی ایک مستقل عمل ہے اور جہاد تصادم اور تحارب کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ مسلمانوں کا جہاد بذات ِخود ایک دعوت ہے۔ مولانا وحید الدین خان کی سوچ پر اگر ہندوستان کے مسلمان عمل کرنا شروع کردیں تو دو چار نسلوں کے بعد ان کی حالت وہی ہوگی جو سپین کے مسلمانوں کی ہوئی تھی۔ وہ مسلمانوں میں بزدلی،بے غیرتی اوربے حمیتی کو پروان چڑھانا چاہتے ہیں جومسلمانوں کے تشخص اور وجود کے لئے سم قاتل ہوگی۔ وحید الدین خان نے فرض کر رکھا ہے کہ اگر مسلمان دوسری اَقوام کے خلاف عسکری جدوجہد نہیں کریں گے تو وہ خود بخود دائرہ اسلام میں شامل ہوجائیں گی۔ انہیں اس بات کی ہرگز پرواہ نہیں ہے کہ اگر مسلمان جدوجہد نہ بھی کریں تو دشمنانِ اسلام کی ریشہ دوانیاں خود بخود ختم نہیں ہوجائیں گی۔ ہندوستان کے مسلمانوں نے آخر اکثریتی فرقہ کے خلاف کتنی جارحانہ کارروائیاں کی ہیں۔ انہوں نے عام طور پر صبر کامظاہرہ کیاہے۔ مگر اس کا نتیجہ کیا سامنے آیا ہے۔ مسلمانوں کی تاریخی بابری مسجد کو ہندو جنونیوں نے مسمار کردیا۔ ہندو راہنما بال ٹھاکرے مسلمانوں کو بھارت چھوڑ کر نکل جانے کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ وہ ا نہیں ہندو بنانا چاہتا ہے۔ ایسے حالات میں وحید الدین خان صاحب کا نسخہ تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔ اب تو عزیمت ، جرأت اور جارحانہ پیش قدمی کی ضرورت ہے۔ یہی وہ ہتھیار ہیں جن سے مسلح ہو کر وہ اَقلیت کے باوجود اَکثریت کی مخالفانہ کاروائیوں کا سامنا کرسکتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
7۔ گذشتہ دس سالوں کے دوران پیش آمدہ واقعات اور مجرد حقائق نے مولانا وحید الدین خان کے خدشات و مفروضات کو بے جا اور ان کی سوچ کو غلط اور گمراہ کن ثابت کیا ہے۔سلمان رُشدی ملعون کے خلاف احتجاج نے امریکہ، یورپ میں دعوت ِاسلام کے اِمکانات کو ختم نہیں کیا۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان دس سالوں کے درمیان امریکہ و یورپ میں جس قدر خواتین و حضرات نے اسلام قبول کیا ہے، وہ تعداد بیسیویں صدی کے دیگر نو عشروں کی اجتماعی تعداد سے بھی زیادہ ہے۔ اسلام تیزی سے یورپ و امریکہ میں پھیل رہا ہے۔ فرانس میں اسلام دوسرا بڑا مذہب بن چکا ہے۔بالخصوص یورپ وامریکہ کی خواتین اسلام کے آفاقی پیغام سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر رہی ہیں۔ مگر وحید الدین خان کا اُسلوب ِدعوت کوئی نتائج دینے میں ناکام رہا ہے۔ وہ گذشتہ سالوں میں راشٹر یہ سیوک سنگھ کے جلسوں میں شریک ہوتے رہے ہیں اور ایک بھی ہندو کو اب تک مسلمان نہیں کرسکے۔ تو پھر اس دعوت کا فائدہ اور مقصد کیاہے۔ وحید خانی روحانیت محض ایک فراڈ، ڈھونگ اور ایک اَفیون ہے، اس کا اسلام کی تعلیمات سے محض نام کی حد تک تعلق ہے۔ وحید خانی فکر ایک ایساتار ِعنکبوت ہے جس میں کمزور سے کمزور مکھی کو بھی پھانسنے کی طاقت نہیں ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
وحید الدین خان نے قلمی بداحتیاطی یہ کی ہے کہ خنزیر رُشدی کے ہفواتی ناول کے ان حصوں کو بھی ہوبہو نقل کردیا ہے کہ جن کا زبان پر لانا تو کجا، ایک مسلمان کے لئے تصور میں لانا بھی ایک اَذیت ناک تجربے سے کم نہیں ہوتا اور ایسے الفاظ کو ’نقل کفر کفر نہ باشد‘ کی تاویل کا سہارا لے کر بھی نقل کرنا دشوار ہوتا ہے۔ راقم الحروف نے بارہا اس بات پر غور کیا ہے کہ ان الفاظ کو اپنے مضمون میں نقل کرے یا نہیں۔ ہر بار دل کانپ اٹھتا تھا اور قلم کی زبان پر لرزش اور لکنت طاری ہو جاتی تھی۔ مگر جب وحید الدین خان کے بعد کے آنے والے اَبواب پر غور کرتا تو پھرایک ذہنی کشمکش سے دوچار ہونا پڑتا۔ وحید الدین خان نے صفحات کے صفحات یہ دکھانے کے لئے رقم کئے ہیں کہ ملعون رُشدی کی گستاخی بھی ویسے ہی ہے جیسا کہ رسول اکرمﷺ کے زمانہ میں یا بعد میں بعض گستاخانِ رسول کی گستاخیاں تھیں۔ اس کے خیال میں جس طرح قریش مکہ کی گستاخیوں کو رسول اکرمﷺنے معاف فرما دیا تھا، بالکل اسی طرح دورِ جدید کے مسلمانوں کو رشدی کے ساتھ اعراض کا برتائو کرنا چاہئے۔راقم کے نزدیک وحید الدین خان کی کتاب کا سب سے قابل اعتراض اور مردود پہلو یہی ہے۔ وہ عام قاری کے ذہن کو منتشر کرکے اسے رُشدی کے خلاف سکوت اِختیار کرنے کے لئے تیار کرنا چاہتے ہیں۔ وحید الدین خان نے رشدی کی کتاب سے یہ الفاظ نقل کرتے ہوئے اپنے بھونڈے اُصول کی بھی خود خلاف ورزی کی ہے۔ وہ اپنی کتاب میں متعدد مرتبہ یہ لکھ چکے ہیں کہ اگر مسلمان رُشدی کی ہفوات کے خلاف احتجاج نہ کرتے تو کوئی بھی اس کو نہ پڑھتا اور نہ ہی کسی کو علم ہوتا کہ اس نے کیا گستاخی کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’’سلمان رشدی نے اپنے بے ہودہ خیالات صرف اپنی کتاب میں لکھے تھے مگر مسلمانوں کے شوروغل کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کی باتیں تمام دنیا کے اَخبارات و رسائل میں چھپیں‘‘(ص: ۱۳۷) مگر وہ اپنے اصول پر خود قائم نہ رہ سکے۔ اپنی تائید میں انہوں نے پاکستان کی سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کا یہ بیان بھی درج کیا ہے:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
’’توہین عقیدہ کو دہرانا بھی ویسا ہی گناہ ہے جیسا بجائے خود توہین کرنا۔ انہوں نے کہا کہ اس بات کے مد ِنظر میرے خیال سے بنیاد پرست مذہبی لوگ بھی رُشدی کے ناول اور اس کے قابل اعتراض موضوعات کی تشہیر کرکے اسی گناہ کا اِرتکاب کر رہے ہیں جس کا ارتکاب رشدی نے کیا ہے۔‘‘( ص: ۹۹)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
مگر خاموشی، اعراض اور نظر اَنداز کرنے کی تبلیغ کرنے والا مصنف خود ہی ان حصوں کو نقل کرکے اپنے وضع کردہ معیار کے مطابق ’گناہ‘ کا مرتکب ہوا ہے۔ اُردو دان طبقہ جس نے ملعون رشدی کی کتاب کو براہِ راست نہیں پڑھا تھا، اب وحید الدین خان کی کتاب کو پڑھنے کے بعد ان گستاخانہ الفاظ سے واقف ہوگیا ہے۔
راقم الحروف نے تہیہ کیا تھا کہ وحید الدین خان کی کتاب سے وہ اِقتباسات نقل نہ کرے مگر وحید الدین خان کی قلمی بدعنوانی اور رشدی کی گستاخی کی سنگینی اور شدت کو واضح کرنے کے لئے مجبوراً دل پر ہاتھ رکھ کر ان الفاظ کونقل کرنے پر مجبور ہوا ہے۔ اے دلوں کے حال جاننے والے رب! مجھے اس ’نقل کفر‘ کے گناہ سے معاف فرما۔ تو جانتا ہے کہ ان کو نقل کرنا میرے لئے کس قدر کربناک ہے!
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
اسم محمدﷺ کی جگر پاش اِہانت
سگ ِمغرب، ملعون رشدی نے وجۂ تخلیق کائنات، امام الانبیاء حضرت محمدﷺکے مقدس، منزہ و مبارک نام کے متعلق کیا اَنگارے برسائے ہیں؟ وحید الدین خان کے الفاظ میں:
’’مصنف نے کتاب کا نام (شیطانی کلام) بطورِ خود اس کے اساسی کردار ’محائونڈ‘(Mahound)کی نسبت سے استعمال کیا ہے جوکہ نعوذ باللہ حضرت محمدﷺکے نام کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔‘‘( ص: ۳۸)
’’سلمان رشدی نے اپنی کتاب میں رسول اللہ ا کے لئے ایک توہین آمیز نام محاونڈ (Mahound)کااستعمال کیا ہے۔ یہ نام بلاشبہ اشتعال انگیز حد تک لغو ہے۔ انگریزی میں ہائونڈ کا لفظ کتے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔"Ma" انگریزی لفظ مائی "My"کا مخفف ہے۔ اس طرح محائونڈ کا دوسرا مطلب (نعوذ باللہ، نقل کفر کفر نہ باشد) ہے: ’میرا کتا‘ (ص: ۳۶)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
خدائے بزرگ و برتر اس خنزیر رشدی کو دین و دنیا میں رسوا کرے اور اس پر آسمان کے ستاروں اور ریت کے ذروں برابر لعنتیں برسیں جس نے اپنی مکروہ خنزیری تھوتھنی سے یہ الفاظ کائنات کی پاکیزہ ترین ہستی کے لئے استعمال کئے مگر وحید الدین خان نے اس کی سخت ترین مذمت کرنے کی بجائے اس کے وکیل صفائی کا فریضہ انجام دے کر مسلمانوں کے دلوں پر یوں خنجر چلائے ہیں:
’’پیغمبر اسلام کے لئے یہ بے ہودہ نام سلمان رشدی کی ذاتی ایجاد نہیں ہے۔ یہ صلیبی جنگوں (۱۰۹۶ـ تا۱۲۷۱) کے بعد یورپ میں گھڑا گیا۔ یورپ کی مسیحی قومیں جب دو سالہ صلیبی جنگ میں مسلمانوں کے مقابلہ میں ناکام ہوگئیں تو انہوں نے اسلام اور پیغمبر اسلام کو بدنام کرنے کے لئے بہت سی پست حرکتیں کیں۔ ان میں سے ایک یہ تھا کہ انہوں نے آپﷺکے نام کو طرح طرح سے بگاڑا۔ ایک بگڑا ہوا نام یہ لفظ (Mahound) ہے۔ مگر پچھلے سات سو سال کے اندر اس گستاخی کی بنیاد پر کسی کو بھی قتل کی سزا نہیں دی گئی اور نہ اس قسم کا فتویٰ جاری کیا گیا۔‘‘
’’سلمان رشدی نے پیغمبر اسلامؐ کے لئے جو گستاخانہ نام ’محاونڈ‘ استعمال کیا ہے وہ صلیبی جنگوں کے بعد کے دور میں یورپ میں وضع کیا گیا۔ مگر اس وقت کے علمائِ اسلام نے یہ فتویٰ نہیں دیا کہ جن لوگوں نے یہ گستاخانہ نام وضع کیا ہے۔ انہیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر قتل کردیا جائے۔‘‘(ص: ۳۶)
 
Top