ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
یہاں مولانا وحید الدین خان کے فکری تضادات اور دوہرے معیارات کاپول کھولنا بھی مفید معلوم ہوتا ہے۔ موصوف ’شتم رسول کا مسئلہ‘ میں لکھتے ہیں: ’’ناگوار باتوں پر مشتعل ہوجانے کی اس فہرست میں سب سے نمایاں چیز وہ ہے جس کو ’ناموسِ رسول پر حملہ‘ یا رسول کی شان میں گستاخی جیسے جذباتی الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے‘‘۔ اور کہتے ہیں اس کا ’’اسلام تو درکنار عقل و ہوش سے بھی دور کا تعلق نہیں ہے‘‘ مگر اپنے ماہنامہ الرسالۃ کے جون ۱۹۹۹ء کے شمارے میں جماعت اسلامی ہندوستان کے سینئر رکن مولانا جمیل احمد صاحب کے خط کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’آپ نے میرے بارے میں غضب (غصہ) کی شکایت کی ہے اور یہ اشارہ فرمایا ہے کہ آپ اپنی تحریروں میں سکینت اور روحانیت کا اظہار کرتے ہیں مگر آپ کے اندر میں نے غضب کاجذبہ پایاہے اور غضب اور روحانیت کا ایک ساتھ جمع ہونا ممکن نہیں ہے۔ میں عرض کروں گا کہ آپ کی یہ بات درست نہیں ہے۔حقیقت یہ ہے کہ روحانی آدمی کے اندر غضب نہ ہونے کا تصور ایک غیر اسلامی تصور ہے وہ کوئی اسلامی تصور نہیں۔ اس معاملہ میں صحیح اسلامی تصور یہ ہے کہ آدمی کا غضب صرف حق کے لئے ہو وہ اپنی ذات کے لئے نہ ہو، ا س کی تائید میں یہاں میں چند حوالے نقل کرتا ہوں:
’’آپ نے میرے بارے میں غضب (غصہ) کی شکایت کی ہے اور یہ اشارہ فرمایا ہے کہ آپ اپنی تحریروں میں سکینت اور روحانیت کا اظہار کرتے ہیں مگر آپ کے اندر میں نے غضب کاجذبہ پایاہے اور غضب اور روحانیت کا ایک ساتھ جمع ہونا ممکن نہیں ہے۔ میں عرض کروں گا کہ آپ کی یہ بات درست نہیں ہے۔حقیقت یہ ہے کہ روحانی آدمی کے اندر غضب نہ ہونے کا تصور ایک غیر اسلامی تصور ہے وہ کوئی اسلامی تصور نہیں۔ اس معاملہ میں صحیح اسلامی تصور یہ ہے کہ آدمی کا غضب صرف حق کے لئے ہو وہ اپنی ذات کے لئے نہ ہو، ا س کی تائید میں یہاں میں چند حوالے نقل کرتا ہوں: