• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وہابیوں سے ایک نہایت ہی سادہ سوال۔۔۔۔؟

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
مطالبہ مستند حوالہ کا ہوا ہے محض کسی کتاب سے کوئی بات نقل کردینا مستند نہیں ہے۔
ہمارامطالبہ تب پورا ہوگیا جب صحیح سند سے ہمارے اصل سوال کا جواب فراہم کردیں۔

بالفاظ دیگر پیش کردہ بات کی سند صحیح ہونی چاہئے ۔
اور بات موضوع سے متعلق ہونی چاہئے۔
اسد الغابہ غیر معتبر کتاب ہے یہ فیصلہ ہوگیا
اس سند کی پوزیشن کاخلاصہ یہ ہے ہے کہ ابن سعد رحمہ اللہ نے دو سندوں سے یہ روایت بیان کی ہے۔
پہلی سند کا بنیادی راوی واقدی ہے ۔
امام شافعي رحمه الله (المتوفى 204)نے کہا:
كتب الواقدي كذب[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 8/ 20 وسندہ صحیح]۔
امام إسحاق بن راهَوَيْه رحمه الله (المتوفى 237)نے کہا:
عندي ممن يضيع الحديث[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 8/ 20 وسندہ صحیح]۔
امام نسائي رحمه الله (المتوفى303)نے کہا:
والكذابون المعروفون بِوَضْع الحَدِيث على رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم أَرْبَعَة: ١- ابْن أبي يحيى بِالْمَدِينَةِ ٢- والواقدي بِبَغْدَاد ٣ - وَمُقَاتِل بن سُلَيْمَان بخراسان ٤ - وَمُحَمّد بن السعيد بِالشَّام وَيعرف بالمصلوب [ أسئلة للنسائي في الرجال المطبوع فی رسائل في علوم الحديث ص: 76]۔
امام ابن القيسراني رحمه الله (المتوفى507)نے کہا:
أجمعوا على تركه[معرفة التذكرة لابن القيسراني: ص: 163]۔
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
قَدِ انْعَقَدَ الإِجْمَاعُ اليَوْمَ عَلَى أَنَّهُ لَيْسَ بِحُجَّةٍ، وَأَنَّ حَدِيْثَهَ فِي عِدَادِ الوَاهِي[سير أعلام النبلاء للذهبي: 9/ 469]۔
ان ائمہ کے علاوہ اوربھی متعدد ناقدین نے اس پر جرح کی ہے ملاحظہ ہو عام کتب رجال اور امام علي بن المديني رحمه الله (المتوفى234)سے تو یہ بھی نقل کیا گیا ہے واقدی حدیث ، انساب یا کسی بھی چیز میں قابل اعتماد نہیں ، چنانچہ:
امام عقيلي رحمه الله (المتوفى322)نے کہا:
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُوسَى السِّيرَافِيُّ، حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُهَلَّبِيُّ قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ الْمَدِينِيِّ، يَقُولُ: الْهَيْثَمُ بْنُ عَدِيٍّ أَوْثَقُ عِنْدِي مِنَ الْوَاقِدِيِّ , وَلَا أَرْضَاهُ فِي الْحَدِيثِ , وَلَا فِي الْأَنْسَابِ , وَلَا فِي شَيْءٍ[الضعفاء الكبير للعقيلي: 4/ 108 ، شیخ العقیلی لم اعرفہ وباقی الرجال ثقات ، ومن طریق العقلیلی اخرجہ الخطیب فی تاريخ : 14/ 52 و ابن عساکر فی تاريخ دمشق 54/ 452 و ذکرہ المزی فی تهذيب الكمال: 26/ 187]۔
فائدہ:
علامہ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
محمد بن عمر هذا - وهو الواقدي - كذاب ، فلا يفرح بروايته[سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة 4/ 13]۔
پھر اس سند میں واقدی نے اپنے سے اوپر کئی طرق ذکر کئے ہیں جو سب مردود ہیں لیکن اس تفصیل میں جانے کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ ان سب کادارو مدار واقدی پر ہے جس کی حقیقت بیان کی جاچکی ہے۔
ابن سعد رحمہ اللہ نے دوسری سند علی بن محمد کے واسطہ سے ذکر ہے پھر اس کے اوپر کوئی طرق ہیں جن میں سے ایک بھی صحیح نہیں ۔
پہلے طریق میں اسماعیل نے حسین رضی اللہ عنہ کادور نہیں پایا۔
دوسرے طریق میں طوط بن یحیی کذاب روی ہے۔
تیسرے طریق میں محمد بن الحجاج کذاب راوی ہے۔
چوتھے طریق میں ہارون ضعیف ہے۔
پانچویں طریق میں مجالد ضعیف ۔
اس کے بعد ابن سعد رحمہ اللہ نے کچھ مجہول سندوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔
علاوہ بریں تمام سندوں اور تمام طرق سے نقل کردہ بات کو یکجا کردیا گیا ہے اور کون سی بات کس سند اورکس طریق سے اس کی کوئی وضاحت نہ اس کتاب میں ہے نہ اس کتاب سے باہر اس کی طرف کوئی اشارہ ملتاہے۔
الغرض یہ کہ پیش کردہ بات غیر ثابت ہے۔
آپ سے گذارش ہے کہ صحیح سند سے ہمارا مطالبہ پورا کریں ۔
لیکن جن کتابوں کے حوالے شیخ صاحب نے عنایت کئے ہیں صرف یہ کتابیں ہی معتبر ہیں چاہیں اس میں پانچویں صدی ھجری میں وفات پانے والا محدث پہلی صدی ہجری کے کسی رجال کے بارے میں بلا سند کوئی رائے ظاہر کرے صرف یہی قابل قبول ہے کیونکہ اس کا حوالہ شیخ صاحب نے پیش فرمایا ہے !!!!!
 

ضدی

رکن
شمولیت
اگست 23، 2013
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
275
پوائنٹ
76
اسد الغابہ غیر معتبر کتاب ہے یہ فیصلہ ہوگیا
لیکن جن کتابوں کے حوالے شیخ صاحب نے عنایت کئے ہیں صرف یہ کتابیں ہی معتبر ہیں چاہیں اس میں پانچویں صدی ھجری میں وفات پانے والا محدث پہلی صدی ہجری کے کسی رجال کے بارے میں بلا سند کوئی رائے ظاہر کرے صرف یہی قابل قبول ہے کیونکہ اس کا حوالہ شیخ صاحب نے پیش فرمایا ہے !!!!!
ہاں!
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
بلکہ اس کے علاوہ ایک اور ایسی بھی معتبر کتاب کا مجھے علم ہے جس کو علامہ ابن جوزی کی طرف نسبت دی جاتی ہے اس میں علامہ موصوف نے تو کمال ہی کردیا ہے کہ اپنی وفات کے بعد پیدا ہونے والے لوگ کی قبر پر لوگوں کی حاضری کا احوال بھی اپنی کتاب میں لکھ دیا ہے شاید کثف کی بنیاد پر ایسا ہو
مثال کے طور پر اس میں کئی ایسی شخصیات کے اقوال اور ان کے متعلق خبریں درج ہیں جو زمانی اعتبار سے ابن الجوزی کے بعد ہیں مثلا : شیخ یونس اور شیخ عدی کی قبور کا احوال اور اس کے علاوہ ابن العدیم المتوفى سنة 660 ھ سمیت دوسروں کے اقوال ۔
یعنی علامہ ابن جوزی کی وفات 597ھ میں ہوئی
شیخ یونس توفی 619 ھ شیخ عدی۔۔ توفی 619 ھ

اور اس معتبر کتاب کے حوالے وہابی اپنی کتابوں میں پیش کرتے ہیں مثال کے طور سے "امت اور شرک کا خطرہ" میں اس کتاب یعنی تذکرہ اولی البصائر کا حوالہ دیا گیا ہے تو اب تو ایسے معتبر کتاب ماننا ہی پڑے گا !!!!
اصل کتاب تذکرہ اولی البصائر کے مذکورہ صفحہ کا عکس

کتاب : امت اور شرک کا خطرہ کے مذکورہ صفحات


http://www.kitabosunnat.com/kutub-library/article/urdu-islami-kutub/5-eeman-o-aqaid/2273-ummat-aur-shirak-ka-khatra.html

یہ کچھ حال احوال ہے وہابیوں کی معتبر کتب کا جن حوالے وہابی پیش کرتے ہیں
 
Top