اس سند کی پوزیشن کاخلاصہ یہ ہے ہے کہ ابن سعد رحمہ اللہ نے دو سندوں سے یہ روایت بیان کی ہے۔
پہلی سند کا بنیادی راوی واقدی ہے ۔
امام شافعي رحمه الله (المتوفى 204)نے کہا:
كتب الواقدي كذب[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 8/ 20 وسندہ صحیح]۔
امام إسحاق بن راهَوَيْه رحمه الله (المتوفى 237)نے کہا:
عندي ممن يضيع الحديث[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 8/ 20 وسندہ صحیح]۔
امام نسائي رحمه الله (المتوفى303)نے کہا:
والكذابون المعروفون بِوَضْع الحَدِيث على رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم أَرْبَعَة: ١- ابْن أبي يحيى بِالْمَدِينَةِ ٢- والواقدي بِبَغْدَاد ٣ - وَمُقَاتِل بن سُلَيْمَان بخراسان ٤ - وَمُحَمّد بن السعيد بِالشَّام وَيعرف بالمصلوب [ أسئلة للنسائي في الرجال المطبوع فی رسائل في علوم الحديث ص: 76]۔
امام ابن القيسراني رحمه الله (المتوفى507)نے کہا:
أجمعوا على تركه[معرفة التذكرة لابن القيسراني: ص: 163]۔
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
قَدِ انْعَقَدَ الإِجْمَاعُ اليَوْمَ عَلَى أَنَّهُ لَيْسَ بِحُجَّةٍ، وَأَنَّ حَدِيْثَهَ فِي عِدَادِ الوَاهِي[سير أعلام النبلاء للذهبي: 9/ 469]۔
ان ائمہ کے علاوہ اوربھی متعدد ناقدین نے اس پر جرح کی ہے ملاحظہ ہو عام کتب رجال اور امام علي بن المديني رحمه الله (المتوفى234)سے تو یہ بھی نقل کیا گیا ہے واقدی حدیث ، انساب یا کسی بھی چیز میں قابل اعتماد نہیں ، چنانچہ:
امام عقيلي رحمه الله (المتوفى322)نے کہا:
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُوسَى السِّيرَافِيُّ، حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُهَلَّبِيُّ قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ الْمَدِينِيِّ، يَقُولُ: الْهَيْثَمُ بْنُ عَدِيٍّ أَوْثَقُ عِنْدِي مِنَ الْوَاقِدِيِّ , وَلَا أَرْضَاهُ فِي الْحَدِيثِ , وَلَا فِي الْأَنْسَابِ , وَلَا فِي شَيْءٍ[الضعفاء الكبير للعقيلي: 4/ 108 ، شیخ العقیلی لم اعرفہ وباقی الرجال ثقات ، ومن طریق العقلیلی اخرجہ الخطیب فی تاريخ : 14/ 52 و ابن عساکر فی تاريخ دمشق 54/ 452 و ذکرہ المزی فی تهذيب الكمال: 26/ 187]۔
فائدہ:
علامہ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
محمد بن عمر هذا - وهو الواقدي - كذاب ، فلا يفرح بروايته[سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة 4/ 13]۔
پھر اس سند میں واقدی نے اپنے سے اوپر کئی طرق ذکر کئے ہیں جو سب مردود ہیں لیکن اس تفصیل میں جانے کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ ان سب کادارو مدار واقدی پر ہے جس کی حقیقت بیان کی جاچکی ہے۔
ابن سعد رحمہ اللہ نے دوسری سند علی بن محمد کے واسطہ سے ذکر ہے پھر اس کے اوپر کوئی طرق ہیں جن میں سے ایک بھی صحیح نہیں ۔
پہلے طریق میں اسماعیل نے حسین رضی اللہ عنہ کادور نہیں پایا۔
دوسرے طریق میں طوط بن یحیی کذاب روی ہے۔
تیسرے طریق میں محمد بن الحجاج کذاب راوی ہے۔
چوتھے طریق میں ہارون ضعیف ہے۔
پانچویں طریق میں مجالد ضعیف ۔
اس کے بعد ابن سعد رحمہ اللہ نے کچھ مجہول سندوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔
علاوہ بریں تمام سندوں اور تمام طرق سے نقل کردہ بات کو یکجا کردیا گیا ہے اور کون سی بات کس سند اورکس طریق سے اس کی کوئی وضاحت نہ اس کتاب میں ہے نہ اس کتاب سے باہر اس کی طرف کوئی اشارہ ملتاہے۔
الغرض یہ کہ پیش کردہ بات غیر ثابت ہے۔
آپ سے گذارش ہے کہ صحیح سند سے ہمارا مطالبہ پورا کریں ۔