تو جنگ جمل کی کیا توجیہ کریں گے اور جنگ صفین کی کیا توجیہ کریں گے جس میں انھوں نے لوگوں کو ابھارنے کے لئے کہا- اصل میں سب جنگوں کے دو احتمالات ہو سکتے ہیں
جنگ جمل اور صفین یہ سب جنگیں جو حضرت علی نے فرمائی ان کے بارے میں پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماچکے ہیں مثلا ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرمایا کہ
5 - إنَّ منكم مَن يقاتِلُ على تأويل هذا القرآنِ ، كما قاتلتُ على تنزيلِه ، فاستشرفْنا و فينا أبو بكرٍ و عمرُ ، فقال : لا ، و لكنه خاصِفُ النَّعلِ ، يعني عليًّا رضيَ اللهُ عنه
الراوي: أبو سعيد الخدري المحدث: الألباني - المصدر: السلسلة الصحيحة - الصفحة أو الرقم: 2487
خلاصة حكم المحدث: صحيح
ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا : تم لوگوں میں ایک ایسا بھی ہے جو تاویل قرآن پر جنگ کرے گا جس طرح میں نے تنزیل قرآن پر جنگ کی۔ تب ابو بکر نے کہا کہ کیا وہ میں ہوں ؟آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا نہیں پھر عمر نے کہا کہ کیا وہ میں ہوں ؟آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا نہیں بلکہ یہ وہ ہے جو میری نعلین مرّمت کرنے والا ہےجبکہ علی (علیہ السلام( آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے نعلین کی مرّمت کر رہے تھے
ایسی حدیث کو امام ترمذی نے اپنی سنن میں ان الفاظ سے بیان کیا ہے
فقال النَّبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ يا معشرَ قريشٍ ! لتنتهُنَّ أو ليبعثَنَّ اللهُ عليكم من يضرب رقابَكم بالسيفِ على الدِّينِ ، قد امتحن اللهُ قلوبَهم على الإيمانِ . قالوا : من هو يا رسولَ اللهِ ؟ فقال له أبو بكرٍ : من هو يا رسولَ اللهِ ؟ وقال عمرُ : من هو يا رسولَ اللهِ ؟ قال : هو خاصفُ النَّعلِ . وكان أعطى عليًّا نعلَه يخصفُها ،
اے گروہ قریش تم میں سے ایک ایسے شخص کو بھیجے گا جس کے دل کو خدا نے خوب آزمائش کر لیا ہوگا وہ تم لوگوں کی گردن دین کی خاطر مارے گا(تب ایک گروہ نے اپنے لئے اس شرف کے لئے سوال کیاجس میں ابو بکر اور عمر بھی تھے) ابو بکر نے کہا میں وہ شخص ہوں؟ فرمایا نہیں پھر عمر نے سوال کیا میں وہ شخص ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں بلکہ وہ نعلین کی مرّمت کرنے والا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی کو اپنی نعلین دی ہوئی تھی تاکہ مرّمت کر سکے۔
ان صحیح رایات سے معلوم ہوا کہ حضرت علی کی جنگوں کےاحوال کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خبر دی اس وقت حضرت ابوبکر اور عمر بھی موجود تھے اور اس شرف کے لئے سوال بھی کیا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دونوں کے لئے انکار کردیا اور فرمایا کہ وہ حضرت علی ہیں جو اے قریشیوں ! دین کے لئے تمہاری گردنیں مارے گا جس طرح میں نے تنزل القرآن پر جنگ کی ایسی طرح حضرت علی تاویل قرآن پر جنگ کریں گے
اب کیا ہوا کہ جب اہل قریش نے مخبر صادق سے یہ ارشاد سنا تو وہ اپنی گردنیں بچانے کے لئے اس فکر میں رہے کہ حضرت علی کو ااقتدار سے دور رکھیں اور اس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی رہے اس بات کا اندازہ تاریخ طبری میں بیان ہوئے حضرت عمر اور حضرت ابن عباس کے اس مکالمے ہو جاتا ہے
تاریخ طبری میں نبوت او رخلافت کے عنوان سے حضرت عمر اور حضرت ابن عباس کا ایک مکالمہ درج ہے جس میں حضرت عمر نے یہ اعتراف کیا ہے کہ اہل قریش کی یہ منشاء تھی کہ نبوت اور خلافت کو بنو ہاشم میں اکھٹا نہیں ہونے دے گے اور وہ درست تھے اوراس میں کامیاب رہے اس پر ابن عباس نے فرمایا اگر مجھے بات کرنے کی اجازت ہو اور آپ مجھ سے ناراض نہ ہو تو کچھ کہوں حضرت عمر نے کہا اجازت ہے ابن عباس نے کہا کہ آپ نے فرمایا کہ قریش نے خلافت کو بنی ہاشم کے لئے ناپسند کیا اور وہ درست تھے اور اس میں کامیاب رہے اس کے بارے میں یہ عرض ہے کہ قریش اپنے لئے یہ انتخاب اس وقت کرلیتے جب اللہ نے انہیں یہ اختیار دیا تو اس وقت یہ معاملہ ناقابل رد اور ناقابل حسد ہوتا آپ نے یہ فرمایا کہ قریش نہیں چاہتے تھے کہ نبوت اور خلافت ہمارے اندر جمع ہوجائے تو اللہ نے بھی ایک جماعت کی ناپسند یدگی کے بارے میں فرمایا ہے کہ
" یہ اس وجہ سے ہوا کہ اس وحی کو اللہ نے نازل فرمائی تھی ناپسند کیا اس لئے ان کے اعمال اکارت کردئے گئے "
اس حضرت عمر ناراضگی کا اظہار کیا اور کہا ابن عباس مجھ تمہارے بارے میں ایسی خبریں ملتی تھی ابن عباس نے کہا وہ کیا باتیں ہیں
حضرت عمر نے کہا اے ابن عباس مجھے یہ اطلاع ملی ہے کہ تم یہ کہتے ہو کہ انھوں نے بنی ہاشم کو حسد اور ظلم کی وجہ سے خلافت سے دور رکھا
ابن عباس نے فرمایا جہاں تک ظلم کی بات ہے تو وہ تو ہر جاہل اور عقلمند پر ظاہر ہے جہاں تک حسد کا معاملہ ہے تو حسد تو ابلیس نے حضرت آدم سے بھی کیا تھا اور انھیں کی ہم اولاد ہیں جن پر حسد کیا جارہا ہے
حضرت عمر نے کہا کہ اے بنی ہاشم تمہارے دل سے حسد اور کینہ کبھی نہ جائے گا
اس پر ابن عباس نے کہا ٹھرئے آپ ایسے لوگوں کے دلوں الزام نہ لگائیں جن کی الائیش کو اللہ نے دور کردیا ہے اور ان کے دلوں کو حسد فریب اور مکر کی الایئشوں سے پاک کردیا کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قلب مبارک بھی بنو ہاشم کے قلوب کا حصہ ہے
اس بات پر حضرت عمر ناراض ہو گئے اور ابن عباس کو حکم دیا کہ تم یہاں سے چلے جاؤ۔
حوالہ : تاریخ طبری ، حصہ دوم ، صفحہ ٢٧٩ تا ٢٨٣
یہ ہے مختصر توجیہ جنگ صفین جنگ جمل اور جنگ نہروان کی کہ ان جنگوں میں حضرت علی کے ہاتھوں جو اہل قریش کی گردنیں ماری گئی وہ دین کی خاطر تھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہل سنت کی صحیح احادیث کی رو سے