• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وہ توحید جو انسانیت سے مطلوب ہے

شمولیت
نومبر 23، 2011
پیغامات
493
ری ایکشن اسکور
2,479
پوائنٹ
26
فضیلۃ الشیخ بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثمین رحمہ اللہ
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوذان حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبدلعزیز بن باز رحمہ اللہ

جمع و ترتیب
ڈاکٹر عبداللہ سلفی



بسم اللہ الرحمن الرحیم
تعارف​
توحید کی تین اقسام ہیں ۔
۱۔ توحید ربوبیت
۲۔ توحید الوہیت یا عبادت
۳۔ توحید اسماءو صفات

توحید ربوبیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو خالق ،مالک، رازق، رب، حاجت روا مشکل کشا الغرض اللہ کے تمام افعال میں اسے اکیلا یکتا مانا جائے ۔توحید کی اس قسم کے ہر دور میں مشرکین بھی اقراری رہے ہیں۔ لہٰذا یہ توحیدجو فطرت میں ہے انسانیت سے مطلوب نہیں بلکہ توحید کی دوسری قسم یعنی توحید عبادت مطلوب ہے اور یہی تما م انبیاءکرام کی دعوت تھی۔ البتہ توحید ربوبیت کے اقرار کو بطور الزامی حجت قرآن کریم میں جا بجا پیش کیا گیا کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کو ہی اکیلا خالق، مالک و رب مانتے ہوتو پھر عبادت بھی خالصتاً اسی کی کرو۔
چناچہ توحید الوہیت بندے کے افعال سے متعلق ہے کہ بندے کی عبادتیں خالصتاً اللہ تعالیٰ کے لئے ہوں جس میں نہ کسی بنی مرسل اور نہ کسی مقرب فرشتے کو شریک کرے، خواہ وہ قلبی عبادات ہوں جیسے خوف، رجاء، امید، توکل ، بھروسہ، خشیت ، اعانت، وغیرہ یا قولی ہوں جیسے ذکر ، تسبیح، تکبیر، دعا، استعانت (مدد کے لئے پکارنا)، استغاثہ ( فریادکرنا)، استعاذہ ( پناہ طلب کرنا)، قسم کھانا یا فعلی و مالی ہوں جیسے نماز، روزہ ، حج، صدقہ و خیرات، نذرو نیاز۔ قربانی، رکوع، سجدہ، قیام و طواف وغیرہ ۔اور یہی کلمہ توحید لا الہ الااللہ کا معنی ہے کہ (اللہ کے سوا کوئی معبود ِ حقیقی نہیں)۔
توحید اسماءو صفات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو تمام عیوب و نقائص سے پاک و منزہ مان کر اللہ تعالیٰ کے ان ناموں اور صفات کا اثبات کیا جائے جو قرآن و حدیث سے ثابت ہیں اور ان میں اسے اکیلا مانا جائے اوراس طورپر کہ ان میں نہ کسی کوشریک کیا جائے ، نہ ان کا انکار کیا جائے، نہ مخلوق سے تشبیہ دی جائے، نہ اس کی کیفیت و تمثیل بیان کی جائے اور نہ ہی اس کی حقیقی الفاظ سے ہٹ کر تاویل کی جائے۔ مندرجہ ذیل مضمون میں ثابت کیا گیا ہے کہ انسانیت سے جوتوحید مطلوب ہے وہ توحید الوہیت ہے اور ان لوگوں کی گمراہی واضح کی گئی ہے جولوگوں کو محض توحید ربوبیت یا ایک الہ کے وجود کی طرف دعوت دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے توحید کا حق ادا کر دیا اور یہی انبیاءکرامؑ کی دعوت تھی۔
محض اللہ تعالیٰ کو سب سے بڑا تسلیم کرنے پر جہنم سے گلو خلاصی نہیں جب تک اس اکیلے کو معبودِ حقیقی تسلیم نہ کیا جائے
شیخ بدیع الدین شاہ راشدی ؒانس بن مالک اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
کآنَ رَسُولُ اللہِ یُغِیرُاِذَا طَلَعَ الفجر ،وکان یستمع الأذان ،فإن سمع أذانا ، أمسک، وإلا أغار ، فسمع رجلا، یقول: اللہ اکبر ،اللہ اکبر ،فقال رسول اللہ : علی الفطرۃ ، ثم قال : أشھد أن لا إلہ إلا اللہ ، أشھدأن لا إلہ إلا اللہ ، فقال رسول اللہ :خرجت من النار فنظروا، فإذا ھواراعی مغزی‘‘
)رسول اللہ ﷺ کی یہ عادتِ مبارکہ تھی کہ ہمیشہ صبح سویرے دشمن پر حملہ آور ہوتے تھے۔ آپ صبح کی آذان کے انتظارمیں بیٹھتے پس اگر (اس بستی سے ) آذان کی آوازآتی تو آپ حملہ نہ کرتے اور اگر آواز نہ آتی تو حملہ آور ہو جاتے ۔ایک دفعہ آپﷺ نے ایک شخص کو یہ آذان دیتے ہوئے سنا، اللہ اکبر اللہ اکبر (اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے) اس پر آپﷺ نے فرمایا” علی الفطرہ“ (یہ تو فطرت ہے ’یعنی توحیدربوبیت) ’’ پھر آپ ﷺ نے اسے یہ پکارتے سنا” اشھدان لا ا لہ الا اللہ،اشھدان لا ا لہ الا اللہ“ (میں گواہی دیتا ہوں اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، میں گواہی دیتا ہوں اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں) اس پر آپﷺ نے فرمایا’’ تو جہنم سے نکل آیا‘‘۔انہوں (صحابہ) نے اس کی طرف دیکھا تو وہ ایک بکریوں کا چرواہا تھا)۔
اس حدیث کی تشریح کرتے ہو ئے شیخ ؒ فرماتے ہیں کہ: ’’ رسول اللہ ﷺ نے اس چرواہے کو محض اس بات کے اقرار پر کہ اللہ تعالیٰ سب سے بڑا ہے یعنی توحید ِ ربوبیت پر جہنم سے گلو خاصی کی ضمانے نہیں دی بلکہ فرمایا کہ یہ توفطرت پر ہے کیونکہ ہر زمانے کے مشرک بھی اس کو فطرتاً تسلیم کرتے رہے ہیں۔ جیسے قرآن کریم میں ذکر ہوا ۔
وَمَا يُؤْمِنُ اَكْثَرُهُمْ بِاللّٰهِ اِلَّا وَهُمْ مُّشْرِكُوْنَ ١٠٦؁
(ان میں سے اکثر لوگ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے باوجود مشرک ہی رہتے ہیں)
یوسف: 106
لیکن جب آپﷺ نےاسے ’’ اشھدان لا ا لہ الا اللہ‘‘ پکارتے ہو سنا جو کہ توحید ِ الوہیت یا عبادت ہے تو آپ ﷺ نے اسے بشارت دی کہ وہ جہنم کی آگ سے باہر نکل آیا یا محفوظ ہو گیا۔ چناچہ یہ ثابت ہوا کہ جو توحید اسلام کو مطلوب ہے وہ توحید الوہیت ہے اور یہ کہ محض توحید ربوبیت پر ایمان لانا کسی کو جنت میں داخل نہیں کروا سکتا اور نہ ہی جہنم سے چھٹکارا دلوا سکتا ہے۔
[شیخ کے ’’ توحید الوہیت‘‘ کے عنوان پر دئے گئے درس سے اقتباس]
 
شمولیت
نومبر 23، 2011
پیغامات
493
ری ایکشن اسکور
2,479
پوائنٹ
26
وہ توحید جو انسانیت سے مطلوب ہے​
شیخ صالح الفوزان فرماتے ہیں وہ توحید جو (انسانیت سے ) مطلوب ہے وہ توحید الوہیت ہے، اور اسی لئے تمام انبیاءکرام ؑ نے اپنی دعوت کا آغاز اپنی قوم کو یہ کہتے ہوئے کیا:
اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُهٗ
’’اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو تمھارا اس کے سوا کوئی معبود نہیں ‘‘
الاعراف :59
انہوں نے توحید الوہیت کی طرف دعوت دی جیسا کہ قرآن کریم نے ان سے متعلق یہ بیان کیا کیونکہ یہ توحید الوہیت ہی تھی کہ جس کا انسانیت نے انکار کیا اور شیاطین نے اسی کے متعلق گمراہ کیا۔
جبکہ توحید ربوبیت تو ایک حاصل شدہ، موجودہ اور دلوں میں راسخ چیز ہے ۔لہذا اسی پر اقتصار و اکتفاءکرنا بندے کو نجات نہیں دلا سکتا، اور نہ ہی اسے موحدین مومنین کے زمرے میں داخل کر سکتا ہے ۔ اسی بناءپر رسول اللہ ﷺ نے کفارِ قریش سے قتال کیا، حالا نکہ وہ اس بات کے اقراری تھے کہ اللہ تعالیٰ ہی خالق، رازق، مدبر، اور محیی و ممیت (زندگی و موت کا مالک) ہے۔ پس آپ نے ان سے قتال کیا اور ان کے خون کو حلال جانا جب تک کہ انہوں نے توحید الوہیت کا اقرار نہ کر لیا ۔ آپ ﷺ کا فرمان ہے:
’’امرت أن أقاتل الناس حتی یقولوا : لا إلہ إلا اللہ ، فإذا قالوھا عصموا منی دماء ھم وأموالھم إلا بحقھا‘‘
( مجھے [اللہ تعالیٰ کی طرف سے] حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کروں یہاں تک کہ وہ لا الہ ا لا اللہ کا اقرار کریں اور اگر وہ اس کا اقرار کر لیں تو وہ مجھ سے اپنی جانیں اور مال بچا لیں گے مگر [جو] اس کا حق [بنتا ہو اس]کے ساتھ، اور ان کا باقی حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے)
اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مخلوق سے جو سب بڑا مطلوب ہے وہ توحید الوہیت ہے، اسی وجہ سے آپ ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ مجھے لوگوں سے قتال کا حکم دیا گیا ہے یہاں تک کہ وہ اس بات کااقرا کریں کہاللہ تعالیٰ ہی خالق، رازق اور محیی وممیت ہے کیونکہ وہ تو اس بات کے پہلے ہی معترف تھے، بلکہ آپﷺ نے فرمایا:’’یہاں تک کہ وہ لا ا لہ الا اللہ کا اقرار کر لیں“ یا ” اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں‘‘
یہ اور اس کے علاوہ موجودہ دور میں دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگ توحید کی ایک نئی تفسیر بیان کرتے ہیں، اور وہ ہے (توحید الحاکمیت) (توحید حاکمیت)، لہٰذا انہوں نے ( لا ا لٰہ الا اللہ) کا مطلب یہ لیا کہ (کسی کی حاکمیت نہیں سوائے اللہ کے) اور انہوں نے سلف صالحین کی تفاسیر پر غور ہی نہیں کیااس عظیم الشان گواہی کے بارے میں ، جسے انہوں نے صرف حاکمیت تک محدود کر دیا ہے۔اور ہم یقینا اس بات کا انکار نہیں کرتے کہ (کسی کی حاکمیت نہیں سوائے اللہ کے)لیکن حاکمیت کا معاملہ توحید کے اندر داخل ہے۔
لہٰذاان کی تفاسیر سے جس میں انہوں نے توحید کو حاکمیت تک محدود کر دیا یہ بات لازم آئی کہ ان کو یہ کہنا پڑا کہ شرک القصور(بادشاہوں کے محلات اور حکومتی پارلیمنٹ کا شرک)کے خلاف لڑنا ضروری ہے! جبکہ شرک القبور (قبر پرستی کے شرک) کو انہوں نے پس پشت ڈال دیا!، بلکہ شرک القبور کو (الشرک البرائی) اور (الشرک الشازج)(قدیم اور بلکل سادہ سے شرک) سے تعبیر کیا گیا ، تو ان لوگوں نے اس شرک سے کنارہ کشی اختیارکی اور اپنے آپ کو (شرک القصور) میں مشغول کر لیا ! جسے وہ آج الشرک السیاسی (سیاسی شرک)بھی کہتے ہیں !!
جب علامہ صالح الفوزان سے (لا اِ لہٰ اِلا اللہ) کا مطلب دریافت کیا گیا تو انہوں نے فرمایا:
’’نبیﷺ نے یہ بات بیان کر دی ہے کہ (لا اِ لہٰ اِلا اللہ) کا مطلب یہ ہے کہ محض حاکمیت سے نہیں بلکہ تمام ترعبادات صرف اور صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے لیے ادا کی جائیں، لہٰذا( (لا اِ لہٰ اِلا اللہ)کا مطلب یہ ہوا کہ کوئی عبادت کے لائق نہیں سوائے اللہ کے ، اس کا مطلب یہ بھی ہوا کہ عبادت کو صرت ایک اللہ کے لیے خالص کیا جائے، اور اس میں شریعت کے مطابق فیصلے کرنا بھی شامل ہے، اور (لا اِ لہٰ اِلا اللہ) کا مطلب اس سے بھی زیادہ عام ہے، اور اس سے زیادہ اہم ہے کہ شریعت کو اختلافی اور متنازع معاملات میں حاکم بنایا جائے، ان تمام باتوں سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ زمین کو شرک سے پاک کیا جائے، اور تمام تر عبادت خالصتاً اللہ کے لئے ادا کی جائے۔
ثابت یہ ہوا کہ یہ ہے اس کلمہ ظیبہ کی صحیح تفسیر، لہٰذا اس کی حاکمیت سے تفسیر، کرنا اور حاکمیت تک محدود رکھنا ایک ناقص تفسیر ہے جو در حقیقت (لا اِ لہٰ اِلا اللہ) کا صحیح تصوّر اور مفہوم نہیں پیش کرتی ، اور اس کی یہ تفسیر کہ کلمہ ظیبہ کا مطلب یہ ہے کہ (کوئی پیدا کرنے والا نہیں سوائے اللہ کے) محض ناقص نہیں بلکہ باطل تفسیر ہے۔
توحید کی تین اقسام کا بیان قرآن حکیم سے​
شیخ فوزان مزید فرماتے ہیں: جن آیات سے توحید کی تینوں اقسام (ربوبیت، الوہیت اور اسماءوصفات)اخذ کی جاتی ہیں وہ بہت سی ہیں جیسے سورة جو کہ مصحف قرآن کی سب سے پہلی سورت ہے اس میں توحید کی تینوں اقسام کا بیان ہے: پس اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان:
(الحمد للہ رب العالمین)
(تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جو رب العالمین ہے)
(الفاتحہ: 2)
اس میں توحید ربوبیت کا بیان ہے کیونکہ یہ آیت تمام جہانوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کو ثابت کرتی ہے ۔ العالمین کا معنی اللہ تعالیٰ کے سوا ہر چیز اور رب یعنی مالک ومدبر۔
اور اللہ تعالیٰ کا فرمانا:
(الرحمٰن الرحیم o مالک یومِ الدین)
(ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں)
( الفاتحہ:5)
اس میں توحید الوہیت کا بیان ہے کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کو عبادت و استعانت میں اکیلا ماننے کے وجوب پر دلالت پائی جاتی ہے۔
اسی طرح سورة الناس جو کہ مصحف کی سب سے آخری سورت ہے اس میں بھی توحید کی انہی تینوں اقسام کا بیان ہے:
پس اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان:
(قل اعوذبرب ا لناس)
(کہو! میں لوگوں کے رب کی پناہ چاہتا ہوں)
(الناس:1)
یہ توحید ربوبیت ہے۔
مَلِكِ النَّاسِ Ą۝ۙ
(لوگوں کے شہنشاہ کی)
(الناس:2)
یہ توحید اسماءو سفات ہے۔
اِلٰهِ النَّاسِ Ǽ۝ۙ
(لوگوں کے معبود حقیقی کی)
(الناس: 3)
یہ توحید الوہیت ہے۔
اسی طرح مصحف میں جو سب سے پہلی نداءو پکار ہے(یا ام و حکم ہے )وہ توحید کی دو اقسام پر مبنی ہے، اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِىْ خَلَقَكُمْ وَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ 21۝ۙالَّذِىْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ فِرَاشًا وَّالسَّمَاۗءَ بِنَاۗءً ۠ وَّاَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَاَخْرَجَ بِهٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقًا لَّكُمْ ۚ فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰهِ اَنْدَادًا وَّاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ 22؀ (سورہ البقرہ)
(اے لوگو ! عبادت کرو اپنے رب کی جس نے تمہیں اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا تا کہ تم متقی بن جاﺅ یا عذاب سے بچ جاﺅ۔ جس نے تمھارے لئے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے پانی اتار کر اس سے پھل پیداکر کے تمہیں روزی دی ، خبردار باوجود جاننے کے اللہ کے شریک مقرر نہ کرو)۔
( البقرۃ:21-22)
کیا یہ اللہ تعالیٰ کے افعال نہیں ؟ یہ توحید ربوبیت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے توحید الوہیت پر بطور دلیل وبرہان پیش کیا کہ جس طرح وہ اکیلا ان کاموں کو کرتا ہے اسی طرح اس اکیلے کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ، بلکہ یہ خالصتاً اسی سبحانہ و تعالیٰ کا حق ہے۔اس آیت میں توحید کی دو اقسام کا بیان ہے: توحید الوہیت: کیونکہ یہی سب سے بڑا مقصود ہے، اور توحید ربوبیت کو اس توحید الوہیت پر دلیل اور اسے مستلزم ہونے کے طور پر بیان کیا گیا ۔ اس بات کا حکم تمام بنی نوع انسان کو دیا گیا جیسا کہ ایک دوسری آیت میں فرمایا:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ 56؀
(میں نے جنوں اور انسانوں کو محض اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا )
(الذاریات:56)
پس خبر دی کہ ان دو عظیم عالموں ( عالم جن و انس)کو وجود بخشا ہی نہیں گیا مگر صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے اور اسے اس عبادت میں تنہا تسلیم کرنے اور اسے اس کی الوہیت میں واحد ماننے کے لئے۔ پھر اس کے آخر میں شرک سے منع کیا گیا چناچہ فرمایا:
فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰهِ اَنْدَادًا وَّاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ 22؀
(خبر دار !باوجود جاننے کے اللہ کے شریک مقرر نہ کرو)
(البقرہ:22)
اندادا یعنی: شرکاء، کہ تم اپنی عبادت کے کچھ امور ان کے لئے بجا لاتے ہو جبکہ تم جانتے بھی ہو کہ اس کی ربوبیت میں کوئی شریک نہیں جو ان امور میں اس کی شراکت کرتا ہو:
۱- زمین آسمان کے پیدا کرنے،
۲- بارش کے نازل کرنے،
۳- نباتات کے اگانے میں۔
تم جانتے بھی ہو کہ ان امور میں کوئی اللہ کا شریک نہیں پھر کس طرح تم اس کے ساتھ غیروں کو اس عبادت میں شریک کرتے ہو؟!
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَاِلٰـهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ ۚ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِيْمُ ١٦٣؀ۧ
(اور تمہارا الہ تو ایک الہ ہے جس کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں، وہ بہت رحم کرنے والا بڑا مہربان ہے)
(البقرہ:163)
اس میں توحیدالوہیت کا بیان ہے اور الہ کا معنی ہوتا ہے: معبود او ر ”الوہیت“ کا معنی ہوتا ہے: عبادت و محبت۔
اس آیت کا معنی ہے تمھارا معبود ہے، جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، یعنی : ”لا معبود بحق سواة“ (اس کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں)۔
اور اس کا یہ فرمان ” الرحمن الرحیم“ تو یہ توحید اسماءو صفات میں داخل ہے: کیونکہ اس میں اللہ کے دو اسماءاور صفت رحمت کا اثبات ہے۔
اور اس کا یہ فرمان:
اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِىْ تَجْرِيْ فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنْفَعُ النَّاسَ وَمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنَ السَّمَاۗءِ مِنْ مَّاۗءٍ فَاَحْيَا بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيْهَا مِنْ كُلِّ دَاۗبَّةٍ ۠ وَّتَـصْرِيْفِ الرِّيٰحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ ١٦٤؁
(آسمانوں اور زمین کی پیدائش، رات دن کا ہیر پھیر، کشتیوںکا لوگوں کو نفع دینے والی چیزوں کو لئے ہوئے سمندروں میں چلنا ، آسمان سے پانی اتار کر، مردہ زمین کو زندہ کر دینا، اس میں ہر قسم کے جانوروں کو پھیلا دینا ، ہواﺅں کے رخ بدلنا، اور بادل ، جو آسمان اور زمین کے درمیان مسخر ہیں، ان میں عقلمندوں کے لئے نشانیاں ہیں )
البقرہ:164
اس میں توحید ربوبیت کا بیان ہے جسے اللہ نے توحید الوہیت کی بطور دلیل و برہان ذکر کیا اسے لئے آخر میں فرمایا اس میں آیات (نشانیاں ہیں یعنی اللہ کی عبادت کے برحق ہونے اور غیر اللہ کی عبادت کے باطل ہونے کے دلائل و براہین ہیں۔
چناچہ اس آیت میں توحیدکی تینوںاقسام کا بیان ہے، اور آپ انہیں پورے قرآن کریم میں اسی طرح ساتھ ساتھ پائیں گے۔
 
شمولیت
نومبر 23، 2011
پیغامات
493
ری ایکشن اسکور
2,479
پوائنٹ
26
توحید ربوبیت کو قرآن کریم میں بار بار دہرانے کی حکمت​
آپ﷾ مزید فرماتے ہیں کہ : قرآن کریم توحید ربوبیت کو اسی لئے بیان کرتا ہے (جبکہ کفار اسے مانتے ہیں ) تاکہ توحید الوہیت پر اسی کی دلالت واضح ہو اور توحید الوہیت پر اسے بطور ایک برہان قائم کر دے ۔ چناچہ وہ اس کے اقرار کو بطور الزام ان پر حجت قائم کرتا ہے :کہ تم کیسے اللہ تعالی کے لئے ربوبیت کا اقرا کرتے ہو مگر اسی لئے الوہیت و عبودیت کا اقرار نہیں کرتے؟
تم کیسے عبادت کو ایسی ہستی کی طرف پھیر دیتے ہو جو اللہ تعالی کی مخلوقات میں سے کسی چیز میں بھی اس کی شریک نہیں؟! یہ تو واضع ہے۔
قُلْ اَرَءَيْتُمْ مَّا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَرُوْنِيْ مَاذَا خَلَقُوْا مِنَ الْاَرْضِ اَمْ لَــهُمْ شِرْكٌ فِي السَّمٰوٰتِ ۭ اِيْتُوْنِيْ بِكِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ ھٰذَآ اَوْ اَثٰرَةٍ مِّنْ عِلْمٍ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ Ć۝
(آپ کہہ دیجئے! بھلادیکھو تو جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو مجھے بھی تو دکھاﺅ کہ انہوں نے زمین کا کون سا ٹکڑا بنایا ہو یا آسمانوں میں ان کا کون سے حصہ ہے؟اگر تم سچے ہو تو اس سے پہلے ہی کی کوئی کتاب یا کوئی علم ہی جو نقل کیا جاتاہو، میرے پاس لاؤ)
( الاحقاف:4)
ھٰذَا خَلْقُ اللّٰهِ فَاَرُوْنِيْ مَاذَا خَلَقَ الَّذِيْنَ مِنْ دُوْنِهٖ
(یہ ہے اللہ کی مخلوق اب تم مجھے اس کے سوا دوسرے کسی کی کوئی مخلوق تو دکھاﺅ)
(لقمان:11)
يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَنْ يَّخْلُقُوْا ذُبَابًا وَّلَوِ اجْتَمَعُوْا لَهٗ ۭ وَاِنْ يَّسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَيْـــــًٔـا لَّا يَسْتَنْقِذُوْهُ مِنْهُ ۭ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوْبُ 73؀
(لوگو ! ایک مثال بیان کی جا رہی ہے ، ذراکان لگا کر سن لو! اللہ کے سوا جن جن کو تم پکارتے رہے ہو وہ ایک مکھی بھی پیدا نہیں کر سکتے ، گو سارے کے سارے ہی جمع ہو جائیں، بلکہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز لے بھاگے تو یہ تو اسے بھی اس سے چھین نہیں سکتے، بڑا بودا ہے طلب کرنے والا اور بڑا بودا ہے وہ جس سے طلب کیا جا رہا ہے)
(الحج:73)
اگر اللہ ان پر صرف مکھی ہی مسلط کر دے تو وہ اس سے چھٹکارا پانے کی استطاعت نہیں رکھتے، جبکہ مکھی تو کمزور ترین چیز ہے، اگر اللہ تعالیٰ مکھی یا مچھر کو لوگوں پر مسلط کر دے تو وہ ان تک سے خلاصی کا چارہ نہیں رکھتے ۔ لوگ ان میں سے جتنوں کو مار سکیں گے ماریں گے مگر پھر وہ مزید تعداد میں بڑھ جائیں گے اور چار سو پھیل جائیں گے۔
اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آیت کا معنی یہ ہے کہ اگر مکھی ان سے خوشبوؤں اور زیب و زینت میں سے کوئی چیز اچک کر لے جائے جو وہ اپنے بتوں کے آگے پیش کرتے ہیں تو وہ بت اسے اس مکھی سے واپس چھین بھی نہیں سکتے۔
ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوْبُ 73؀
(الحج:73)
ضعف ا لطالب یعنی: وہ مشرک، و المطلوب یعنی: وہ بت، یا پھر وہ مکھی۔
اگر حقیقت اسی طرح ہے تو پھرکیسے تم نے انہیں اللہ کا شریک مقرر کر لیا جو خالق، رازق، محیی و ممیت اور قوی و عزیز ہے جسے کوئی چیز بھی عاجز نہیں کر سکتی ؟! تمہاری عقلیں کہاں ہیں ؟!اور تمہارے افہام کہاں ہیں ؟! ہم تو اللہ تعالیٰ ہی سے عافیت کا سوال کرتے ہیں ۔
فلاسفہ کی توحید
شیخ صالح الفوزان فرماتے ہیں : بعض لوگ (متکلمین ، فلاسفہ، منظق پرست) کہتے ہیں توحید کی ایک ہی قسم ہے اور وہ توحید ربوبیت ہے ۔ یعنی یہ ماننا کہ اللہ تعالیٰ ہی خالق ہے، رازق ہے، محیی و ممین (مارنے اور جِلانے)والا ہے اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کے باقی دیگر افعال و صفات (کو ماننا)۔اسی بناپر تمام علماءکلام و نظار (آئڈیولوجسٹ و مفکرین)جنہوں نے اپنے عقیدے کی بنیاد علم الکلام پر پر رکھی ہے۔ان کے عقائد موجود ہیں اگر آپ ان کی کتابیں پڑھیں گے تو اس میں توحید ربوبیت کے اثبات کے سوا کچھ نہیں سکتا الا یہ کہ وہ اشیاءسے متعلق یہ عقیدہ رکھیں کہ یہ پیدا کرتی ہیں، رزق دیتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ تدبیر کائنات کرتی ہیں!
اس بات کی صراحت وہ اپنی کتابوں اور کلام سے کرتے ہیں۔ اور اہل کلام میں سے جو اس کا انکار کرتا بھی ہے تو وہ بھی محض تصور کرتا ہے اور کہتا کہ یہ جاہل لوگ ہیں اس جہالت میں اپنے ارادے و قصیدے نہیں بلکہ اپنی جہالت کے سبب مبتلا ہوئے ہیں ۔
لیکن اکثر تو اس کا (اتنا) انکار بھی کرتے بلکہ کہتے ہیں کہ : یہ اللہ تعالیٰ کے پاس واسطے اور شفاعت کرنے والے سفارشی ہیں اور یہ شرک نہیں ہے۔ اور میں کسی قوم کے ذمہ وہ بات نہیں لگا رہا جو انہوں نے نا کہی ہو بلکہ یہ تو ان کی ان کتابوں میں موجود ہے جس سے وہ اہل توحید کا رد اور اہل شرک کا دفاع کرتے ہیں ۔
جہاں تک تعلق ہے اسماءو صفات کا اس کا اثبات ان کے نزدیک تشبیہ کا متقاضی ہے چناچہ انہوں نے اللہ سے اس کی نفی کر دی اور یہ جہمیہ، معتزلہ، اشاعرہ اور ماتریدیہ ہیں ۔ان سب نے اپنے زعم میں اللہ کو مخلوقات کی تشبیہ سے پاک قرار دینے کے لئے توحید اسماءو صفات کی نفی کی ہے جس کے نتیجے میں توحید ان کے نزدیک محض ربوبیت میں منحصر ہے ، اور ان کے پاس توحید الوہیت اور توحیداسماءو صفات کے نام کی کوئی چیز نہیں ۔
اور وہ ان کا رد کرتے ہیں جو توحید کو تین اقسام میں تقسیم کرتے ہیں ۔یہاں تک کہ انہیں میں سے ایک موجودہ مصنف لکھتا ہے ’’ توحید کی تین اقسام کرنا (نصاری کے عقیدے) تثلیث میں سے ہے‘‘
ان کی بے حیائی اس حد تک پہنچ گئی کہ اسے نصاری کے دین کے ساتھ تشبیہ دینے لگے۔ العیاذباللہ!
[کتاب ’’دروس من القرآن الکریم‘‘ ازشیخ صالح الفوزان، ص :۸]

ایک شبہ کا ازالہ
سوال: اس شخص کے بارے میں آپ کیا کہیں گے جو توحید کی ایک چوتھی قسم بنام ”توحید حاکمیت“ کرتا ہے؟
جواب: ہم کہیں گے کہ وہ جاہل اور گمراہ ہے کیونکہ توحید حاکمیت تو توحید الہی ہی ہے۔کیونکہ حاکم تو اللہ تعالیٰ ہی ہے اور جب آپ کہتے ہیں کہ توحید کی تین اقسام ہیں جیسا کہ علماءکرام کہتے ہیں تو اس وقت بھی توحید حاکمیت توحید ربوبیت میں داخل ہوتی ہے کیونکہ توحید ربوبیت اللہ تعالیٰ کی حکم، خلق اور تدبیر میں توحید ہی تو ہے لہٰذا یہ قول منکر وبدعت ہے۔‘‘
جو کوئی بھی اس بات کا مدعی ہے کہ توحید کی ایک چوتھی قسم ہے جسے توحید حاکمیت کہتے ہیں تو اسے مبتدع (بدعتی) کہا جائے گا۔یہ ایک بد عتیانہ تقسیم ہے جو ایک ایسے شخص سے صادر ہوئی ہے جسے دین عقیدے کے معاملات کا کوئی فہم حاصل نہیں ۔کیونکہ ” حاکمیت“ تو توحید ربوبیت کے تحت آتی ہے اس اعتبار سے کہ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے فیصلہ صادر فرماتا ہے۔
اور یہ توحید الوہیت میں بھی اس طور پر شامل ہے کہ بندے کو اللہ تعالیٰ کی نازل کی ہوئی شریعت کے مطابق ہی اس کی عبادت کرنی چاہیے۔ پس یہ توحید کی تین معروف اقسام سے خارج نہیں ہو سکتی یعنی توحید ربوبیت، توحید الوہیت اورتوحید اسماءو صفات۔
پھر جب شیخ سے پوچھا گیا کہ ہم ان کے اس دعوے کا توڑ کس طرح کریں؟ تو آپ نے فرمایا:
’’ہم ان کی اس بات کا توڑ ان سے پوچھ کر کر سکتے ہیں کہ:حاکمیت کا معنی کیا ہے؟ان کا جواب اس کے سوا اور کچھ نہ ہو گا کہ حکم اور فرمانروائی کا حق صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے اور یہ توحید ربوبیت ہوئی، پس اللہ ہی رب ہے ، خالق ہے، حاکم اعلی ہے اور جس کے ہاتھ میں تمام کاموں کی تدبیر ہے۔ اب رہی بات کہ ان (چوتھی قسم بنانے والوں)کا اسے بیان کرنے سے مقصد کیا ہے اور ان کے اس پر خطر نظریہ کی کیا توضیح ہے، تو ( درحقیقت) ہمیں ان کی نیتوں اور خواہشات کا علم نہیں لہٰذا ہم اس معاملہ کی سنگینی کا اندازہ نہیں کر سکتے۔‘‘
(جریدہ المسلمون رقم:۹۳۶، جمعہ ۵۲ دوالحج ۷۱۴۱ھ بمطابق ۲ مئی ۷۹۹۱ ع، اور لقاءالمفتوح رقم ۰۵۱ منعقد ۰۲ شوال، ۷۱۴۱ھ)​
 
شمولیت
نومبر 23، 2011
پیغامات
493
ری ایکشن اسکور
2,479
پوائنٹ
26
سوال:
کچھ داعیان نے توحید کی تین معروف اقسام کے ساتھ ساتھ توحید حاکمیت کو بہت زیادہ اہمیت دینی شروع کر دی ہے۔ تو کیا یہ چوتھی قسم ان تین اقسام ہی میں داخل ہے؟اگر نہیں ہے تو کیا ہم اسے ایک الگ قسم قرار دے کر اسی کا خصو صی اہتمام کریں؟
اور یہ بھی کہا جاتا ہے شیخ محمد بن عبدلوہاب (رحمتہ اللہ علیہ) نے توحید الوہیت کو اس لئے زیادہ اہمیت دی جب انہوں نے مشاہدہ کیا کہ لوگ اس باب میں غفلت برت رہے ہیں اور اس طرح امام احمد بن حنبل (رحمتہ اللہ علیہ)نے توحید اسماءو صفات پر اس لئے خصوصی توجہ دی جب انہوں نے دیکھا کہ لوگ اس باب میں غفلت برت رہے ہیں ۔اب چونکہ فی زمانہ لوگ توحید حاکمیت میں غفلت کا شکار ہیں تو ہم پر لازم ہے کہ ہم اس پر زیادہ توجہ مرکوز رکھیں، سوال یہ ہے کہ کہاں تک یہ بات درست ہے؟
جواب: توحید کی تین اقسام ہیں : توحید ربوبیت، توحید ربوبیت، توحید الوہیت اور توحید اسماءو صفات اور کوئی چوتھی قسم نہیں!۔ اور اللہ کی شریعت کے مطابق فیصلہ کرنا توحید الوہیت کے ضمن میں آتا ہے کیونکہ یہ تو اللہ کے لئے ادا کی جانے والی عبادات کی اقسام میں سے ایک قسم ہے اور ہر قسم کی عبادت توحید الوہیت کے تحت آتی ہیں ۔پس ” حاکمیت “ کو توحید کی ایک علیحدہ قسم قرار دینا ایک بدعت ہے جو ہمارے علم کے مطابق کسی بھی عالم کا قول نہی۔
ہاں البتہ بعض نے اسے عام رکھا اور کہا کہ توحید کی دو قسمیں ہیں:
۱- توحید معرفت و اثبات، اور یہ ربوبیت اور اسماءو صفات پر مشتمل ہے۔
۲- توحید طلب و قصد، اور یہ توحید الوہیت۔

اور کچھ نے اسے مزید مخصوص کرتے ہوئی تین اقسام کیں جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں، واللہ اعلم۔
چناچہ یہ واجب ہے کہ ہم مکمل توحید الوہیت پر توجہ دیں اور اس کی ابتداءشرک کا رد کرنے سے کریں کیونکہ یہ اکبر الکبائر ہے جس کی موجودگی میں تمام نیک اعمال ضائع ہو جاتے ہیں، اور اس کا مرتکب دائمی جہنمی ہے ۔تمام انبیاءکرام (علیہم السلام)نے اپنی دعوت کا آغاز ایک اللہ کی عبادت کا حکم دینے اور ہر قسم کی شرک کی نفی سے کیا، اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں انہی کے راستے کی پیروی کرنے اور دعوت دین ہو یا دیگر دینی امور ہمیں انہی کے منہج کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے۔پس توحید پر اس کی تینوں اقسام سمیت توجہ دینا ہر دور میں واجب ہے کیونکہ شرک اور اللہ تعالیٰ کے اسماءو صفات کا انکار و تاویل آج بھی موجود ہے ، بلکہ یہ تو پہلے سے زیادہ عام ہو چکے ہیں اور قرب قیامت تک ان کے خطرات میں اضافہ ہی ہوتا جائے گا ، جبکہ حقیقت حال یہ ہے کہ اب دونوں امور کی یہ اہمیت و سنگینی بہت سے مسلمانوں پر مخفی ہے، اور ان دونوں کی طرف دعوت دینے والے بھی بہت بڑی تعداد میں اور بہت سرگرم ہیں۔لہٰذا شرک کا وجود صرف شیخ محمد بن عبدالوہاب ؒ کے دور تک محدود نہ تھا اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کے اسماءو صفات کا انکا ر و تاویل امام احمد بن حنبلؒ کے دورتک محدود تھی جیسا، جیسا کہ سوال میں کہا گیا۔ بلکہ اس دور میں تو اس کے خطرات دو چند ہو گئے ہیں اور یہ پہلے سے زیادہ مسلم معاشروں میں پھل پھول رہے ہیں۔اس لئے انہیں ایسے لوگوں کی سخت ضرورت ہے جو انہیں اس میں ملوّث ہونے سے روکیں اور اس کے مضرات سے انہیں اگاہ کریں۔آخر میں یہ جاننا چاہیے کہ اللہ کے احکامات کی پابندی کرنا اور اس کی منع کردہ چیزوں سے اجتناب کرنااور اس کی شریعت کو نافذ کر کے اس کے مطابق فیصلے کرنا یہ سب توحید کو اپنانے اور شرک سے پاک رہنے ہی میں شامل ہے۔
وصلی اللہ علی نبینا محمد وعلیٰ صحبة وسلم
سماحة الشیخ عبدلعزیز بن باز، والشیخ عبدا لعزیز بن عبداللہ آل الشیخ،والشیخ صالح بن فوزان الفوزان، والشیخ عبداللہ بن عبدالرحمٰن الغدیان، والشیخ بکر بن عبداللہ ابو زید۔
(المسلمون رقم: ۹۳۶، جمعہ ۵۲ ذوالحج ۷۱۴۱ھ بمطابق ۲ مئی ۷۹۹۱ ع)
توحید کی تقسیم
علامہ شیخ صالح بن فوزان الفوزان (حفظہ اللہ)​
سوال: فضیلہ الشیخ بعض ایسے لوگ ہیں جو توحید کی ایک چوتھی قسم بناتے ہیں اور اسے توحید حاکمیت کا نام دیتے ہیں ؟
الشیخ: یہ بالکل غلط ہے اور گمراہی ہے، اور اہل علم کے یہاں جو بات مقرر ہے کہ توحید دو یاتین اقسام ہیں اس پر خوامخواہ کا ایک اضافہ ہے۔چناچہ ان میں ایک فریق کہتا ہے کہ توحید کی ایک ہی قسم ہے اور دوسرا کہتا ہے نہیں بلکہ توحید کی چار اقسام ہیں جبکہ حقیقت میں یہ سب گمراہی ہے۔
سوال: شیخ وہ یہ حجت پیش کرتے ہیں کہ اس تقسیم کی جو اصل ہے۔
الشیخ: وہ اسے توحید حاکمیت کے نام سے کیوں ایک مستقل قسم بناتے ہیں اور کیوں نہیں اسے توحید الوہیت میں داخل سمجھتے ؟جبکہ بلاشبہ یہ توحید الوہیت ہی میں شامل ہے۔کیونکہ یہ توعبادات کی ہی ایک قسم ہے اور انہیں کی انواع میں سے ایک نوع ہے جن کے ذریعہ اللہ کی عبادت کی جاتی ہے۔
سوال: شیخ وہ کہتے ہیں کہ توحید کی یہ تین اقسام ربوبیت ، الوہیت اور اسماءو صفات علماءکے اجتہادات اور تتبیع و استقراءکی نتیجہ میں وجود پذیر ہوئیں ہیں (لہذا اس میں کمی و ذیادتی کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں )؟
الشیخ: صحیح ہے، بس ہمیں ان کا اجتہاد ہی کافی ہے اور جس پر ان کا اجماع ہو گیا ہے تو ہمیں بھی اس پر اضافہ کرنے کی کوئی حاجت نہیں۔(ایک طرف تو) ان کا اجماع ہو گیا ہے پھر اس بیسویں صدی میں کوئی جاہل آئے اور دعویٰ کرے کہ میں بھی مجتہد ہوں اور اس تقسیم میں اضافی کرے جس پر علماءکرام کا اجماع ہو چکا ہے، یہ سب گمراہی کے سوا اور کچھ نہیں ۔
سوال: اس بیان کردہ علت کے بارے میں کیا کہیں گے؟
الشیخ: مزید برآں یہ ایک واضح غلطی ہے کیونکہ حاکمیت جو ہے وہ توحید الوہیت میں داخل ہے، کسی نے اسے ایک مستقل قسم قرار دیا ہے؟ پھر اسے چاہیے کہ نماز کو بھی پانچویں یا چھٹی قسم بنالے اسے طرح جہاد کو ساتویں قسم بنا دے اور ہر عبادت کو توحید کی اقسام بنانا شروع کر دے، یہ سب غلط ہے۔
سوال: تو کیا ہم اس قول کو بدعت کہیں گے؟
الشیخ: بالکل یہ تو اجماع کے خلاف ہے، کسی بھی اہل علم نے ایسا نہیں کہا چناچہ یہ اجماع کے خلاف ہوا۔
ہم اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ امت کو اس غفلت سے بیدار فرمائے، اور اسے اپنے رب کی کتاب، اور اپنے نبیﷺ کی سنت کو مظبوطی سے تھامنے کی توفیق عطا کرے۔
اے اللہ ہمیں حق ایسا دیکھا جیسا کہ وہ ہے اوراس پرعمل کرنے کی توفیق عطا فرما، اور باطل ایسا دیکھا جیسا کہ وہ ہے اور اس سے اجتناب کی توفیق عطا فرما، اے اللہ ایمان کی محبت ہمارے دلوں میں ڈال دے اور اسے ہمارے دلوں کی زینت بنادے،
کفر فسوق اور نا فرمانی کی ہمارے دلوں میں نفرت ڈال دے، اور ہمیں راہ راست پر چلنے والوں میں شامل کر لے ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے دین کا فقہ و فہم عطاءفرما اور اس پر ثابت قدمی دے ،
اور تمام مسلمانوں کے حکمرانوں کی اصلاح فرما خاص طور پر ہمارے اس ملک کے حکمرانوں کی اور انہیں ایسے صالح اور خیر خواہ مشیرو وزیر میسر فرما دے جو انہیں خیر و بھلائی کی جانب رہنمائی کریں اور اس کی مدد کریں۔
[آمین]

وصلی اللہ علی نبینا محمد وعلیٰ صحبة وسلم​

بشکریہ:: ٹرو منہج ڈاٹ کام (پی ڈی ایف لنک)
 

موحد آدمی

مبتدی
شمولیت
اکتوبر 11، 2012
پیغامات
18
ری ایکشن اسکور
83
پوائنٹ
0
السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔

ماشاء اللہ!
بہت شاندار تحریر ہے۔
واقعی ایک ایسی حقیقت کی طرف توجہ دلوائی گئی ہے کہ جس سے بہت اہل توحید بھی ناآشنا ہیں۔
بے شک اللہ کو جو توحید مطلوب ہے وہ توحید الوہیت ہی ہے۔اور اسی بنیاد پر انبیاء کو اتارا گیا تھا۔
 
شمولیت
نومبر 23، 2011
پیغامات
493
ری ایکشن اسکور
2,479
پوائنٹ
26
یہ جس سائٹ کا لنک دیا گیا ہے ، میں نے تو سن رکھا ہے کہ مرجیئہ لوگوں کی ویب سائٹ ہے، کوئی بھائی رہنمائی کر سکتا ہے اس بارے؟
السلام علیکم۔ جناب ، آپ نے کس سے سن لیا کہ یہ سائٹ مرجئیہ کی ہے؟
معذرت کے ساتھ ، آجکل جو بھی فتنہ تکفیر سے آگاہ کرے اور اس کی ہولناکیوں سے ڈرائے تو ، اہل شر ع فتنہ لوگ اپنے گرد گھیرا تنگ ہوتا دیکھ کر ، نت نئے حربے استعمال کرتے ہیں تاکہ لوگ اس سائٹ سے دور رہیں ۔
اور انکا کاروبار شر جاری رہے۔۔
جناب یہ ایک سلفی ویب سائٹ ہے ، شاید آپ نے اس کا مفصل وزٹ نہیں کیا ، اسی لئے آپ سنی سنائی بات پر فیصلہ دیا ہے۔۔
ٓآل تکفیر کا یہ پرانا وطیرہ رہا ہے کہ جو کوئی بھی ان فتنہ پروروں سے لوگوں کو متنبہ کرے اس پر فورا ’’مرجئیہ‘‘ کا فتوی لگا دیتے ہیں ۔۔۔ان ظالموں نے تو علامہ البانی رح کو بھی نہین بخشا۔۔۔۔لا حول ولا قوۃ الا باللہ

میں دوبارہ درخواست کروں گا کہ آپ اس سائٹ کو تفصیلا وزٹ کیجئے۔

جزاک اللہ خیرا
 
Top